رسالہ
بارق النّور فی مقادیر ماء الطھور(۱۳۲۷ھ)
( نورکی تابش ،آب وضووغسل کی مقدارمـیں )

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
 نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔

مسئلہ ۱۷:        ۲۲/رمضان المبارک ۱۳۲۷ھ
کیـا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ مـیں کہ وضو وغسل مـیں پانی کی کیـا مقدار شرعامعین ہے ؟بینوا توجروا۔(بیـان فرمائیے اجرپائیے ۔ت)

الجواب
    ہم قبل بیـان فـــ احادیث ،صاع ومدُورطل کی مقادیربیـان کریں کہ فہم معنی آسان ہو۔ صاع ایک پیمانہ ہے چارمُد کا،اور مُدکہ اُسی کو مَن بھی کہتے ہیں ہمارے نزدیک دور طل ہے اور ایک رطل شرعی یہاں کے روپے سے چھتیس ۳۶ روپے بھر کہ رطل بیس۲۰ استارہے اوراستار ساڑھے چار مثقال اور مثقال ساڑھے چار ماشے اور یہ انگریزی روپیہ سواگیـارہ ماشے یعنی ڈھائی مثقال، بازی یتبا تو رطل شرعی کہ نوے۹۰ مثقال ہوا ،ڈھائی پر تقسیم کئے سے چھتیس۳۶ آئے، توصاع کہ ہمارے نزدیک آٹھ رطل ہے ایک سو اٹھاسی۱۸۸ روپے بھر ہوا یعنی رامپور کے سیر سے کہ چھیـانوے۹۶روپے بھرکا ہے پورا تین سیر، اور مُد تین پاؤ۔ اور امام ابو یوسف وائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک صاع پانچ رطل اور ایک ثلث رطل کا ہے اور اس پر اجماع ہے کہ چار مُدکا ایک صاع ہے تو اُن کے نزدیک مُدایک رطل اور ایک ثلث رطل ہوا یعنی رامپوری سیر سے آدھ سیر اور صاع دوسیر۔ اس بحث کی زیـادہ تحقیق فتاواے فقیر سے کتاب الصوم وغیرہ مـیں ہے۔

فــ:مثقال واستار و رطل ومدوصاع کابیـان ۔

اب حدیثیں سُنئے:صحیحین مـیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: بازی یتبا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغتسل بالصاع الی خمسۃ امداد ویتوضأ بالمد ۱؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک صاع سے پانچ مُدتک پانی سے نہاتے اورایک مُدپانی سے وضو فرماتے۔

(۱؎صحیح البخاری    کتاب الوضوءباب الوضوء بالمُد         قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۳
صحیح مسلم     کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۴۹)

صحیح مسلم ومسنداحمد و جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ وشرح معانی الآثار امام طحاوی مـیں حضرت سفینہ اور مسند احمد وسنن ابی داؤد وابن ماجہ وطحطاوی مـیں بسند صحیح حضرت جابر بن عبداللہ نیز انہیں کتب مـیں بطرق کثیرہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتؤضأ بالمد ویغتسل بالصاع ۲؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو اور ایک صاع سے غسل فرماتے ۔

(۲؎صحیح مسلم     کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۴۹
سنن ابی داؤد     کتاب الطہارۃ باب مایجزئ من الماء    آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۱۳
مسند احمد بن حنبل عن جابر     ۱ /۳۰۳    وعن عائشۃ رضی اللہ عنھا    ۶/ ۲۴۹ المکتب الاسلامـی بیروت
شرح معانی الآثار     کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو    ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ۱ /۳۷۶
سنن الترمذی     باب فی الوضو بالمدحدیث ۵۶        دارالفکربیروت        ۱ /۱۲۲)

اکثر احادیث اسی طرف ہیں،اور انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث امام طحاوی کے یہاں یوں ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ من مدفیسبغ الوضوء وعسی ان یفضل منہ الحدیث ۱؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے تمام وکمال وضو وسعت وفراغت کے ساتھ فرمالیتے اور قریب تھاکہ کچھ پانی بچ بھی رہتا۔

(۱؎ شرح معافی الآثار،        کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ہو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۶)

اور ابو یعلی وطبرانی وبیہقی نے ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسندِ ضعیف روایت کیـا: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بنصف مُد ۲؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نصف مُد سے وضو فرمایـا۔

(۲؎ مجمع الزوائدبحوالہ الطبرانی فی الکبیر    کتاب الطہارۃباب مایکفی من الماء للوضوء الخ دارالکتاب بیروت۱ /۲۱۹)

سُنن ابی داؤد ونسائی مـیں اُمِّ عمارہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ فاتی باناء فیہ ماء قدر ثلثی المد ۳؎۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمانا چاہا توایک برتن حاضر لایـاگیـاجس مـیں دوتہائی مُد کے قدرپانی تھا۔

(۳؎ سنن ابی داؤد،    کتاب الطہارۃ باب مایجوزمن الماء فی الوضوء    آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۱۳)

نسائی کے لفظ یہ ہیں:

فاتی بماء فی اناء قدر ثلثی المد ۴؎۔

ایک برتن مـیں کہ دو ثلث مُد کے قدر تھا پانی حاضر کیـاگیـا۔

(۴؎ سنن نسائی،    کتاب الطہارۃ باب القدر الذی یکتفی بہ الرجل من الماء للوضو نور محمدکارخانہ کراچی ۱ /۲۴)

ابن خزیمہ وابن حبان وحاکم کی صحاح مـیں عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے: انہ رأی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ بثلث مُدعـــہ ۵؎۔

انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھاکہ ایک تہائی مُد سے وضو فرمایـا۔

عــہ:ھکذا عزالھم الزرقانی فی شرح المواھب وقد احتاط فنص علی الضبط قائلا ثلث بالافراد ۲؎اھ ونقل البعض عن ابنی خزیمۃ وحبان بنحو ثلثی مُد بالتثنیۃ وان الحافظ ابن حجر قال فی الثلث لم اجدہ کذا قال واللّٰہ تعالٰی اعلم اھ منہ۔ (م)

عــہ:اسی طرح ان کے حوالے سے علامہ زُرقانی نے شرح مواہب مـیں ذکرکیـااور براہِ احتیـاط یہ کہتے ہوئے ضبطِ لفظ کی صراحت کردی کہ ثُلث بصیغہ واحدہے اھ۔ اور بعض نے ابن خزیمہ وابن حبان سے بصیغہ تثنیہ ''بنحوثلثی مد''(تقریباً دو تہائی مد) نقل کیـا۔ اور یہ کہ حافظ ابن حجر نے لفظ''ثُلُث'' سے متعلق کہا کہ مـیں نے اسے نہ پایـا۔ انہوں نے ایسا ہی لکھا ہے ۔واللہ تعالٰی اعلم۱۲ منہ(ت)

(۲؎شرح الزرقانی علی المواھب ا للدنیہ     المقصد التاسع الفصل الاول     دارالمعرفۃ بیروت     ۷ /۲۵۱
۵؎ المستدرک للحاکم،    کتاب الطہارۃ مایجزی من الماء للوضوء    مطبوعہ دالفکربیروت        ۱ /۱۶۱
صحیح ابن خزیمہ     کتاب الطہارۃ باب الرخصۃ فی الوضوء الخ حدیث ۱۱۸    المکتب الاسلامـی بیروت ۱/۶۲
موارد الظمأن     باب ماجاء فی الوضو حدیث ۱۵۵        المطبعۃ السلفیۃ     ص۶۷)

    اقول احادیث سے ثابت ہے کہ وضو مـیں عادت کریمہ تثلیث تھی یعنی ہر عضو تین بار دھونا،اور کبھی دو دو بار بھی اعضاء دھوئے۔

رواہ البخاری عن عبداللّٰہ بن زید وابو داؤد والترمذی وصححہ وابن حبان عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضاء مرتین مرتین ۱؎۔

اسے امام بخاری نے عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیـا۔اورابوداؤد نے اور ترمذی نے بافادہ تصحیح،اورابن حبان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی کہ نبی  نے وضومـیں دودوبار اعضاء دھوئے۔(ت)

(۱؎ صحیح البخاری    کتاب الوضوباب الوضوء مرتین     قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۷
سنن ابی داؤد     کتاب الطہارۃ باب الوضومرتین     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۱۸
سنن الترمذی     ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو مرتین مرتین حدیث ۴۳    دارالفکربیروت ۱ /۱۱۳
مواردالظمأن     کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو مرتین مرتین حدیث ۱۵۷    المطبعۃ السلفیۃ ص۶۷)

رواہ البخاری والدارمـی وابو داؤد والنسائی والطحاوی وابن خزیمۃ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال توضأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مرۃ مرۃ ۱؎۔

اسے بخاری،دارمـی،ابوداؤد،نسائی، طحاوی اور ابن خزیمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیـا،انہوں نے فرمایـا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وضو مـیں ایک ایک بار اعضاء دھوئے۔

(۱؎ صحیح البخاری    کتاب الوضوباب الوضوء مرتین     قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۷
سنن ابی داؤد     کتاب الطہارۃ باب الوضومرتین     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۱۸
سنن النسائی     کتاب الطہارۃ باب الوضومرۃ مرۃ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی     ۱ /۲۵
سنن الدارمـی     کتاب الطہارۃ باب الوضومرۃ مرۃ حدیث ۲۔۷    دارالمحاسن للطباعۃ القاہرۃ ۱/ ۱۴۳
شرح معانی الآثار    کتاب الطہارۃ باب الوضوللصلوۃ مرۃ مرۃ         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۸
صحیح ابن خزیمہ     کتاب الوضوباب اباحۃ الوضومرۃ مرۃ حدیث ۱۷۱    المکتب الاسلامـی بیروت ۱ /۸۸ )

وبمثلہ رواہ الطحاوی عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما وروی ایضا عن امـیر المؤمنین عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضا مرۃ مرۃ۲؎

اور اسی کے مثل امام طحاوی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی روایت کی۔اور امـیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی روایت کی کہ انہوں نے فرمایـا مـیں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک بار اعضادھوئے۔

(۲؎ معانی الآثار،    کتاب الطہارۃ باب الوضو للصلوٰۃ مرۃ مرۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۸)

وعن ابی رافع رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضا ثلثا ثلثا ورأیتہ غسل مرۃ مرۃ ۳؎۔

اورحضرت ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایـا مـیں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تین تین بار اعضائے وضو دھوئے اور یہ بھی دیکھا کہ سرکار نے ایک ایک بار دھویـا۔(ت)

 (۳؎ معانی الآثار    کتاب الطہارۃ باب الوضو للصلوٰۃ مرۃ مرۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۸)

غالبا جب ایک ایک بار اعضائے کریمہ دھوئے تہائی مد پانی خرچ ہوا ، اور دودو بار مـیں دو تہائی ،اور تین تین بار دھونے مـیں پورا مد خرچ ہوتا تھا ۔

فان قلتفی حدیث ام عمارۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بثلثی مد انما فیہ اتی بماءفی اناء قدر ثلثی مد۔

اگریہ سوال ہوکہ حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکی حدیث مـیں یہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو تہائی مد سے وضو کیـا اس مـیں صرف اتنا ہے کہ حضورکے پاس ایک برتن حاضر لایـاگیـاجس مـیں دوتہائی مُد کی مقدارمـیں پانی تھا۔

قلتغرضہا منہ الا بیـان قدر ماتوضأ بہ والاکان ذکر قدر الماء اوالاناء فضلا لاطائل تحتہ علی انہا لم تذکر طلبہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم زیـادۃ فافاد فحواہ انہ اجتزأ بہ ولعل ھذا ھو الباعث للعلامۃ الزرقانی اذ یقول فی شرح المواھب لابی داؤد عن امّ عمارۃ انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ بثلثی مد ۱؎ اھ والا فلفظ ابی داؤد ماقد سقتہ لک۔

قلت(تو مـیں جواب دوں گا)اس سے ان صحابیہ کامقصود یہی بتانا ہے کہ جتنے پانی سے حضورنے وضو فرمایـا اس کی مقدار کیـاتھی،اگریہ نہ ہو تو پانی کی مقدار یـابرتن کا تذکرہ بے فائدہ و فضول ٹھہر ے گا۔علاوہ ازیں انہوں نے یہ ذکرنہ کیـاکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مزید طلب فرمایـا تو مضمون حدیث سے مستفادہو کہ اتنی ہی مقدارپرسرکارنے اکتفاء کی۔شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ زُرقانی نے شرح مواہب مـیں فرمایـا کہ اُمّ ِ عمارہ سے ابوداؤد کی روایت مـیں یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوتہائی مُد سے وضو فرمایـااھ-کیونکہ ابوداؤد کے الفاظ تو وہی ہیں جو مـیں نے پیش کئے(کہ سرکار نے وضو فرمانا چاہا توایک برتن حاضر لایـا گیـاجس مـیں دوتہائی مُد کے قدر پانی تھا)۔

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ     المقصدالتاسع الفصل الاول    دارالمعرفۃبیروت ۷ /۲۵۱)

بالجملہ وضو مـیں کم سے کم تہائی عــہ مُد اور زیـادہ سے زیـادہ ایک مُد کی حدیثیں آئی ہیں اور حدیث ربیع بنت معوّذ بن عفراء رضی اللہ تعالٰی عنہا: وضأت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی اناء نحو من ھذا الاناء وھی تشیر الی رکوۃ تاخذ مدا او مدا و ثلثارواہ سعید بن منصور فی سننہ وفی لفظ لبعضھم یکون مدا اومدا و ربعا ۱؎ واصل الحدیث عنہا فی السنن الاربعۃ۔

انہوں نے ایک برتن کی طرف جس مـیں ایک مُد یـا ایک مُد اور تہائی مد پانی آتا،اشارہ کرتے ہوئے فرمایـاکہ مـیں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی طرح کے ایک برتن سے وضو کرایـا۔ یہ حدیث سعید بن منصورنے اپنی سنن مـیں روایت کی- اور بعض روایـات مـیں یہ الفاظ ہیں کہ اس مـیں ایک مُد یـا سوا مُد پانی ہوگا۔اورحضرت ربیع سے اصل حدیث سُنن اربعہ مـیں مروی ہے۔(ت)

عـــہ:ایک حدیث موقوف مـیں چہارم مد بھی آیـاہے کماسیأتی۱۲منہ

 (۱؎ کنزالعمال بحوالہ ص حدیث ۲۶۸۳۷ و ۲۶۸۳۸    موسسۃالرسالہ بیروت     ۹ /۴۳۲ و ۴۳۳)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُس برتن سے وضو فرمایـا جس مـیں ایک مُد یـا سوا مُد، اور دوسری روایت مـیں ہے کہ ایک مد یـا ایک مُد اور تہائی مُد پانی تھا، تو یہ مشکوک ہے اور شک سے زیـادت ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں صحیحین وسنن ابی داؤد ونسائی و طحاوی مـیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک حدیث یوں ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتوضأ بمکوک ویغتسل بخمسۃ مکاکی ۲؎۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکوک سے وضو اور پانچ سے غسل فرماتے۔

 (۲؎ صحیح مسلم         کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹
سنن ابی داؤد     کتاب الطہارۃ باب مایجزئ من الماء     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۱۳
سنن النسائی کتاب الطہاۃباب القدرالذی یکتفی بہ الرجل من الماء للوضو نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۴
 شرح معانی الآثار    کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ہو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۳۷۷)

مکّوک فــ مـیں کیلہ ہے اور کیلہ نصف صاع تو مکوک ڈیڑھ صاع ہوا کما فی الصحاح والقاموس وغیرھما فی اقاویل اخر اور ایک صاع کو بھی کہتے ہیں بعض علماء نے حدیث مـیں یہی مراد لی تو وضو کیلئے چار مُد ہوجائیں گے مگر راجح یہ ہے کہ یہاں مکّوک سے مُد مراد ہے جیسا کہ خود اُنھی کی دیگر روایـات مـیں تصریح ہے والروایـات تفسر بعضھا بعضا(اور روایـات مـیں ایک کی تفسیردوسری سے ہوتی ہے ۔ت)۔

فـــ:فائدہ مکوک اورکیلہ کابیـان

امام طحاوی نے فرمایـا: احتمل ان یکون اراد بالمکوک المد لانھم کانوا یسمون المد مکوکا ۱؎۔

یہ احتمال ہے کہ انہوں نے مکّوک سے مُدمرادلیـاہواس لئے کہ وہ حضرات مُد کو مکّوک کہاکرتے تھے(ت)

(۱؎ شرح معانی الآثار    کتاب الزکوۃباب وزن الصاع کم ہو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۳۷۷)

نہایہ ابن اثیر جزری مـیں ہے: اراد بالمکّوک المد وقیل الصاع والاول اشبہ لانہ جاء فی حدیث اخر مفسرا بالمُد والمکوک اسم للمکیـال ویختلف مقدارہ باختلاف اصطلاح الناس علیہ فی البلاد ۲؎۔

انہوں نے مکّوک سے مُد مرادلیـا۔اورکہاگیـاکہ صاع مراد لیـا۔اور اول مناسب ہے اس لئے کہ دُوسری حدیث مـیں اس کی تفسیر''مُد''سے آئی ہے ۔ اور مکّوک ایک پیمانے کانام ہے۔اس کی مقدار مختلف بلاد مـیں لوگوں کے عرف کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔(ت)

(۲؎ النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر     باب المـیم مع الکاف تحت اللفظ مکلک دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۴ /۲۹۸)

رہا غسل، اُس مـیں کمـی کی جانب یہ حدیث ہے کہ صحیح مسلم مـیں اُم المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: انھا کانت تغتسل ھی والنبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی اناء واحد یسع ثلثۃ امداد اوقریبا من ذلک ۳؎۔

وہ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن مـیں کہ تین مُد یـااس کے قریب کی گنجائش رکھتا نہالیتے۔

(۳؎ صحیح مسلم کتاب الزکوۃباب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ     قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸)

    اس کے ایک معنی یہ ہوتے ہیں کہ دونوں کا غسل اُسی تین مُد پانی سے ہوجاتا تو ایک غسل کو ڈیڑھ ہی مُد رہا مگر علماء نے اسے بعید جان کر تین توجیہیں فرمائیں:
اوّل یہ کہ یہ ہر ایک کے جُداگانہ غسل کا بیـان ہے کہ حضور اُسی ایک برتن سے جو تین مُد کی قدر تھا غسل فرمالیتے اور اسی طرح مـیں بھی ،ذکرہ الامام القاضی عیـاض(یہ توجیہ امام قاضی عیـاض نے ذکرفرمائی ۔ت)

فان قلت : فعلی ھذا یضیع قولھا فی اناء واحد فانما قصدھا بہ افادۃ اجتماعہا معہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی الغسل من اناء واحد کما افصحت بہ فی الروایۃ الاخری کنت اغتسل فــ انا ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اناء واحد تختلف ایدینا فیہ من الجنابۃ رواہ الشیخان ۱؎؎ ،وفی اخری لمسلم من اناء بینی وبینہ واحد فیبادرنی حتی اقول دع لی ۲؎ ۔ وللنسائی من اناء واحد یبادرنی وابادرہ حتی یقول دعی لی وانا اقول دع لی ۳؎ ۔

اگر یہ سوال ہوکہ پھر توان کا''ایک برتن مـیں''کہنابے کار ہوجاتاہے کہ اس لفظ سے ان کا مقصد یہی بتاناہے کہ وہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ایک برتن سے غسل کرتی تھیں، جیساکہ دوسری روایت مـیں اسے صاف طورپربیـان کیـا ہے :مـیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسلِ جنابت کیـا کرتے اس مـیں ہمارے ہاتھ باری باری آتے جاتے-اسے بخاری ومسلم نے روایت کیـا۔اورمسلم کی ایک دوسری روایت مـیں ہے:ایک ہی برتن سے جو مـیرے اور ان کے درمـیان ہوتا تو مجھ پر سبقت فرماتے یہاں کہ مـیں عرض کرتی مـیرے لیے بھی رہنے دیجئے اورنسائی کی روایت مـیں یہ ہے :ایک ہی برتن سے ،وہ مجھ سے سبقت فرماتے اور مـیں ان سے سبقت کرتی،یہاں تک کہ حضور فرماتے:مـیرے لئے بھی رہنے دو۔اور مـیں عرض کرتی:مـیرے لئے بھی رہنے دیجئے۔(ت)

فـــ:مسئلہ جائز ہے کہ زن وشوہردونوں ایک برتن سے ایک ساتھ غسل جنابت کریں اگرچہ باہم سترنہ ہو اور اس وقت متعلق ضرورت غسل بات بھی کرسکتے ہیں مثلا ایک سبقت کرے تودوسراکہے مـیرے لیے پانی رہنے دو۔

(۱؎صحیح البخاری     کتا ب الغسل،باب ھل یدخل یدہ فی الاناء... بازی یتبا الخ    قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۰
صحیح مسلم         کتاب الحیض باب القدرالمستحب من الماء... بازی یتبا الخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۲؎صحیح مسلم         کتاب الحیض،باب القدرالمستحب من الماء... الخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۳؎ سنن النسائی     کتاب الطہارۃ، باب الرخصۃ فی ذالک     نورمحمد کار خانہ تجارت کتب کراچی      ۱ /۴۷ )

قلت لایلزم ان لاترید بھذا اللفظ کلما تکلمت بہ الا ھذہ الافادۃ ،فقد ترید ھھنا ان ذلک الاناء الواحد کان یکفیہ اذا اغتسل ولا یطلب زیـادۃ ماء وکذلک انا اذا اغتسلت۔

مـیں جواب دوں گا ضروری نہیں کہ جب بھی وہ یہ لفظ بولیں توانہیں یہی بتانامقصودہو،یہاں اُن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ وہی ایک برتن جب حضورغسل فرماتے تو ان کے لئے کافی ہوجاتا اور مزیدپانی طلب نہ فرماتے اوریہی حال مـیرا ہوتاجب مـیں نہاتی۔

دوم یہاں مُد سے صاع مراد ہے۔

قالہ ایضا صرفا لہ الی وفاق حدیث الفرق الاتی فانہ ثلثۃ اٰصع واقرہ النووی۔

یہ توجیہ بھی امام قاضی عیـاض ہی نے پیش کی تاکہ اس مـیں اور اگلی حدیث فرق مـیں مطابقت ہوجائے کیوں کہ فرق تین صاع کا ہوتا ہے ۔امام نووی نے بھی اس توجیہ کوبرقرار رکھا۔

اقول:یہ اس فــ کا محتاج ہے کہ مُد بمعنی صاع زبان عرب مـیں آتا ہو اور اس مـیں سخت تامل ہے،صحاح وصراح و مختار وقاموس وتاج العروس لغات عرب ومجمع البحار ونہایہ ومختصر سیوطی لغاتِ حدیث وطلبۃ الطلبہ ومصباح المنیر لغاتِ فقہ مـیں فقیر نے اس کا پتا نہ پایـا اور بالفرض کہیں شاذونادر ورود ہو بھی تو اُس پر حمل تجوز بے قرینہ سے کچھ بہتر نہیں۔

فــ:تطفل علی القاضی عیـاض والامام النووی ۔

اما جعل امـیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز المد بثلثۃ امداد فحادث لایحمل علیہ کلام ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔
لیکن یہ کہ امـیر المؤمنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک مدتین مد کے برابر بنایـاتویہ بعدکی بات ہے ،اس پر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا کا کلام محمول نہیں ہوسکتا۔(ت)

سوم یہ کہ حدیث مـیں زیـادہ کا انکار نہیں حضور وامّ المومنین معاً تین مُد سے نہائے ہوں اور جب پانی ختم ہوچکا اور زیـادہ فرمالیـا ہو،

ابداہ الامام النووی حیث قال یجوزا ن یکون وقع ھذا فی بعض الاحوال وزاداہ لما فرغ ۱؎۔

یہ توجیہ امام نووی نے پیش کی ان کے الفاظ یہ ہیں:ہوسکتاہے یہ ایک وقت(مثلاً غسل شروع کرتے وقت)ہو اہو اور جب پانی ختم ہوگیـاتودونوں حضرات نے اور لے لیـا ہو۔(ت)

(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی مع صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء     قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸)

اقول:یہ بھی بعید فــ۱ہے کہ اس تقدیر پر ذکر مقدار عبث وبیکار ہوا جاتا ہے تو قریب تر وہی توجیہ اول ہے۔

فــ۱:تطفل آخرعلی الامام النووی ۔

وانا اقول :  لوحمل علی الاشتراک لم یمتنع فقد قدمنا روایۃ انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ بنصف مُد وروی عن الامام محمد رحمہ اللّٰہ تعالی انہ قال ان المغتسل لایمکن ان یعم جسدہ باقل من مد ذکرہ العینی فی العمدۃ ۲؎ فافاد امکان تعمـیم الجسد بمد فکان المجموع مدا ونصفا واللّٰہ تعالی اعلم۔

اورمـیں کہتاہوں:اگر شرکت پرمحمول کرلیـاجائے توبھی(اتنی مقدارسے دونوں حضرات کا غسل) محال نہیں،کیوں کہ یہ روایت ہم پیش کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آدھے مُد سے وضو فرمایـا۔اورامام محمد رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے کہ ایک مُد سے کم پانی ہو توغسل کرنے والاپُورے بدن پر نہیں پہنچا سکتا۔اسے علامہ عینی نے عمدۃ القاری مـیں ذکرکیـا۔اس کلام سے مستفادہوا کہ ایک مُد ہو تو پورے بدن پر پہنچایـا جاسکتاہے توکل ڈیڑھ مُد ہوا(آدھے سے وضو،باقی سے اورتمام بدن-اس طرح تین مُد سے دو کا غسل ممکن ہوا ۱۲ م) واللہ تعالٰی اعلم(ت)

(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الوضوباب الوضوء بالمد تحت الحدیث ۶۴ /۲۰۱ دارالکتب العلمـیہ بیروت ۳ /۱۴۱)

اور جانب زیـادت مـیں اس قول کی تضعیف تو اوپر گزری کہ مکّوک سے صاع مراد ہے جس سے غسل کیلئے پانچ صاع ہوجائیں۔ہاں موطائے مالک وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد مـیں امّ المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یغتسل من اناء واحد ھو الفرق من الجنابۃ ۱؎۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن سے غسل جنابت فرماتے تھے اور وہ فَرَق تھا۔

(۱؎ سنن ابی داؤد    کتاب الطہارۃ ،باب المقدا رالماء الذی یجزئ بہ الغسل     آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۱)

فرق فـــ مـیں اختلاف ہے ، اکثر تین(۳) صاع کہتے ہیں اوربعض دو(۲)صاع۔

فــ:تطفل علی الام القاضی عیـاض ۔

ففی الحدیث عند مسلم قال سفٰین والفرق ثلثۃ اصع۲؎ وکذلک ھو نص الامام الطحاوی وقال النووی کذا قالہ الجماھیر۳؎ اھ قال العینی وقیل صاعان۴؎ وقال الامام نجم الدین النسفی فی طلبۃ الطلبۃ ھو اناء یـاخذ ستۃ عشر رطلا ۶؎ اھ وھکذا فی نھایۃ ابن الاثیروصحاح الجوھری وکذا نقلہ فی الطلبۃ عن القتبی ونقل عن شرح الغریبین انہ اثنا عشر مدا ۶؎ اھ وقال ابو داؤد سمعت احمد بن حنبل یقول الفرق ستۃ عشر رطلا ۷؎

اس حدیث کے تحت امام مسلم کی روایت مـیں ہے کہ سفیـان نے فرمایـا فرق تین صاع ہوتاہے-یہی تصریح امام طحاوی نے فرمائی-اور امام نووی نے فرمایـا یہی جمہور کا قول ہے اھ-علامہ عینی نے لکھا:اورکہاگیـاکہ دوصاع اھ-امام نجم الدین نسفی نے طلبۃ الطلبہ مـیں لکھا:یہ ایک برتن ہے جس مـیں سولہ رطل آتے ہیں اھ-ایسے ہی نہایہ ابن اثیراورصحاع جوھری  مـیں ہے ،اور اسی طر ح اس کو طلبۃ الطلبہ مـیں قتبی سے نقل کیـا ہے، اور شرح غریبین سے نقل کیـا ہے کہ یہ بارہ مُد ہوتا ہے اھ-اور ابو داؤد نے کہا:مـیں نے امام احمد بن حنبل سے سُناکہ فرق سولہ رطل کاہوتاہے۔

(۲؎ صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ الخ قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۴۸
۳؎ شرح مسلم للنووی مع صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء الخ قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
۴؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری    کتاب الغسل،باب غسل الرجل مع امرأتہ تحت الحدیث۳ /۲۵۰      ۳ /۲۹۰
۵؎ طلبۃ الطلبۃ    کتاب الزکوٰۃ    دائرۃ المعارف الاسلامـیۃ مکران بلوچستان    ص۱۹
۶؎ طلبۃ الطلبۃ    کتاب الزکوٰۃ    دائرۃ المعارف الاسلامـیۃ مکران بلوچستان    ص۱۹
۷؎ سنن ابی داؤد    کتاب الطہارۃ،باب مقدارالماء الذی یجزئ بہ الغسل    آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۳۱)

ونقل الحافظ فی الفتح عن ابی عبداللّٰہ الاتفاق علیہ وعلی انہ ثلثۃ اٰصع قال لعلہ یرید اتفاق اھل اللغۃ ۱؎ اھ

اورحافظ ابن حجر نے فتح الباری مـیں ابوعبد اللہ سے اس پر اور اس پر کہ وہ تین صاع ہوتا ہے اتفاق نقل کیـا اور کہاشاید ان کی مراد یہ ہے کہ اہلِ لغت کا اتفاق ہے اھ۔

(۱؎ فتح الباری شرح صحیح البخاری    کتاب الغسل تحت الحدیث۲۵۰        دارالکتب العلمـیہ    ۲ /۳۲۶)

اقول ویترا أی لی ان لاخلف فان ستۃ عشر رطلا صاعان بالعراق وثلثۃ اصوع بالحجاز۔

اقول:اورمـیرا خیـال ہے کہ ان اقوال مـیں کوئی اختلاف نہیں ا س لئے کہ سولہ رطل دوصاع عراقی اورتین صاع حجازی کے برابر ہوتاہے۔(ت)

امام نووی اس حدیث سے یہ جواب دیتے ہیں کہ پورے فَرَق سے تنہا حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا غسل فرمانا مراد نہیں کہ یہی حدیث صحیح بخاری مـیں یوں ہے: کنت اغتسل انا والنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اناء واحد من قدح یقال لہ الفرق۲؎ ۔

مـیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن سے نہاتے وہ ایک قدح تھا جسے فَرَق کہتے۔

(۲؎ صحیح البخاری    کتاب الغسل تحت الحدیث ۲۵۰        قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۹)

اقول:یہ لفظ فــ اجتماع مـیں نص نہیں،

فــ:تطفل ثالث علی الامام النووی ۔

کما قدمنا فلا ینبغی الجزم بان الافراد غیر مراد بل لقائل ان یقول مخرج الحدیث الزھری عن عروۃ عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فروی عن الزھری مالک ومن طریقہ مسلم وابو داؤد باللفظ الاول۳؎

جیسا کہ ہم نے پہلے بیـان کیـا- تواس پرجزم نہیں کرناچاہئے کہ تنہاغسل فرمانا مراد نہیں-بلکہ کہنے والایہ بھی کہہ سکتاہے کہ اس حدیث کے راوی امام زہری ہیں جنہوں نے حضرت عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی-پھرامام زہری سے امام مالک نے اور ان ہی کی سند سے امام مسلم اور ابو داؤد نے پہلے الفاظ مـیں روایت کی (کان یغتسل من اناء واحد ھو الفرق)،

(۳؎ مؤطا امام مالک    کتاب الطہارۃ،العمل فی غسل الجنابۃ    مـیر محمد کتب خانہ کراچی    ص۳۱
صحیح مسلم    کتاب الحیض،باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ     قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۸
سنن ابی داؤد    کتاب الطہارۃ،باب مقدار الماء الذی یجزئ بہ الغسل    آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۱)

وابن ابی ذئب عند البخاری والطحاوی باللفظ الثانی۱؎ تابعہ معمر و ابن جریج عند النسائی۲؎ وجعفر بن برقان عند الطحاوی۳؎ وروی عنہ اللیث عند النسائی وسفٰین بن عیینۃ عندہ وعند مسلم بلفظ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یغتسل فی القدح وھو الفرق وکنت اغتسل انا وھو فی الاناء الواحد ولفظ سفٰین من اناء واحد۴؎ فیشبہ ان تکون ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا اتت بحدیثین اغتسالہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من الفرق واغتسالھما من اناء واحد فاقتصر منھما مالک علی الحدیث الاول وجمع بینہما ابن ابی ذئب ومتابعوہ واتی بھما سفیـان واللیث مفصلین واللّٰہ تعالی اعلم۔

اور امام بخاری وامام طحاوی کی روایت مـیں امام زہری سے ابن ابی ذئب نے بلفظ دوم روایت کی(کنت اغتسل اناوالنبی الخ) ابن ابی ذئب کی متابعت امام نسائی کی روایت مـیں معمراورابن جریج نے ،اورامام طحاوی کی ایک روایت مـیں جعفر بن برقان نے کی-اورنسائی کی تخریج پر امام زہری سے امام لیث نے اور نسائی ومسلم کی تخریج مـیں ان سے امام سفٰین بن عیینہ نے ان الفاظ سے روایت کی:رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک قدح مـیں غسل فرماتے اور وہ فرق ہے - اور مـیں اور حضور ایک برتن مـیں غسل کرتے-امام سفٰین کے الفاظ ہیں:''ایک برتن سے '' غسل کرتے-توایسا معلوم ہوتاہے کہ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دو حدیثیں روایت کیں ایک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فرق سے غسل فرمانے سے متعلق اور ایک دونوں حضرات کے ایک برتن سے غسل فرمانے سے متعلق-توامام مالک نے دونوں حدیثوں مـیں سے صرف پہلی حدیث ذکر کی۔اورابن ذئب اور ان کی متابعت کرنے والے حضرات (معمر،ابن جریج)نے دونوں حدیثوں کو ملادیـا۔ اورسفیـان و لیث نے دونوںکوالگ الگ بیـان کیـا-اورخدائے برتر ہی کو خوب علم ہے۔(ت)

(۱؎شرح معانی الآثار    کتاب الزکوٰۃ،باب وزن الصاع کم ھو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۳۷۶
۲؎ سنن النسائی    کتاب الطہارۃ،باب ذکر الدلالۃ علی انہ لا وقت فی ذلک    نور محمد کارخانہ کراچی    ۱ /۴۷
۳؎؎شرح معانی الآثار    کتاب الزکوٰۃ،باب وزن الصاع کم ھو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۳۷۶
۴؎صحیح مسلم    کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۴۸)

امام طحطاوی فرماتے ہیں:حدیث مـیں صرف برتن کا ذکر ہے کہ اس ظرف سے بہاتے بھرا ہونا نہ ہونا مذکور نہیں۔
اقول: صرف فــ برتن کا ذکر قلیل الجدوی ہے اس سے ظاہر مفاد وہی مقدار آب کا ارشاد ہے خصوصاً حدیث لیث وسفیـان مـیں لفظ فی سے تعبیر کہ ایک قدح مـیں غسل فرماتے : اذمن المعلوم انالمراد الظرفیۃ (اس لئے کہ معلوم ہے کہ ظرفیت (قدح کے اندر غسل کرنا)مراد نہیں۔ت) اور حدیث مالک مـیں لفظ واحد کی زیـادت اذ من المعلوم انالمراد نفی الغسل من غیرہ قط (کیونکہ معلوم ہے کہ یہ مراد نہیں کہ اس کے علاوہی برتن سے کبھی غسل نہ کیـا ) بہرحال اس قدر ضرور ہے کہ حدیث اس معنی مـیں نص صریح نہیں زیـادت کا صریح نص اُسی قدر ہے جو حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مـیں گزرا کہ پانچ مُد سے غسل فرماتے اور پھر بھی اکثر و اشہر وہی وضو مـیں ایک مُد اور غسل مـیں ایک صاع ہے، اور احادیث کے ارشادات قولیہ تو خاص اسی طرف ہیں ۔

فـــ:تطفل ما علی الامام السید الاجل الطحاوی۔

امام احمدعــہ و ابوبکر بن ابی شیبہ و عبد بن حمـید واثرم وحاکم وبیہقی جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

یجزئ من الغسل الصاع ومن الوضوء المد ۱؎۔

غسل مـیں ایک صاع اور وضو مـیں ایک مُد کفایت کرتاہے۔

 (۱؎ المستدرک للحاکم    کتاب الطہارۃ،مایجزئ من الماء للوضوء...الخ    دارالفکر بیروت    ۱ /۱۶۱
السنن الکبری    کتاب الطہارۃ،باب استحباب ان لا ینقص فی الوضوء... دار صادر بیروت    ۱ /۱۹۵
مسند احمد بن حنبل    عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ        المکتب الاسلامـی بیروت    ۳/ ۳۷۰
المصنف لابن ابی شیبہ    کتاب الطہارات،باب فی الجنب کم یکفیہ...الخ حدیث۷۰۸ دار الکتب العلمـیہ بیروت ۱ /۶۶)

عـــہ:زعم شیخ الوھابیۃ الشوکانی ان الحدیث اخرجہ ایضا ابو داؤد وابن ماجۃ بنحوہ اقول کذب فــ۱ علی ابی داؤد و اخطأ فــ۲ علی ابن ماجۃ فان ابا داؤد لم یخرجہ اصلا انما عندہ عن جابر کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغتسل بالصاع و یتوضأ بالمد۳؎ و ابن ماجہ لم یخرجہ عن جابر بن عبد اللّہ بل عن عبد اللّہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب رضی اللّہ عنہم اھ منہ۔

عـــہ  : پیشوائے وہابیہ شوکانی کا زعم ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیـا اور اس کے ہم معنی ابن ماجہ نے بھی اقول:اس نے ابوداؤد کی طرف تو جھوٹا انتساب کیـا اور ابن ماجہ کی طرف نسبت مـیں خطا کی-اس لئے کہ ابوداؤد نے سرے سے اسے روایت ہی نہ کیـا اس کی روایت حضرت جابر سے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک صاع سے غسل فرماتے اور ایک سے وضو فرماتے اور ابن ماجہ نے یہ حدیث حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت نہ کی بلکہ عبداللہ بن محمد بن عقیل بن ابوطالب سے روایت کی رضی اللہ تعالٰی عنہم۔

فــ۱:رد علی الشوکانی۔
فــ۲:رد اخر علیہ۔

(۳؎سنن ابی داؤد    کتاب الطہارۃ،باب ما یجزئ من الماء فی الوضوء    آفتاب عالم پریس لاہور        ۱ /۱۳)

ابنِ ماجہ سُنن مـیں حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: یجزئ من الوضوء مد و من الغسل صاع ۲؎۔

وضو مـیں ایک مُد، غسل مـیں ایک صاع کافی ہے۔

 (۲؎ سنن ابن ماجہ    ابواب الطہارات،باب ماجاء فی مقدار الماء...الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۴)

طبرانی معجم اوسط مـیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: فذکر مثل حدیث عقیل غیرانہ قال فی مکان من فی الموضعین ۳؎۔

اس کے بعدحدیث عقیل ہی کے مثل ذکر کیـافرق یہ ہے کہ دونوں جگہ''من'' کے بجائے ''فی'' کہا۔(ت)

 (۱؎ المعجم الاوسط    حدیث ۷۵۵۱    مکتبۃ المعارف ریـاض        ۸ /۲۷۳)

امام احمدعــہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

یکفی احدکم مدمن الوضوء ۲؎۔

تم مـیں سے ایک شخص کے وضو کوایک مُد بہت ہے۔

 (۲؎ مسند احمدبن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ         المکتب الاسلامـی بیروت    ۳/ ۲۶۴)

عــہ وعزاہ الامام الجلیل فی الجامع الصغیرلجامع الترمذی بلفظ یجزئ فی الوضوء رطلان من ماء ۴؎قال المناوی واسنادہ ضعیف ۵؎اھ لکن العبدالضعیف لم یرہ فی ابواب الطھارۃ من الجامع فاللّٰہ تعالی اعلم اھ منہ غفرلہ (م)

یہ حدیث امام جلال الدین سیوطی نے جامع ترمذی کے حوالے سے ان الفاظ سے جامع صغیرمـیں ذکرکی ہے: وضو مـیں دو رطل پانی کافی ہے۔ علامہ مناوی نے کہا اس کی سند ضعیف ہے اھ۔ لیکن مـیں نے جامع ترمذی کے ابواب الطہارۃ مـیں یہ حدیث نہ پائی، فاللہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ(ت)

(۴؎الجامع الصغیربحوالہ ت    حدیث۹۹۹۷    دارلکتب العلمـیہ بیروت     ۲ /۵۸۹
۵؎التیسیر شرح الجامع ا لصغیر    تحت الحدیث یجزئ فی الوضوالخ     مکتبۃ الامام الشافعی ریـاض     ۲ /۵۰۷)

ابو نعیم معرفۃ الصحابہ مـیں ام سعد بنت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہماسے راوی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : الوضوء مدوالغسل صاع ۳؎۔ وضو ایک مُد اور غسل ایک صاع ہے۔

(۳؎تلخیص الحبیرفی تخریج احادیث الرافعی الکبیر    کتاب الطہارۃ حدیث ۱۹۴باب الغسل دارالکتب العلمـیہ بیروت     ۱ /۳۸۶)

اقول اب یہاں چند امر تنقیح طلب ہیں:

    امر اوّل  : صاع اور مُد باعتبار وزن مراد ہیں یعنی دو اور آٹھ رطل وزن کا پانی ہوکہ رامپور کے سیر سے وضو مـیں تین پاؤ اور غسل مـیں تین سیر پانی ہوا اور امام ابو یوسف وائمہ ثلثہ کے طور پر وضو مـیں آدھ سیر اور غسل مـیں دو سیر اور جانب کمـی وضو مـیں پونے تین چھٹانک سے بھی کم اور غسل مـیں ڈیڑھ ہی سیر یـا بااعتبار کیل وپیمانہ یعنی اتنا پانی کہ ناج کے پیمانہ مد یـاصاع کوبھردے ظاہرہے کہ پانی ناج سے بھاری ہے توپیمانہ بھرپانی اس پیمانے کے رطلوں سے وزن مـیں زائد ہوگا کلمات فـــ ائمہ مـیں معنی دوم کی تصریح ہے اور اسی طرف بعض روایـات احادیث ناظر۔

فـــ:تطفل علی العلامۃعلی قاری ۔

امام عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری مـیں فرماتے ہیں: باب الغسل بالصاع ای بالماء قدرملء الصاع ۱؎۔

باب الغسل بالصاع یعنی اتنے پانی سے غسل جس سے صاع بھر جائے۔(ت)

 (۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب الغسل باب الغسل بالصاع    دارالکتب العلمـیہ بیروت ۳ /۲۹۱)

امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری مـیں فرماتے ہیںـ: المراد من الروایتین ان الاغتسال وقع بملء الصاع من الماء ۲؎۔

دونوں روایتوں سے مراد یہ ہے کہ غسل پانی کی اتنی مقدار سے ہوا جس سے صاع بھر جائے (ت)

 (۲؎ فتح الباری،شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع تحت الحدیث ۲۵۱دارالکتب العلمـیہ بیروت     ۲ /۳۲۷)

امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری مـیں فرماتے ہیں: ای بالماء الذی ھو قدر ملء الصاع ۳؎۔

یعنی اتنے پانی سے غسل جو صاع بھرنے کے بقدرہو۔(ت)

 (۳؎ارشادالساری شرح صحیح البخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع تحت الحدیث ۲۵۱دارالکتب العلمـیہ بیروت ۱ /۴۹۰)

نیز عمدۃ القاری مـیں حدیث طحاوی مجاہد سے بایں الفاظ ذکر کی: قال دخلنا علی عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فاستسقی بعضنا فاتی بعس قالت عائشۃ کان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یغتسل بملء ھذا قال مجاھد فحررتہ فیما احزر ثمانیۃ ارطال تسعۃ ارطال عشرۃ ارطال قال واخرجہ النسائی حزرتہ ثمانیۃ ارطال ۱؎من دون شک ۔

مجاہد نے کہاہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے یہاں گئے تو ہم مـیں سےی نے پانی مانگا۔ایک بڑے برتن مـیں لایـا گیـا۔حضرت عائشہ نے فرمایـا: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس برتن بھر پانی سے غسل فرماتے تھے۔امام مجاہد نے کہا: مـیں نے اندازہ کیـاتووہ برتن آٹھ رطل،یـانورطل،یـا دس رطل کاتھا۔امام عینی نے کہا:یہ حدیث امام نسائی نے روایت کی تو اس مـیں یہ ہے کہ مـیں نے اسے آٹھ رطل کا اندازہ کیـا۔یعنی اس روایت مـیں بغیر شک کے ہے(ت)

 (۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب الغسل باب الغسل بالصاع    دارالکتب العلمـیہ بیروت ۳ /۲۹۲)

اقول : ظاہر ہے فـــ کہ پیمانے ناج کیلئے ہوتے ہیں پانی مکیل نہیں کہ اُس کیلئے کوئی مُدو صاع جُدا موضوع ہوں

فـــ:تطفل آخرعلیہ ۔

بل نص علماؤنا انہ قیمـی فاذن لاھو مکیل ولا موزون۔  (بلکہ ہمارے علماء نے تو تصریح کی ہے کہ پانی قیمت والی چیزوں مـیں ہے جب تووہ نہ مکیل ہے نہ موزون۔ت)
تواندازہ نہ بتایـاگیـامگر انہیں مُدو صاع سے جو ناج کیلئے تھے اوری برتن سے پانی کا اندازہ بتایـا جائے تو اُس سے یہی مفہوم ہوگا کہ اس بھر پانی نہ یہ کہ اس برتن مـیں جتنا ناج آئے اس کے وزن کے برابر پانی۔ وھذا ظاھر جدا فاندفع ماوقع للعلامۃ علی القاری فی المرقاۃ شرح المشکوۃ حیث قال تحت حدیث انس کان صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ بالمد ویغتسل بالصاع المراد بالمد والصاع وزنالا کیلا ۲؎ اھ فھذا قیلہ من قبلہ لم یستند فیہ لدلیل ولا قیل لاحد قبلہ واسمعناک نصوص العلماء والحجۃ الزھراء۔

اور یہ بہت واضح ہے تو وہ خیـال دفع ہوگیـا جو علامہ علی قاری سے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ مـیں واقع ہواکہ انہوں نے حضرت انس کی حدیث'' حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو فرماتے اور ایک صاع سے غسل فرماتے '' کے تحت لکھاکہ مُد اور صاع سے مراد اتنے وزن بھر پانی ہے اتنے ناپ بھر نہیں اھ۔یہ ضعیف قول خو دان کا ہے جس پر نہ تو انہوں نےی دلیل سے استناد کیـانہ اپنے پہلے کےی شخص کے قول سے استناد کیـا۔اورعلماء کے نصوص اور روشن دلیل ہم  پیش کرچکے۔

(۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ مشکوۃ المصابیح     تحت حدیث ۴۳۹    المکتبۃ الحبیبیۃ کوئٹہ     ۲/ ۱۴۳)

    فان قلت الیس قدقال انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کان رسول اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ برطلین ویغتسل بالصاع ۱؎ رواہ الامام الطحاوی والرطل من الوزن۔

اگر سوال ہو کہ کیـا حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ نہیں فرمایـا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دورطل سے وضو فرماتے اورایک صاع سے غسل فرماتے۔ اسے امام طحاوی نے روایت کیـا۔ اوررطل ایک وزن ہے۔

 (۱؎عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب الغسل باب الغسل بالصاع     دارالکتب العلمـیۃ بیروت ۳ /۲۹۲)

    قلت المراد بالرطلین ھوالمدبدلیل حدیثہ المذکور سابقاوالاحادیث یفسر بعضہا بعضا بل قد اخرج الامام الطحاوی عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ بالمد وھو رطلان ۱؎ فاتضح المراد وبھذا استدل ائمتنا علی ان الصاع ثمانیۃ ارطال ولذا قال الامام الطحاوی بعداخراجہ الحدیث الذی تمسکت بہ فی السؤال فھذا انس قد اخبر ان مد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رطلان والصاع اربعۃ امداد فاذا ثبت ان المدرطلان ثبت ان الصاع ثمانیۃ ارطال ۲؎ اھ فقد جعل معنی قولہ توضأ برطلین توضأ بالمد وھو رطلان کما افصح بہ فی الروایۃ الاخری علی ان الرطل مکیـال ایضا کما نص علیہ فی المصباح المنیر ۳؎واللّٰہ تعالی اعلم۔

    مـیں کہوں گادو رطل سے وہی مُد مراد ہے، جس پردلیل خود اُن ہی کی حدیث ہے جو پہلے ذکرہوئی۔ اور احادیث مـیں ایک کی تفسیر دوسری سے ہوتی ہے بلکہ امام طحاوی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ روایت بھی کی ہے کہ انہوں نے فرمایـا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک مُد سے وضو فرماتے اور وہ دورطل ہے۔ تو مراد واضح ہوگئی۔اور اسی سے ہمارے ائمہ نے صاع کے آٹھ رطل ہونے پراستدلال کیـا ہے اور اسی لئے امام طحاوی نے سوال مـیں تمہاری پیش کردہ حدیث روایت کرنے کے بعدفرمایـا:یہ حضرت انس ہیں جنہوں نے بتایـا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مُد دورطل تھااورصاع چار مُد کا ہوتا ہے توجب یہ ثابت ہوگیـاکہ مُد دو رطل ہے تویہ بھی ثابت ہوا کہ صاع آٹھ رطل ہے اھ۔تو امام طحاوی نے ''توضأ برطلین''(دورطل سے وضو فرمایـا) کا معنی یہ ٹھہرایـا کہ توضأ بالمُدوھو رطلان (ایک مُد سے وضو فرمایـا اور وہ دورطل ہے)جیسا کہ دوسری روایت مـیں اسے صاف بتایـا۔علاوہ ازیں رطل ایک پیمانہ بھی ہے جیساکہ مصباح منیر مـیں اس کی صراحت کی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

(۱؎ شرح معانی الآثار        کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷
۲؎ شرح معانی الآثار        کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۷
۳؎المصباح المنیر    کتاب الراء تحت لفظ ''رطل ''    منشورات دارالھجرہ قم ایران     ۱ /۲۳۰)

امر دوم : غسل مـیں کہ ایک صاع بھر پانی ہے اُس سے مراد مع اُس وضو کے ہے جو غسل مـیں کیـا جاتا ہے یـا وضو سے جدا امام اجل طحاوی رحمہ اللہ تعالی نے معنی دوم پر تنصیص فرمائی اور وہ اکثر احادیث مـیں ایک صاع اور حدیث انس مـیں پانچ مُد ہے اُس مـیں یہ تطبیق دی کہ ایک مُد وضو کا اور ایک صاع بقیہ غسل کا،یوں غسل مـیں پانچ مُد ہوئے، حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ یغتسل بخمس مکاکی روایت کرکے فرماتے ہیں:

یکون الذی کان یتؤضا بہ مدا ویکون الذی یغتسل بہ خمسۃ مکاکی یغتسل باربعۃ منھا وھی اربعۃ امداد وھی صاع ویتوضأ باخرو ھو مدفجمع فی ھذا الحدیث ماکان یتوضأ بہ للجنابۃ وما کان یغتسل بہ ۱؎ لھا وافرد فی حدیث عتبۃ (یعنی الذی فیہ الوضوء بمدوالغسل بصاع) ماکان یغتسل بہ لھا خاصۃ دون ماکان یتوضأ بہ ۲؎ اھ

جتنے پانی سے وضوفرماتے وہ ایک مُد ہوگااورجتنے سے غسل فرماتے وہ پانچ مکّوک ہوگا۔ چار مکّوک۔وہی چار مُد اور چار مُد ایک صاع۔ سے غسل فرماتے۔ اور باقی ایک مکّوک ۔ایک مُد سے وضوفرماتے۔تو اس حدیث مـیں جتنے سے جنابت کا غسل ووضو فرماتے دونوں کو جمع کردیـا۔ اور حدیثِ عتبہ مـیں(یعنی جس مـیں یہ ہے کہ ایک مُد سے وضو اور ایک صاع سے غسل ) صرف اُس کو بیـان کیـا جس سے غسل فرماتے، اُس کوذکرنہ کیـاجس سے وضو فرماتے اھ۔

(۱؎ شرح معانی الآثار،    کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۳۷۷
۲؎ شرح معانی الآثار،    کتاب الزکوۃ باب وزن الصاع کم ھو    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۳۷۷)

    اقول : لکن حدیثہ یغتسل بالصاع الی خمسۃ امدادفی التوزیع فی التنویع کما لایخفی ای ان الغسل نفسہ کان تارۃ باربعۃ وتارۃ بخمسۃ سواء ارید بہ اسألۃ الماء علی سائر البدن وحدھا اومع الوضوء۔

    اقول : لیکن حضرت انس کی یہ حدیث کہ حضورایک صاع سے پانچ مُدتک پانی سے غسل فرماتے،بیـان تقسیم مـیں نہیں بلکہ بیـان تنویع مـیں ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ یعنی خود غسل ہی کبھی چارمُد سے ہوتااورکبھی پانچ مُد سے ہوتاخواہ اس سے صرف پورے بدن پر پانی بہانا مرادلیں یـا اس کے ساتھ وضو بھی ملا لیں۔(ت)

امر سوم  : یہ صاع فـــ ناج کا تھاظاہرہے کہ ناج ہلکے بھاری ہیں جس پیمانے مـیں تین سیر جو آئیں گے گیہوں تین سیر سے زیـادہ آئیں گے اور ماش اور بھی زائد، ابو شجاع ثلجی نے صدقہ فطر مـیں ماش یـا مسور کا پیمانہ لیـا کہ ان کے دانے یکساں ہوتے ہیں تو اُن کا کیل و وزن برابر ہوگا بخلاف گندم یـا جو کہ اُن مـیں بعض کے دانے ہلکے بعض کے بھاری ہوتے ہیں تو دو قسم کے گیہوں اگرچہ ایک ہی پیمانے سے لیں وزن مـیں مختلف ہوسکتے ہیں اور اسی طرح جو۔ دُرِّمختار مـیں اسی پر اقتصار کیـا اور امام صدرالشریعۃ نے شرح وقایہ مـیں فرمایـا کہ احوط کھرے گیہوں کا صاع ہے۔

فـــ:مسئلہ زیـادہ احتیـاط یہ ہے کہ صدقہ فطر وفدیہ روزہ ونماز وکفارہ  قسم وغیرہ مـیں نیم صاع گیہوں جوکے پیمانے سے دئیے جائیں یعنی جس برتن مـیں ایک سو چوالیس روپے بھر جوٹھیک ہموارسطح سے آجائیں کہ نہ اونچے رہیں نہ نیچے اس برتن بھرکرگیہووں کوایک صدقہ سمجھاجائے ہم نے تجربہ کیـاپیمانہ نیم صاع جومـیں بریلی کے سیرسے کہ سوروپیہ بھرکاہے اٹھنی بھراوپرپونے دوسیرگیہوں آتے ہیں فی اتنے دئیے جائیں ۔

اور علامہ شامـی نے ردالمحتار مـیں جو کا صاع احوط بتایـا اور حاشیہ زیلعی للسید محمد امـین مـیر غنی سے نقل کیـا: ان الذی علیہ مشائخنابالحرم الشریف المکی ومن قبلھم من مشائخھم وبہ کانوا یفتون تقدیرہ بثمانیۃ ارطال من الشعیر ۱؎۔

یعنی حرمِ مکہّ مـیں ہمارے مشائخ اور ان سے پہلے ان کے مشائخ اس پر ہیں کہ آٹھ رطل جَو سے صاع کا اندازہ کیـا جائے اور اکابر اسی پر فتوٰی دیتے تھے۔(ت)

(۱؎ ردالمحتار،        کتاب الزکوۃ باب صدقۃ الفطر     داراحیـاء التراث العربی بیروت     ۲ /۷۷ )

    اقول ظاہر ہے کہ صاع اُس ناج کا تھا جو اُس زمان برکت نشان مـیں عام طعام تھا اور معلوم ہے کہ وہاں عام طعام جو تھا گیہوں کی کثرت زمانہ امـیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوئی۔

حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ مـیں ہے: لما کثرالطعام فی زمن معٰویۃ جعلوہ مدین من حنطۃ ۲؎۔

جب حضرت معاویہ کے زمانے مـیں طعام کی فراوانی ہوئی تواسے گیہوں کے دو مُدٹھہرائے (ت)

(۲؎ شرح معانی الآثار،        کتاب الزکوۃ باب مقدار صدقۃ الفطر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۷۲)

شرح صحیح مسلم امام نووی مـیں ہے: الطعام فی عرف اھل الحجاز اسم للحنطۃ خاصۃ ۱؎۔

طعام اہلِ حجاز کے عرف مـیں صرف گیہوں کانام ہے۔(ت)

(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی  کتاب الزکوۃ  باب الامر باخراج زکوۃ الفطر الخ تحت حدیث ۲۲۵۳    دارالفکربیروت ۴ /۲۷۳۲ )

صحیح ابن خزیمہ مـیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے : قال لم تکن الصدقۃ علی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الا التمرو الزیب والشعیر ولم تکن الحنطۃ ۲؎۔

فرمایـا: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے مـیں صدقہ کھجور، خشک انگور او رجَو سے دیـا جاتااور گیہوں نہ ہوتا۔

(۲؎ صحیح ابن خزیمہ،    باب الدلیل علی ان الامر الخ    حدیث ۲۴۰۶    المکتب الاسلامـی بیروت ۴ /۸۵)

صحیح بخاری شریف مـیں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے  : کان طعامنا یومئذ الشعیر الخ ۳؎

ہمارا طعام اس وقت جَو تھا۔(ت)

(۳؎ صحیح البخاری    کتاب الزکوۃ باب الصدقۃ قبل العید     قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۲ /۲۰۴و۲۰۵)

اور اس سے قطع نظر بھی ہوتو شک نہیں کہ مُد وصاع کا اطلاق مُد وصاع شعیر کو بھی شامل، تو اُس پر عمل ضرور اتباع حدیث کی حد مـیں داخل۔ فقیر نے ۲۷ ماہ مبارک رمضان ۲۷؁ کو نیم صاع شعیری کا تجربہ کیـا جو ٹھیک چار طل جَو کا پیمانہ تھااُس مـیں گیہوں برابر ہموار مسطح بھر کر تولے تو ثمن رطل کو پانچ رطل آئے یعنی ایک سو چوالیس۱۴۴ روپے بھر جَوکی جگہ ایک سو پچھتر۱۷۵روپے آٹھ آنے بھر گیہوں کہ بریلی کے سیر سے اٹھنی بھر اوپر پَونے دو سیر ہوئے، یہ محفوظ رکھنا چاہئے کہ صدقہ فطر وکفارات وفدیہ صوم وصلاۃ مـیں اسی اندازہ سے گیہوں اداکرنا احوط وانفع للفقراء ہے اگرچہ اصل مذہب پر بریلی کی تول سے چھ۶ روپے بھر کم ڈیڑھ سیر گیہوں ہیں۔ پھر اُسی پیمانے مـیں پانی بھر کر وزن کیـا تو دو سو چودہ ۲۱۴ روپے بھر ایک دوانی کم آیـا کہ کچھ کم چھ رطل ہوا تو تنہا وضوفـــ۱ کا پانی رامپوری سیر سے تقریباً آدھ پاؤ سیر ہوا اور باقی غسل کا قریب ساڑھے چار سیر کے، اور مجموع غسل کا چھٹانک اوپر ساڑھے پانسیر سے کچھ زیـادہ۔

فــ۱:مسئلہ تنہاوضوکامسنون پانی رامپوری سیرسے کہ چھیـانوے روپے بھرکاہے تقریباآدھ پاؤ اوپر سیر بھر ہے اورباقی غسل کاساڑھے چارسیر کے قریب ،مجموع غسل کاچھٹانک اوپرساڑھے پانسیر سے کچھ زیـادہ۔

    یہ بحمد اللہ تعالٰی قریب قیـاس ہے بخلاف اس کے اگر تنقیحات مذکورہ نہ مانی جائیں تو مجموع غسل کا پانی صرف تین سیر رہتا ہے اور امام ابو یوسف کے طور پر دوہی سیر، اُسی مـیں وضو اُسی مـیں غسل اور ہر عضو پر تین تین بار پانی کا بہنا یہ سخت دشوار بلکہ بہت دُور ازکار ہے۔

    فائدہ :  فــ۱ اُن پانیوں کے بیـان مـیں جو اس حساب سے جُدا ہیں:

فــ۱:مسئلہ ان پانیوں کابیـان جواس حساب کے علاوہ ہیں ۔

    (۱) آبِ استنجاء ہمارے فـــ۲ علما نے وضو کی تقسیم یوں فرمائی ہے کہ آدمـی موزوں پر مسح کرے اور استنجے کی حاجت نہ ہوتونیم مُدپانی کا فی ہے اور موزے اور استنجا دونوں ہوں یـا دونوں نہ ہوں تو ایک مُد، اور موزے نہ ہوں اور استنجا کرنا ہو تو ڈیڑھ مُد۔

فــ۲:مسئلہ حالات وضوپرمسنون پانی کے اختلافات اوریہ کہ استنجے کے لئے چھٹانک آدھ سیرپانی چاہئے۔

حلیہ مـیں ہے: روی الحسن عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی الوضوء ان کان متخففا ولا یستنجی کفاہ رطل لغسل الوجہ والیدین ومسح الرأس والخفین وان کان یستنجی کفاہ رطلان رطل للاستنجاء ورطل للباقی وان لم یکن متخففا ویستنجی کفاہ ثلثۃ ارطال رطل للاستنجاء ورطل للقدمـین ورطل للباقی ۱؎۔

امام حسن بن زیـادنے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے وضو بارے مـیں روایت کی ہے کہ اگر موزے پہنے ہیں اوراستنجا نہیں کرنا ہے توچہرہ اور دونوں ہاتھوں کے دھونے اور سر اور موزوں کے مسح کے لئے ایک رطل کافی ہے۔اوراگر استنجابھی کرنا ہے تو دو رطل۔ایک رطل استنجا کے لئے اورایک رطل باقی کے لئے اوراگر موزے نہیں ہیں اوراستنجاکرنا ہے توتین رطل کفایت کریں گے،ایک رطل استنجا کے لئے ایک رطل دونوں پاؤں کے لئے، اورایک رطل باقی کے لئے۔(ت)

(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )

    (۲) ظاہر ہے کہ اگر بدن پر کوئی نجاست حقیقیہ ہو جیسے حاجتِ غسل مـیں ران وغیرہ پر منی تو اس کی تطہیر کاپانی اس حساب مـیں نہیں اور یہیں سے ظاہر کہ بعد جماع اگر کپڑا نہ ملے تو پانی کہ اب استنجے کو درکار ہوگا معمول سے بہت زائد ہوگا۔

    (۳)پیش از  استنجا   تین (فــ۱)بار دونوں کلائیوں تک دھونا مطلقاً سنّت ہے اگرچہ سوتے سے نہ جاگا ہو یہ اُس سنّت سے جُداہے کہ وضو کی ابتدا مـیں تین تین بار ہاتھ دھوئے جاتے ہیں سنّت یوں ہے کہ تین بار ہاتھ دھو کر استنجا کرے پھر آغاز وضو مـیں باردیگر تین بار دھوئے پھر منہ فـــ۲ دھونے کے بعد جوہاتھ کہنیوں تک دھوئے گااُس مـیں ناخن دست سے کہنیوں کے اوپر تک دھوئے تو دونوں کفدست تین مرتبہ دھوئے جائیں گے ہر مرتبہ تین تین بار۔اخیر کے دونوں داخل حساب وضو ہیں اور اوّل خارج، ہاں اگر استنجا کرنا نہ ہوتو دو ہی مرتبہ تین تین بار دھونا رہے گا۔

فـــ۱:مسئلہ:استنجے سے پہلے تین بار دونو ں ہاتھ کلائیوں تک دھونا سنت ہے اگرچہ سوتے سے نہ اٹھاہو ہاں سوتے سے اٹھا اور بدن پر کوئی نجاست تھی توزیـادہ تاکید یہاں تک کہ سنت مؤکدہ ہے۔

فـــ۲:مسئلہ وضو کی ابتداء مـیں جو دونوں ہاتھ کلائیوں تک تین تین بار دھوئے جاتے ہیں سنت یہ ہے کہ منہ دھونے کے بعد جوہاتھ دھوئے اس مـیں پھر دونوں کفدست کو شامل کرلے سر ناخن سے کہنیوں کے اوپر تک تین بار دھوئے۔

درمختار مـیں ہے: (سنتہ البداءۃ بغسل الیدین) الطاھرتین ثلثا قبل الاستنجاء وبعدہ وقیدالاستیقاظ اتفاقی (الی الرسغین وھو) سنۃ (ینوب عن الفرض) ویسن غسلہماایضامع الذارعین ۱؎ اھ ملتقطا۔

    وضو کی سنت گٹوں تک دونوں پاک ہاتھوں کے دھونے سے ابتدا کرنا۔ تین بار استنجا سے پہلے اور اس کے بعدبھی۔ اور نیند سے اٹھنے کی قید،اتفاقی ہے اور یہ ایسی سنت ہے جو فرض کی نیـابت کردیتی ہے۔اور کلائیوں کے ساتھ بھی ہاتھوں کو دھونامسنون ہے اھ ملتقطا(ت)

(۱؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۰و۲۱)

ردالمحتار مـیں ہے: خص المصنف بالمستیقظ تبرکابلفظ الحدیث والسنۃ تشمل المستیقظ وغیرہ وعلیہ الاکثرون اھ وفی النھر الاصح الذی علیہ الاکثر انہ سنۃ مطلقالکنہ عند توھم فــ النجاسۃ سنۃ مؤکدۃ کما اذا نام لاعن استنجاء اوکان علی بدنہ نجاسۃ وغیر مؤکدۃعند عدم توھمھا کما اذا نام لاعن شیئ من ذلک اولم یکن مستیقظاعن نوم اھ ونحوہ فی البحر ۱؎اھ۔

مصنّف نے نیندسے اٹھنے والے کے ساتھ لفظ حدیث سے برکت حاصل کرنے کے لئے کلام خاص کیـا۔اورسنت نیند سے اٹھنے والے کے لئے بھی اور اس کے علاوہ کے لئے بھی ہے۔ اسی پر اکثر حضرات ہیں اھ۔النہرالفائق مـیں ہے:اصح جس پر اکثرہیں،یہ ہے کہ وہ مطلقاسنت ہے لیکن نجاست کا احتمال ہونے کی صورت مـیں سنتِ مؤکدہ ہے مثلاً بغیراستنجاکے سویـاہو،یـاسوتے وقت اس کے بدن پرکوئی نجاست رہی ہو۔اور نجاست کا احتمال نہ ہونے کی صورت مـیں سنّتِ غیر مؤکدہ ہےمثلاً ان مـیں سےی چیز کے بغیر سویـا ہویـانیند سے اٹھنے کی حالت نہ ہو۔اھ۔اسی کے ہم معنی بحر مـیں بھی ہے اھ

(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     داراحیـاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۷۵)

فـــــ:مسئلہ بدن پر کوئی نجاست ہومثلاتر خارش ہے یـازخم یـاپھوڑا یـا پیشاب کے بعد بے استنجاسورہا کہ پسینہ آکر تری پہنچنے کااحتمال ہے جب تو گٹوں تک ہاتھ پہلے دھونا سنت مؤکدہ ہے اگرچہ سویـانہ ہو جب کہ ہاتھ کااس نجاست پر پہنچنا محتمل ہو اور اگر بدن پر نجاست نہیں تو ان کا دھونا سنت ہے مگر مؤکدہ نہیں اگرچہ سو کر اٹھاہو یوں ہی اگر نجاست ہے اوراس پر ہاتھ نہ پہنچنا معلوم ہے یعنی جاگ رہاہے اوریـادہے کہ ہاتھ وہاں تک نہ پہنچے تواس صورت مـیں بھی سنت مؤکدہ نہیں ہاں سنت مطلقا ہے۔

اقول  : و وجہہ ان النجاسۃ اذا کانت متحققۃ کمن نام غیرمستنج واصابۃ الید فی النوم غیر معلومۃ کانت النجاسۃ متوھمۃ امااذا لم تکن نفسھامتحققۃ فالتنجس بالاصابۃ توھم علی توھم فلا یورث تاکدالاستنان ۔

اقول : اس کی وجہ یہ ہے کہ نجاست جب متحقق ہے۔جیسے اس کے لئے جوبغیراستنجاکے سویـاہو۔ اورنیند مـیں نجاست پر ہاتھ کاپہنچنا معلوم نہیں ہے توہاتھ مـیں نجاست لگنے کا صرف احتمال ہے لیکن جب خودنجاست ہی متحقق نہیں تو ہاتھ مـیں نجاست لگنے کااحتمال دراحتمال ہے اس لئے اس سے مسنونیت مؤکد نہ ہوگی۔

فان قلت  :   الیس  ان النوم مظنۃ الانتشاروالانتشارمظنۃ الامذاء والغالب کالمتحقق فالنوم مطلقا محل التوھم۔

اگریہ سوال ہوکہ کیـا ایسانہیں کہ نیند انتشارآلہ کا مظنّہ ہے، اور انتشارمذی نکلنے کامظنّہ ہے۔ اور گمان غالب متحقق کاحکم رکھتا ہے تونیندمطلقاً احتمال نجاست کی جگہ ہے۔

قلت :  بَیَّنَّا فی رسالتنا الاحکام والعلل ان الانتشارمظنۃ الامذاء بمعنی المفضی الیہ غالبا وقد نص علیہ فی الحلیۃ

مـیں کہوں گا ہم نے اپنے رسالہ ''الاحکام والعلل'' مـیں بیـان کیـا ہے کہ انتشار مذی نکلنے کا مظنہ اس معنی مـیں نہیں کہ یہ اکثر خروجِ مذی تک موصل ہوتاہے۔ حلیہ مـیں اس کی تصریح موجود ہے۔

فان قلت انما علق فی الحدیث الحکم علی مطلق النوم وعللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بقولہ فانمالایدری این باتت یدہ۱؎ والنوم لاعن استنجاء ان اریدبہ نفیہ مطلقا فمثلہ بعیدعن ذوی النظافۃ فضلاعن الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم وھم المخاطبون اولا بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی اذااستیقظ احدکم من نومہ۱؎ وان ارید خصوص الاستنجاء بالماء فالصحیح المعتمدان الاستنجاء بالحجر مطھراذا لم تتجاوزالنجاسۃ المخرج اکثرمن قدرالدرھم کمابینتہ فیماعلقتہ علی ردالمحتارفلا یظھر فرق بین الاستنجاء بالماء وترکہ فی ایراث التوھم وعدمہ۔

    پھر اگر یہ سوال ہو کہ حدیث مـیں اس حکم کو مطلق نیندسے متعلق فرمایـا ہے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس ارشاد سے اس کی علّت بیـان فرمائی ہے کہ''وہ نہیں جانتاکہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا''۔اگریہ کہئے کہ لوگ بغیر استنجا کے سوتے تھے اس لئے یہ ارشاد ہوا تواس سے اگر یہ مراد ہے کہ مطلقاً استنجا ہی نہ کرتے تھے توایساتوہر صاحبِ نظافت سے بعید ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے تو اور زیـادہ بعید ہے اور وہی حضرات اولین مخاطب ہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کے کہ ''جب تم مـیں سے کوئی نیند سے اٹھے۔اور اگر یہ مراد ہے کہ پانی سے استنجا نہ کرتے تھے تو صحیح معتمد یہ ہے کہ پتھر کے ذریعہ استنجا سے بھی طہارت ہوجاتی ہے جب کہ نجاست قدر درہم سے زیـادہ مخرج سے تجاوزنہ کرے، جیسا کہ ردالمحتارپرمـیں نے اپنے حواشی مـیں بیـان کیـا ہے تواحتمالِ نجاست پیدا کرنے اور نہ کرنے مـیں پانی سے استنجا کرنے اور نہ کرنے کے درمـیان کوئی فرق ظاہر نہیں۔

(۱؎سنن الترمذی     ابواب الطہارۃ باب ماجاء اذااستیقظ الخ    حدیث ۲۴         دارالفکر بیروت ۱ /۱۰۰)
(سنن ابن ماجہ     ابواب الطہارۃ باب الرجل یستیقظ من منامہ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۳۲)
(۱؎سنن الترمذی     ابواب الطہارۃ باب ماجاء اذااستیقظ الخ    حدیث ۲۴         دارالفکر بیروت ۱ /۱۰۰)

قلت  : الحدیث لافادۃ الاستنان اماتاکدہ عند تحقق النجاسۃ فی البدن فبالفحوی ۔

قلت(مـیں کہوں گا)حدیث مسنونیت بتانے کے لئے ہے اوربدن مـیں نجاست متحقق ہونے کے وقت اس سنّت کامؤکدہونا مضمونِ کلام سے معلوم ہوا۔

فان قلت  ھذا البحرقائلا فی البحراعلم ان الابتداء بغسل الیدین واجب اذاکانت النجاسۃ محققۃ فیھما وسنۃ عند ابتداء الوضوء وسنۃ مؤکدۃ عند توھم النجاسۃ کمااذا استیقظ من النوم ۲؎ اھ فھذانص فیکل نوم موجب تاکداالاستنان۔

اگرسوال ہوکہ محقق صاحبِ بحر، البحرالرائق مـیں یہ لکھتے کہ:واضح ہوکہ دونوں ہاتھ دھونے سے ابتدأ واجب ہے جب ہاتھوں مـیں نجاست ثابت ہواور ابتدائے وضوکے وقت سنّت ہے،اور احتمالِ نجاست کے وقت سنّتِ مؤکدہ ہے جیسے نیند سے اٹھنے کے وقت اھ۔تو یہ عبارت اس بارے مـیں نص ہے کہ ہر نیند اس عمل کے سنّتِ مؤکدہ ہونے کاسبب ہے۔

(۲؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۷و۱۸)

    قلت   : نعم فــ ارسل ھناماابان تقییدہ بعداسطراذیقول علم بماقررناہ ان مافی شرح المجمع من ان السنۃ فی غسل الیدین للمستیقظ مقیدۃ بان یکون نام غیرمستنج اوکان علی بدنہ نجاسۃ حتی لولم یکن کذلک لایسن فی حقہ ضعیف او المراد نفی السنۃ المؤکدۃ لااصلہا ۱؎ اھ لاجرم ان قال فی الحلیۃ ھو مع الاستیقاظ اذاتوھم النجاسۃ اکد ۲؎ اھ فلم یجعل کل نوم محل توھم۔

مـیں کہوں گاہاں یہاں پرانہوں نے مطلق رکھا مگر چند سطروں کے بعد اس کی قید واضح کردی ہے،آگے وہ فرماتے ہیں:ہماری تقریرسابق سے معلوم ہواکہ شرح مجمع مـیں جولکھا ہے کہ''نیند سے اٹھنے والے کے لئے دونوں ہاتھ دھونے کامسنون ہونا اس قید سے مقید ہے کہ بغیر استنجاسویـا ہویـاسوتے وقت اس کے بدن پر کوئی نجاست رہی ہویہاں تک کہ اگر یہ حالت نہ ہو تو اس کے حق مـیں سنّت نہیں ہے''۔(شرح مجمع کایہ قول)ضعیف ہے۔یـااس سے مرادیہ ہوکہ سنّتِ مؤکدہ نہیں ہے،یہ نہیں کہ سرے سے سنّت ہی نہیں اھ۔یہی وجہ ہے کہ حلیہ مـیں کہا:نیندسے اٹھنے کے وقت جب احتمالِ نجاست ہوتو یہ زیـادہ مؤکد ہے اھ۔توانہوں نے ہرنیند کو محلِ احتمال نہ ٹھہرایـا۔

ف:تطفل علی البحر۔

(۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ / ۱۸)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

    اقول   : وھو معنی قول الفتح قیل سنۃ مطلقاللمستیقظ وغیرہ وھوالاولی نعم مع الاستیقاظ وتوھم النجاسۃ السنۃ اٰکد ۳؎ اھ فارادبالواوالاجتماع لترتّب الحکم لامجرد التشریک فی ترتبہ وان کان کلامہ مطلقافی المستیقظ وغیرہ والتوھم غیرمختص بالمستیقظ علی ان السنن الغیرالمؤکدۃ بعضھااٰکد من بعض فافھم۔

    اقول یہی فتح القدیر کی اس عبارت کابھی معنی ہے کہ :کہاگیـانیند سے اٹھنے والے اور اس کے علاوہ کے لئے یہ مطلقاسنت ہے اور یہی قول اولٰی ہے، ہاں نیند سے اٹھنے اورنجاست کا احتمال ہونے کی صورت مـیں سنّت زیـادہ مؤکد ہے اھ۔واؤ(اور) سے ان کی مراد یہ ہے کہ نیند سے اٹھنااور نجاست کااحتمال ہونادونوں باتیں جمع ہوں توسنت مؤکدہ ہے یہ مراد نہیں کہ نیند سے اٹھے جب بھی سنّتِ مؤکدہ اور احتمالِ نجاست ہوجب بھی سُنّتِ مؤکدہ اگرچہ ان کا کلام نیند سے اٹھنے والے اور اس کے علاوہ کے حق مـیں مطلق ہے اور احتمال نجاست ہونا نیند سے اٹھنے والے ہی کے لئے خاص نہیں۔ علاوہ ازیں سُننِ غیر مؤکدہ مـیں بعض سنّتیں بعض دیگر کی بہ نسبت زیـادہ مؤکدہوتی ہیں۔تو اسے سمجھو۔

(۳؎ فتح القدیر    کتاب الطہارات     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۱۹)

(۴) اقول اگرچہ فـــ مسواک ہمارے نزدیک سنّتِ وضوہے خلافاللامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فعندہ سنۃ الصلاۃ کمافی البحر وغیرہ (بخلاف امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ کے کہ ان کے نزدیک سنّت نمازہے جیسا کہ بحر وغیرہ مـیں ہے۔ ت) ولہٰذا جو ایک وضو سے چند نمازیں پڑھے ہر نماز کیلئے مسواک کرنا مطلوب نہیں جب تک منہ مـیںی وجہ سے تغیر نہ آگیـا ہو کہ اب اس دفع تغیر کیلئے مستقل سنّت ہوگی،ہاں وضوبے مسواک کرلیـا ہو تو اب پیش از نماز کرلے کما فی الدروغیرہ (جیساکہ درون وغیرہ مـیں ہے۔ت) مگر اُس کے وقت فــ۲ مـیں ہمارے یہاں اختلاف ہے بدائع وغیرہ معتمدات مـیں قبل وضو فرمایـااور مبسوط وغیرہ معتبرات مـیں وقت مضمضہ یعنی وضو مـیں کُلّی کرتے وقت ۔

فـــ: مسئلہ مسواک ہمارے نزدیک نماز کے لئے سنت نہیں بلکہ وضو کے لئے ،تو جو ایک وضو سے چند نمازیں پڑھے ہر نماز کے لئے اس سے مسواک کامطالبہ نہیں جب تک منہ مـیں کوئی تغیر نہ آگیـا ہو ہاں اگروضو بے مسواک کر لیـاتھا تو اب وقت نماز مسواک کر لے ۔
فـــ۲:مسواک کے وقت مـیں ہمارے علماء کو اختلاف ہے کہ قبل وضو ہے یـا وضو مـیں کلی کرتے وقت اوراس بارہ مـیں مصنف کی تحقیق ۔

حلیہ مـیں ہے : وقت استعمالہ علی مافی روضۃ الناطفی والبدائع ونقلہ الزاھدی عن کفایۃ البیھقی والوسیلۃ والشفاء قبل الوضوء وربما یشھدلہ مافی صحیح مسلم عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما عن رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم انہ تسوک وتوضأعــہ ثم قام فصلی وفی سنن ابی داؤد عن عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہاان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان لا یرقد من لیل ولا نھارفیستیقظ الا تسوک قبل ان یتوضأ وفی المحیط وتحفۃ الفقھاء وزادالفقہاء ومبسوط شیخ الاسلام محلۃ المضمضۃ تکمـیلا للانقاء واخرج الطبرانی عن ایوب قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذاتوضأ استنشق ثلثاوتمضمض وادخل اصبعہ فی فمہ وھذا ربمایدل علی ان وقت الاستیـاک حالۃ المضمضۃ فان الاستیـاک بالاصبع بدل عن الاستیـاک بالسواک والاصلالاشتغال بالبدل وقت الاشتغال بالاصل ۱؎ اھ مختصرا۔

    مسواک کے استعمال کاوقت قبل وضو ہے۔ایسا ہی ر وضۃ الناطفی اور بدائع مـیں ہے اور زاہدی نے اسے کفایۃ البیہقی، وسیلہ اورشفا سے نقل کیـاہے۔اوراس پرکچھ شہادت صحیح مسلم کی اس حدیث سے ملتی ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمائی کہ سرکار نے مسواک کی اور وضو کیـا پھر اٹھ کرنماز اداکی۔اورسنن ابو داؤد مـیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دن یـا رات مـیں جب بھی سوکربیدار ہوتے تو وضوکرنے سے پہلے مسواک کرتے۔ اورمحیط،تحفۃ الفقہا، زادالفقہا اور مبسوط شیخ الاسلام مـیں ہے کہ مسواک کاوقت کُلّی کرنے کی حالت مـیں ہے تاکہ صفائی مکمل ہو جائے ۔ اورطبرانی نے حضرت''ایوب''سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب وضو فرماتے توتین بار ناک مـیں پانی لے جاتے اور کُلی کرتے اورانگلی منہ مـیں داخل کرتے۔اس حدیث سے کچھ دلالت ہوتی ہے کہ مسواک کاوقت کُلی کرنے کی حالت مـیں ہے اس لئے کہ انگلی استعمال کرنامسواک استعمال کرنے کابدل ہے اورقاعدہ یہ ہے کہ بدل مـیں مشغولی اسی وقت ہو جس وقت اصل مـیں مشغولیت ہوتی اھ مختصراً۔

عــہ  : ھکذاھو فی نسختی الحلیۃ بالواو والذی فی صحیح مسلم رجع فتسوک فتوضأ ثم قام فصلی ۱؎ ولعلہ اظھردلالۃ علی المراد اھ

مـیرے نسخہ حلیہ مـیں اسی طرح وتوضّأ(اور وضوکیـا) واؤ کے ساتھ ہے۔ اورصحیح مسلم مـیں یہ ہے  : رجع فتسوک فتوضأثم قام فصلی (لوٹ کرمسواک کی پھروضوکیـاپھر اٹھ کرنمازادا کی) اورشاید دلالت مقصودمـیں یہ زیـادہ ظاہر ہے اھ۔ت)

(۱؎صحیح مسلم         کتاب الطہارۃ     باب السواک     قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۲۸)
(۱؎ حلیۃالمحلی شرح منیۃ المصلی )

    اقول ھکذافی نسختی الحلیۃ عن ایوب فان کان عن ابی ایوب رضی اللّٰہ تعالی عنہ واسقط الناسخ والا فمرسل والظاھرالاول فان للطبرانی حدیثاعن ابی ایوب الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی صفۃ الوضوء لکن لفظہ کمافی نصب الرایۃ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذاتوضأ تمضمض واستنشق وادخل اصابعہ من تحت لحیتہ فخللھا ۲؎ اھ فاللّٰہ تعالی اعلم وعلی کل فـــ یخلو عن ابعاد النجعۃ فقداخرج الامام احمد فی مسندہ عن امـیر المؤمنین علی کرم اللّٰہ تعالی وجہہ انہ دعا بکوز من ماء فغسل وجہہ وکفیہ ثلثا وتمضمض ثلثا فادخل بعض اصابعہ فی فیہ وقال فی اخرہ ھکذاکان وضوء نبی ۱؎ اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ونحوہ عندعبدبن حمـیدعن ابی مطرعن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔

    اقول مـیرے نسخہ حلیہ مـیں''عن ایوب'' (ایوب سے ) ہے۔اگریہ اصل مـیں عن ابی ایوب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے اور کاتب سے''ابی'' چھوٹ گیـاہے جب تومسندہے ورنہ مرسل ہے اور ظاہراول ہے۔اس لئے کہ طبرانی کی ایک حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے طریقہ وضو کے بارے مـیں آئی ہے۔لیکن ا س کے الفاظ نصب الرایہ کے مطابق۔ یہ ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب وضو فرماتے تو کُلّی کرتے اورناک مـیں پانی ڈالتے اور اپنی انگلیـاں داڑھی کے نیچے سے ڈال کرریش مبارک کا خلال کرتے اھ۔توخدائے برترہی کو خوب علم ہے۔ بہر حال اس حدیث سے استناد تلاش مقصود مـیں قریب چھوڑکردُور جانے کے مرادف ہے اس لئے کہ امام احمد نے مسند مـیں امـیر المومنین حضرت علی کرّم اللہ تعالٰی وجہہ سے روایت فرمائی ہے کہ انہوں نے ایک کُوزہ مـیں پانی منگا کر چہرے اورہتھیلیوں کوتین بار دھویـااور تین بار کلی کی تو اپنی ایک انگلی منہ مـیں لے گئے۔اوراس کے آخر مـیں یہ فرمایـا:اسی طرح خداکے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وضوتھا۔اوراسی کے ہم معنی عبد بن حمـید کی حدیث ہے جو ابو مطر کے واسطہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔

فـــ : تطفل علی الحلیۃ

(۲؎ نصب الرایۃ فی تخریج احادیث ھدایہ     کتاب الطہارات اماحدیث ابی ایوب    نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور ۱ /۵۵)
(۱؎ مسند احمد بن حنبل      عن علی رضی اللہ تعالی عنہ     المکتب الاسلامـی بیروت     ۱ /۱۵۱)

    ثم اقول :نَصّاً فی کونہ بدلاعن السواک فقد تدخل الاصبع فی الفم لاستخراج النخاع مثلا واشارالیہ المحقق بقولہ ربمایدل ۲؎۔

     ثم اقول یہ بھی اس بارے مـیں صریح نہیں کہ منہ مـیں انگلی ڈالنامسواک کے بدلہ مـیں تھا، کیونکہ منہ مـیں انگلی کھنکاروغیرہ نکالنے کے لئے بھی ڈالی جاتی ہے۔اسی بات کی طرف محقق حلبی نے اپنے لفظ ربما یدل(کچھ دلالت ہوتی ہے) سے اشارہ فرمایـاہے۔

 (۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

    علی انی اقول معلوم فــ ضرورۃً شدۃ حبہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم للسواک وانما فعل ھذا مرۃ بیـاناللجواز فلیکن کونہ عند المضمضۃ ایضا لذالک ای من لم یستک سہوامثلا ولا سواک عندہ الان فلیستک بالاصابع حین المضمضۃ وبھذا تضعف الدلالۃ جدا۔

    علاوہ ازیں مـیں کہتاہوں قطعی وضروری طورپرمعلوم ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کومسواک کرنا بہت محبوب تھااورصرف بیـانِ جواز کے لئے ایک بار ایساکیـا۔توچاہئے کہ اس عمل کا وقتِ مضمضہ ہونابھی اسی غرض سے ہویعنی جس نے مثلاً بھول کر مسواک نہیں کی او ربروقت اس کے پاس مسواک موجود نہیں تووہ وقتِ مـضمضہ انگلیوں سے صفائی کرلے۔اوراس سے (مسواک کامقررہ وقت حالت مضمضہ ہونے پر )حدیث کی دلالت بہت ضعیف ہوتی ہے ۔

فـــ:تطفل آخر علیہا۔

نعم روی ابو عبید فی کتاب الطھور عن امـیر المؤمنین عثمٰن رضی اللّٰہ تعالی عنہ انہ کان اذا توضأ یسوک فاہ باصبعہ ۱؎ لکنی اقول معترک عظیم فی دلالۃ کان یفعل علی الاستمرار بل علی التکرار و لی فیھا رسالۃ سمـیتھا ''التاج المکلل فی انارۃ مدلول کان یفعل''فان اخترنا ان لا،لم یدل علی الاستنان اونعم فما کان عثمٰن لیواظب علی ترک السواک فی محلہ مع انھم ھم الائمۃ الاعلام العاضون بنواجذھم علی سنن سید الانام علیہ وعلیھم الصلاۃ والسلام، فاذن ینقدح فی الذھن واللّٰہ اعلم ان السنۃ السواک قبل الوضوء وان یعالج باصبعہ عند المضمضۃ لکن لااجترئ علی القول بہ لانی لم اجد احدا من علمائنا مال الیہ۔

ہاں ابوعبید نے کتاب الطہور مـیں امـیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے کہ'' کان اذاتو ضأ یسوک فاہ باصبعہ'' ( وہ جب وضو کرتے تھے توانگلی سے منہ(بطورِ مسواک) صاف کرلیـا کرتے تھے-لیکن مـیں کہتا ہوں اس مـیں سخت معرکہ آرائی ہے کہ کان یفعل (کیـاکرتے تھے) کی دلالت استمر اربلکہ تکرار پر ہوتی ہے یـا نہیں؟،اس کے بارے مـیں مـیرا ایک رسالہ بھی ہے جس کا نام ہے ''التاج المکلل فی انارۃ مدلول کان یفعل'' ( کان یفعل کے مدلول کی توضیح مـیں آراستہ تاج)-اگر ہم یہ اختیـارکریں کہ یہ لفظ استمرار و دوام پردلالت نہیں کرتا تومسنون ہونے پر اس کی دلالت ثابت نہ ہوگی۔ اور اگر یہ اختیـار کریں کہ استمرار پردلالت کرتاہے تو حضرت عثمان کی یہ شان نہیں ہوسکتی کہ اصل مقام  پرمسواک ترک کرنے پروہ مداومت فرماتے رہے ہوں۔جب کہ یہی حضرات تو وہ بزرگ پیشوا و ائمہ ہیں جو سیّدانام علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنّتوں کو دانت سے پکڑنے رہنے والے ہیں۔ اب ذہن مـیں یہ خیـال آتاہے کہ سنت یہ ہے کہ وضو سے پہلے مسواک کرے اورکُلّی کرتے وقت انگلی سے صفائی کرے لیکن مـیں اسے کہنے کی جسارت نہیں کرتا کیونکہ اپنے علما مـیں سےی کو مـیں نے اس طرف مائل نہ پایـا۔

(۱؎ کتاب الطہور،باب المضمضۃ والاستنشاق یستعان علیھا بالاصابہ،حدیث۲۹۸    دارالکتب العلمـیہ بیروت ص۱۱۶)

فان قلت ماحداک علی التقیید بقولک ''ولا سواک عندہ الان''مع ان ابن عدی والدار قطنی والبیھقی والضیـاء فی المختارۃ رووا عن انس بسند قال الضیـاء لااری بہ باسا ۱؎ اھ وقد ضعفہ ابن عدی والبیہقی وقال البخاری فــ فی روایۃ عن انس عبد الحکم القسملی منکر الحدیث ۲؎ وقال فی التقریب ضعیف ۳؎ انہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یجزئ من السواک الاصابع ورواہ البیھقی بطریق اخر وقال غیر محفوظ و نحوہ للطبرانی وابن عدی وابی نعیم عن ام المؤمنین الصدیقۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا۔

اگر سوال ہو آپ نے یہ قیدکیوں لگائی کہ ''اوربروقت اس کے پاس مسواک موجودنہیں''۔ حالانکہ سرکار کی یہ حدیث موجود ہے کہ''انگلیـاں مسواک کی جگہ کافی ہیں''۔ اسے ابن عدی، دارقطنی ، بیہقی نے اورضیـاء مقدسی نے مختارہ مـیں حضرت انس سے روایت کیـا،اس کی سند سے متعلق ضیـاء نے کہا کہ مـیں اس مـیں کوئی حرج نہیں سمجھتا اھ۔ابن عدی اور بیہقی نے اسے ضعیف کہا۔اور امام بخاری نے اس حدیث کے حضرت انس سے روایت کرنے والے شخص عبدالحکم قسملی کو منکر الحدیث کہا۔اورتقریب مـیں اسے ضعیف کہا ۔ اور بیہقی نے ایک اور سند سے اس کو روایت کیـا اور اسے غیرمحفوظ کہا۔اوراس کے ہم معنی طبرانی،ابن عدی اورابونعیم نے حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت کی ہے۔

فــ:تضعیف عبد الحکم القسملی۔

(۱؎ المختارۃ فی الحدیث للضیـاء)
(۲؎ مـیزان الاعتدال    ترجمہ عبد الحکم بن عبد اللہ القسملی۴۷۵۴        دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۵۳۶)
(السنن الکبری(للبیہقی)    کتاب الطہارۃ،باب الاستیـاک بالاصابع    دار صادر بیروت    ۱ /۴۰)
(۳؎ تقریب التہذیب        حرف العین    ترجمہ ۳۷۶۱    دارالکتب العلمـیہ بیروت۱ /۵۳۳)
(۴؎ السنن الکبری(للبیہقی)    کتاب الطہارۃ،باب الاستیـاک بالاصابع    دار صادر بیروت    ۱ /۴۰)
(الکامل لابن عدی    ترجمہ عبد الحکم بن عبداللہ القسملی            دارالفکر بیروت    ۵ /۱۹۷۱)
(کنزالعمال بحوالہ الضیـاء    حدیث ۲۷۱۸۸        مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۹ /۳۱۵)

قلت : روی ابو نعیم فی کتاب السواک عن عمرو بن عوف المزنی رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الاصابع تجزئ مجزی السواک اذا لم یکن سواک۱؎ وقداطبق فــ علماؤنا علی ھذا التقیید قال فی الحلیۃ لایقوم الاصبع مقام السواک عند وجودہ فان لم یوجد یقم مقامہ ذکرہ فی الکافی وغیرہ یعنی ینال ثوابہ کما ذکرہ فی الخلاصہ ۲؎ اھ وفی الغنیۃ لاتقوم الاصبع مقام العود عند وجودہ وتجویز بعض الشافعیۃ اصبع الغیر دون اصبع نفسہ تحکم بلا دلیل اھ ۳؎

مـیں کہوں گا ابونعیم نے کتاب السواک مـیں حضرت عمر وبن عوف مزنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا: انگلیـاں مسواک کی جگہ کافی ہوںجب مسواک نہ ہو۔ اور اس تقیید پر ہمارے علماء کا اتفاق ہے۔ حلیہ مـیں ہے کہ: مسواک موجود ہے توانگلی اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی، اور موجود نہیں ہے تواس کے قائم مقام ہوجائے گی۔اسے کافی وغیرہ مـیں ذکرکیـاہے۔ مراد یہ ہے کہ مسواک کا ثواب مل جائے گا جیسا کہ خلاصہ مـیں ذکرکیـا ہے اھ۔ اورغنیہ مـیں ہے کہ لکڑی موجود ہے توانگلی اس کے قائم مقام نہ ہوسکے گی۔اور بعض شافعیہ کایہ کہنا کہ دوسرے کی انگلی بھی اپنی انگلی کی جگہ رواہے بلادلیل اور زبردستی کاحکم ہے اھ۔

فــ:مسئلہ مسواک موجود ہوتو انگلی سے دانت مانجنا ادائے سنت و حصول ثواب کے لئے کافی نہیں۔ہاں مسواک نہ ہو تو انگلی یـا کھر کھرا کپڑا ادائے سنت کردے گا اور عورتوں کے لئے مسواک موجود ہو جب بھی مسّی کافی ہے۔

(۱؎ کنزالعمال بحوالہ ابو نعیم     فی کتاب السواک،حدیث ۲۶۱۶۸    مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۳۱۱)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی    ومن الآداب ان یستاک    سہیل اکیڈمـی لاہور        ص۳۳)

وفی الہندیۃ عن المحیط والظھیریۃ لاتقوم الاصبع مقام الخشبۃ فان لم توجد فحینئذ تقوم الاصبع من یمـینہ مقام الخشبۃ ۱؎ اھ وفی الدر عند فقدہ اوفقد اسنانہ تقوم الخرقۃ الخشنۃ اوالاصبع مقامہ کما یقوم العلک مقامہ للمراۃ مع القدرۃ علیہ ۲؎ اھ وھو ماخوذ من البحر و زاد فیہ تقوم فی تحصیل الثواب لاعند وجودہ ۳؎ اھ

ہندیہ مـیں محیط اور ظہیریہ سے نقل ہے کہ انگلی، لکڑی کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔اگرمسواک موجودنہیں ہے تو داہنے ہاتھ کی انگلی اس کے قائم مقام ہوجائے گی۔اھ۔درمختارمـیں ہے : مسواک نہ ہویـا دانت نہ ہوں توکُھردرا کپڑا یـا انگلی مسواک کے قائم مقام ہوجائے گی۔ جیسے عورت کو مسواک کی قدرت ہو جب بھی مسّی اس کے قائم مقام ہوجائےاھ۔ یہ کلام ، بحر سے ماخوذ ہے اور بحر مـیں مزیدیہ بھی ہے کہ انگلی تحصیلِ ثواب مـیں مسواک کے قائم مقام ہوجائےاور مسواک موجود ہوتونہیں اھ۔(ت)

(۱؎ الفتاوی الہندیۃ،    کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء،الفصل الثانی    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۷)
(۲؎ الدرالمختار     کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء         مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۲۱)
(۳؎ بحرالرائق     کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۱)

امام زیلعی نے قول اول اختیـار فرمایـا کما سیـاتی نقلہ (جیساکہ اسکی نقل آئیگی۔ت) اور امام ابن امـیر الحاج کے کلام سے اسکی ترجیح مفاد۔

حیث قال فی اٰداب الوضوء تحت قول المنیۃ وان یستاک بالسواک ان کان والا فبالاصبعالادب فی فعلہ ان یکون فی حالۃ المضمضۃ علی قول بعض المشائخ۴؎ اھ

اس طرح کہ انہوں نے آدابِ وضوکے بیـان مـیں منیہ کی عبارت وان یستاک بالسواک(اور یہ کہ مسواک سے صفائی کرے) کے تحت فرمایـا: اگر مسواک موجود ہوورنہ انگلی سے۔بعض مشائخ کے قول پراس کے استعمال مـیں مستحب یہ ہے کہ کُلی کرتے وقت ہو۔اھ۔(ت)

(۴؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

جس کا مفادفــ یہ ہے کہ اکثر علما قولِ اول پر ہیں، علامہ حسن شرنبلالی شرح وہبانیہ مـیں فرماتے ہیں: قولہ واعتاقہ بعض الائمۃ ینکر مفھومہ ان اکثر الائمۃ یجوّز ۱؎۔

''بعض ائمہ اس کی آزادی کا انکارکرتے ہیں''۔اس کامفہوم یہ ہے کہ اکثر ائمہ جائز کہتے ہیں۔(ت)

فـــ:ھذا قول بعض المشائخ مفادہ ان اکثرھم علی خلافہ۔

(۱؎ شرح الوہبانیہ)

اور یہ کہ قول فــ۱دوم نامعتمد ہے،ردالمحتار باب صفۃ الصلوٰۃ مـیں ہے : قولہ لاباس بہ عند البعض اشار بھذا الی ان ھذا القول خلاف المعتمد ۲؎۔

''بعض کے نزدیک حرج نہیں''یہ کہہ کرانہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیـاکہ یہ قول خلافِ معتمدہے۔(ت)

فــ۱:نسبۃ قول الی البعض تفید ان المعتمد خلافہ۔

(۲؎ رد المحتار    کتاب الصلوٰۃ،فصل(فی بیـان تألیف الصلوٰۃ الی انتہائہا)     دار احیـاء التراث العربی بیروت    ۱ /۳۳۲)

اور بحرالرائق مـیں دوم کو قولِ اکثر بتایـا اور بہتر ٹھہرایـا اور اُسی کے اتباع سے دُر مختار مـیں تضعیف اوّل کی طرف اشارہ کیـا،

نہایہ وعنایہ وفتح مـیں دوم پر اقتصار فرمایـا نہایہ وہندیہ مـیں ہے : الاستیـاک ھو وقت المضمضۃ ۳؎۔

مسواک کرنا وقتِ مضمضہ ہے ۔(ت)

(۳؎الفتاوی الہندیۃ    کتاب الطہارۃ(الفصل االثانی فی سنن الوضوء)    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/ ۶۰)

عنایہ مـیں ہے: یستاک عرضا لاطولا عند المضمضمۃ ۴؎۔

کُلی کے وقت مسواک کرے گا دانتوں کی چوڑائی مـیں،لمبائی مـیں نہیں۔(ت)

(۴؎العنایۃ مع فتح القدیر    کتاب الطہارات    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۲۱)

فتح القدیر مـیں ہے: قولہ والسواک ای الاستیـاک عند المضمضۃ ۵؎۔

''اورمسواک کرنا''یعنی کُلّی کے وقت مسواک کرنا(ت)

 (۵؎فتح القدیر    کتاب الطہارات    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۲)

بحر مـیں ہے: اختلف فی وقتہ ففی النھایۃ وفتح القدیر انہ عند المضمضۃ وفی البدائع والمجتبی قبل الوضوء والاکثر علی الاول وھو الاولی لانہ الاکمل فی الانقاء ۱؎۔

وقتِ مسواک مـیں اختلاف ہے۔نہایہ اورفتح القدیرمـیں ہے کہ یہ مضمضہ کے وقت ہے۔ بدائع اورمجتبٰی مـیں ہے کہ قبل وضو ہے۔اوراکثر اول پرہیں اور وہی اولٰی ہے کیونکہ صفائی مـیں یہ زیـادہ کامل ہے۔(ت)

(۱ ؎ البحر الرائق    کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۲۰)

شرح نقایہ برجندی مـیں ہے: وعلیہ الاکثرون۲؎۔ اور اکثر اسی پر ہیں (ت)

(۲ ؎شرح نقایہ للبرجندی  کتاب الطہارۃ     نو لکشور لکھنؤ     ۱/۱۶)

اقول: وباللہ التوفیق۔اوّلاً    : یہ معلوم فــ ہو کہ دربارہ سواک کلمات علما مختلف ہیں کہ سنّت ہے یـا مستحب۔ عامہ متون مـیں سنت ہونے کی تصریح فرمائی اور اسی پر اکثر ہیں صغیری مـیں اسی کو اصح کہا جوہرہ نیرہ ودُرمختار مـیں سنت مؤکدہ ہونے پر جزم کیـا لیکن ہدایہ واختیـار مـیں استحباب کو اصح اور تبیین و خیرمطلوب مـیں صحیح بتایـا فتح مـیں اسی کو حق ٹھہرایـا حلیہ وبحر نے اُن کا اتباع کیـا۔

فــ:مسئلہ مسواک وضو کے لئے سنت یـا مستحب ہونے مـیں ہمارے علماء کو اختلاف ہے اور اس بارہ مـیں مصنف کی تحقیق۔

علّامہ ابراہیم حلبی فرماتے ہیں: قد عدہ القدوری والاکثرون من السنن وھو الاصح۳؎۔

امام قدوری او ر اکثر حضرات نے اسے سنّت شمار کیـا اوریہی اصح ہے۔(ت)

 (۳؎ صغیری شرح منیۃ المصلی    بحث سنن الوضوء    مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۳)
(غنیۃ المستملی    ومن الآداب ان یستاک    سہیل اکیڈمـی لاہور    ص۳۲ )

ردالمحتار مـیں ہے: وعلیہ المتون۴؎ (اور اسی پر متون ہیں۔ت)

(۴؎ رد المحتار    کتاب الطہارۃ    دار احیـاء التراث العربی بیروت        ۱ /۷۷ )

درمختار مـیں ہے: السواک سنۃ مؤکدۃ کما فی الجوھرۃ۵؎ مسواک سنّتِ مؤکدہ ہے، جیساکہ جوھرہ مـیں ہے۔(ت)

(۵؎ الدر المختار    کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۱)

ہدایہ مـیں ہے: الاصح انہ مستحب۶؎ (اصح یہ ہے کہ وہ یہ مستحب ہے۔ ت)

(۶؎ الہدایۃ مع فتح القدیر        کتاب الطہارۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۲۲ )

امام زیلعی فرماتے ہیں: الصحیح انھما مستحبان یعنی السواک والتسمـیۃ لانھما لیسا من خصائص الوضوء۱؎

صحیح یہ ہے کہ دونوں- یعنی مسواک اور تسمـیہ- مستحب ہیں،اس لئے کہ یہ دونوں وضوکی خصوصیـات مـیں سے نہیں ہیں۔(ت)

(۱؎تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    دارالکتب العلمـیۃ بیروت    ۱ /۳۳)

محقق علی الاطلاق فرماتے ہیں: الحق انہ من مستحبات الوضوء ۲؎ حق یہ ہے کہ وہ مستحباتِ وضومـیں سے ہے ۔(ت)

(۲؎ فتح القدیر    کتاب الطہارۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۲۲)

امام ابن امـیر الحاج بعد ذکر حدیث فرماتے ہیں: ھذا عند التحقیق انما یفید الاستحباب فلا جرم ان قال فی خیر مطلوب ھو الصحیح وفی الاختیـار قالوا والا صح انہ مستحب۳؎

عند التحقیق ان سب کامفاد استحباب ہے۔یہی وجہ ہے کہ خیرمطلوب مـیں اسی کو صحیح کہا،اور ''اختیـار''مـیں ہے کہ علماء نے فرمایـا: اصح یہ ہے کہ وہ مستحب ہے۔(ت)

(۳؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

علامہ خیر الدین رملی قول بحر دربارہ استحباب نقلا عن الفتح ھو الحق (فتح سے نقل کیـا گیـا کہ وہ حق ہے۔ ت) پھر قولِ صغیری دربارہ سنیت ھو الاصح نقل کرکے فرماتے ہیں: فقد علم بذلک اختلاف التصحیح اھ کما فی المنحۃ۴؎

اس سے معلوم ہواکہ اس بارے مـیں اختلاف تصحیح ہے اھ جیسا کہ منحۃ الخالق مـیں ہے۔(ت)

اقول : جب تصحیح مختلف ہے تو متون پر عمل لازم کما نصوا علیہ (جیساکہ علماء نے اس فائدہ کی صراحت فرمائی ہے۔ت)قول سنیت کی ایک وجہ ترجیح یہ ہوئی۔

وجہ دوم  : خود امام مذہب رضی اللہ عنہ سے سنیت پر نص وارد۔ امام عینی فرماتے ہیں:

المنقول عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ علی ماذکرہ صاحب المفید ان السواک من سنن الدین اھ نقلہ الشلبی۵؎ علی الکنز۔

امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ مسواک دین کی سُنّتوں مـیں سے ہے۔جیساکہ صاحبِ مفید نے یہ نقل ذکر کی ہے اھ۔اسے شلبی نے حاشیہ کنز مـیں نقل کیـا۔(ت)

(۵؎ حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    دارالکتب العلمـیۃ بیروت    ۱ /۳۵ و ۳۶)

بلکہ ہمارے صاحب مذہب کے تلمـیذ جلیل امام الفقہاء امام المحدثین امام الاولیـاء سیدنا عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایـا: اگر بستی کے لوگ سنّیت مسواک کے ترک پر اتفاق کریں تو ہم اُن پر اس طرح جہاد کریں گے جیسا مرتدوں پر کرتے ہیں تاکہ لوگ اس سنّت کے ترک پر جرأت نہ کریں۔

فتاوٰی حجہ مـیں ہے: قال عبداللّٰہ بن المبارک لوان اھل قریۃ اجتمعوا علی ترک سنۃ السواک نقاتلھم کما نقاتل المرتدین کیلا یجترئ الناس علی ترک سنۃ السواک وھو من احکام الاسلام ۱؎۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایـا: اگرکسی بستی والے سب کے سب سنّتِ مسواک چھوڑدیں توہم ان سے اس طرح جنگ کریں گے جیسے مرتدین سے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کوسنتِ مسواک کے ترک کی جسارت نہ ہوجب کہ یہ احکامِ اسلام مـیں سے ایک حکم ہے۔(ت)

(۱؎ الفتاوی الحجۃ)

حلیہ مـیں اسے نقل کرکے فرمایـا: وھذا یفید انہ من سنن الدین کما حکاہ قولا فی المفید ولیس ببعید ۲؎۔

اس سے مستفاد ہوتاہے کہ یہ دین کی ایک سنت ہے جیسا کہ مفید مـیں بلفظہ یہی قول امام صاحب سے حکایت کیـا، اور یہ بعید نہیں۔(ت)

(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

    وجہ سوم  : یہی اقوی من حیث الدلیل ہے کہ احادیث متوافرہ اُس کی تاکید اور اس مـیں قولاً وفعلاً اہتمام شدید پر ناطق جن سے کتبِ احادیث مملو ہیں بلکہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اُس پر مواظبت ومداومت گویـا ضروریـات وبدیہیـات سے ہے ہر شخص کہ احوال قدسیہ پر مطلع ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اُس پر مداومت فرمانا جانتا ہے، خود ہدایہ مـیں فرمایـا: والسواک لانہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یواظب علیہ ۳؎۔

اور مسواک کرنا اس لئے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس پر مداومت فرماتے تھے۔(ت)

(۳؎الہدایہ        کتاب الطہارۃ     المکتبۃ العربیہ کراچی ۱ /۶)

تبیین مـیں فرمایـا : وقد واظب علیہ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔ اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس پر مداومت فرمائی۔(ت)

(۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ     دارالکتب العلمـیۃ بیروت         ۱ /۳۵)

اسی طرح کافی امام نسفی وغیرہ مـیں ہے:۔ وسیرد وعلیک بقیۃ الکلام فی اتمام تقریب المرام بعون المک العلام (بعون ملک علام اس سے متعلق بقیہ کلام تقریب مقصود کی تکمـیل مـیں آئے گا۔ت)

     ثانیـا  : سنیت کو مواظبت درکار اب ہم وضو مـیں کُلّی کے وقت احادیث کو دیکھتے ہیں تو ہرگز اُس وقت مسواک پر مواظبت ثابت نہیں ہوتی۔ خود امام محقق علی الاطلاق کو اس کا اعتراف ہے اور اسی بنا پر قول استحباب اختیـار فرمایـا۔ فتح مـیں فرماتے ہیں: المطلوب مواظبتہ علیہ الصلوۃ والسلام عند الوضوء ولم اعلم حدیثا صریحا فیہ ۲؎۔

مطلوب یہ ہے کہ وضوکے وقت اس پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مداومت ثابت ہواورمـیرے علم مـیں اس بارے مـیں کوئی صریح حدیث نہیں ہے۔(ت)

(۲؎ فتح القدیر        کتاب الطہارۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۲۲)

اقول  : بلکہ مواظبت درکنار چوبیس۲۴ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے صفتِ وضو قولاً وفعلاً نقل فرمائی:
(۱) امـیر المومنین عثمان غنی        (۲) امـیر المومنین مولا علی    (۳) عبداللہ بن عباس
(۴) عبداللہ بن زید بن عاصم    (۵) مغیرہ بن شعبہ    (۶) مقدام بن معدی کرب
(۷) ابو مالک اشعری        (۸) ابو بکرہ نفیع بن الحارث    (۹) ابو ہریرہ
(۱۰) وائل بن حجر            (۱۱) نفیر بن مالک حضرمـی        (۱۲) ابو امامہ باہلی
(۱۳) انس بن مالک        (۱۴) ابو ایوب انصاری     (۱۵) کعب بن عمرو یـامـی
(۱۶) عبداللہ بن ابی اوفی        (۱۷) براء بن عازب        (۱۸) قیس بن عائذ
(۱۹) ام المومنین صدیقہ        (۲۰) رُبیع بنت معّوذ بن عفراء    (۲۱) عبداللہ بن اُنیس
(۲۲) عبداللہ بن عمرو بن عاص    (۲۳) امـیر معٰویہ (۲۴) رجل من الصحابہ لم یسم رضی اللہ عنہم اجمعین

اوّل کے بیس۲۰ علّامہ محدث جلیل زیلعی نے ذکر کئے اُن کے بعد کے دو۲ امام محقق علی الاطلاق نے زیـادہ فرمائے اخیرکے دو اس فقیرغفر لہ نے بڑھائے اوران کے پچیسویں امـیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ہیں مگر ان سے خود اُن کے وضو کی صفت مروی ہے اگرچہ وہ بھی حکم مرفوع مـیں ہے، رواہ سعید بن منصور فی سننہ عن الاسود بن الاسود بن یزید قال بعثنی عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالی عنہ الی عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالی عنہ الحدیث۱؎ والحدیث قبلہ رواہ ابو بکر بن ابی شیبۃ والعدنی والخطیب عن رجل من الانصار ان رجلا قال الا اریکم کیف کان وضوء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قالوا بلی الحدیث ۲؎وحدیث معٰویۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ عند ابن عساکر۔

    اسے سعید بن منصور نے اپنی سُنن مـیں اسود بن اسود بن یزید سے روایت کیـا۔وہ کہتے ہیں مجھے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بھیجا۔اس کے بعدطریقہ وضوسے متعلق پُوری حدیث ہے۔اور اس سے قبل والی حدیث جسے ہم نے بتایـا کہ ایک صحابی سے مروی ہے جن کا نام مذکور نہیں، اسے ابوبکربن ابی شیبہ اور عدنی اورخطیب نے روایت کیـا ایک انصاری سے کہ ایک شخص نے کہامـیں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاوضونہ دکھاؤں؟لوگوں نے کہا کیوں نہیں!۔اس کے بعد باقی حدیث ہے۔ اورحضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث ابن عساکرنے روایت کی ہے۔(ت)

(۱؎ کنزالعمال بحوالہ ص عن الاسودبن الاسود    حدیث ۲۶۹۰۲    مؤسسۃ الرسالہ بیروت     ۹ /۴۴۶و۴۴۷)
(۲ کنزالعمال بحوالہ ش والعدنی وخط عن رجل     حدیث ۲۶۸۶۵    مؤسسۃ الرسالہ بیروت     ۹ /۴۳۷)

ان پچیس صحابہ کی بہت کثیر التعداد حدیثیں اس وقت فقیر کے پیش نظر ہیں ان مـیں کہیں وضو یـا کُلّی کرتے مـیں مسواک فرمانے کا اصلاً ذکر نہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا طریقہ وضو زبان سے بتایـا انہوں نے مسواک کا ذکر نہ کیـا،جنہوں نے اسی لئے وضو کرکے دکھایـاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مسنونہ بتائیں انہوں نے مسواک نہ کی علی الخصوص امـیر المومنین ذوالنورین وامـیر المومنین مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ دونوں حضرات سے بوجوہ کثیرہ بارہا بکثرت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کرکے دکھانا مروی ہوا،کسی بار مـیں مسواک کا ذکر نہیں۔

عثمان غنی سے راوی اُن کے مولٰی حمران  ،عند احمد والبخاری ومسلم وابی داود والنسائی وابن ماجۃ وابن خزیمۃ والبزاروابی یعلی والعدنی وابن حبان والدار قطنی وابن بشران فی امالیہ وابی نُعیم فی الحلیۃ۔ابن الجارود عند الامام الطحاوی وابن حبان والبغوی فی مسند عثمان وسعید بن منصور۔ابو وائل شقیق بن سلمہ عند عبدالرزاق وابن منیع والدارمـی وابی داؤد وابن خزیمۃ والدارقطنی۔ ابو دارہ عند احمد والدارقطنی والضیـاء۔عبدالرحمٰن سلمانی عند البغوی فیہ۔عبداللّٰہ بن جعفر ابو علقمہ کلاھما عند الدارقطنی عبداللّٰہ بن ابی مُلکیہ عند ابی داؤد ابو مالک دمشقی عند سعید بن منصور قال حُدثت ابو النضر سالم عند ابن منیع والحارث وابی یعلی ولم یلق عثمٰن ۔

سیدناعثمان غنی سے ایک راوی ان کے آزاد کردہ غلام حمران ہیں جن کی روایت امام احمد، بخاری، مسلم ، ابو داؤد، نسائی،ابن ماجہ، ابن خزیمہ، بزار،ابویعلٰی، عدنی ، ابن حبان،دارقطنی،ابن بشران نے اپنی امالی مـیں اور ابو نعیم نے حلیۃ الاولیـا مـیں ذکر کی ہے۔دوسرے راوی ابن الجارود ہیں جن کی روایت امام طحاوی،ابن حبان نے، بغوی نے مسندعثمان مـیں،اور سعید بن منصور نے ذکر کی ہے۔تیسرے راوی ابو وائل شقیق بن سلمہ ہیں جن کی روایت عبدالرزاق، ابن منیع، دارمـی، ابو داؤد، ابن خزیمہ اور دارقطنی نے ذکرکی ہے۔ چوتھے راوی ابو دارہ ہیں جن کی روایت امام احمد،دارقطنی اور ضیـاء نے ذکر کی ہے۔پانچویں راوی عبدالرحمان سلمانی ہیں جن کی روایت بغوی نے مسندِ عثمان مـیں ذکرکی ہے۔چھٹے راوی عبداللہ بن جعفر،ساتویں ابو علقمہ ہیں دونوں حضرات کی روایت دارقطنی نے ذکرکی ہے۔ آٹھویں راوی عبداللہ بن ابی مُلیکہ ہیں جن کی روایت ابو داؤد نے ذکر کی ہے۔نویں راوی ابو مالک دمشقی ہیں جن کی روایت سعیدبن منصور نے ذکرکی ہے وہ کہتے ہیں مجھ سے بیـان کیـاگیـا۔دسویں راوی ابوالنضرسالم ہیں جن کی روایت ابن منیع، حارث اور ابویعلی نے ذکرکی ہے اور انہیں حضرت عثمان کی ملاقات حاصل نہیں۔(ت)

علی مرتضٰی سے راوی عبد خیر ، عندعبدالرزاق وابی بکربن ابی شیبۃ وسعیدبن منصوروالدارمـی وابی داؤد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والطحاوی وابن منیع وابن خُزیمۃ وابی یعلی وابن الجارود وابن حبان والدارقطنی والضیـاء ابوحیہ عند عبدالرزاق وابن ابی شیبۃ واحمد وابی داؤد الترمذی والنسائی وابی یعلی والطحاوی والھروی فی مسند علی والضیـاء سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ تعالی عنہ عند النسائی وابن جریرعبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنہما عند احمد وابی داؤد وابی یعلی وابن خزیمۃ والطحاوی وابن حبان والضیـاء زربن حُبَیش عند احمد وابی داؤد سمویہ والضیـاء، ابو العریف عند احمد وابی یعلٰی، ابو مطر عند عبد بن حمـید۔

حضرت علی مرتضٰی سے ایک راوی عبدخیر ہیں جن کی روایت عبدالرزاق، ابوبکربن ابی شیبہ، سعید بن منصور، دارمـی، ابوداؤد، ترمذی، نسائی،ابن ماجہ،طحاوی،ابن منیع، ابن خزیمہ،ابو یعلی، ابن الجارود،ابن حبان،دارقطنی اورضیـاء نے ذکر کی ہے۔دوسرے راوی ابوحیہ ہیں جن کی روایت عبدالرزاق ابن ابی شیبہ،امام احمد،ابوداؤد، ترمذی،نسائی،ابو یعلی، طحاوی اور ہروی نے مسند علی مـیں اور ضیـاء نے ذکر کی ہے۔تیسرے راوی سیّدناامام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جن کی روایت نسائی،طحاوی اورابن جریرنے ذکرکی ہے۔چوتھے راوی عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ہیں جن کی روایت امام احمد، ابوداؤد، ابو یعلی،ابن خزیمہ،امام طحاوی،ابن حبان اور ضیـاء نے ذکر کی ہے۔پانچویں راوی زِربن حبیش ہیں جن کی روایت امام احمد، ابوداؤد، سمویہ اور ضیـاء نے ذکر کی ہے۔ چھٹے راوی ابو العریف ہیں جن کی روایت امام احمداورابو یعلٰی نے ذکر کی ہے۔ ساتویں راوی ابو مطر ہیں جن کی روایت عبد بن حمـید نے ذکر کی ہے۔

یوں ہی عبداللہ بن عباس وعبداللہ بن زیدرضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی احادیث کثیرہ بطریق عدیدہ مروی ہوئیں سب کی تفصیل باعثِ تطویل ان تمام حدیث کا ترک ذکر مسواک پر اتفاق تویہ بتارہا ہے کہ اس وقت مسواک نہ فرمانا ہی معتاد ورنہ کوئی تو ذکر کرتا۔

    اقول  : بلکہ صدہااحادیث متعلق وضو ومسواک اس وقت سامنے ہیںی ایک حدیث صحیح صریح سے اصلا مسواک کیلئے وقت مضمضہ یـا داخل وضو ہونے کا پتہ نہیں چلتا جن بعض سے اشتباہ ہو اُس سے دفع شُبہ کریں۔

حدیث اوّل : محقق علی الاطلاق نے صرف ایک حدیث پائی جس سے اس پر استدلال ہوسکے: حیث قال بعد ذکراحادیث وفی الصحیحین قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لولاان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک مع کل صلاۃ اوعند کل صلاۃ وعند النسائی فی روایۃ عند کل وضوء رواہ ابن خُزیمۃ فی صحیحہ وصححہا الحاکم وذکرھا البخاری تعلیقا ولا دلالۃ فی شیئ علی کونہ فی الوضوء الاھذہ وغایۃ مایفید الندب وھولا یستلزم سوی الاستحباب اذیکفیہ اذاندب لشیئ ان یتعبد بہ احیـانا ولا سنۃ دون المواظبۃ ۱؎۔

اس طرح کہ انہوں نے متعدد حدیثیں ذکر کرنے کے بعدلکھا: اور بخاری ومسلم مـیں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا:اگرمـیں اپنی امت پرگراں نہ جانتا توانہیں ہرنمازکے ساتھ،یـا ہرنمازکے وقت مسواک کاحکم دیتا۔اور نسائی کی ایک روایت مـیں ہے: ہروضوکے وقت اسے ابن خزیمہ نے اپنی صحیح مـیں روایت کیـا۔ حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام بخاری نے اسے تعلیقاً ذکرکیـا۔ان احادیث مـیں سےی مـیں مسواک کے وضوکے اندرہونے پرکوئی دلالت نہیں، مگرصرف اس روایت مـیں۔ اور یہ بھی زیـادہ سے زیـادہ ندب کاافادہ کررہی ہے اور یہ صرف استحباب کو مستلزم ہے اس لئے کہ اس مـیں یہ کافی ہے کہ حضور جبی چیز کی ترغیب دیں تو بعض اوقات اسے عبادت قرار دے دیں اورمسنون ہونا حضور کی مداومت کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔(ت)

(۱؎ فتح القدیر    کتاب الطہارۃ     مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۲۲)

اُنھی کا اتباع اُن کے تلمـیذ محقق حلبی نے حلیہ مـیں کیـا۔

اقول اولا  : احادیث فـــ مـیں مشہور ومستفیض یہاں ذکر نماز ہے یعنی لفظ: عند کل صلاۃ یـا مع کل صلاۃ رواہ مالک واحمد ۱؎والستۃعـــہ عن ابی ھریرۃ ۔ یعنی لفظ ''ہر نماز کے وقت یـا ہر نماز کے ساتھ''اسے امام مالک، امام احمد اور اصحابِ ستہ نےحضرت ابو ہریرہ سے روایت کیـا۔

فــ :تطفل علی الفتح والحلیۃ۔

(۱؎ مؤطا الامام مالک    کتا ب الطہارۃ باب ماجاء فی السواک    مـیرمحمدکتب خانہ کراچی        ص۵۱)
(مسند الامام احمدبن حنبل     عن ابی ھریرۃ        المکتب الاسلامـی بیروت     ۲ /۴۲۵)
(صحیح البخاری     کتاب الجمعہ باب السواک     قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۲۲)
(صحیح مسلم         کتاب الطہارۃ با ب السواک     قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۲۸)

عــہ : قال الشوکانی فی نیل الاوطار قال النووی غلط بعض الائمۃ الکبار فزعم ان البخاری لم یخرجہ وھوخطأ منہ وقد اخرجہ من حدیث مالک عن ابی الزناد عن الاعرج عن ابی ھریرۃ ولیس ھو فی المؤطا من ھذا الوجہ بل ھو فیہ عن ابن شہاب عن حمـید عن ابی ھریرۃ قال لولا ان ان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک مع کل وضوء ولم یصرح برفعہ قال ابن عبدالبر وحکمہ الرفع وقد رواہ الشافعی عن مالک مرفوعا۲؎ ھذا کلامہ فی النیل ثم جعل یعد بعض ماورد فی الباب ولم یعلم ماانتھی الیہ کلام الامام النووی۔
 اقول :  لااظن قولہھو فی المؤطا الخ من کلام الامام وھو خطأ فـــ اشد واعظم فان الحدیث فی المؤطا اولابعین السند المذکور فی البخاری رفعاثم متصلا بہ بالسند الاخر وقفا وقدروی ھذا ایضا معن ابن عیسٰی وایوب ابن صالح وعبدالرحمٰن بن مھدی وغیرھم عن مالک مرفوعا وھؤلاء کلھم من رواۃ المؤطا اھ منہ ۔

شوکانی نے نیل الاوطار مـیں لکھا کہ ۔امام نووی نے فرمایـا: بعض ائمہ کبارنے غلطی سے یہ دعوٰی کیـا کہ امام بخاری نے یہ حدیث روایت نہ کی، اوریہ دعوٰی غلط ہے۔ امام بخاری نے اسے امام مالک سے روایت کیـاہے وہ ابوالزنادسے ، وہ اعرج سے ، وہ ابوہریرہ سے راوی ہیں۔ اور امام مالک کی موطا مـیں یہ حدیث اس سند کے ساتھ نہیں بلکہ اس مـیں ابن شہاب زہری سے روایت ہے وہ حمـید سے،وہ ابوھریرہ سے راوی ہیں انہوں نے فرمایـا:''اگر مـیں اپنی اُمت پر گراں نہ جانتا توانہیں ہر وضوکے ساتھ  مسواک کا حکم دیتا''۔ اور اس کے مرفوع ہونے کی صراحت نہ کی۔ ابن عبدالبرنے کہا یہ مرفوع ہی کے حکم مـیں ہے۔ اوراسے امام شافعی نے امام مالک سے مرفوعاً روایت کیـاہے۔ یہ نیل الاوطار کی عبارت ہے۔ا س کے بعداس باب مـیں وارد ہونے والی کچھ حدیثیں شمارکرانا شروع کردیـا اوریہ نہ بتایـا کہ امام نووی کاکلام کہاں ختم ہوا۔
اقول : مـیں نہیں سمجھتا کہ یہ الفاظ''اور امام مالک کی مؤطا مـیں یہ حدیث اس سندکے ساتھ نہیں الخ''۔امام نووی کے کلام مـیں ہوں جب کہ یہ بہت شدید اورعظیم خطا ہے اس لئے کہ یہ حدیث مؤطامـیں پہلے بعینہ بخاری ہی کی ذکر کردہ سندکے ساتھ مرفوعاً ہے پھر اس سے متصل دوسری سندکے ساتھ موقوفاً ہے ۔اوراسے معن بن عیسٰے، ایوب بن صالح، عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہم نے بھی امام مالک سے مرفوعاً روایت کیـا ہے اور یہ سب حـضرات مؤطا کے راوی ہیں ۱۲منہ۔ (ت)

(۲؎ نیل الاوطار    ابواب السواک وسنن الفطرۃ باب الحث علی السواک     مصطفی البابی مصر    ۱ /۱۲۶)

فـــ : ردعلی الشوکانی ۔

واحمد وابو داؤد والنسائی والترمذی والضیـا عن زید بن خالد۱؎۔ واحمد بسند جید عن ام المؤمنین زینب بنت جحش ۲؎ وکابن ابی خیثمۃ وابن جریرعن ام المؤمنین ام حبیبۃ۳؎۔ والبزاروسمویہ عن انس۱؎ وھما والطبرانی وابو یعلی والبغوی والحاکم عن سیدنا العباس۲؎ واحمد والبغوی والطبرانی وابو نعیم والباوردی وابن قانع والضیـاء عن تمام بن العباس۳؎۔

امام احمد، ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ضیـاء نے زید بن خالد سے روایت کیـا۔ امام احمد نے بسندِجیّد ام المومنین زینب بنت جحش سے۔ اور ابن ابی خیثمہ وابن جریر کی طرح اُم المومنین ام حبیبہ سے روایت کیـا۔ بزاروسمویہ نے حضرت انس سے ۔
بزاروسمویہ اور طبرانی، ابویعلی،بغوی اورحاکم نے سیدنا عباس سے ۔ امام احمد، بغوی ،طبرانی، ابو نعیم، باوردی،ابن قانع اور ضیـاء نے تمام بن العباس سے۔

(۱؎مسند الامام احمد بن حنبل بقیہ حدیث زید بن خالدلجھنی    المکتب الاسلامـی بیروت     ۴ /۱۱۶)
(سنن الترمذی     ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی السواک     حدیث ۲۲     دارالفکر بیروت      ۱/ ۹۹)
(سنن ابی داؤد     کتاب الطہارۃ     باب کیف یستاک     آفتاب عالم پریس لاہور     ۱ /۷)
(کنزالعمال بحوالہ حم ،ت والضیـاء عن زید بن خالد الجھنی     حدیث ۲۶۱۹۰    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۵)
(۲؎مسند الامام احمد بن حنبل حدیث زینب بنت جحش    المکتب الاسلامـی بیروت     ۶ /۴۴۹)
(۳؎مسند الامام احمد بن حنبل حدیث ام حبیبہ بنت ابی سفیـان     المکتب الاسلامـی بیروت     ۶/ ۳۲۵)
(کنزالعمال بحوالہ ابن جریر     حدیث ۲۶۲۰۳    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت     ۹ /۳۱۷)
(۱؎کنزالعمال بحوالہ البزار     حدیث ۲۶۱۷۶    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹ / ۳۱۳
(کنزالعمال بحوالہ سمویہ     حدیث ۲۶۲۰۷    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۷)
(۲؎المعجم الکبیر     حدیث۲ ۱۳۰    المکتبہ الفیصلیہ بیروت     ۲/ ۶۴)
(المستدرک للحاکم     کتاب الطہارۃ     اولاان اشق علی امتی الخ     دارالفکر بیروت     ۱/ ۱۴۶)
(۳؎المعجم الکبیر     حدیث۳ ۱۳۰    المکتبہ الفیصلیہ بیروت     ۲/ ۶۴)
(کنزالعمال بحوالہ حم والبغوی الخ     حدیث ۲۶۲۱۱    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت     ۹/ ۳۱۸)

واحمد والباوردی عن تمام بن قثم۴؎ وصوبواکونہ عن العباس۔وعثمٰن بن سعید الدارمـی فی الرد علی الجھمـیۃ والدار قطنی فی احادیث النزول عن امـیر المؤمنین علی۔۵؎ والطبرانی فی الکبیرعن ابن عباس ۶؎ وفی الاوسط کالخطیب عن ابن عمر ۷؎ وابو نعیم فی السواک عن ابن عمرو۸؎

امام احمد وباوردی نے تمام بن قثم سے روایت کیـا اور بتایـا کہ صحیح یہ ہے کہ یہ روایت حضرت عباس سے ہے۔ عثمان بن سعید دارمـی نے الردعلی الجہمـیہ مـیں، اور دارقطنی نے احادیث نزول مـیں امـیرالمومنین حضرت علی سے۔ اور طبرانی نے معجم کبیر مـیں حضرت ابن عباس سے ۔ اور معجم اوسط مـیں خطیب کی طرح حضرت ابن عمرسے۔ اور ابو نعیم نے سواک مـیں حضرت ابن عمر وسے۔

(۴؎کنزالعمال بحوالہ حم والبغوی الخ     حدیث ۲۶۲۱۱    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت     ۹/ ۳۱۸)
(مسند الامام احمد بن حنبل حدیث قثم بن تمام اوتمام بن قثم الخ     المکتب الاسلامـی بیروت     ۳/ ۴۴۲)
(۶؎المعجم الکبیر     حدیث۲۵ ۱۱۱و۱۱۱۳۳        المکتبہ الفیصلیہ بیروت     ۱۱/ ۸۵و۸۷)
(۷؎المعجم الاوسط     حدیث ۸۴۴۳    مکتبہ المعار ف ریـاض         ۹ /۲۰۴)
(۸؎کنزالعمال بحوالہ ابی نعیم عن ابن عمر     حدیث ۲۶۱۹۶    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹/ ۳۱۶)

و سعید بن منصور عن مکحول۱؎ وابو بکر بن ابی شیبۃ عن حسان ۲؎بن عطیۃ کلاھما مرسل۔

اور سعید بن منصورنے مکحول سے اور ابو بکربن ابی شیبہ نے حسان بن عطیہ سے روایت کی۔ یہ دونوں مرسل ہیں۔(ت)

(۱؎کنزالعمال بحوالہ ص عن مکحول     حدیث ۲۶۱۹۵    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت     ۹/ ۳۱۶)
(۲؎المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الطہارات ماذکر فی السواک حدیث ۱۸۰۳      دارالکتب العلمـیہ بیروت ۱/ ۱۵۷)

    اور بعض مـیں ذکر وضو ہے یعنی :     مع کل وضوء یـا عندکل وضوء رواہ الائمۃ مالک والشافعی واحمد والنسائی وابن خزیمۃ وابن حبان والحاکم والبیھقی عن ابی ھریرۃ ۳؎

ہر وضو کے ساتھ یـا ہر وضوکے وقت ۔اسے امام مالک، امام شافعی،امام احمد،نسائی،ابن خزیمہ،ابن حبان ، حاکم اوربیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے ۔

(۳؎مؤطاالامام مالک لابن ابی شیبہ کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی السواک     مـیرمحمد کتب خانہ کراچی ص۵۱)
(الام للشافعی     کتاب الطہارۃ باب السواک     دارالکتب العلمـیہ بیروت     ۱ /۷۵)
(مسند الامام احمد بن حنبل عن ابی ھریرہ     المکتب الاسلامـی بیروت     ۲ /۲۴۵)
(سنن النسائی     کتاب الطہارۃ الرخصۃ فی السواک الخ         نورمحمدکارخانہ تجارت کتب کراچی     ۱ /۶)
(صحیح ابن خزیمہ     حدیث ۱۴۰    المکتب الاسلامـی بیروت    ۱ /۷۳)
(المستدرک للحاکم     کتاب الطہارۃ     دارلفکربیروت    ۱ /۱۴۶)
(السنن الکبری للبیہقی     کتاب الطہارۃ باب الدلیل علی ان السواک الخ     دارصادربیروت    ۱ /۳۶)

والطبرانی فی الاوسط بسند حسن عن علی ۴؎ وفی الکبیر عن تمام بن العباس ۵؎ وابن جریر عن زید بن خالد ۶؎رضی اللّٰہ تعالی عنہم اجمـین۔

اور طبرانی نے معجم اوسط مـیں بسندِ حسن حضرت علی سے ۔ اورمعجم کبیر مـیں تمام بن عباس سے۔ اور ابن جریرنے زید بن خالد سے روایت کی۔رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔(ت)

(۴؎المعجم الاوسط     حدیث ۱۲۶۰    مکتبۃ المعارف بیروت     ۲ /۱۳۸)
(۵؎المعجم الکبیر    حدیث ۱۳۰۲    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت     ۲ /۶۴)
(۶؎ کنزالعمال بحوالہ ابن جریر عن زید بن خالد حدیث ۲۶۱۹۹    موسسۃ الرسالہ بیروت     ۹ /۳۱۶ )

جب روایـات متواترہ مـیں عند کل صلاۃ یـا مع کل صلاۃ آنے سے ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک نماز سے اتصال بھی ثابت نہ ہوا بلکہ اتصال حقیقی اصلای کا قول نہیں حتی کہ شافعیہ جو اُسے سننِ نماز سے مانتے ہیں تو بعض روایـات مـیں عند کل وضوء آنے سے داخل وضو ہوناکیونکر رنگ ثبوت پائے گا۔ فلیست فــ عند لجعل مہاظرفا لموصوفہا بحیث یقع فیہ انما مفادھا القرب والحضور حسا اومعنی فلا تقول زید عند الدار اذا کان فیہا بل اذا کان قریبا منھا والقرب المفہوم ھو العرفی دون الحقیقی ولہ عرض عریض الاتری الی قولہ تعالی عند سدرۃ المنتھی عندھا جنۃ المأوی ۱؎ مع ان السدرۃ فی السماء السادسۃ کما فی صحیح مسلم عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۲؎ والجنۃ فوق السمٰوٰت ۔

کیونکہ لفظ ''عند''یہ بتانے کے لئے نہیں کہ اس کا م اس کے موصوف کاایساظرف ہے کہ وہ اسی کے اندرواقع ہے بلکہ اس کا مفاد صرف قریب اور حاضرہوناہے حسّاً یـا معنًی۔زید عندالدار(زید گھر کے پاس ہے)اُس وقت نہیں بولتے جب زید گھر کے اندر ہو بلکہ اس وقت بولتے ہیں جب گھر سے قریب ہو۔اوریہاں جو قریب سمجھاجاتاہے وہ عرفی ہوتاہے حقیقی نہیں ہوتا۔اور قرب عرفی کا مـیدان بہت وسیع ہے۔ دیکھئے باری تعالٰی کا ارشاد ہے:''سدرۃ المنتہٰی کے پاس،اسی کے پاس جنۃ الماوٰی ہے''۔حالاں کہ سدرہ چھٹے آسمان مـیں ہے۔ جیساکہ صحیح مسلم مـیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔اور جنت آسمانوں کے اوپرہے۔

فـــ : بیـان مفاد عند۔

(۱؎القرآن الکریم     ۵۳ /۱۴و۱۵)
(۲؎صحیح مسلم     کتاب الایمان باب الاسراء الخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۹۷)
وبما قررنا ظھرضعف ماوقع فی عمدۃ القاری تحت الحدیث فیہ اباحۃ السواک فی المسجد لان عند یقتضی الظرفیۃ حقیقۃ فیقتضی استحبابہ فی کل صلاۃ وعند بعض المالکیۃ کراھتہ فی المسجد لاستقذارہ والمسجد ینزہ عنہ ۱؎ اھ۔

وبما قررنا ظھرضعف ماوقع فی عمدۃ القاری تحت الحدیث فیہ اباحۃ السواک فی المسجد لان عند یقتضی الظرفیۃ حقیقۃ فیقتضی استحبابہ فی کل صلاۃ وعند بعض المالکیۃ کراھتہ فی المسجد لاستقذارہ والمسجد ینزہ عنہ ۱؎ اھ۔

ہماری اس تقریر سے اس کا ضُعف واضح ہوگیـاجوعمدۃ القاری مـیں اس حدیث کے تحت رقم ہوگیـاکہ:اس سے مسجد کے اندرمسواک کرنے کا جواز ثابت ہوتاہے، اس لئے کہ ''عند'' حقیقۃً ظرفیت چاہتاہے تواس کا تقاضایہ ہوگاکہ مسواک ہرنمازکے اندرمستحب ہو۔ اور بعض مالکیہ کے نزدیک یہ ہے کہ مسجد مـیں مسواک کرنامکروہ ہے کیونکہ اس سے گندگی ہوگی اور مسجدکواس سے بچایـاجائے گااھ۔

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب السواک یوم الجمعۃ تحت حدیث ۸۸۷دارالکتب العلمـیہ بیروت۶ /۲۶۳)

    اقول اولا  : فــ۱حقیقۃالظرفیۃغیر معقولۃ فی الصّلوٰۃ ولا ھی مفاد عند کما علمت۔

    اقول  : ا س پرچند کلام ہیں، اول  : نماز کے اندرحقیقی ظرفیت کاتصورنہیں ہوسکتااوریہ ''عند''کا مفاد بھی نہیں جیساکہ ابھی واضح ہوا۔

فــ۱:تطفل علی الامام العینی ۔

وثانیـا  : قد قال فــ۲الامام العینی نفسہ قبل ھذا بورقۃ مانصہ فان قلت کیف التوفیق بین روایۃ عند کل وضوء وروایۃ عند کل صلاۃ قلت السواک الواقع عند الوضوء واقع للصلاۃ لان الوضوء شرع لہا ۲؎ اھ۔

دوم  : اس سے ایک ورق پہلے خود امام عینی یہ لکھ چکے ہیں: اگرسوال ہوکہ عندکل وضوء کی روایت اور عند کل صلوٰۃ کی روایت مـیں تطبیق کیسے ہوگی؟ تومـیں کہوں گا: وضو کے وقت ہونے والی مسواک نماز کے لئے بھی واقع ہے اس لئے کہ وضو نماز ہی کے لئے مشروع ہواہے اھ۔

فــ۲:تطفل آخرعلیہ ۔

(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب السواک یوم الجمعۃ تحت حدیث ۸۸۷دارالکتب العلمـیہ بیروت۶ /۲۶۰)

وثالثا : کیف فــ۳یباح الاستیـاک فــ۴ فی المسجد مع حرمۃ المضمضۃ والتفل فیہ والسواک یستعمل مبلولا ویستخرج الرطوبات فلا یؤمن ان یقطر منھا شیئ وکل ذلک لایجوز فی المسجد الا ان یکون فی اناء اوموضع فیہ معد لذلک من حین البناء کما بیناہ فی فتاوٰنا۔

سوم : مسجدمـیں مسواک کرنا،جائزکیسے ہوگا جب اس مـیں کُلی کرنااور تھوکناحرام ہے ۔اورمسواک ترکرکے استعمال ہوتی ہے اورمنہ سے رطوبتیں بھی نکالتی ہے جن مـیں سے کچھ مسجد مـیں ٹپکنے کابھی اندیشہ ہے اور یہ سب مسجد مـیں جائز نہیں مگریہ کہی برتن کے اندر ہویـا کوئی ایسی جگہ ہو جو تعمـیر مسجدکے وقت ہی سے اسی لئے بنارکھی گئی ہو۔جیسا کہ اسے ہم نے اپنے فتاوٰی مـیں بیـان کیـاہے۔

فــ۳:تطفل ثالث علیہ ۔
فــ۴:مسئلہ مسجد مـیں مسواک کرنی نہ چاہیے ۔مسجد مـیں کلی کرناحرام مگریہ کہی برتن مـیں یـابانی مسجد نے وقت بنا ئے مسجداس مـیں کوئی جگہ خاص اس کام کے لئے بنادی ہوورنہ اجازت نہیں ۔

و رابعا  : ما ذکرہ فــ۱لیس قول بعض المالکیۃ بل قول امام دارالھجرۃنفسہ حکاہ عند القرطبی فی المفھم کما فی المواھب اللدنیۃ۔

چہارم  : جو انہوں نے ذکرکیـا وہ بعض مالکیہ کاقول نہیں بلکہ خودامام دارالہجرۃ کا قول ہے ان سے قرطبی نے المفہم مـیں اس کی حکایت کی ہے ، جیساکہ مواہب لدنیہ مـیں ہے۔

فــ۱:تطفل رابع علیہ ۔

ثانیـا  : عند الوضوء فــ۲ مـیں خصوصیت وقت مضمضہ بھی نہیں تو حدیث اگر بوجہ عدم افادہ مواظبت سنیت ثابت نہ کرےبوجہ عدم تعین وقت استحباب عند المضمضہ بھی نہ بتائےفافہم۲مـیں خصوصیت وقت مضمضہ بھی نہیں تو حدیث اگر بوجہ عدم افادہ مواظبت سنیت ثابت نہ کرےبوجہ عدم تعین وقت استحباب عند المضمضہ بھی نہ بتائےفافہم

فــ۲:تطفل آخرعلی الفتح ۔

    حدیث دوم  : طبرانی اوسط مـیں ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان العبداذا غسل رجلیہ خرجت خطایـاہ واذا غسل وجہہ وتمضمض وتشوص واستنشق ومسح براسہ خرجت خطایـا سمعہ وبصرہ ولسانہ واذا غسل ذراعیہ وقدمـیہ کان کیوم ولدتہ امہ ۱؎۔

بے شک بندہ جب اپنے پاؤں دھوتاہے اُس کے گناہ دورہوجاتے ہیں اورجب مُنہ دھوتااورکُلی کرتادھوتا مانجھتاپانی سونگھتاسرکا مسح کرتاہے اس کے کانوں ، آنکھوں اور زبان کے گناہ

نکل جاتے ہیں،اورجب کلائیـاں اورپاؤں دھوتاہے ایسا ہوجاتاہے جیسا اپنی ماں سے پیدا ہوتے وقت تھا۔

(۱؎المعجم الاوسط     حدیث ۴۳۹۴    مکتبۃ المعارف ریـاض     ۵ /۲۰۲)
(کنز العمال    حدیث ۲۶۰۴۸     موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹ /۲۸۹)

    اقول اولا  : شوص دھونا اور پاک کرنا ہے کما فی الصحاح (جیساکہ صحاح مـیں ہے ۔ت)

وقال الرازی: الشوص الغسل والتنظیف ۲؎ اھ

شوص کے معنے دھونا اورصاف کرناہے اھ۔(ت)

(۲؎ الصحاح( للجوہری)     با ب الصاد فصل الشین     داراحیـاء التراث العربی بیروت     ۳ /۸۷۶)

وفی القاموس الدلک بالید ومضغ السواک والاستنان بہ اوالا ستیـاک ووجع الضرس والبطن والغسل والتنقیۃ ۱؎۔

اور قاموس مـیں ہے: ہاتھ سے ملنا۔مسواک چبانا اور اس سے دانت مانجنا۔یـامسواک کرنا۔ڈاڑھ اور پیٹ کادرد ۔ دھونا اور صاف کرنا۔(ت)

(۱؎ القاموس المحیط    باب الصاد فصل الشین    مصطفی البابی مصر        ۲ /۳۱۸)

    ثانیـا : حدیث مـیں افعال بترتیب نہیں تو ممکن کہ مسواک سب سے پہلے ہو اور یہی حدیث کہ امام احمد نے بسند حسن مرتباً روایت کی اس مـیں ذکر شوص نہیں، اس کے لفظ یہ ہیں: عن ابی امامۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قال ایما رجل قام الی وضوئہ یرید الصلاۃ ثم غسل کفیہ نزلت کل خطیئۃ من کفیہ مع اول قطرۃ فاذا مضمض واستنشق واستنثر نزل کل خطیئۃ من لسانہ وشفتیہ مع اول قطرۃ فاذا غسل وجہہ نزلت کل خطیئۃ من سمعہ وبصرہ مع اول قطرۃ فاذا غسل یدہ الی المرفقین ورجلہ الی الکعبین سلم من کل ذنب کھیـاۃ یوم ولدتہ امہ ۲؎۔ (حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا:)جب آدمـی نماز کے ارادے سے وضو کواٹھے پھر ہاتھ دھوئے توہاتھ کے سب گناہ پہلے قطرہ کے ساتھ نکل جائیں،پھر جب کُلی کرے اور ناک مـیں پانی ڈالے اور صاف کرے زبان ولب کے سب گناہ پہلی بوند کے ساتھ ٹپک جائیں،پھر جب منہ دھوئے آنکھ کان کے سب گناہ پہلے قطرہ کے ساتھ اُترجائیں، پھر جب کُہنیوں تک ہاتھ اور گٹّوں تک پاؤں دھوئے سب گناہوں سے ایساخالص ہوجائے جیساجس دن ماں کے پیٹ سے پیداہواتھا۔

(۲؎ مسند احمد بن حنبل عن ابی امامۃ الباہلی         المکتب الاسلامـی بیروت    ۵ /۲۶۳)

فائدہ: فــ یہ نفیس وعظیم بشارت کہ امت محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر رب عزوجل کا عظیم فضل اور نمازیوں کیلئے کمال تہنیت اور بے نمازوں پر سخت حسرت ہے بکثرت احادیث صحیحہ معتبرہ مـیں وارد ہوئی اس معنی کی حدیثیں حدیث ابو امامہ کے علاوہ صحیح مسلم شریف مـیں امـیر المومنین عثمٰن عـ۱ غنی وابو ہریرہ عــ۲ وعمرو بن عــ۳ عبسہ اور مالک واحمد ونسائی وابن ماجہ وحاکم کے یہاں عبداللہ صنابحی اور طحاوی ومعجم کبیر طبرانی مـیں عباد والد ثعلبہ اور مسند احمد مـیں مرہ بن کعب اور مسند مسددو ابی یعلی مـیں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مروی ہیں ان مـیں حدیث صنابحی وحدیث عمرو سب سے اتم ہیں کہ ان مـیں ناک کے گناہوں کا بھی ذکر ہے اور مسحِ سر کرنے سے سر کے گناہ نکل جانے کا بھی۔

فــ  : وضوسے گناہ دھلنے کی حدیثیں۔
عــ۱ : رواہ ایضااحمد وابن ماجۃ ۱۲منہ ۔
عــ۱ : اوراسے امام احمد وابن ماجہ نے بھی روایت کیـا۱۲منہ (ت)۔
عــ۲ : ورواہ ایضامالک والشافعی والترمذی والطحاوی ۱۲منہ۔
عــ۲  : اوراسے اما م مالک،اما م شافعی اورترمذی وطحاوی نے بھی روایت کیـا۱۲منہ (ت)
عــ۳:  ورواہ ایضا احمدوابوبکر بن ابی شیبۃ والامام الطحاوی والضیـاء وھوعند الطبرانی فی الاوسط مختصراوابن زنجویۃ بسندصحیح ۱۲منہ ۔
عــ۳ : اوراسے امام احمد ابوبکربن ابی شیبہ ،امام طحاوی اورضیـاء نے بھی روایت کیـااوریہ طبرانی کی معجم اوسط مـیں مختصرا اورابن زنجویۃ کے یہاں بسندصحیح مروی ہے ۱۲منہ (ت)

ففی الاول اذا استنثر خرجت الخطایـا من انفہ ثم قال بعد ذکر الوجہ والیدین فاذا مسح رأسہ خرجت الخطایـا من رأسہ حتی تخرج من اذنیہ۱؎

حدیث صنابحی مـیں یہ ہے:''جب ناک صاف کرے توناک کے گناہ گرجائیں''۔پھر چہرہ اور دونوں ہاتھوں کے ذکر کے بعد ہے:''پھراپنے سرکامسح کرے تو اس کے سر سے گناہ نکل جائیں یہاں تک کہ کانوں سے بھی نکل جائیں''۔

(۱؎کنز العمال بحوالہ مالک ،حم،ن،ھ،ک    حدیث۲۶۰۳۳    مؤسسۃ الرسالۃبیروت    ۹ /۲۸۵)
(مؤطا الامام مالک    کتاب الطہارۃ،باب جامع الوضوء    مـیر محمد کتب خانہ کراچی    ص۲۱)
(مسند احمد بن حنبل     حدیث ابی عبد اللہ الصنابحی    المکتب الاسلامـی بیروت    ۴ /۳۴۸ و ۳۴۹)
(سنن النسائی    کتاب الطہارۃ،باب مسح الاذنین مع الرأس    نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱ /۲۹)
(المستدرک للحاکم    کتاب الطہارۃ            دار الفکر بیروت        ۱ /۱۲۹)

وفی الثانی مامنکم رجل یقرب وضوء ہ فیتمضمض ویستنشق ویستنثر الاخرجت خطایـا وجہہ من فیہ وخیـاشمہ ثم قال بعد ذکر الوجہ والیدین ثم یمسح رأسہ الاخرجت خطایـا رأسہ من اطراف شعرہ مع الماء ۱؎۔

اورحدیثِ عمرو مـیں ہے :''تم مـیں جوبھی وضو کے لئے جاکر کُلی کرے ناک مـیں پانی ڈالے اور جھاڑ ے تواس کے چہرے کے گناہ منہ سے اور ناک کے بانسوں سے نکل پڑیں''۔پھرچہرہ اور دونوں ہاتھوں کے ذکرکے بعد ہے:'' پھراپنے سرکامسح کرے تواس کے سر کے گناہ بال کے کناروں سے پانی کے ساتھ گرجائیں''۔(ت)

(۱؎ کنزالعمال بحوالہ مالک ،حم ،م    حدیث ۲۶۰۳۵     مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۹ /۲۸۶)
(صحیح مسلم     کتاب صلوۃالمسافرین،باب اسلام عمروبن عبسۃ     قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۲۷۶)

بہت علماء فرماتے ہیں یہاں گناہوں سے صغائر مراد ہیں۔

اقول: تحقیق یہ ہے کہ کبائر بھی دُھلتے ہیں اگرچہ زائل نہ ہوں یہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ اکابر اولیـائے کرام قدست اسرارہم کا مشاہدہ ہے جسے فقیر نے رسالہ ''الطرس المعدل فی حدالماء المستعمل(۱۳۲۰ھ)'' مـیں ذکر کیـا اور کرم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بحرِ بے پایـاں ہے حدث عن البحر ولاحرج والحمدللّٰہ رب العٰلمـین (بحرسے بیـان کیـا،اس مـیں کوئی حرج نہیں والحمدللہ رب العلمـین ۔ت)اور بات وہ ہے جو خود مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت بیـان کرکے ارشاد فرمائی کہ لاتغتروا اس پر مغرور نہ ہونا رواہ البخاری۲؎عن عثمٰن ذی النورین رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم وحسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل۔

(۲؎ صحیح البخاری     کتاب الرقاق باب  یـایہاالناس ان وعد اللہ حق...الخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۵۲)

حدیث سوم : سنن بیہقی مـیں ہے: عن عبداللّٰہ بن المثنی قال حدثنی بعض اھل بیتی عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلا من الانصار من بنی عمرو بن عوف قال یـا رسول اللّٰہ انک رغبتنا فی السواک فھل دون ذلک من شیئ قال اصبعک سواک عند وضوء ک تمر بھا علی اسنانک انہ لاعمل لمن لانیۃ لہ ولا اجر لمن لاخشیۃ لہ ۱؎۔

عبداللہ بن المثنی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں مجھے مـیرے گھر والوں مـیں سےی نے بیـان کیـاکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایـا کہ بنی عمرو بن عوف سے ایک انصاری نے عرض کی یـارسول اللہ! حضورنے مسواک کی طرف ہمـیں ترغیب فرمائی کیـااس کے سوابھی کوئی صورت ہے؟ فرمایـا: وضوکے وقت تیری انگلی مسواک ہے کہ اپنے دانتوں پرپھیرے،بیشک بے نیت کے کوئی عمل نہیں اوربے خوف الہٰی کے ثواب نہیں۔

(۱؎ السنن الکبری    کتاب الطہارۃ،باب الاستیـاک بالاصابع        دارصادربیروت    ۱ /۴۱)

اقول اولاً  : یہ حدیث ضعیف ہے لما تری من الجہالۃ فی سندہ وقد ضعفہ البیہقی۔ (جیساکہ تو دیکھتا ہے اس کی سند مـیں جہالت ہے،اور امام بیہقی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ت)

ثانیـا و ثالثاً  : لفظ عند وضوء ک مـیں وہی مباحث ہیں کہ گزرے۔

حدیث چہارم  : ایک حدیث مرسل مـیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: الوضوء شطر الایمان والسواک شطر الوضوء رواہ ابو بکر بن ابی شیبۃ۲؎ عن حسان بن عطیۃ و رستۃ فی کتاب الایمان عنہ بلفظ السواک نصف الوضوء والوضوء نصف الایمان۳؎ ۔

وضوایمان کا حصّہ ہے اور مسواک وضوکاحصہ ہے۔اس کو ابوبکربن ابی شیبہ نے حسان بن عطیہ سے روایت کیـا،اور رستہ نے اس کو ان سے کتاب الایمان مـیں ان الفاظ سے روایت کیـاکہ:مسواک نصف وضو ہے اور وضونصف ایمان۔(ت)

(۲؎ المصنّف لابن ابی شیبہ    ماذکر فی السواک    حدیث ۱۸۰۳    دارالکتب العلمـیہ بیروت ۱ /۱۵۷)
(۳؎ الجامع الصغیر(للسیوطی )     بحوالہ رستۃ         حدیث ۴۸۳۵    دارالکتب العلمـیہ بیروت ۲ /۲۹۷)

اقول : یعنی ایمان بے وضو کامل نہیں ہوتا اور وضو بے مسواک۔اس سے مسواک کا داخل وضو ہونا ثابت نہیں ہوتا جس طرح وضو داخل ایمان نہیں ہاں وجہ تکمـیل ہونا مفہوم ہوتا ہے وہ ہر سنت کیلئے حاصل ہے قبلیہ ہو یـا بعدیہ جس طرح صبح و ظہر کی سنتیں فرضوں کی مکمل ہیں واللہ تعالٰی اعلم۔

ثالثا  اقول  : جب محقق ہو لیـا کہ مسواک سنّت ہے اور ہمارے علما اُسے سنّتِ وضو مانتے اور شافعیہ کے ساتھ اپنا خلاف یونہی نقل فرماتے ہیں کہ اُن کے نزدیک سنّتِ نماز ہے اور ہمارے نزدیک سنّتِ وضو اور متون مذہب قاطبۃًیک زبان یک زبان صریح فرمارہے ہیں کہ مسواک سننِ وضو سے ہے تو اُس سے عدول کی کیـا وجہ ہے،سنّتِ شے قبلیہ ہوتی ہے یـا بعدیہ یـا داخلہ جیسے رکوع مـیں تسویہ ظہر۔ مگر روشن بیـانوں سے ثابت ہواکہ مسواک وضو کی سنت داخلہ نہیں کہ سنت بے مواظبت نہیں اور وضو کرتے مـیں مسواک فرمانے پر مداومت درکنار اصلا ثبوت ہی نہیں اور سنت بعدیہ نہ کوئی مانتا ہے نہ اس کا محل ہے کہ مسواک سے خون نکلے تو وضو بھی جائے۔

بحرالرائق مـیں ہے: وعللہ السراج الھندی فی شرح الھدایۃ بانہ اذا استاک للصلاۃ ربما یخرج منہ دم وھو نجس بالاجماع وان لم یکن ناقضا عندالشافعی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۱؎ ۔

اور سراج ہندی نے اپنی شرح ہدایہ مـیں اس کی علّت یہ بیـان فرمائی کہ جب نماز کے لئے وضوکرے گاتوبعض اوقات اس سے خون نکل جائے گا۔ اوریہ بالاجماع نجس ہے اگرچہ امام شافعی کے نزدیک ناقضِ وضو نہیں۔(ت)

(۱؎ البحرالرائق        کتاب الطہارۃ ،سنن الوضوء     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۰)

لاجرم ثابت ہواکہ سنت قبلیہ ہے اوریہی مطلوب تھااورخود حدیث صحیح مسلم اس کی طرف ناظر،اورحدیث ابی داؤد اس مـیں نص ۔ کما تقدم اما تعلیل التبیین عدم استنانہ فی الوضوء بانہ لایختص بہ ۔ جیسا کہ گزرا،مگر تبیین مـیں مسواک کے سنتِ وضونہ ہونے کی علّت یہ بتانا کہ مسواک وضو کے ساتھ خاص نہیں۔(ت)

اقول  اولا  : لا یلزم فـــ۱ لسنۃ الشیئ الاختصاص بہ الا تری ان ترک اللغوسنۃ مطلقا ویتأکد استنانہ للصائم والمحرم والمعتکف والتسمـیۃ کمالا تختص بالوضوء لاتختص بالاکل ولا یسوغ انکار انھا سنۃ للاکل،وثانیـا اذافـــ۲ واظب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی شیئ فی شیئین فہل یکون ذلک سنۃ فیہما او فی احدھما اولا فی شیئ منھما الثالث باطل و الا یختلف المحدود مع صدق الحد وکذا الثانی مع علاوۃ الترجیح بلا مرجح فتعین الاول وثبت ان الاختصاص لایلزم الاستنان۔

اقول : اس پر اوّلا یہ کلام ہے کہ سنّتِ شَے ہونے کے لئے یہ لازم نہیں کہ اس شَے کے ساتھ خاص بھی ہو۔دیکھئے ترک لغومطلقاً سنت ہے اورروزہ درا،صاحبِ احرام اورمعتکف کے لئے اس کامسنون ہونااورمؤکّد ہو جاتاہے۔ اورتسمـیہ جیسے وضو کے ساتھ خاص نہیں کھانے کے ساتھ بھی خاص نہیں مگر تسمـیہ کے کھانے کی سنت ہونے سے انکارکی گنجائش نہیں۔دوسرا کلام یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمـی عمل پردوچیزوں کے اندر مواظبت فرمائیں تووہ ان دونوں مـیں سنت ہوگا یـاایک مـیں ہوگایـاکسی مـیں نہ ہوگا۔تیسری شق باطل ہے ورنہ لازم آئے گا کہ تعریف صادق ہے اور مُعَرَّف صادق ہی نہیں۔یہی خرابی دوسری شق مـیں بھی لازم آئے گی،مزیدبرآں ترجیح بلامرجّح بھی۔توپہلی شق متعین ہوگئی اورثابت ہوگیـا کہ سنت ہونے کے لئے خاص ہونا لازم نہیں۔

فـــ۱:تطفل علی الامام الزیلعی ۔
فـــ۲:تطفل آخرعلیہ ۔

اما ما فی عمدۃ القاری اختلف العلماء فیہ فقال بعضھم انہ من سنۃ الوضوء وقال اخرون انہ من سنۃ الصلاۃ وقال اخرون انہ من سنۃ الدین وھو الاقوی نقل ذلک عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۱؎ اھ ذکرہ فی باب السواک من ابواب الوضوء زاد فی باب السواک یوم الجمعۃ ان المنقول عن ابی حنیفۃ انہ من سنن الدین فحینئذ یستوی فیہ کل الاحوال ۲؎ اھ۔

اب رہا وہ جو عمدۃ القاری مـیں ہے:اس کے بارے مـیں علماء کااختلاف ہے،بعض نے فرمایـا سنتِ وضوہے بعض دیگر نے کہاسنتِ نماز ہے۔اور کچھ حضرات نے فرمایـاسنتِ دین ہے، اوریہی زیـادہ قوی ہے،یہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے اھ،یہ علامہ عینی نے ابواب الوضو کے باب السواک مـیں ذکرکیـا،اور باب السواک یوم الجمعہ مـیں اتنا اضافہ کیـا:امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ''مسواک دین کی سنتوں مـیں سے ہے''۔تو اس مـیں تمام احوال برابر ہوں گے اھ۔

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب الوضوء ،باب السواک تحت حدیث ۲۴۴ دارالکتب العلمـیہ بیروت ۳ /۲۷۴)
(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب الجمعۃ،باب السواک...الخ تحت حدیث ۸۸۷ دارالکتب العلمـیہ بیروت ۶ /۲۶۱)

اقول   : یؤیدہ حدیث الدیلمـی عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم السواک سنۃ فاستاکوا ای وقت شئتم۳؎ ۔

اقول : اس کی تائید دیلمـی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا:مسواک سنت ہے توتم جس وقت چاہومسواک کرو۔

(۳؎ کنزالعمال بحوالہ فر    حدیث ۲۶۱۶۳    مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۹ /۳۱۱)

ولکن اوَّلاً :  لاکونہ فــ۱ سنۃ فی الوضوء ینفی کونہ من سنن الدین بل یقررہ ولاکونہ سنۃ مستقلۃ ینافی کونہ من سنن الوضوء کما قررنا الا تری ان الماثور عنہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ انہ من سنن الدین واطبقت حملۃ عرش مذھبہ المتین المتون انہ من سنن الوضوء ونصھا عین نصہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ۔

لیکن اوّلاً  : نہ تواس کاسنتِ وضوہونا، سنتِ دین ہونے کی نفی کرتاہے۔بلکہ اس کی تائیدکرتاہے۔ اورنہ ہی اس کا سنت مستقلہ ہونا، سنتِ وضو ہونے کے منافی ہے جیسا کہ ہم نے تقریر کی۔ یہی دیکھئے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ مسواک دین کی ایک سنت ہے اوران کے مذہب متین کے حامل جملہ متون کااس پر اتفاق ہے کہ مسواک وضو کی ایک سنت ہے۔اورنصِ متون خود امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کانص ہے۔

فــ۱:تطفل علی الامام العینی۔

وثانیـا : ھذا الامام العینی فــ۲نفسہ ناصا قبل ھذا بنحو ورقۃ ان باب السواک من احکام الوضوء عند الاکثرین ۱؎ اھ فلم نعدل عن قول الاکثرین وعن اطباق المتون لروایۃ عن الامام لاتنافیہ اصل۔

ثانیـاً  : خود امام عینی نے اس سے ایک ورق پہلے صراحت فرمائی ہے کہ اکثرحضرات کے نزدیک مسواک کاباب احکامِ وضوسے ہے اھ توہم قولِ اکثراوراتفاق متون سے امام کی ایک ایسی روایت کے سبب عدول کیوں کریں جو اس کے منافی بھی نہیں ہے۔

فــ۲:تطفل آخرعلیہ ۔

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب الوضوباب السواک     دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۳ /۲۷۲)

وثالثا:  اعجب فــ۳من ھذا قولہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی شرح قول الکنز وسنتہ غسل یدیہ الی رسغیہ ابتداء کالتسمـیۃ والسواک اذ قال الامام الزیلعی قولہ والسواک یحتمل وجھین احدھما ان یکون مجرورا عطفا علی التسمـیۃ والثانی ان یکون مرفوعا عطفا علی الغسل والاول اظھر لان السنۃ ان یستاک عند ابتداء الوضوء۱؎ اھ مانصہ بل الاظھر ھو الثانی لان المنقول عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ علی ما ذکرہ صاحب المفید ان السواک من سنن الدین فحینئذ یستوی فیہ کل الاحوال ۲؎ اھ۔

ثالثا  : اس سے زیـادہ عجیب شرح کنز مـیں علامہ عینی کاکلام ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ کنز کی عبارت یہ ہے:''سنتہ غسل یدیہ الی رسغیہ ابتداء کالتسمـیۃ والسواک''۔(وضو کی سنت گٹوں تک دونوں ہاتھوں کو شروع مـیں دھونا ہے جیسے تسمـیہ اور مسواک)۔اس پر امام زیلعی نے فرمایـا:لفظ السواک کی دو ترکیبیں ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ لفظ التسمـیۃ پر معطوف ہوکرمجرورہو۔دوسری یہ کہ لفظ غسل (دھونا) پر معطوف ہوکر مرفوع ہو۔ اوراول زیـادہ ظاہر ہے اس لئے کہ سنت یہ ہے کہ ابتدائے وضوکے وقت مسواک کرے اھ۔ اس پر علامہ عینی فرماتے ہیں: بلکہ زیـادہ ظاہر ثانی ہے اس لئے کہ جیسا کہ صاحبِ مفید نے ذکرکیـا ہے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول یہ ہے کہ مسواک دین کی سنتوں مـیں سے ہے تواس صورت مـیں اس کے اندرتمام احوال برابر ہیں اھ۔

فــ۳:ثالث علیہ۔

(۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ ،سنن الوضوء    دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۱ /۳۵)
(۲؎ حاشیۃ الشلبی علٰی تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۱ /۳۵)

اقول : کونہ من سنن الدین کان یقابل عندکم کونہ من سنن الوضوء فما یغنی الرفع مع کونہ عطفا علی خبر سنتہ ای سنۃ الوضوء وبوجہ اخرفـــ ما المراد باستواء الاحوال نفی ان یختص بہ حال بحیث تفقد السنیۃ فی غیرہ ام نفی التشکیک بحسب الاحوال بحیث لایکون التصاقہ ببعضھا ازید من بعض علی الاول لاوجہ لاستظہار الثانی فلو کان سنۃ فی ابتداء الوضوء ای اشد طلبا فی ھذا الوقت والصق بہ لم ینتف استنانہ فی غیر الوضوء وعلی الثانی لاوجہ للثانی ولا للاول فضلا عناحدھما اظھر من الاخر۔

اقول : آپ کے نزدیک مسواک کا سنتِ دین ہونا،سنتِ وضو ہونے کے مقابل تھا تولفظ السواک کے مرفوع ہونے سے کیـاکام بنے گاجب کہ وہ لفظ سنتہ (یعنی سنتِ وضو)کی خبرپرعطف ہوگا(یعنی یہ ہوگاکہ اور - وضو کی سنت-مسواک کرنابھی ہے۔ تواس ترکیب پربھی سنتِ دین کے بجائے سنتِ وضو ہوناہی نکلتاہے۱۲م) بطرزِ دیگر تمام احوال کے برابر ہونے سے کیـا مراد ہے (۱)یہ کہی حال مـیں مسواک کی ایسی کوئی خصوصیت نہیں جس کے باعث وہ دوسرے حال مـیں مسنون  نہ رہ جائے (۲)یـا احوال کے لحاظ سے تشکیک کی نفی مقصود ہے اس طرح کہ مسواک کابعض احوال سے تعلق بعض دیگر سے زیـادہ نہ ہو۔اگرتقدیراول مراد ہے تولفظ السواک کے رفع کوزیـادہ ظاہرکہنے کی کوئی وجہ نہیں۔کیونکہ مسواک اگر ابتدائے وضو مـیں سنت ہو۔یعنی اس وقت مـیں اس کا مطالبہ اوراس سے اس کا تعلق زیـادہ ہو۔تواس سے غیر وضو مـیں اس کی مسنونیت کی نفی نہیں ہوتی۔برتقدیر دوم نہ ترکیب ثانی کی کوئی وجہ رہ جاتی ہے نہ ترکیب اوّل کیی ایک کادوسری سے زیـادہ ظاہر ہوناتودرکنار۔(کیونکہ تمام احوال کے برابر ہونے کا مطلب جب یہ ٹھہراکہی بھی حال سے اس کا تعلق دوسرے سے زیـادہ نہیں، تو نہ یہ کہنے کی کوئی وجہ رہی کہ ابتدائے وضومـیں سنت ہے نہ یہ ماننے کی وجہ رہی کہ وضو مـیں مطلقاً سنّت ہے۱۲م)

فــ:تطفل رابع علیہ ۔

والعجب من البحر صاحب البحرانہ جعل الاولیوقتہ عند المضمضۃ لاقبل الوضوء وتبع الزیلعی فی ان الجر اظھر لیفید ان الابتداء بہ سنۃ نبہ علیہ اخوہ فی النھر رحمھم اللّٰہ تعالی جمـیعا۔

اور صاحبِ بحر پرتعجب ہے کہ ایک طرف توانہوںنے یہ ماناہے کہ وقت مسواک حالتِ مضمضہ مـیں ہونا اولٰی ہے قبلِ وضونہیں،اوردوسری طرف انہوںنے کنز مـیں لفظ السواک کاجرزیـادہ ظاہر ماننے مـیں امام زیلعی کی پیروی بھی کرلی ہے جس کا مفادیہ ہے مسواک وضو کے شروع مـیں ہوناسنّت ہے۔ اس پر ان کے برادر نے النہر الفائق مـیں تنبیہ کی، رحمہم اللہ تعالٰی جمـیعا۔

اما تعلیل الفتح ان لاسنیۃ دون المواظبۃ۱؎ ولم تثبت عند الوضوء۔

اب رہی فتح القدیر کی یہ تعلیل کہ بغیر مداومت کے سنّیت ثابت نہیں ہوتی اور وقتِ وضو مداومت ثابت نہیں۔

(۱؎فتح القدیر    کتاب الطہارۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر         ۱/ ۲۲)

اقول :  الدلیل فـــ۱ اعم من الدعوی فان المقصود نفی الاستنان للوضوء والدلیل نفی کونہ من السنن الداخلۃ فیہ فلم لایختار کونہ سنۃ قبلیۃ للوضوء۔

اقول: دلیل دعوی سے اعم ہے،اس لئے کہ مدعایہ ہے کہ مسواک وضو کے لئے سنت نہیں۔ اور دلیل یہ ہے کہ مسواک وضو کے اندر سنت نہیں ۔ توکیوں نہ یہ اختیـارکیـاجائے کہ مسواک وضو کی سنتِ قبلیہ ہے(یعنی وضو کے اندر تو نہیں مگر اس سے پہلے مسواک کرلینا سنتِ وضو ہے۱۲م)

فـــ۱:تطفل علی الفتح ۔

بالجملہ : بحکم متون واحادیث اظہر،وہی مختار بدائع وزیلعی وحلیہ ہے کہ مسواک وضو کی سنت قبلیہ ہے، ہاں سنت مؤکدہ اُسی وقت ہے جبکہ منہ مـیں تغیر ہو،اس تحقیق پر جبکہ مسواک وضو کی سنّت ہے مگر وضو مـیں نہیں بلکہ اُس سے پہلے ہے تو جو پانی کہ مسواک مـیں صرف ہوگا اس حساب سے خارج ہے سنّت یہ ہے کہ مسواک فـــ۲ کرنے سے پہلے دھولی جائے اور فراغ کے بعد دھو کر رکھی جائے اور کم از کم اُوپر کے دانتوں اور نیچے کے دانتوں مـیں تین تین بار تین پانیوں سے کی جائے۔

فـــ۲:مسئلہ مسواک دھو کر کی جائے اور کرکے دھولیں اورکم ازکم تین تین بارتین پانیوں سے ہو۔

دُرمختار مـیں ہے : اقلہ ثلاث فی الاعالی وثلاث فی الاسافل بمـیاہ ثلثۃ ۲؎۔

اس کی کم سے کم مقداریہ ہے کہ تین بار اوپرکے دانتوں مـیں، تین بارنیچے کے دانتوں مـیں، تین تین پانیوں سے ہو۔

(۲؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی       ۱ /۲۱)

صغیری مـیں ہے: یغسلہ عد الاستیـاک وعند الفراغ منہ ۱؎۔

مسواک کو مسواک کرنے کے وقت اوراس سے فارغ ہونے کے بعد دھولے۔(ت)

(۱؎ صغیری شرح منیۃ المصلی     ومن الآداب ان یستاک     مطبع مجتبائی دہلی     ص۱۴)

(۵) اس قدر تو درکار ہی ہے اور اُس کے ساتھ اگر منہ مـیں کوئی تغیر رائحہ ہوا تو جتنی بار مسواک اور کُلّیوں سے اس کا ازالہ ہو لازم ہے اس کیلئے کوئی حد مقرر نہیں بدبو دار کثیف فــ۱ بے احتیـاطی کا حقّہ پینے والوں کو اس کا خیـال سخت ضروری ہے اور اُن سے زیـادہ سگریٹ والے کہ اس کی بدبو مرکب تمباکو سے سخت تر اور زیـادہ دیرپا ہے اور ان سب سے زائد اشد ضرورت تمباکو کھانے والوں کو ہے جن کے منہ مـیں اُس کا جِرم دبا رہتا اور منہ کو اپنی بدبو سے بسا دیتا ہے یہ سب لوگ وہاں تک مسواک اور کُلّیـاں کریں کہ منہ بالکل صاف ہوجائے اور بُو کا اصلاً نشان نہ رہے اور اس کا امتحان یوں ہے کہ ہاتھ اپنے منہ کے قریب لے جاکر منہ کھول کر زور سے تین بار حلق سے پوری سانس ہاتھ پر لیں اور معاً سونگھیں بغیر اس کے اندر کی بدبو خود کم محسوس ہوتی ہے،اور جب منہ مـیں فــ۲ بدبو ہوتو مسجد مـیں جانا حرام نماز مـیں داخل ہونا منع واللّٰہ الہادی۔

فــ۱:مسئلہ حقہ اورسگرٹ پینے اورتمباکوکھانے والوں کے لئے مسواک مـیں کہاں تک احتیـاط واجب ہے اوران کے امتحان کاطریقہ۔
فــ۲:مسئلہ منہ مـیں بدبو ہوتوجب تک صاف نہ کرلیں مسجدمـیں جانایـانمازپڑھنامنع ہے۔

(۶) یوں ہی جسے تر کھانسی ہو اور بلغم کثیر ولزوج کہ بمشکل بتدریج جُدا ہو اور معلوم ہے کہ مسواک کی تکرار اور کُلیوں غراروں کا اکثار اُس کے خروج پر معین تو اُس کے لئے بھی حد نہیں باندھ سکتے۔
(۷) یہی حال زکام کا ہے جبکہ ریزش زیـادہ اور لزوجت دار ہو اُس کے تصفیہ اور بار بار ہاتھ دھونے مـیں جو پانی صرف ہو وہ بھی جدا اور نامعین المقدار ہے۔
(۸) پانوں کی فــ۳ کثرت سے عادی خصوصاً جبکہ دانتوں مـیں فضا ہو تجربہ سے جانتے ہیں کہ چھالیـا کے باریک ریزے اور پان کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس طرح منہ کے اطراف واکناف مـیں جاگیر ہوتے ہیں کہ تین بلکہ کبھی دس بارہ کُلیـاں بھی اُن کے تصفیہ تام کو کافی نہیں ہوتیں، نہ خلال اُنہیں نکال سکتا ہے نہ مسواک سوا کُلیوں کے کہ پانی منافذ مـیں داخل ہوتا اور یں دینے سے اُن جمے ہوئے باریک ذرّوں کو بتدریج چھڑ چھڑا کرلاتا ہے اس کی بھی کوئی تحدید نہیں ہوسکتی اور یہ کامل تصفیہ بھی بہت مؤکد ہے متعددفــ۱ احادیث مـیں ارشاد ہوا ہے کہ جب بندہ نماز کو کھڑا ہوتا ہے فرشتہ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھتا ہے یہ جو کچھ پڑھتا ہے اس کے منہ سے نکل کر فرشتہ کے منہ مـیں جاتا ہے اُس وقت اگر کھانے کی کوئی شے اُس کے دانتوں مـیں ہوتی ہے ملائکہ کو اُس سے ایسی سخت ایذا ہوتی ہے کہ اور شے سے نہیں ہوتی۔

فــ۳ :مسئلہ پان کے عادی کوکلیوں مـیں کتنی احتیـاط لازم ۔
فـــ:مسئلہ نمازمـیں منہ کی کمال صفائی کالحاظ لازم ہے ورنہ فرشتوں کوسخت ایذاہوتی ہے ۔

البیہقی فی الشعب وتمام فی فوائدہ والدیلمـی فی مسند الفردوس والضیـاء فی المختارۃ عن جابر رضی اللّٰہ تعالی عنہ بسند صحیح قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذا قام احدکم یصلی من اللیل فلیستک فان احدکم اذا قرأ فی صلاتہ وضع ملک فاہ علی فیہ ولا یخرج من فیہ شیئ الادخل فم الملک ۱؎ ۔

بیہقی شعب الایمان مـیں،تمام فوائد مـیں، دیلمـی مسندالفردوس مـیں،اور ضیـاء مختارہ مـیں حضرت جابررضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسندِ صحیح راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا: جب تم مـیں سے کوئی نماز پڑھنے کھڑاہوتو مسواک کرلے اس لئے کہ جب وہ اپنی نمازمـیں قراء ت کرتاہے توایک فرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے اور جو قراء ت اس کے منہ سے نکلتی ہے فرشتے کے منہ مـیں جاتی ہے۔

(۱؎ کنز العمال بحوالہ شعب الایمان وتمام والدیلمـی     حدیث ۲۶۲۲۱     مؤسسۃ الرسالۃبیروت ۹ /۳۱۹)

وللطبرانی فی الکبیر عن ابی ایوب الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قالشیئ اشد علی الملکین من ان یریـابین اسنان صاحبھما شیئا وھو قائم یصلی ۲؎ وفی الباب عند ابن المبارک فی الزھد عن ابی عبدالرحمن السلمـی عن امـیر المومنین علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم والدیلمـی عن عبداللّٰہ بن جعفر رضی اللّٰہ تعالی عنہما عنہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وابن نصر فی الصّلاۃ عن الزھری عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مرسلا والاٰجری فی اخلاق حملۃ القراٰن عن علی کرم اللّٰہ وجہہ موقوفا۔

اورمعجم طبرانی کبیر مـیں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا:دونوں فرشتوں پر اس سے زیـادہ گراں کوئی چیزنہیں کہ وہ اپنے ساتھ والے انسان کے دانتوں کے درمـیان کھانے کی کوئی چیز پائیں جب وہ کھڑانماز پڑھ رہاہو۔اوراس بارے مـیں امام عبداللہ بن مبارک کی کتاب الزہد مـیں بھی حدیث ہے جوابوعبدالرحمٰن سلمـی سے مروی ہے وہ امـیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی ہیں۔اوردیلمـی نے بھی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے ،نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اورابن نصرنے کتاب الصّلوٰۃ مـیں امام زہری سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مرسلاً، اورآجری نے اخلاق حملۃ القرآن مـیں حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ سے موقوفاً روایت کی ہے۔(ت)

(۲؎ المعجم الکبیر     حدیث ۴۰۶۱    المکتبۃ الفیصلیہ بیروت        ۴ /۱۷۷)

تنبیہ : سیدنافــ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حسن بن زیـاد کی روایت کہ مستثنی پانیوں سے آب اول کے نیچے گزری جس کا حاصل یہ تھا کہ ایک رطل پانی سے استنجا اور ایک رطل منہ اور دونوں ہاتھ اور ایک رطل دونوں پاؤں کیلئے، اور اسی کو علّامہ شرف بخاری رحمہ الباری نے مقدمۃالصلاۃ مـیں ذکرفرمایـاکہ ؎ (۱)    درون وضو آب یک من ونیم ست
غسل راچار من زتعلیم ست
(۲)    درون وضو کن بہ نیم من استنجا
دار مردست وروئے نیمن را
(۳)    بعد بداں نیم من کہ مے ماند     
پائے شوید ہرانکہ مے داند ۱؎

(۱) پانی وضومـیں ڈیڑھ سیرہے غسل کے لیے چارسیرکی تعلیم ہے۔
(۲) وضومـیں آدھے سیرسے استنجاکر،ہاتھ اورمنہ کے لیے آدھے سیرکورکھ ۔
(۳) پھراس آدھے سیرسے جوبچتاہے پاؤں دھوئے وہ جوکہ جانتاہے ۔

فــ:مسئلہ منہ دھونے سے پہلے کی تینوں سنتیں بھی اسی ایک مُد مـیں داخل ہیں یـانہیں ۔

(۱؎ نامِ حق         فصل سوم دربیـان مقدار آب وضوو غسل    مکتبہ قادریہ لاہور    ص۱۴)

اقول:

اس سے ظاہریہ ہے واللہ تعالٰی اعلم کہ وضو مـیں صرف فرائض غسل کا حساب بتایـا ہے کہ جتنا پانی دونوں پاؤں کیلئے رکھا ہے اُسی قدر مُنہ اور دونوں ہاتھ کیلئے،اول تو اسی قدرے بُعد ہے۔پاؤں کی ساخت اگر عالم کبیر مـیں شتر کی نظیر ہے جس کے سبب اُس کے تمام اطراف پر گزرنے کیلئے پانی زیـادہ درکار ہے تو شک نہیں کہ ناخنِ دست سے کہنی کے اُوپر تک ہاتھ کی مساحت پاؤں سے بہت زائد ہے تو غایت یہ کہ ہاتھ کے برابر پاؤں پر صرف ہو نہ کہ منہ اور دونوں ہاتھ کے مجموعہ کے برابر پاؤوں پر ولہذا حدیث مـیں ہاتھوں اور پاؤوں پر برابر صرف کا ذکر آیـا۔ بخاری و نسائی عــہ وابو بکر بن ابی شیبہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:

انہ توضأ فغسل وجہہ اخذ غرفۃ من ماء فتمضمض بھا واستنشق ثم اخذ غرفۃ من ماء فجعل بھا ھکذا اضافھا الی یدہ الاخری فغسل بھا وجہہ ثم اخذ غرفۃ من ماء فغسل بھا یدہ الیمنی ثم اخذ غرفۃ من ماء فغسل بھا یدہ الیسری ثم مسح برأسہ ثم اخذ غرفۃ من ماء فرش علی رجلہ الیمنی حتی غسلہا ثم اخذ غرفۃ اخری فغسل بھا رجلہ الیسری ثم قال ھکذا رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ۱؎۔

انہوں نے وضوکیـا تو اپناچہرہ دھویـا ایک چُلو پانی لے کر اس سے کُلی کی اورناک مـیں ڈالا پھر ایک چُلو لے کر اس طرح کیـا۔اسے اپنے بائیں ہاتھ مـیں ملاکراس سے اپناچہرہ دھویـا۔پھرایک چُلوپانی لے کر اس سے اپنا داہنا ہاتھ دھویـا۔ پھرایک چُلو پانی لے کر اس سے اپنا بایـاں ہاتھ دھویـا پھر سرکا مسح کیـا۔ پھر ایک چُلو پانی لے کر اسے دائیں پاؤں پرڈال کر اسے دھویـا پھر دوسراچلو لے کر اس سے بایـاں پاؤں دھویـا پھر فرمایـا: مـیں نے اسی طرح رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو وضوکرتے دیکھا۔ (ت)

عــہ و رواہ ابو داؤد مختصرا ویـاتی وابن ماجۃ ایضا فاختصرہ جدا وفرقہ اھ منہ (م)
عــہ ابو داؤد نے اسے مختصراً روایت کیـا۔یہ روایت آگے آئے گی۔او راسے ابن ماجہ نے بھی روایت کیـامگر بہت مختصر کردیـااوراسے الگ الگ کردیـا۱۲منہ۔(ت)

(۱؎ صحیح البخاری    کتاب الوضوباب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃٍ واحدۃ    قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶)
(سنن النسائی     باب مسح الاذنین مع الرأس...الخ         نورمحمدکتب خانہ کراچی      ۱ /۲۹)
(المصنف لابن ابی شیبہ فی الوضوکم ھو مرۃ     حدیث ۶۴        دارالکتب العلمـیہ بیروت ۱ /۱۷)

اور اگر اس سے قطع نظر کیجئے تو دونوں ہاتھ کلائیوں تک دھونا، کُلی کرنا، ناک مـیں پانی ڈالنا، منہ دھونا، دونوں ہاتھ ناخنِ دست سے کہنیوں کے اوپر تک دھونا اس تمام مجموعہ کے برابر صرف دونوں پاؤوں پر صرف ہونا غایت استبعاد مـیں ہے تو ظاہر یہی ہے کہ ابتدائی سُنتیں یعنی کلائیوں تک ہاتھ تین بار دھونا تین کُلّیـاں تین بار ناک مـیں پانی یہ سب بھی اس حساب یک مُد سے خارج ہو عجب نہیں کہ حدیث رُبیع رضی اللہ تعالٰی عنہا جس مـیں پورا وضو مع سنن مذکور ہوا اور وضو کا برتن بھی دکھایـا اور راوی نے اُس کا تخمـینہ ایک مُد اور تہائی تک کیـا اُس کا منشا یہی ہو کہ سنن قبلیہ کیلئے ثُلث مُد بڑھ گیـا مگر احادیث مطلقہ سے متبادر وضو مع السنن ہے واللہ تعالٰی اعلم۔

امر چہارم فـــ: کیـا پانی کی یہ مقداریں کہ مذکور ہوئیں حد محدود ہیں کہ ان سے کم وبیش ممنوع۔ ائمہ دین وعلمائے معتمدین مثل امام ابو زکریـا نووی شرح صحیح مسلم اور امام محمود بدر عینی شرح صحیح بخاری اور امام محمد بن امـیر الحاج شرح منیہ اور ملّا علی قاری شرح مشکوٰۃ مـیں اجماعِ امت نقل فرماتے ہیں کہ ان مقادیر پر قصر نہیں مقصود یہ ہے کہ پانی بلاوجہ محض زیـادہ خرچ نہ ہو نہ ادائے سنت مـیں تقصیر رہے پھری قدر ہو کچھ بندش نہیں،حدیث وظاہر الروایۃ مـیں جو مقادیر و چارمد آئیں اُن سے مراد ادنٰی قدر سنت ہے۔

فـــ :مسئلہ مسلمانوں کااجماع ہے کہ وضو و غسل مـیں پانی کی کوئی مقدارخاص لازم نہیں ۔

حلیہ مـیں ہے : ثم اعلم انہ نقل غیر واحد اجماع المسلمـین علی ان الماء الذی یجزئ فی الوضوء والغسل غیر مقدر بمقدار بعینہ بل یکفی فیہ القلیل والکثیر اذا وجد شرط الغسل و ھو جریـان الماء علی الاعضاء وما فی ظاھر الروایۃ من ان ادنی مایکفی فی الغسل صاع وفی الوضوء مدللحدیث المتفق علیہبتقدیر لازم بل ھو بیـان ادنی قدرالماء المسنون فی الوضوء والغسل السابغین ۱؎۔

پھرواضح ہوکہ متعدد حضرات نے اس بات پر اجماعِ مسلمـین نقل کیـا ہے کہ وضووغسل مـیں کتنا پانی کافی ہوگااس کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں بلکہ کم وبیش اس مـیں کفایت کرسکتاہے جب کہ دھونے کی شرط پالی جائے وہ یہ کہ پانی اعضاء پر بہَہ جائے۔ اور وہ جو ظاہرالروایہ مـیں ہے کہ کم سے کم جتنا پانی غسل مـیں کفایت کرسکتاہے وہ ایک صاع ہے اور وضو مـیں ایک مُدکیوں کہ اس بارے مـیں متفق علیہ حدیث آئی ہے ، تویہ کوئی لازمـی مقدارنہیں بلکہ یہ کامل وضو وغسل مـیں پانی کی ادنٰی مقدار مسنون کا بیـان ہے۔(ت)

(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

اُسی مـیں ہمارے مشائخ کرام سے ہے: من اسبغ الوضوء والغسل بدون ذلک اجزأہ وان لم یکفہ زاد علیہ۱؎۔

جواس سے کم مـیں وضووغسل کامل کرلے اس کے لئے کافی ہے اوراگراتناکفایت نہ کرے تواس پراضافہ کرلے۔(ت)

(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

بلکہ ہمارے علماء فـــ۱نے تصریح فرمائی کہ غسل مـیں ایک صاع سے زیـادت افضل ہے۔

فـــ۱:مسئلہ غسل مـیں ایک صاع سے زیـادہ پانی خرچ کرناافضل ہے جب تک حداسراف بے سبب یـاوسوسہ کی حالت نہ ہو۔

خلاصۃ الفتاوی مـیں ہے : الافضل ان لایقتصر علی الصاع فی الغسل بل یغتسل بازید منہ بعد ان لایؤدی الی الوسواس فان ادی لایستعمل الا قدرالحاجۃ ۲؎۔

افضل یہ ہے کہ غسل مـیں ایک صاع پرمحدود نہ رکھے بلکہ اس سے زائد سے غسل کرے بشرطیکہ وسوسے کی حد تک نہ پہنچائے اگر ایساہوتوصرف بقدرِ حاجت استعمال کرے۔(ت)

(۲؎خلاصۃالفتاوی     کتاب الطہارۃ ،فی کیفیۃ الغسل         مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۱۴)

اس عبارت مـیں تصریح ہے کہ قدر حاجت سے زیـادہ خرچ کرنا مستحب ہے جبکہ حد وسوسہ تک نہ پہنچے ہاں
وسوسہ کا قدم درمـیان ہوتو حاجت سے زیـادہ صَرف نہ کرے۔

اقول: وباللّٰہ التوفیق فـــ۲ مراتب پانچ ہیں: (۱) ضرورت(۲) حاجت(۳) منفعت(۴) زینت(۵) فضول۔

فـــ۲:شیئ کے پانچ مرتبے ہیں :ضرورت،حاجت ،منفعت ،زینت،فضول ،اوران کی تحقیق اورمکان وطعام ولباس وطہارت مـیں ان کی مثالیں ۔

ضرورت :  یہ کہ اُس کے بغیر گزر نہ ہوسکے جیسے مکان مـیں جُحر یتدخلہ۳؎ وہ جس مـیں آدمـی بزور سما سکے۔

(۳؎مسند الامام احمد بن حنبل     حدیث ابی عسیب رضی اللہ عنہ     المکتب الاسلامـی بیروت    ۵ /۸۱)

کھانے مـیں لقیمات یقمن صلبہ ۴؎ چھوٹے چھوٹے چند لقمے کہ سدرمق کریں ادائے فرائض کی طاقت دیں۔

(۴؎سنن ابن ماجہ     کتاب الاطعمہ،باب الاقتصادفی الاکل...الخ        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۴۸)

لباس مـیں خرقۃ تواری عورتہ ۱؎ اتنا ٹکڑا کہ ستر عورت کرے۔

(۱؎سنن الترمذی     کتاب الزہد    حدیث ۲۳۴۸    دارالفکربیروت    ۵ /۱۵۳)
(مسند احمدبن حنبل     المکتب الاسلامـی بیروت    ۱ /۶۲و ۵ /۸۱)

حاجت:  یہ کہ بے اُس کے ضرر ہو،جیسے مکان اتنا کہ گرمـی جاڑے برسات کی تکلیفوں سے بچا سکے، کھانا اتنا جس سے ادائے واجبات وسُنن کی قوت ملے، کپڑا اتنا کہ جاڑا روکے اتنا بدن ڈھکے جس کا کھولنا نماز و مجمع ناس مـیں خلاف ادب وتہذیب ہے مثلاً خالی پاجامے فــ سے نماز مکروہ تحریمـی ہے۔

فــ : مسئلہ خالی پاجامہ سے نمازمکروہ تحریمـی ہے ۔

ابو داؤد والحاکم عن بریدۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم نھی ان یصلی الرجل فی سراویل ولیس علیہ رداء ۲؎۔

ابو داؤد اورحاکم نے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے منع فرمایـا کہ آدمـی بے چادر اوڑھے صرف پاجامے مـیں نماز پڑھے۔

(۲؎سنن ابی داؤد     کتاب الصلوۃ،باب من قال تیزر بہ اذاکان ضیقا آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۹۳)
(المستدرک للحاکم     کتاب الصلوۃ ونہی ان یصلی الرجل وسراویل...الخ     دارالفکربیروت    ۱ /۲۵۰)

مسند احمد وصحیحین مـیں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا: لایصلین احدکم فی الثوب الواحدعلی عاتقیہ من شیئ۳؎۔

ہرگزکوئی ایک کپڑے مـیں نماز نہ پڑھے کہ دونوں شانے کھُلے ہوں۔

(۳؎صحیح البخاری     کتاب الصلوۃ باب اذاصلی فی الثوب الواحد...الخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۲)
(صحیح مسلم         کتاب الصلوۃ ،باب الصلوۃ فی ثوب واحد وصفۃ لبسہ     قدیمـی کتب خانہ کراچی  ۱ /۹۸)
(مسند احمد بن حنبل     عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ          المکتب الاسلامـی بیروت     ۲ /۲۴۳)

ولفظ البخاری عاتقۃ بالافراد (اور بخاری نے مفرد لفظ عاتقہ ذکر کیـا ہے۔ ت)

خلاصۃ الفتاوٰی مـیں ہے : لوصلی مع السراویل والقمـیص عندہ یکرہ۱؎۔

اگر کُرتا ہوتے ہوئے صرف پاجامے مـیں نماز پڑھی تومکروہ ہے۔(ت)

(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الطہارۃ ،الجنس فیمایکرہ فی الصلوۃ     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۵۸)

یوں ہی تنہا فــ۱پاجامہ پہنے راہ مـیں نکلنے والا ساقط العدالۃ مردود الشہادۃ خفیف الحرکات ہے۔ یہ مسئلہ خوب یـاد رکھنے کا ہے کہ آج کل اکثر لوگوں مـیں اس کی بے پرواہی پھیلی ہے خصوصاً وہ جن کے مکان سرراہ ہیں۔

فــ۱ :مسئلہ تنہاپاجامہ پہنے راہ مـیں نکلنے والاساقط العدالۃ مردودالشہادۃ ہے ۔

فتاوی عالمگیریہ مـیں ہے : لاتقبل شہادۃ من یمشی فی الطریق بسراویل وحدہعلیہ غیرہ کذا فی النھایۃ۲؎۔

اس کی شہادت مقبول نہیں جو راستے مـیں اس طرح چلتاہوکہ اس کے جسم پرصرف پاجامہ ہو، اور کچھ نہ ہو۔ایسا ہی نہایہ مـیں ہے۔(ت)

(۲؎ الفتاوٰی الہندیۃ    کتاب الشہادات الفصل الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۶۹)

منفعت : یہ کہ بغیر اس کے ضرر تو موجود نہیں مگر اُس کا ہونا اصل مقصود مـیں نافع ومفید ہے جیسے مکان مـیں بلندی و وسعت، کھانے مـیں سرکہ چٹنی سیری، لباس نماز مـیں عمامہ۔

زینت : یہ کہ مقصود سے محض بالائی زائد بات ہے جس سے ایک معمولی افزائش حسن وخوشنمائی کے سوا اور نفع وتائید غرض نہیں جیسے مکان کے دروں مـیں محرابیں، کھانے مـیں رنگتیں کہ قورمہ خوب سُرخ ہو فرنی نہایت سفید براق ہو،کپڑے مـیں بخیہ باریک ہو قطع مـیں کج نہ ہو۔

فضول : یہ کہ بے منفعت چیز مـیں حد سے زیـادہ توسع وتدقیق جیسے مکان مـیں سونے چاندی کے کلس دیواروں پر قیمتی غلاف، کھانا کھائے پر مـیوے شیرینیـاں، پائچے گٹوں سے نیچے اوّل مرتبہ فرض مـیں ہے دوم واجب وسنن مؤکدہ سوم وچہارم سنن غیر مؤکدہ سے مستحبات وآداب زائدہ تک پنجم باختلاف مراتب مباح ومکروہ تنزیہی وتحریمـی سے حرام تک، قال المحقق علی الاطلاق فی الفتح ثم السید الحموی فی الغمز قاعدۃ الضرر یزال ھھنا خمسۃ مراتب ضرورۃ وحاجۃ ومنفعۃ وزینۃ وفضول فالضرورۃ بلوغہ حدا ان لم یتناول الممنوع ھلک او قارب وہذا یبیح تناول الحرام والحاجۃ کالجائع الذی لولم یجد ما یـاکلہ لم یھلک غیرانہ یکون فی جہد ومشقۃ وھذا لایبیح الحرام ویبیح الفطر فی الصوم والمنفعۃ کالذی یشتھی خبزا لبر ولحم الغنم والطعام الدسم والزینۃ کالمشتھی الحلوی والسکر و الفضول التوسع باکل الحرام والشبھۃ۱؎ اھ

محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر مـیں،پھر سیدحموی نے غمزالعیون مـیں فرمایـا : قاعدہ -ضرر دورکیـاجائے گا۔یہاں پانچ مراتب ہیں۔ ضرورت، حاجت ، منفعت،زینت،فضول۔ضرورت:اس حد کوپہنچ جائے کہ اگر ممنوع چیز نہ کھائے تو ہلاک ہوجائے یـا ہلاکت کے قریب پہنچ جائے۔اس سے حرام کاکھانا،جائز ہوجاتا ہے۔اورحاجت جیسے اتنا بھُوکا ہوکہ اگر کھانے کی چیز نہ پائے توہلاک تونہ ہومگر تکلیف اور مشقت مـیں پڑجائے۔اس سے حرام کا کھانا،جائز نہیں ہوتااورروزے مـیں افطار مباح ہوجاتاہے۔منفعت جیسے وہ شخص جوگیہوں کی روٹی ،بکری کے گوشت اور چکنائی والے کھانے کی خواہش رکھتاہو۔ زینت جیسے حلوے اورشکرکی خواہش رکھنے ولا۔اور فضول یہ کہ حرام اور مشتبہ چیزکھانے کی وسعت اختیـارکرنا۔(ت)

(۱؎ غمز عیون البصائرمع الاشباہ والنظائر    الفن الاول القاعدۃ الخامسہ ادارۃ القرآن الخ کراچی     ۱ /۱۱۹)

اقول :  تکلم رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی مادۃ واحدۃ بخصوصہا وقنع عن التعریفات بالامثلۃ احالۃ علی فھم السامع وفی جعل فــ الحلوی والسکر من الزینۃ تامل فان فی الحلوی منافع لیست فی غیرھا وقد کان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یحب الحلواء والعسل کما اخرجہ الستۃ ۱؎ عن ام المومنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا وما کان لیحب ما لا منفعۃ فیہ وقدنہاہ ربہ تبارک وتعالٰی عن زھرۃ الحیوۃ الدنیـا فلولم تکن الازینۃ لما احبہا ولعل ماذکر العبد الضعیف امکن وامتن۔

اقول:حضرت محقق رحمہ اللہ تعالٰی نے صرف ایک بات (کھانے) پرکلام کیـااورتعریفات پیش کرنے کے بجائے فہم سامع کے حوالے کرتے ہوئے مثالوں پر اکتفاکی۔اورحلوے وشکّر کوزینت شمارکرنا محلّ تامل ہے اس لئے کہ حلوے مـیں کچھ ایسے فوائد ہیں جو دوسری چیز مـیں نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حلوا اورشہد پسندفرماتے تھے جیساکہ اصحابِ ستّہ نے ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے۔ اور سرکار کی یہ شان نہ تھی کہ ایسی چیز محبوب رکھیں جس مـیں کوئی فائدہ نہ ہو۔حالاں کہ انہیں رب تعالٰی نے
دنیـاوی زندگی کی آرائش سے منع فرمایـا ہے تویہ اگر محض زینت ہوتا توسرکار اسے پسند نہ فرماتے۔اورشاید بندہ ضعیف نے جوذکرکیـاوہ زیـادہ پختہ اورمضبوط ہے۔(ت)

فـــ : تطفل علی الفتح والحموی ۔

(۱؎ صحیح البخاری    کتاب الاشربۃ،باب شرب الحلواء والعسل    قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۲ /۸۴۰)
(سنن ابی داؤد     کتاب الاشربۃ ،باب فی شرب العسل     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۱۶۶)
(سنن الترمذی کتاب الاطعمۃباب ماجاء فی حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحلو و العسل،حدیث ۱۸۳۸ دارالفکربیروت ۳ /۳۲۷)
(سنن ابن ماجۃ     کتاب الاطعمۃ ،باب الحلواء         ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ص۲۴۶)

انہیں مراتب کو طہارت مـیں لحاظ کیجئے تو جس عضو کا جتنا دھونا فرض ہے اُس کے ذرّے ذرّے پر ایک بار پانی تقاطر کے ساتھ اگرچہ خفیف بہہ جانا مرتبہ ضرورت مـیں ہے کہ بے اس کے طہارت ناممکن اور تثلیث مرتبہ حاجت مـیں ہے یوں ہی وضو مـیں مُنہ دھونے سے پہلے کی سنن ثلاث کہ یہ چاروں مؤکدات ہیں اور ان کے ترک مـیں ضرر من زاد  او نقص فقد تعدی وظلم (جس نے اس سے زیـادہ یـا کم کیـا تو اس نے حد سے تجاوز کیـا اور ظلم کیـا۔ ت) اور ہر بار پانی بفراغت بہنا جس سے کمال تثلیث مـیں کوئی شبہ نہ گزرے اور ہر ہر ذرّہ عضو پر غور وتامل کی حاجت نہ پڑے یہ منفعت ہے اور غرہ وتحجیل فــ کی اطاعت زینت اوری عضو کو قصداً چار بار دھونا فضول۔

فــ:مسئلہ وضو مـیں غرہ و تحجیل کا بڑھانا مستحب ہے اور اس کے معنٰی کا بیـان۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان امتی یدعون یوم القٰیمۃ غرا محجلین من اٰثار الوضوء فمن استطاع منکم ان یطیل غرتہ فلیفعل ۱؎ رواہ الشیخان عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وفی لفظ المسلم عنہ انتم الغر المحجلون یوم القٰیمۃ من اسباغ الوضوء فمن استطاع منکم فلیطل غرتہ وتحجیلہ ۲؎۔

یعنی مـیری امت کے چہرے اورچاروں ہاتھ پاؤں روزِقیـامت وضو کے نور سے روشن و منورہوں گے تو تم مـیں جس سے ہوسکے اسے چاہئے کہ اپنے اس نور کو زیـادہ کرے اسے شیخین نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیـا اور مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: تم لوگ وضو کامل کرنے کی وجہ سے روزِقیـامت روشن چہرے، چمکتے دست و پا والے ہوگے تو تم مـیں جس سے ہوسکے اپنے چہرے اورہاتھوں کی روشنی زیـادہ کرے۔(ت)

(۱؎ صحیح البخاری    کتاب الوضوء،باب فضل الوضوء الغر المحجلون من آثار الوضوء قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۵)
(صحیح مسلم    کتاب الطہارۃ،باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضوء قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۶)
(۲؎ صحیح مسلم    کتاب الطہارۃ،باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضوء قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۶)

یعنی مـیری اُمّت کے چہرے اور چاروں ہاتھ پاؤں روزِقیـامت وضو کے نور سے روشن ہوں گے توتم مـیں جس سے ہوسکے اُسے چاہئے کہ اپنے اس نور کو زیـادہ کرے یعنی چہرہ کے اطراف مـیں جو حدیں شرعاً مقرر ہیں اُس سے کچھ زیـادہ دھوئے اور ہاتھ نصف بازو اور پاؤں نیم ساق تک۔

دُرمختار مـیں ہے: من الاٰداب اطالۃ غرتہ وتحجیلہ۳؎۔

آدابِ وضو مـیں سے یہ ہے کہ اپنے چہرے اور دست و پا کے نشاناتِ نور زیـادہ کرے۔(ت)

(۳؎ الدرالمختار     کتاب الطہارۃ   مطبع مجتبائی دہلی  ۱ /۲۴)

ردالمحتار مـیں ہے: فی البحر اطالۃ الغرۃ بالزیـادۃ علی الحد المحدود وفی الحلیۃ التحجیل فی الیدین والرجلین وھل لہ حد لم اقف فیہ علی شیئ لاصحابنا ونقل النووی اختلاف الشافعیۃ علی ثلثۃ اقوال الاول الزیـادۃ بلا توقیف الثانی الی نصف العضد والساق الثالث الی المنکب والرکبتین قال والاحادیث تقتضی ذلک کلہ اھ ونقل ط الثانی عن شرح الشرعۃ مقتصرا علیہ ۱؎ اھ

بحر مـیں ہے: چہرے کی روشنی زیـادہ کرنااس طرح کہ مقررہ حد سے زیـادہ دھوئے۔اورحلیہ مـیں ہے کہ تحجیل کا تعلق دونوں ہاتھ پاؤں سے ہے(ہاتھ پاؤں کومقدار سے زیـادہ دھوئے)کیـا زیـادتی کی کوئی حدبھی ہے اس بارے مـیں اپنے اصحاب کیی بات سے واقفیت مجھے نہ ہوئی۔امام نووی نے اس بارے مـیں شافعیہ کے تین اقوال لکھے ہیں اول یہ کہ بغیری تحدید کے زیـادتی ہو۔دوم یہ کہ آدھے بازو اورنصف ساق تک زیـادتی ہو۔سوم یہ کہ کاندھے اور گھٹنوں تک زیـادتی ہو۔فرمایـاکہ احادیث کامقتضا یہ سب ہے اھ۔اور علامہ طحطاوی نے قولِ دوم کوشرح شرعہ سے نقل کیـااوراسی پراکتفا کی اھ۔(ت)

(۱؎ رد المحتار        کتاب الطہارۃ    دار احیـاء التراث العربی بیروت        ۱ /۸۸)

درمختار مکروہات وضو مـیں ہے : والاسراف ومنہ الزیـادۃ علی الثلاث ۲؎۔

اور اسراف،اسی سے یہ بھی ہے کہ تین بار سے زیـادہ دھوئے ۔(ت)

(۲؎ الدر المختار    کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۴ )

اُسی مـیں ہے: لوزاد (ای علی التثلیث) لطمانینۃ القلب لاباس بہ۳؎۔

اگر اطمـینانِ قلب کے لئے تین بارسے زیـادہ دھویـا تواس مـیں حرج نہیں۔(ت)

(۳؎ الدر المختار    کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۲ )

ردالمحتار مـیں ہے : لانہ امر بترک مایریبہ الی مالا یریبہ وینبغی ان یقید ھذابغیرالموسوس اما ھو فیلزمہ قطع مادۃ الوسواس عنہ وعدم التفاتہ الی التشکیک لانہ فعل الشیطان وقد امرنا بمعاداتہ ومخالفتہ رحمتی۴؎۔

اس لئے کہ اسے حکم ہے کہ شک کی حالت چھوڑکر عدم شک کی حالت اختیـارکرے، اوریہ حکم غیر وسوسہ زدہ کے ساتھ مقید ہونا چاہئے۔ وسوسے والے پر تویہ لازم ہے کہ وسوسے کا مادّہ قطع کرے اور تشکیک کی جانب التفات نہ کرے کیوں کہ یہ شیطان کا فعل ہے اور ہمـیں حکم یہ ہے کہ اس سے دشمنی رکھیں اورا س کی مخالفت کریں-رحمتی-(ت)

(۴؎رد المحتار        کتاب الطہارۃ    دار احیـاء التراث العربی بیروت        ۱ /۸۱)

اور شک نہیں کہ صرف ایک صاع سے غسل مـیں سر سے پاؤں تک بفراغ خاطر تثلیث کا حصول دشوار لہٰذا ہمارے علماء نے اطمـینان قلب کیلئے صاع سے زیـادت کو افضل فرمایـا۔
ۤ

لقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم دع مایریبک الی مالا یریبک فان الصدق طمانینۃ وان الکذب ریبۃ رواہ الائمۃ احمد والترمذی ۱؎ وابن حبان بسند جید عن الحسن المجتبی ریحانۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ ثم علیہ وسلم وھو عند ابن قانع عنہ بلفظ فان الصدق ینجی ۲؎ ۔

کیونکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشادہے:''تجھے جوچیز شک مـیں ڈالے اسے چھوڑکر وہ اختیـار کرجس مـیں تجھے شک نہ ہو۔اس لئے کہ صدق طمانینت ہے اورکذب شک وقلق ۔اسے امام احمد،ترمذی،اورابن حبان نے بسندِجیّدریحانہ رسول حضرت حسن مجتبٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیـا۔ اور ابن قانع نے ان سے جو روایت کی اس مـیں یہ الفاظ ہیں: اس لئے کہ صدق نجات بخش ہے۔(ت)

(۱؎ سنن الترمذی    کتاب صفۃ القیـامۃ    حدیث۲۵۲۶    دارالفکر بیروت        ۴ /۲۳۲)
(مسند احمد بن حنبل    عن حسن رضی اللہ عنہ            المکتب الاسلامـی بیروت    ۱ /۲۰۰)
(موار الظمآن الٰی زوائد ابن حبان    حدیث۵۱۲            المطبعۃ السلفیۃ        ص۱۳۷)

(نوٹ:موارد الظمآن کے الفاظ مـیں ہے:ان الخیر طمانیۃ والشر ریبۃ۔)

(۲؎ کشف الخفاء بحوالہ ابن قانع عن الحسن    حدیث۱۳۰۵    دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۱ /۳۶۰)

اور یہ ضرور فوق الحاجۃ ہے کہ منفعت ہے یونہی مـیل کا چھڑانا داخل زینت اور اس مـیں جو زیـارت ہو وہ بھی فوق الحاجۃ۔ یہ معنی ہیں قول خلاصہ کے کہ غیر موسوس کو حاجت سے زیـادہ صرف کرنا افضل ہے۔

اقول وبما و فقنی المولی تبارک وتعالی من ھذا التقریر المنیر ظھر الجواب عما اوردہ الامام ابن امـیر الحاج اذ قال بعد نقل ماقدمنا عن الخلاصۃ لایعری اطلاق الافضیلۃ المذکورۃ من نظر کما لایخفی علی المتأمل۱؎ اھ وللّٰہ الحمد۔

اقول: اس تقریرمنیر سے۔جس سے مولٰی تبارک وتعالٰی نے مجھ کوواقف کرایـا۔اس اعتراض کاجواب واضح ہوگیـاجوامام ابن امـیر الحاج نے خلاصہ کی سابقہ عبارت نقل کرنے کے بعد پیش کیـاکہ: مذکورہ افضلیت کومطلق رکھنا محلِ نظر ہے جیساکہ تأمل کرنے والے پر مخفی نہیں اھ۔ وللہ الحمد۔

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

تنبیہ : ماذکرت ان تثلیث الغسل بالطمانینۃ عسیر بالصاع شیئ تشہد لہ التجربۃ وایش انا وانت وقد استبعدہ ریحانۃ من ریـاحین المصطفی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وعلیھم وسلم اعنی السید الامام الاجل محمدا الباقر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اخرج البخاری فــ(وعزاہ فی الحلیۃ لھما ولم ارہ لمسلم ولا عزاہ الیہ فی العمدۃ ولا الارشاد) عن ابی اسحٰق حدثنا ابو جعفر انہ کان عند جابر بن عبداللّٰہ ھو و ابوہ رضی اللّٰہ تعالی عنھم وعندہ قوم فسألوہ عن الغسل فقال یکفیک صاع فقال رجل مایکفینی فقال جابر کان یکفی من ھو اوفی منک شعرا وخیرا منک ثم امّنا فی ثوب۲؎

تنبیہ: یہ جومـیں نے ذکر کیـا کہ ایک صاع سے غسل مـیں اعضا کو تین تین بار دھولینا مشکل ہے ایسی بات ہے جس پر تجربہ شاہد ہے اور ما و شما کیـاہیں اسے گلشنِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک گُلِ تر امامِ اجل سیّدنا محمد باقر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بعید سمجھا۔امام بخاری نے (حلیہ مـیں اس پربخاری ومسلم دونوں کا حوالہ دیـا ہے،اورمـیں نے یہ حدیث مسلم مـیں نہ دیکھی۔اورعمدۃ القاری وارشاد الساری مـیں بھی مسلم کا حوالہ نہ دیـا)ابواسحاق سے روایت کی انہوں نے فرمایـا ہم سے ابو جعفر(امام محمد باقر)نے حدیث بیـان فرمائی کہ وہ اور اُن کے والد حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے پاس تھے۔ اورکچھ دوسرے لوگ بھی وہاں موجودتھے۔ان حضرات نے حضرت جابر سے غسل کے بارے مـیں پوچھا انہوں نے فرمایـا: ایک صاع تمہیں کافی ہے۔ ایک شخص نے کہا:مجھے کافی نہیں ہوتا۔اس پر حضرت جابر نے فرمایـا: کافی تو انہیں ہوجاتا تھاجوتم سے زیـادہ بال اور خیر وخوبی والے تھے۔ پھر انہوں نے ایک ہی کپڑا اوڑھ کر ہماری امامت بھی فرمائی ہے۔

فـــ:تطفل اٰخر علیہا۔

(۲؎ صحیح البخاری    کتاب الغسل،باب الغسل بالصاع و نحوہ    قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۹)

قال فی العمدۃ فی مسند اسحٰق بن راھویہ ان متولی السؤال ھو ابو جعفر ۱؎ وقولہ قال رجل المراد بہ الحسن بن محمد بن علی بن ابی طالب الذی یعرف ابوہ بابن الحنفیۃ ۲؎ اھ وتبعہ القسطلانی۔

عمدۃ القاری مـیں ہے کہ مسند اسحٰق بن راہویہ مـیں ہے کہ سوال کرنے والے ابو جعفر(امام محمد باقر) تھے۔ اورانکی عبارت''ایک شخص نے کہا'' مـیں قائل سے مراد حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب ہیں جن کے والد ابن الحنفیہ کے ساتھ معروف تھے اھ۔اس پرقسطلانی نے بھی عینی کی پیروی کی ہے۔

(۱؎ و ۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری    باب الغسل،تحت الحدیث ۲۵۲ دارالکتب العلمـیہ بیروت ۳ /۲۹۵)

اقول  :  حدیث فــ الحسن بن محمد علی ما فی الصحیحین ھکذا عن ابی جعفر قال لی جابر اتانی ابن عمک یعرض بالحسن بن محمد بن الحنفیۃ قال کیف الغسل من الجنابۃ فقلت کان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یـاخذ ثلث اکف فیفیضھا علی رأسہ ثم یفیض علی سائر جسدہ فقال لی الحسن انی رجل کثیر الشعر فقلت کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اکثر منک شعرا ۳؎ ھذا لفظ "خ" ونحوہ "م"

اقول:حضرت حسن بن محمد کی حدیث صحیحین مـیں اس طرح ہے :ابوجعفرسے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت جابرنے فرمایـا: مـیرے پاس تمہارا عم زاد۔حسن بن محمد بن الحنفیہ کی جانب اشارہ ہے۔ آیـا۔کہا:غسلِ جنابت طرح ہوتا ہے؟  مـیں نے کہا:نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تین کف پانی لے کراپنے سرپربہاتے پھر باقی جسم پر بہاتے۔اس پر حسن نے مجھ سے کہا: مـیرے بال بہت ہیں۔ مـیں نے کہا: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بال تم سے زیـادہ تھے۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔اوراسی کے ہم معنی مسلم کی روایت مـیں بھی ہے،

فـــ:تطفل علی الامام العینی والقسطلانی۔

(۳؎ صحیح البخاری    کتاب الغسل،باب من افاض علی رأسہٖ ثلثا        قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۹)

وفیہ قال جابر فقلت لہ یـاابن اخی کان شعر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اکثر من شعرک واطیب ۱؎ وھو نص فی ان محمدا لم یشھد مخاطبتہ جابر والحسن وانما حکاھا لہ جابر بخلاف حدیث الباب وفی الکلام ایضا نوع تفاوت بل الرجل القائل ھو الامام ابو جعفر نفسہ اومن قال منھم مع تسلیم الباقین اخرج النسائی عن ابی اسحاق عن ابی جعفر قال تمارینا فی الغسل عند جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما فقال جابر یکفی من الغسل من الجنابۃ صاع من ماء قلنا مایکفی صاع ولا صاعان قال جابر قدکان یکفی من کان خیرا منکم واکثر شعرا ۲؎ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 اوراس مـیں یوں ہے کہ جابر نے فرمایـا: مـیں نے اس سے کہا جانِ برادر! رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بال تمہارے بالوں سے زیـادہ اور پاکیزہ ترتھے۔یہ روایت اس بارے مـیں نص ہے کہ امام محمد باقرحضرت جابروحسن کی گفتگوکے وقت موجود نہ تھے اور ان سے حضرت جابر نے قصہ بتایـا بخلاف زیر بحث حدیث کے،(جس مـیں خود ان کی موجودگی مذکورہے) اورکلام مـیں کچھ تفاوت ہے۔بلکہ اس حدیث مـیں ناکافی ہونے کی بات کہنے والے خود امام ابو جعفرہیں یـاان حضرات مـیں سے کوئی اورشخص جنہوں نے کہا اور باقی نے تسلیم کیـا۔ (کیوں کہ نسائی کی روایت مـیں یہ تفصیل ہے)امام نسائی نے ابواسحٰق سے روایت کی وہ ابو جعفر سے راوی ہیں انہوں نے کہا :ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کے پاس غسل کے بارے مـیں اختلاف کیـا۔ حضرت جابرنے کہا: غسل جنابت مـیں ایک صاع پانی کافی ہے۔ ہم نے کہا: ایک صاع دو صاع ناکافی ہے۔ حضرت جابرنے فرمایـا: کافی تو انہیں ہوجاتا تھاجوتم لوگوں سے بہتراورتم سے زیـادہ بال والے تھے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

(۱؎ صحیح مسلم     کتاب الحیض،باب استحباب افاضۃ الماء علٰی الرأس وغیرہ...الخ قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۹)
(۲؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ،باب ذکر القدر الذی یکتفی بہ الرجل من الماء للغسل نورمحمد کارخانہ تجار ت کراچی۱ /۴۶)

قال فی الحلیۃ یشعر ایضا بان ھذا التقدیربلازم فی کل حالۃ لکل واحد ومن ثمہ قال الشیخ عزالدین بن عبدالسلام ھذا فی حق من یشبہ جسدہ جسدالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم انتھی یعنی فی الحجم ولعل انکار جابر وردہ علی القائل لظھور ان جسد القائل کان نحوجسد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مع فھم جابر عند الشک فیذلک کافیـا لہ اما لوسوسۃ اوغیرھا فاتی برد عنیف لیکون اقلع لذلک السبب من النفس واجمع فی التأسی بہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی ذلک۔

حلیہ مـیں لکھتے ہیں:اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ تحدید ہر حال مـیں،ہرشخص کے لئے لازم نہیں۔اسی لئے شیخ عزّالدین بن عبدالسلام نے فرمایـایہ اس کے حق مـیں ہے جس کا جسم ،نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم کی طرح ہو۔انتہی۔ یعنی حجم مـیں۔شاید حضرت جابرکاانکاراورقائل کی تردید اسی لئے تھی کہ ظاہر یہ تھاکہ قائل کا جسم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم کی طرح تھا،ساتھ ہی حضرت جابرنے قائل سے متعلق یہ سمجھا کہ اسے ایک صاع کے کافی ہونے مـیں شک ہے جس کی وجہ وسوسہ ہے یـااورکچھ۔تو اس کی ایسی سخت تردید فرمائی جو نفس سے اس شک کا سبب نکال باہر کردے اور اس بارے مـیں رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اقتدا پر طمانینت قلب پیدا کردے۔

ھذا التوجیہ الذی وفقنا لہ اولی من قول غیر واحد من المشائخ ان مافی ظاھر الروایۃ (ای ماتقدم ان الصاع والمداد فی مایکفی) بیـان لمقدار الکفایۃ ثم یرد فونہ بقولھم حتی ان من اسبغ الوضوء والغسل بدون ذلک اجزاء ہ وان لم یکفہ زاد علیہ وکذا الکلام فیما روی الحسن عن ابی حنیفۃ (ای ماتقدم من رطل ورطلین وثلثۃ فی الاحوال) فی الوضوء ۱؎ اھ کلامہ الشریف مزید اما بین الاھلۃ۔

یہ توجیہ جس کی ہمـیں توفیق ملی متعددمشائخ کے اس قول سے بہتر ہے کہ ظاہرالروایۃ کاکلام (یعنی وہ جوپہلے گزرا کہ صاع اورمُد،ادنٰی مقدار کفایت ہے)مقدار کفایت کابیـان ہے پھر اس کے بعد وہی مشائخ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو وضو اور غسل اس سے کم مقدار مـیں کامل کرلے اس کے لئے وہی کافی ہے اوراگر یہ اس کے لئے کافی نہ ہوتواضافہ کرلے ۔اسی طرح اس مـیں بھی کلام ہے جوحسن بن زیـادنے وضو کے بارے مـیں امام ابو حنیفہ سے روایت کی(یعنی وہ جوگزرا کہ مختلف احوال مـیں ایک رطل،دو رطل اورتین رطل کافی ہے)محقق حلبی کا کلام ہلالین کے درمـیان ہمارے اضافوں کے ساتھ ختم ہوا۔

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

اقول اولا  :  نظرفــ۱ رحمہ اللّٰہ تعالٰی الی لفظ البخاری قال رجل ولوکان متذکرا ما فی النسائی من قول الامام الباقر رضی اللّٰہ تعالی عنہ قلنا لم یرض۱؎ بذکر الوسوسۃ فحاشا محمد الباقر عنھا۔

اقول اوّلاً : صاحب حلیہ رحمہ اللہ تعالی نے بخاری کے الفاظ''ایک شخص نے کہا''پرنظررکھی اگر انہیں وہ یـادہوتاجونسائی مـیں امام باقررضی اللہ تعالٰی عنہ کاقول مذکورہے کہ ''ہم نے کہا'' تو وسوسہ کا تذکرہ پسندنہ کرتے۔کیوں کہ امام محمد باقر وسوسہ سے دُور ہیں۔

(۱؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ،باب ذکر القدر الذی یکتفی بہ الرجل... الخ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱/ ۴۶)

ثانیـا  : لوکانت فــ۲ علی ذکر منہ لم یذکر قولہ لظھور ان جسد القائل الخ فان ذلک ان فرض مستقیما ففی جسد بعضھم کالامام الباقر لا کلھم والقائلون القوم لقولہ قلنا وقول جابر من کان خیرا منکم وان تولی التکلم احدھم۔

ثانیـاً: وہ روایت یـاد رہتی تو یہ بات نہ کہتے کہ''ظاہر یہ تھاکہ قائل کا جسم الخ''۔کیوں کہ اسے اگر درست بھی مان لیـاجائے توان مـیں سے بعض جیسے امام باقر کے جسم سے متعلق یہ بات ہوسکتی ہے سب سے متعلق نہیں جب کہ قائل سبھی حضرات تھے کیونکہ امام باقر کے الفاظ یہ ہیں کہ''ہم نے کہا''اورحضرت جابر کے الفاظ یہ ہیں کہ''تم لوگوں سے بہتر تھے''۔اگرچہ بولنے والے ان حضرات مـیں سے ایک ہی فرد رہے ہوں۔

فــ:تطفل اٰخرعلیہا۔

وثالثا : لایقتصرفــ۳ الامر علی المقاربۃ فی الحجم وحدہ بل یختلف فــ۴ باختلاف بدنین نعومۃ وخشونۃ و رطوبۃ ویبوسۃ وکون الشخص اجرد اواشعر وکث اللحیۃ اوخفیفھا وتام الوفرۃ اومحلوقہا الی غیر ذلک من الاسباب بل یختلف لشخص واحد باختلاف الفصول والبلدان والعمر والمزاج وغیر ذلک ۔

ثالثا : معاملہ صرف حجم مـیں قریب قریب ہونے پرمحدود نہیں، بلکہ فرق یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک بدن نرم ہو دوسرا سخت ،ایک رطب ہودوسرا یـابس،اوریُوں بھی کہ ایک شخص کم بال والا ہو دوسرا زیـادہ بال والا،ایک کی داڑھی گھنی دوسرے کی خفیف،ایک کے سر پرلمبے لمبے بال ہوں دوسرے کا سر مُنڈاہوا ہو، اور اس طرح کے فرق کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں۔بلکہ موسم،شہر ،عمر ،مزاج وغیرہ کی تبدیلیوں سے خود ایک ہی شخص کاحال مختلف ہواکرتاہے۔

فـــ۳ : تطفل ثالث علیہا۔

فـــ۴ سب کے لیے غسل و وضو مـیں پانی کی مقدارجس طرح عوام مـیں مشہور ہے محض باطل ہے ایک شخص دیو قامت ہے ایک نہایت نحیف دبلا پتلا،ایک بہت درازقد ہے دوسراکمال ٹھنگنا، ایک بدن نرم و نازک و تر دوسرا خشک کُھرّا،ایک کے تمام اعضاء پر بال ہیں دوسرے کا بدن صاف ،ایک کی داڑھی بڑی اور گھنی،دوسرا بے ریش یـا چند بال،ایک کے سر پر بڑے بڑے بال انبوہ دوسرے کا سر منڈھا ہوا۔ان سب کے لئے ایک مقدار کیونکر ممکن بلکہ شخص واحد کیلئے فصلوں اور شہروں اور عمر و مزاج کے تبدل سے مقدار بدل جاتی ہے،برسات مـیں بدن مـیں تری ہوتی ہے پانی جلد دوڑتا ہے،جاڑے مـیں خشکی ہوتی ہے وعلٰی ہذاالقیـاس۔

ورابعا  : بہ فــ۱ ظھران لوفرض لھم مداناۃ فی الحجم کان من المحال العادی المداناۃ فی جمـیع اسباب الاختلاف بل ھو محال قطعا فمن اعظمھا النعومۃ ومن بدنہ کبدن ھذا القمر الزاھر صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم

رابعاً: اسی سے یہ بھی واضح ہوگیـا کہ بالفرض ان سب حضرات مـیں حجم کاقریب قریب ہوناظاہرتھاتومحال عادی ہے کہ تمام اسباب اختلاف مـیں باہم قرب رہاہو،بلکہ یہ محال قطعی ہے کیونکہ سب سے عظیم سبب فرق بدن کی نرمـی و لطافت ہے اورایساکون ہوسکتاہے جس کابدن اس ماہِ انورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بدن جیساہو۔

فــ۱:تطفل رابع علیھا۔

وخامسا : لقی فــ۲ الامام الباقر سیدنا جابرا رضی اللّٰہ تعالی عنہما انما کان بعد ما صار بصیرا فکیف یعرف حجم ابدانھم۔

خامساً: امام باقرکی ملاقات سیدناجابر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے اس وقت ہوئی جب حضرت جابر آنکھوں سے معذور ہو چکے تھے تو وہ ان لوگوں کے حجم کی شناخت کیسے کرتے۔

فـــ۲:تطفل خامس علیھا۔

وسادسا  : کلام فــ۳ جابر نفسہ یدل انہ انما بناہ علی کثرۃ شعرالراس وقلتہ ۔

سادساً: خود حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کلام بھی بتارہا ہے کہ انہوں نے بنائے کلام سر کے بالوں کی کثرت وقلّت پررکھی تھی۔

فــ۳:تطفل سادس علیھا۔

وسابعا  : یریدفــ۱رحمہ اللّٰہ تعالٰی الاخذ علی المشایخ انھم حملوا ظاھر الروایۃ علی ادنی مابہ الکفایۃ ثم عادوا علیہا بالنقض بقولھم من اسبغ بدونہ اجزأہ مع انہ ھو الناقل لفظ الظاھر ماتقدم ان ادنی مایکفی فی الغسل صاع وفی الوضوء مد فلا محمل لہا الا ماذکروا مابدلوا وما غیروا۔

سابعاً : صاحبِ حلیہ رحمہ اللہ تعالٰی حضرات مشایخ پر یہ گرفت کرناچاہتے ہیں کہ''انہوں نے ظاہر الروایہ کوادنٰی مقدار کفایت پر محمول کیـاپھرخودہی اس کے خلاف اس کے قائل ہوئے کہ جو اس سے کم مـیں پورا کرے تو اسے وہی کافی ہے''۔حالانکہ صاحبِ حلیہ نے خودہی ظاہرالروایہ کے الفاظ یہ نقل کئے کہ غسل مـیں ادنٰی مقدار کافی ایک صاع اور وضو مـیں ایک مُد ہے۔ظاہر الروایہ کا مطلب ان حضرات نے جوذکرکیـااس کے سوا کچھ اور نہیں۔ اوران حضرات نے کوئی تغیّر وتبدّل نہ کیـا۔

فــ۱:تطفل سابع علیھا۔

وثامنا : لایجوزفــ۲ ان یکون مراد الظاھر والمشائخ تقدیر ھذا لشخص واحد فی الدنیـا یکون اضأل الناس واقصرھم واھزلھم واصغرھم حتی لایمکن لغیرہ ان یغتسل فی قدر مایکفیہ وانما ھی متمسکۃ فی ذلک بالحدیث کما ذکرتم وتقدم ولا یسبق الی وھم انھم لایفرقون بین قصیر صغیر ضیئل اجرد امرد محلوق الراس وطویل کبیر عبل اشعرکث اللحیۃ وافی الوفرۃ فیحکموا ان ھذا ھو ادنی مایکفی کلا منھما فاذن لم یریدوا الا رجلا سویـا معتدل الخلق متوسط الاحوال وحینئذ لایکون ما اردفوا بہ مناقضا لظاھر الروایۃ ولا مغایرا للتوجیہ الذی نحوتم الیہ وبالجملۃ اری فھمـی القاصر متقاعدا عن درک مرام ھذا الکلام۔

ثامناً : ممکن نہیں کہ ظاہر الروایہ اورحضرات مشائخ کی مراد یہ ہوکہ تحدید دنیـا کے ایسے فرد واحد کے لئے ہے جو سارے انسانوں سے کم جُثّہ، پست قد، دُبلا پتلا اور چھوٹا ہوکہ اس کے لئے جس قدر پانی کافی ہوجاتاہے اتنے مـیں دوسرےی شخص کے لئے غسل کرلینا ممکن ہی نہ ہو۔دراصل اس مقدار کے سلسلے مـیں ظاہر الروایہ کا استناد حدیثِ پاک سے ہے جیساکہ آپ نے ذکرکیـااورحدیث بھی گزرچکی۔اوری کو وہم بھی نہیں ہوسکتاکہ یہ حضرات پست قامت اور دراز قامت،چھوٹے اوربڑے،نحیف اورفربہ،کم مُداور بال دار ،بے ریش اورگھنی داڑھی والے، سرمُنڈے اوروافرگیسووالے کے درمـیان کوئی فرق نہیں کرتے اورایک طرف سے یہ حکم کرتے ہیں کہ یہی وہ ادنٰی مقدار ہے جو دونوں مـیں سے ہرایک کوکافی ہے۔ توان کی مراد کیـاہے؟ تندرست،معتدل ہیأت،متوسط حالت کا آدمـی۔ جب ایسا ہے توبعد مـیں جوانہوں نے ذکرکیـا(اس سے کم مـیں ہوجائے تو وہ کافی اوراتنے مـیں نہ ہوسکے تواضافہ کرے) وہ نہ ظاہرالروایہ کے مخالف نہ اس توجیہ کے مغایر جوآپ نے اختیـار کی۔بالجملہ مـیری فہم ناقص اس کلام کے مقصود کی دریـافت سے قاصر ہے۔

فـــ۲:تطفل ثامن علیھا۔

وبعد اللتیـا والتی انما بغینی ان ھذا الامام رحمہ اللّٰہ تعالی جعل الحدیث المذکور مشعرا بعدم التحدید ولا یستقیم الاشعار الابان یسلّم استبعاد الامام الباقر ویجعل رد سیدنا جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما حذار ان یکون ذلک عن وسوسۃ او نحوھا وحثا علی التأسی مھما امکن لاایجابا لانہ یکفی کلاما کان یکفیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وفیہ المقصود۔

اس ساری بحث وتمحیص کے بعدعرض ہے کہ مـیرا مقصود صرف یہ ہے کہ امام حلبی رحمہ اللہ تعالٰی نے یہ مانا ہے کہ حدیث مذکور پتا دے رہی ہے کہ تحدید نہیں، اوریہ پتادینا اسی وقت راست آسکتاہے جب وُہ امام باقر کا استبعاد تسلیم کریں اوریہ مانیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہماکی تردید اس اندیشہ سے تھی کہ وہ بات کہیں وسوسہ یـااسی جیسیی چیز کے باعث نہ ہو، اوراس بات پرآمادہ کرنے کی خاطرکہ جہاں تک ہوسکے سرکار کی پیروی کی جائے۔ یہ تردید ایجاب کے مقصدسے نہ تھی اس لئے کہ اس کے لئے تویہی کہنا کافی تھاکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے یہ مقدار کافی تھی اور مقصوداتنے ہی مـیں حاصل تھا۔

ثم اقول :  اذا کان فـــ ھذا الاستبعاد فی الصاع فما ظنک بما یقتضیہ ظاھر حدیث الغرفات المار تحت الامر الثالث عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنہما فانہ یفیدا استیعاب کل من الوجہ والید والرجل بغرفۃ واحدۃ وظاھر ان المراد الاغتراف بالکف بل صرح بہ قولہ اخذ غرفۃ فاضافہا الی یدہ الاخری فاذن یعسرجدا استیعاب الوجہ بغرفۃ واحدۃ فانھا لاتزید علی قدر الکف بل لاتبلغہ اذ لا بد للاغتراف من تقعیر فی الکف وعرض الوجہ مابین الاذنین اکبر بکثیر من طول الکف فماء قدر کف لایستوعب الوجہ طولا وعرضا بحیث یمر علی کل ذرۃ منہ بالسیلان واضافتہ الی الید الاخری لاتزیدہ قدرا بل لوابقی الکفان متلاصقتین لم یبلغ عرض مجموعھما عرض الوجہ وان فرق بینھما ووضعتا علی الجبینین طولا لم یستوعبہما الماء بحیث ینحدر من جمـیع مساحۃ الطولین سیـالا الی منتھی سطح الوجہ فان امر الید علی مسیل الماء ودلک بہا مالم یبلغہ من الوجہ کان غسلا لبعض ودھنا لبعض وکل ذلک معلوم مشاھد وامر الذراع والقدم اشد اشکالا اذلھما اطراف متباینۃ السمٰوٰت واحاطۃ ماء قدرکف بجمـیع اطراف الید من الظفر الی المرفق مما لایعقل والکف نفسہ لاتحیط بالذراع فی امرار واحد وان امرت علی ظھر الذراع ثم اعیدت علی البطن اوبالعلم یصحبھا من الماء مایزید علٰی قدر الدَّھن وکذلک فی القدم مع مافیھا من الصعود بعد الھبوط لاجل الاسالۃ الی فوق الکعبین وعمل الید قدذکرنا مافیہ ومن ادعی تیسر ھذا فلیرنا کیف یفعل فبالامتحان یکرم الرجل اویھان ۔

ثم اقول:جب ایک صاع کے بارے مـیں یہ استبعا د ہے تو اس سے متعلق کیـاخیـال ہے جو امر سوم کے تحت بیـان شدہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماکی، چُلّووں کے تذکرہ والی حدیث کے ظاہرکامقتضا ہے۔کیونکہ اس کامفاد تویہ ہے کہ بس ایک چُلو مـیں چہرے،ہاتھ، اور پاؤں ہر ایک کا استیعاب ہوجاتاتھا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ہتھیلی ہی سے چُلو لینا مراد ہے بلکہ اس قول مـیں تواس کی صراحت بھی ہے کہ ''ایک چُلو لے کر اسے اپنے دوسرے ہاتھ سے ملایـا''۔ جب ایسا ہے توایک ہی چُلومـیں پورے چہرے کودھولینا بہت ہی مشکل ہے۔اس لئے کہ ایک چلوہتھیلی بھر سے زیـادہ نہ ہوگا بلکہ ہتھیلی بھربھی نہ ہوگا اس لئے کہ چُلو لینے کی لئے ضروری ہے کہ ہتھیلی کچھ گہری رکھی جائے۔اورایک کان سے دوسرے کان تک چہرے کی چوڑائی دیکھی جائے تووہ ہتھیلی کی لمبائی سے بہت زیـادہ ہے توہتھیلی بھر پانی طول اورعرض دونوں مـیںچہرے کا اس طرح احاطہ نہیں کرسکتاکہ اسکے ہر ذرّے پر بہہ جائے۔اور اسے دوسرے ہاتھ سے ملالیں تواس کی مقدار مـیں اس سے کچھ اضافہ نہ ہوسکے گا بلکہ اگر دونوں ہتھیلیـاں ملی ہوئی رکھی جائیں تو ان کی مجموعی چوڑائی بھی چہرے کی چوڑائی کے برابر نہ ہوگی۔ اور اگر ان کو الگ الگ کر کے پیشانی کے دونوں حصو ں پر لمبائی مـیں رکھاجائے توان دونوں مـیں اتنا پانی بھرا ہوا نہ ہوگا کہ دونوں کے طول کی پوری مساحت سے ڈھلک کر بہتے ہوئے چہرے کی سطح زیریں کے آخری حصہ تک پہنچ جائے۔ اوراگرایساکرے کہ جتنے حصے پرپانی بہہ گیـا ہے وہاں ہاتھ پھیرکران حصوں پر مل لے جہاں پانی نہیں پہنچا ہے تو یہ بعض حصوں کو دھونا اور بعض کو ملنا ہوا۔ سب کو دھونا نہ ہوا۔ اور یہ سب مشاہدہ وتجربہ سے معلوم ہے۔ کلائی اور پاؤں کامعاملہ تواور زیـادہ مشکل ہے اس لئے کہ ان کے کنارے الگ الگ سمتوں مـیں پھیلے ہوئے ہیں۔ہتھیلی بھر پانی ہی ناخن سے لے کرکہنی تک ہاتھ کے تمام اطراف وجوانب کا احاطہ کرلے ، یہ عقل مـیں آنے والی بات نہیں۔ اورایک بارپھیر نے مـیں خود ہتھیلی پوری کلائی کا احاطہ نہیں کرسکتی اور اگر ایک بار کلائی کی پشت پرہتھیلی پھیرے، پھر اس کے پیٹ پر پھیرے یـا اس کے برعکرے تواس مـیں اتنا پانی نہ رہ سکے گا جو ملنے سے زیـادہ کام کرسکے۔یہی حال پاؤں کاہے مزید اس مـیں یہ بھی ہے کہ پانی کو نیچے اترنے کے بعد پھر ٹخنوں کے اوپر تک بہنے کے لئے چڑھنا بھی ہے۔اورہاتھ کیـا کام کرسکتاہے بس وہی جو ہم نے ابھی بتایـا۔جودعوی رکھتا ہوکہ یہ آسان ہے وہ کر کے دکھادے کہ امتحان ہی سے آدمـی کوعـزت ملتی ہے یـا ذلّت۔

فـــ : اشکال فی حدیث البخاری والکلام علیہ حسب الاستطاعۃ۔

وقد استشعر الکرمانی فی الکواکب الدراری ورود ھذا وقنع بان منع ومرواثرہ الامام العینی واقر حیث قال قال الکرمانی فان قلت لایمکن غسل الرجل بغرفۃ واحدۃ قلت الفرق ممنوع ولعل الغرض من ذکرہ علی ھذا الوجہ بیـان تقلیل الماء فی العضو الذی ھو مظنۃ الاسراف فیہ ۱؎ اھ۔

الکواکب الدراری مـیں امام کرمانی کو اس اعتراض کاخیـال ہوا اور صرف ناقابل تسلیم کہہ کر گزر گئے اورامام عینی نے بھی ان کا کلام نقل کرکے برقرار رکھا۔وہ لکھتے ہیں کرمانی فرماتے ہیں: اگر یہ کہوکہ  ایک چلو مـیں پاؤں دھونا ممکن نہیں تو مـیں کہوں گا ہم یہ فرق نہیں مانتے۔اور شاید اس طرح ذکر کرنے سے ان کامقصد یہ ہے کہ پانی اس عضو مـیں کم صرف کیـاجائے جس مـیں اسراف ہونے کاگمان ہے اھ۔

(۱؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الوضوء، تحت الحدیث۱۴۰ دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۲/ ۴۰۰ و ۴۰۱)

اقول :  ومجردفــ المنع فی امثال الواضحات لایسمع ولا ینفع وحملہ المحقق فی الفتح علی تجدید الماء لکل عضو فقال وما فی حدیث ابن عباس فاخذ غرفۃ من ماء الی اخر ما تقد م یجب صرفہ الی ان المراد تجد ید الماء بقرینۃ قولہ بعد ذلک ثم اخذ غرفۃ من ماء فغسل بھا یدہ الیمنی ثم اخذ غرفۃ من ماء فغسل بھا یدہ الیسری ومعلوم ان لکل من الیدین ثلث غرفات لا غرفۃ واحدۃ فکان المراد اخذ ماء للیمنی ثم ماء للیسری اذلیس یحکی الفرائض فقد حکی السنن من المضمضۃ وغیرھا ولو کان لکان المراد ان ذلک ادنی مایمکن اقامۃ المضمضۃ بہ کما ان ذلک ادنی مایقام فرض الید بہ لان المحکی انما ھو وضوء ہ الذی کان علیہ لیتبعہ المحکی لھم ۱؎ اھ وتبعہ المحقق الحلبی فی الغنیۃ۔

اقول : (مـیں کہتاہوں) اس طرح کی واضح باتوں مـیں صرف منع سے کام نہیں چلتا نہ ہی یہ قابل قبول ہوتا ہے۔اورحضرت محقق نے فتح القدیر مـیں اس کواس پرمحمول کیـاہے کہ ہر عضوکے لئے نیـا پانی لیتے۔ وہ لکھتے ہیں: وہ جوحضرت ابن عباس کی حدیث مـیں ہے کہ پھر ایک چلو پانی لیـا۔الٰی آخر الحدیث ۔اسے اس طرف پھیرناضروری ہے کہ مراد نیـا پانی لینا ہے اس کا قرینہ اس کے بعد ان کایہ قول ہے کہ پھر ایک چلو پانی لیـاتو اس سے دایـاں ہاتھ دھویـا،پھر ایک چلو پانی لیـا تو اس سے بایـاں ہاتھ دھویـا۔ اورمعلوم ہے کہ ہر ہاتھ کے لئے تین چلو لئے ہوں گے ایک ہی چلو نہیں، تومرادیہ ہے کہ کچھ پانی دائیں ہاتھ کے لئے لیـا پھر کچھ پانی بائیں ہاتھ کے لئے لیـا۔ اس لئے کہ وہ صرف فرائض کی حکایت نہیں فرما رہے ہیں بلکہ مضمضہ وغیرہ سنتیں بھی بیـان کی ہیں۔اوراگر وہی ہوتومراد یہ ہے کہ یہ وہ ادنٰی مقدار ہے جس سے عمل مضمضہ کی ادائیگی ہوسکتی ہے۔ جیسے یہ وہ ادنی مقدار ہے جس سے فرضِ دست کی ادائیگی ہوجاتی ہے اس لئے کہ حکایت اُس وضو کی ہورہی ہے جو سرکار نے کیـاتھا تاکہ دیکھنے والے لوگ اسی طریقہ کی پیروی کریں اھ۔محقق حلبی نے غنیہ کے اندر اس کلام مـیں حضرت محقق کی پیروی کی ہے۔

فــ:تطفل علی الامام العینی والکرمانی َ۔

(۱؎ فتح القدیر،     کتاب الطہارات مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۲۴)

قلت : ومطمح نظرہ رحمہ اللّٰہ تعالی سلخ الغرفۃ عن الواحدۃ مستندا الی ان المحکی الوضوء المسنون بدلیل ذکر المضمضۃ والاستنشاق والمسنون التثلیث فکیف یراد الواحدۃ وانما معناہ اخذ لکل عمل ماء جدید اوھو اعم من اخذہ مرۃ اومرارا فیکون معنی قولہ غرفۃ من ماء فتمضمض بہا واستنشق ان اخذلھا ماء جدیدا ولو مرارا فلا یدل علی انھما بماء واحد کما یقولہ الامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فھذا مرادہ وھو قد ینفعنا فیما نحن فیہ وان کان کلامہ فی مسألۃ اخری۔

   قلت  :  حضرت محقق رحمہ اللہ تعالٰی کامطمحِ نظر یہ ہے کہ چلو کے لفظ سے وحدت کامفہوم الگ کردیں،اس پران کا استناد اس سے ہے کہ یہاں وضوئے مسنون کی نقل ہو رہی ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ مضمضہ اور استنشاق کا ذکر ہے۔ اورمسنون تین بار دھونا ہے تو وحدت کیسے مرادہوسکتی ہے۔ اس کا معنی بس یہ ہے کہ ہر عمل کے لئے نیـاپانی لیـا۔اور یہ اس سے اعم ہے کہ ایک بار لیـا یـا چند بارلیـا تو ان کے قول ''پانی کا ایک چلو لے کر اس سے مضمضہ اوراستنشاق کیـا'' کا معنٰی یہ ہوگا کہ دونوں کے لئے جدید پانی لیـااگرچہ چندبار۔تو وہ یہ نہیں بتاتا کہ مضمضہ اور استنشاق دونوں ایک ہی پانی مـیں ہوا جیسا کہ امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے قائل ہیں۔یہ ہے حضرت محقق کی مراد۔اور وہ ہمارے زیرِبحث مسئلہ مـیں بھی کارآمد ہے اگرچہ ان کا کلام ایک دوسرے مسئلہ کے تحت ہے۔

اقول :  لکن فــ۱ فیہ بعد لایخفی والمحقق عارف بہ ولذا قال یجب صرفہ لکن الشان فی ثبوت الوجوب وما استند بہ سیـاتی الکلام علیہ۔

اقول : لیکن اس مـیں نمایـاں بعدہے۔ اورحضرت محقق اس سے واقف ہیں اسی لئے فرمایـا:''اسے پھیرنا'' واجب ہے ۔لیکن مشکل معاملہ ثبوت وجوب ہے اورجس سے انہوں نے استناد فرمایـا اس پر آگے کلام ہوگا۔

فــ۱ تطفل علی المحقق والغنیۃ ۔

علی ان الحدیث فــ۲رواہ ابن ماجۃ عن زید بن اسلم عن عطاء بن یسار عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما وھذا ھومخرج الحد یث رواہ البخاری عن سلیمن بن بلال عن زید والنسائی عن ابن عجلان عن زید مطولا وقال ابن ماجۃ حدثنا عبداللّٰہ بن الجراح وابو بکر بن خلاد الباھلی ثنا عبدالعزیز بن محمد عن زید فاخرجہ مقتصرا علی قولہ ان رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مضمض واستنشق من غرفۃ ۱؎ واحدۃ

علاوہ ازیں یہ حدیث ابن ماجہ نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے وہ عطابن یسارسے وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ہیں۔اورمخرج حدیث یہی زیدبن اسلم ہیں۔ اسے امام بخاری نے سلیمان بن بلال سے روایت کیـاوہ زید سے راوی ہیں۔اورنسائی نے ابن عجلان سے روایت کیـاوہ زید سے راوی ہیں مطوّلاً۔ اور ابنِ ماجہ نے کہا: ہم سے عبداللہ بن جراح اور ابو بکر بن خلاد باہلی نے حدیث بیـان کی انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن محمدنے حدیث بیـا ن کی وہ راوی ہیں زیدسے۔ پھر اس مـیں صرف یہ روایت کیـا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک چلو (من غرفۃ واحدۃ) سے مضمضہ واستنشاق کیـا۔

فــ۲تطفل اٰخرعلیہما ۔

 (۱؎ سنن ابن ماجہ     ابواب الطہارۃ باب المضمضۃ والا ستنشاق الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۳۳)

ومن ھذا الطریق اخرجہ النسائی فقال اخبرنا الھیثم بن ایوب الطالقانی قال عبد العزیز بن محمد قال ثنازید وفیہ رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضا فغسل یدیہ ثم تمضمض واستنشق من غرفۃ واحدۃ ۱؎ الحدیث فھذا لایقبل الانسلاخ عن الواحدۃ وکافٍ فی الجواب ماافادہ اخرا بقولہ ولو کان لکان الخ مع ماقد م من احادیث ناطقۃ بالمذھب وزاد تلمـیذہ المحقق فی الحلیۃ حد ثنا اخر رواہ البزار بسند حسن۔

     اوراسی طریق سے امام نسائی نے تخریج کی تو انہوں نے فرمایـا: ہمـیں ہیثم بن ایوب طالقانی نے خبر دی انہوں نے کہا عبدالعزیز بن محمد نے بتایـا انہوں نے کہا ہم سے زید بن اسلم نے حدیث بیـان کی۔اس مـیں یہ ہے کہ مـیں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو فرمایـا تو اپنے دونوں ہاتھ دھوئے پھر ایک چلو(من غرفۃ واحدۃ) سے مضمضہ واستنشاق کیـا، الحدیث۔تواس روایت سے وحدت کامعنی الگ نہیں کیـاجاسکتا(کیوں کہ اس مـیں غرفۃ واحدۃ صراحۃً موجود ہے)اور جواب مـیں وہی کافی ہوگا جو آخر مـیں افادہ فرمایـا کہ اگر وہی ہو تو مراد یہ ہے کہ یہ وہ ادنٰی مقدار ہے الخ۔ اس کے ساتھ ہمارے مذہب کی تائید مـیں بولتی ہوئی وہ احادیث بھی ہیں جوحضرت محقق پہلے پیش کر آئے ۔ اوران کے تلمـیذ محقق نے حلیہ مـیں ایک اور حدیث کا اضافہ کیـا جو بزار نے بسندِ حسن روایت کی۔

 (۱؎ سنن النسائی کتاب الطہارۃ باب مسح الاذنین    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی         ۱ /۲۹)

وانا اقول :  وباللّٰہ التوفیق للعبد الضعیف فی الحدیث وجہان :الاوّل حمل الغرفۃ علی المرۃ ای غسل کل عضو مرۃ مرۃ بھذا تنحل العقد بمرۃ ولانسلم ان ذکر المضمضۃ والاستنشاق یستلزم استیعاب جمـیع السنن لِمَ لا یجوزا ن یکون ھذا بیـانا لجواز الاقتصار علی مرۃ فی الفرائض والسنن وما فیہ من البعد اللفظی یقربہ جمع طرق الحدیث ۔

اقول :  وباللہ التوفیق، مـیرے نزدیک تاویلِ حدیث کے دوطریقے ہیں:

پہلا طریقہ : یہ کہ لفظ غرفۃ کو مرۃ پر محمول کیـا جائے یعنی ہرعضوکوایک ایک بار دھویـا۔ اسی سے ساری گر ہیں یکبارگی کھل جائیں گی۔اور یہ ہمـیں تسلیم نہیں کہ مضمضہ اور استنشاق کاذکر اسے مستلزم ہے کہ تمام سنتوں کااحاطہ رہا ہو۔یہ کیوں نہیں ہوسکتاکہ یہ وضو اس امر کے بیـان کے لئے ہو کہ فرائض اورسنن دونوں ہی مـیں ایک بار پر اقتصار جائز ہے۔اس مـیں جو لفظی بُعد نظر آرہا ہے وہ اس حدیث کے مختلف طُرق جمع کرنے سے قریب آجائے گا۔

فلعبد الرزاق عن عطاء بن یسار عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما انہ توضأ فغسل کل عضو منہ غسلۃ واحدۃ ثم ذکران النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یفعلہ ۱؎

 (۱)عبدالرزاق کی روایت مـیں عطا بن یسارسے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے یہ ہے کہ انہوں نے وضو کیـا تو اپنے ہر عضو کوایک بار دھویـا۔پھر بتایـا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایسا کرتے تھے۔

 (۱ ؎ المصنف لعبدالرزاق کتاب الطہارۃ     باب کم الوضوء من غسلۃ ا لمکتب الا سلا مـی بیروت    ۱ /۴۱)

ولسعید بن منصور فی سننہ بلفظ توضا النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فادخل یدہ فی الاناء فمضمض واستنشق مرۃ واحدۃ ثم ادخل یدہ فصب علی وجہہ مرۃ وصب علی یدہ مرۃ مرۃ ومسح براسہ واذنیہ مرۃ ثم اخذ ملأ کفہ من ماء فرش علی قدمـیہ وھو منتعل ۲؎ اھ وسیـاتی تفسیر ھذا الرش فی الحدیث۔

 ( ۲)سُنن سعید بن منصور کے الفاظ یہ ہیں: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وضو کیـاتو اپنا دستِ مبارک برتن مـیں ڈالا پھر کُلّی کی اور ناک مـیں پانی چڑھایـا ایک بار۔ پھر اپنا دست مبارک داخل کر کے(پانی نکالا) توایک بار اپنے چہرے پر بہایـا اوراپنے ہاتھ پر ایک ایک باربہایـا۔ اوراپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیـا۔ پھرہتھیلی بھر پانی لے کر اپنے قدموں پرچھڑکاجب کہ حضور نعلین پہنے ہوئے تھے۔اس چھڑکنے کی تفسیر آگے حدیث ہی مـیں آئے گی۔

 (۲؎ کنز العمال بحوالہ سعید بن منصور حدیث ۲۶۹۳۵        مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹ /۴۵۴)

بل روی البخاری قال حدثنا محمد بن یوسف ثناسفیـان عن زید بلفظ توضأ النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم مرۃ مرۃ ۱؎

 (۳) بلکہ امام بخاری نے روایت کی ، فرمایـا :ہم سے محمد بن یوسف نے حدیث بیـان کی انہوں نے کہا ہم سے سفیـان نے حدیث بیـان کی وہ زید سے راوی ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں :نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک ایک بار وضو کیـا۔

 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الوضو باب الوضوء مرۃ مرۃ    قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۷)

وقال ابو داؤد وحدثنا مسددثنا یحیی عن سفیـان ثنا زید ۲؎

 (۴)ابوداؤد نے کہا: ہم سے مسدّد نے حدیث بیـان کی، وہ سفیـان سے راوی ہیں انہوں نے کہا مجھ سے زید نے حدیث بیـان کی۔

 (۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ     باب الوضوء مرۃ مرۃ    آفتاب عالم پریس لاہور        ۱ /۱۸)

وقال النسائی اخبرنا محمد بن مثنی ثنا یحیی عن سفین ثنا زید ۳؎

    (۵)نسائی نے کہا: ہمـیں محمدبن مثنی نے خبردی انہوں نے کہا ہم سے یحیٰی نے حدیث بیـا ن کی، وہ سفیـان سے راوی ہیں انہوں نے کہا ہم سے زید نے حدیث بیـان کی۔

 (۳؎ سنن النسائی     کتاب الطہارۃ باب الوضوء مرۃمرۃ         نور محمد کار خانہ تجات کتب کراچی ۱ /۲۵)

وقال الامام الاجل الطحاوی حدثنا ابن مرزوق ثنا ابو عاصم عن سفین عن زید۴؎ ولفظ الاولین فیہ الا اخبر کم بوضؤ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فتوضأ مرۃ مرۃ ۵؎ وبمعناہ لفظ الطحاوی ۔

    (۶)امام اجل طحاوی نے کہا: ہم سے ابن مرزوق نے حدیث بیـان کی، انہوں نے کہا ہم سے ابو عاصم نے حدیث بیـان کی، وہ سفیـان سے وہ زید سے راوی ہیں۔ ابو داؤد نسائی کی روایت مـیں یہ الفاظ ہیں : کیـا مـیں تم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وضو نہ بتاؤں۔پھر انہوں نے ایک ایک بار وضو کیـا۔ اوراسی کے ہم معنی امام طحاوی کے الفاظ ہیں۔

 (۴؎ شرح معانی الاثار     کتاب الطہارۃ     باب الوضو ء لصلوۃ مرۃ مرۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۸)
(۵؎؎ سنن ابی داؤد      کتاب الطہارۃ باب الوضوء مرۃ مرۃ    آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۱۸)
(سنن النسائی     کتاب الطہارۃ باب الوضوء مرۃ مرۃ         نور محمد کار خانہ تجات کتب کراچی     ۱ /۲۵)

وللنسائی من طریق ابن عجلان المذکور بعد مامر وغسل وجہہ وغسل یدیہ مرۃ مرۃ ومسح برأسہ واذنیہ مرۃ ۱ ؎ الحدیث

    (۷)ابن عجلان کے مذکورہ طریق سے نسائی کی روایت مـیں سابقہ الفاظ کے بعدیہ ہے :اوراپنا چہرہ دھویـااور اپنے دونوں ہاتھ ایک ایک بار دھوئے۔ اوراپنے سراور دو نوں کانوں کا ایک بار مسح کیـا۔ الحدیث۔

 ( ۱؎ سنن نسائی     کتاب الطہارۃ     باب مسح الاذنین     نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱ /۲۹)

وفی ھذا والذی مرعن سعید بن منصور ابانۃ ماذکرتہ من ان ذکر المضمضۃ والاستنشاق لایستلزم استیعاب السنن حتی ینافی ترک التثلیث فقد تظافرت الروایـات علی لفظ مرۃ والاحادیث یفسر بعضھا بعضا فکیف وقد اتحد المخرج۔

اس مـیں اور سعید بن منصورسے نقل شدہ روایت مـیں اس کی وضاحت موجود ہے جو مـیں نے ذکر کیـاکہ مضمضہ واستنشاق کا تذکرہ تمام سنتوں کے احاطہ کو مستلزم نہیں کہ ترک تثلیت کے منافی ہو۔ کیوں کہ روایـات''ایک بار''کے لفظ پر متفق ہیں اور احادیث مـیں ایک کی تفسیر دوسری سے ہوتی ہے۔ پھر جب مخرج ایک(زیدبن اسلم) ہیں توایک حدیث دوسری کی مفسّر کیوں نہ ہوگی۔

اقول :  وقد یشد عضدہ ان الحدیث مطولا عند ابن ابی شیبۃ بزیـادۃ ثم غرف غرفۃ فمسح رأسہ واذنیہ الحدیث۲؎ فالغرفۃ التی کانت توضی کلا من الوجہ والید والرجل لو استعملت فی الرأس لغسلتہ فانما اراد واللّٰہ تعالی اعلم المرۃ مع التجدید ورحم اللّٰہ ابا حاتم اذقال ماکنا نعرف الحدیث حتی نکتبہ من ستین وجہا وانا اعلم ان الجادۃ فی روایـات الوقائع حمل الاعم علی الاخص ولکن لاغروفی العلاجل التصحیح۔

    اقول : اس کی تقویت اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن ابی شیبہ کے یہاں یہ حدیث مطوّلاً اس اضافہ کے ساتھ ہے: ثم غرف غرفۃ فمسح رأسہ واذنیہ  ( پھر ایک چلو لے کر اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیـا) توجس چلوسے چہرہ ،ہاتھ اور پاؤں مـیں سے ہر ایک کا وضو ہوجاتا تھا وہ اگر سرمـیں استعمال ہوتاتواسے دھونے کاکام کر دیتا(نہ کہ اس سے صرف مسح ہوتا۱۲م)تو مراد۔واللہ تعالٰی اعلم۔ وہی ایک ایک بار ہے ساتھ ہی پانی کی تجدید بھی۔     خدا کی رحمت ہوابوحاتم پرکہ وہ فرماتے ہیں ہمـیں حدیث کی معرفت نہ ہوتی جب تک اسے ساٹھ طریقوں سے نہ لکھ لیتے۔ اورمجھے معلوم ہے کہ واقعات کی روایـات مـیں عام راہ یہ ہے کہ اعم کواخص پر محمول کیـا جائے مگر تصحیح کی خاطر اس کے برعکرنا بھی جائے عجب نہیں۔

 (۲؎ المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الطہارۃ باب فی الوضوء کم ھو مرۃ    حدیث ۶۴ دار الکتب العلمـیہ بیروت    ۱ /۱۷)

والثانی : حمل الغرفۃ علی الحفنۃ ای بکلتا الیدین وربما تطلق علیھا فروی البخاری عن ام المومنین رضی اللّٰہ تعالی عنہا فیما حکت غسلہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم '' ثم یصب علی رأسہ ثلث غرف بیدیہ۱؎

دوسرا طریقہ  : یہ کہ غرفہ کو حفنہ پر (چلو کو لَپ پر) یعنی دونوں ہاتھ ملا کر لینے پر محمول کیـاجائے۔ اور بعض اوقات لفظ غرفہ کا اس معنٰی پر اطلاق ہوتاہے(۱)بخاری کی روایت مـیں ہے جو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالی ٰعنہا سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے غسل مبارک کی حکایت مـیں آئی ہے کہ :''پھر اپنے سرپرتین چلو دونوں ہاتھوں سے بہاتے''۔

(۱؎ صحیح البخاری کتاب الغسل با ب الوضوء قبل الغسل    قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۹)

ولا بی داؤد عن ثوبان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ، اما المرأۃ فلا علیھا ان لاتنقضہ لتغرف علی رأسھا ثلث غرفات بکفیھا ۲؎

(۲) ابو داؤد کی روایت مـیں ہے جوحضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نبی صلی اللہ تعالٰیعلیہ وسلم سے ہے'' لیکن عورت پراس مـیں کوئی حرج نہیں کہ بال نہ کھولے ،وہ اپنے سرپردونوں ہاتھوں سے تین چلوڈالے''

(۲؎ سُنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب المرأۃ ھل تنقض شعرھا عند الغسل آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۳۴)

ویؤیدہ حدیث ابی داؤد والطحاوی عن محمد بن اسحٰق عن محمد بن طلحۃ عن عبید اللّٰہ الخولانی عن عبداللّٰہ بن عباس عن علی رضی اللّٰہ تعالی عنہم عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وفیہ ثم ادخل یدیہ جمـیعا فاخذ حفنۃ من ماء فضرب بھا علی رجلہ وفیھا النعل فغسلھا بھا ثم الاخری مثل ذلک ۱؎

(۳) اور اس کی تائید ابوداؤد اور طحاوی کی روایت سے ہوتی ہے جس کی سند یہ ہے ۔عن محمد بن اسحاق۔ عن محمد بن طلحہ عن عبیداللہ الخولانی۔ عن عبد اللہ بن عباس عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

اس مـیں یہ ہے کہ پھر اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر لپ بھر پانی لے کر اسے پاؤں پرمارا۔جبکہ پاؤں مـیں جوتا موجود تھا۔ تواس سے پاؤں دھویـاپھر اسی طرح دوسرا پاؤں دھویـا۔

(۱؎ سُنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب صفۃ وضوء النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)

ولفظ الطحاوی ثم اخذ بیدیہ جمـیعا حفنۃ من ماء فصک بھا علی قدمہ الیمنی والیسری کذلک ۲؎ واخرجہ ایضا احمد وابو یعلی وابن خزیمۃ۳؎ وابن حبان والضیـاء وھذا معنی مامر من حدیث سعید بن منصور اِن شاء اللّٰہ تعالٰی والمعنی الاخر المسح وقد نسخ اوکان وفی القدمـین جوربان ثخینان علی مابینہ الامام الطحاوی رحمہ اللّٰہ تعالی۔

اور روایت طحاوی کے الفاظ مـیں یہ ہے: پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے لپ بھر پانی لیـا ، تواسے دائیں قدم پر زور سے ماراپھر بائیں پر بھی اسی طرح کیـا۔اس کی تخریج امام احمد،ابویعلی،ابن خزیمہ، ابن حبان اور ضیـاء نے بھی کی ہے۔اوریہی اس کا معنی ہے۔ ان شاء اللہ تعالٰی۔ جوسعید بن منصور کی حدیث مـیں آیـا(کہ فرش علٰی قدمـیہ تو اپنے دونوں قدموں پر چھڑکا''۱۲م) دوسرا معنی مسح ہے جو بعد مـیں منسوخ ہوگیـا۔یـا مسح اس حالت مـیں ہوا کہ قدموں پر موٹے پاتا بے تھے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالٰی نے بیـان کیـا۔

(۲؎ شرح معانی الآثار     کتاب الطہارۃ باب فرض الرجلین فی الوضوء    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۳۲)
(۳؎صحیح ابن خزیمہ حدیث ۱۴۸ المکتب الاسلامـی بیروت۱ /۷۷)
(مواردالظمآن کتاب الطہارۃ حدیث ۱۵۰ المطبعۃ السلفیہ ص۶۶)
(کنز العمال بحوالہ حم ،د،ع وابن خزیمۃ الخ حدیث ۲۶۹۶۷ مؤسستہ الرسا لۃ بیروت ۹ /۴۵۹۔۴۶۰)

اقول :  وما ذکرت من الوجہین فلنعم المحملان ھما لمثل طریق ابن ماجۃ حدثنا ابو بکر بن خلاد الباھلی ثنا یحیی بن سعید القطان عن سفیـان عن زید وفیہ رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضأ غرفۃ غرفۃ۱؎

    اقول :  مـیں نے جو دوطریقے ذکرکئے یہ بہت عمدہ محمل ہیں اس طرح کی روایـات کے جو مثلاً بطریق ابن ماجہ یوں آئی ہیں ہم سے ابو بکر بن خلاد باہلی نے حدیث بیـان کی، انہوں نے کہا ہم سے یحیٰی بن سعیدقطان نے حدیث بیـان کی وہ سفیـان سے وہ زیدسے راوی ہیں۔اس مـیں یہ ہے کہ مـیں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک چُلو سے وضوکیـا۔

(۱؎ سنن ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضوء مرۃ مرۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۳۳)

وحدیث ابن عساکر عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضأ غرفۃ غرفۃ وقال لایقبل اللّٰہ صلاۃ الابہ ۲؎

اور ابن عساکر کی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک چُلو سے وضوکیـا۔اورفرمایـا: اللہ نماز قبول نہیں فرماتامگراسی سے ۔

(۲؎ کنز العمال بحوالہ عساکر عن ابی ہریرۃ حدیث ۲۶۸۳۱مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۴۳۱)

فیکون علی الحمل الاول کحدیث سعید بن منصور وابن ماجۃ والطبرانی والدار قطنی والبیہقی عن ابن عمروابن ماجۃ والدار قطنی عن ابی بن کعب والدار قطنی فی غرائب مالک عن زید بن ثابت وابی ھریرۃ معارضی اللّٰہ تعالی عنھم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم توضا مرۃ مرۃ وقال ھذا وضؤ لایقبل اللّٰہ صلاۃالابہ ۳؎

تویہ ہمارے بیـان کردہ پہلے طریقہ کے مطابق حضرت ابن عمر سے سعیدبن منصور،ابن ماجہ، طبرانی، دارقطنی اور بیہقی کی حدیث کی طرح ہوجائے گی، اور جیسے حضرت ابی بن کعب سے ابن ماجہ ودارقطنی کی حدیث، اور حضرت زید بن ثابت اور ابو ہریرہ دونوں حضرات رضی اللہ تعالٰی عنہم سے غرائب مالک مـیں دارقطنی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایک بار وضوکیـااورفرمایـا:یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ کوئی نماز قبول نہیں فرماتا۔

(۳؎ سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی الوضوء مرۃ و مرتین وثلثا        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۳۴)

وکذا للیدین والرجلین فی حدیث ابن عباس غیرانہ یکدرھما جمـیعا فی الوجہ قولہ اخذ غرفۃ من ماء فجعل بھا ھکذا اضافھا الی یدہ الاخری فغسل بھا وجہہ ۱؎

اسی طرح حضرت ابن عباس کی حدیث مـیں دونوں ہاتھوں اور پیروں سے متعلق جو مذکور ہے اس کا بھی یہ عمدہ محمل ہوگا۔ مگر یہ ہے کہ چہرے سے متعلق دونوں تاویلیں اس سے مکدر ہوتی ہیں کہ ان کا قول ہے''ایک چُلو پانی لے کر اسے اس طرح کیـا، اسے دوسرے ہاتھ سے ملا کرچہرہ دھویـا۔

(۱؎ صحیح البخاری باب غسل الوجہ بالیدین من غرفۃ واحدۃ    قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۶)

 الا ان یتکلف فیحمل علی ان اضاف الغرفۃ ای الاغتراف الی الید الاخری ایضا غیر قاصر لہ علی ید واحدۃ فیرجع ای الاغتراف بالیدین ویکون کحدیث ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما ایضا عن علی کرم اللّٰہ تعالٰی وجہہ عن رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ادخل یدہ الیمنی فافرغ بھا علی الاخری ثم غسل کفیہ ثم تمضمض واستنثر ثم ادخل یدیہ فی الاناء جمـیعا فاخذ بہما حفنۃ من ماء فضرب بھا علی وجہہ ثم الثانیۃ ثم الثالثۃمثل ذلک۲؎

مگر یہ کہ بتکلف اسی معنی پر محمول کیـاجائے کہ انہوں نے چلو لینے مـیں دوسرے ہاتھ کو بھی ملالیـاایک ہاتھ پر اکتفانہ کی تو یہ دونوں ہاتھ سے چلو لینے کے معنی کی طرف راجع ہوجائے گا اوراسی طرح ہوجائے گا جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماکی حدیث،حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ،رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے کہ اپنا دایـاں ہاتھ داخل کرکے اس سے دوسرے ہاتھ پر پانی ڈالا پھر دونوں ہتھیلیوں کودھویـا،پھر کُلی کی اورناک مـیں پانی ڈال کر جھاڑا پھربرتن مـیں دونوں ہاتھ ڈال کر ایک لپ پانی لے کر چہرے پر مارا، پھر دوسری پھر تیسری باراسی طرح کیـا۔

(۲؎ سنن ابی داؤد    کتاب الطہارۃ     باب صفۃ وضؤ النبی صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)

ورواہ الطحاوی مختصرا فقال اخذ حفنۃ من ماء بیدیہ جمـیعا فصک بھما وجہہ ثم الثانیۃ مثل ذلک۳؎ ثم الثالثۃ فذکرالی المضمضۃ والاستنشاق الاغتراف بکف واحدۃ فاذا اتی علی الوجہ اضافہ الی الید الاخری ایضا فان لم یقبل ھذا فقد علمت ان استیعاب الوجہ بکف واحدۃ متعسر بل متعذر۔

اسے امام طحاوی نے مختصراً روایت کیـا۔اس مـیں یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرے پر مارا، پھر دوسری بار اسی طرح کیـا،پھرتیسری بارایسے ہی۔ تومضمضہ واستنشاق تک توایک ہاتھ سے چلو لینا ذکر کیـا۔جب چہرے پرآئے تودوسراہاتھ بھی ملایـا۔اگر یہ تاویل نہ مانی جائے تو معلوم ہوچکا کہ ہتھیلی بھر پانی سے چہرے کا استیعاب دشوار بلکہ متعذر ہے۔(ت)

(۳؎شرح معانی الآثار کتاب الطہارۃ باب الحکم الاذنین فی الوضوءللصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۰ )

اقول :  بل لربما تبقی الحفنۃ باقیۃ فضلا عن الکفۃ والدلیل علیہ ھذا الحدیث الذی ذکرنا تخریجہ عن الامام احمد وابی داؤد وابن خزیمۃ وابو یعلی والامام الطحاوی وابن حبان والضیـاء عن ابن عباس عن علی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وعلیہم وسلم حیث قال بعد ذکر غسل الوجہ بثلث حفنات کما تقدم ثم اخذ بکفہ الیمنی قبضۃ من ماء فصبہا علی ناصیتہ فترکہا تستن علی وجہہ ثم غسل ذراعیہ الی المرفقین ثلثا ثلثا۱؎ الحدیث وھذا ایضا معلوم مشاھد۔

اقول :  بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے لینے پر بھی کچھ حصہ باقی رہ جائے گا صرف ہتھیلی بھر لینے کی توبات ہی کیـاہے۔ اس پر دلیل یہی حدیث ہے جس کی تخریج ہم نے امام احمد،ابوداؤد،ابن خزیمہ، ابو یعلی، امام طحاوی، ابن حبان اور ضیـاء سے ذکر کی، جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی ہے اس مـیں جیسا کہ گزرا تین لپ سے چہرہ دھونے کے تذکرے کے بعد ہے، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے مٹھی بھرپانی لے کر پیشانی پر ڈال کر اسے چہرے پر بہتا چھوڑدیـا۔ پھر اپنی کلائیوںکوکہنیوں تک تین تین بار دھویـا۔ یہ بھی تجربہ ومشاہدہ سے معلوم ہے۔

(۱؎ سنن ابی داؤد    کتاب الطہارۃ     باب صفۃ وضؤ النبی صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۶)

وبالجملۃ لولم یصرف حدیث الغرفۃ عن ظاھرہ لرجع الغسل الی الدھن وھو خلاف الروایۃ والدرایۃ بل الاجماع والروایۃ الشاذۃ عن الامام الثانی رحمہ اللّٰہ تعالی مؤولۃ کما فی ردالمحتار عن الحلیۃ عن الذخیرۃ وغیرھا فاذن لایبقی الا ان نقول انالا نقدر علی مثل مافعل ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما تلک المرۃ فضلا عن فعل صاحب الاعجاز الجلیل المُرْوی مرار اللجمع الجزیل بالماء القلیل علیہ من ربہ اعلی صلوۃ واکمل تبجیل۔ ویقرب منہ اواغرب منہ ماوقع فی سنن سعید بن منصور عن الامام الاجل ابرھیم النخعی رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال لم یکونوا یلطموا وجوھھم بالماء وکانوا اشد استبقاء للماء منکم فی الوضوء وکانوا یرون ان ربع المد یجزئ من الوضوء وکانوا صدق ورعا واسخی نفسا واصدق عندالباس۱؎۔

    الحاصل اگرچُلّو لینے والی حدیث کو اس کے ظاہر سے نہ پھیریں تودھونا بس ملنا ہو کر رہ جائے گا۔اوریہ روایت،درایت بلکہ اجماع کے بھی خلاف ہے۔۔۔ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی سے جو شاذروایت آئی ہے وہ مؤول ہے جیسا کہ ردالمحتار مـیں حلیہ سے، اس مـیں ذخیرہ وغیرہا سے نقل ہے۔ تاویل نہ کریں تو بس یہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اس بار حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جس طرح وضوکیـاویسے وضو پرہمـیں قدرت نہیں۔ اوران کے عمل کی تو بات ہی اور ہے جو ایسے عظیم اعجاز والے ہیں کہ بار ہا بڑے لشکر کو قلیل پانی سے سیراب کردیـا۔ان پران کے رب کی جانب سے اعلٰی واکمل درود وتحیّت ہو۔اور اسی سے قریب یـا اس سے بھی زیـادہ عجیب وہ ہے جو سُنن سعید بن منصور مـیں اما م اجل ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت آئی ہے کہ انہوں نے فرمایـا: وہ حضرات اپنے چہروں پر زورسے پانی نہ مارتے تھے اور وضومـیں وہ تم سے بہت زیـادہ پانی بچانے کی کوشش رکھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ چوتھائی مُدوضو کے لئے کافی ہے اس کے ساتھ وہ سچے ورع وپرہیز گاری والے، بہت فیـاض طبع، اورجنگ کے وقت نہایت ثابت قدم بھی تھے۔

(۱؎کنزالعمال     بحوالہ ص حدیث ۲۰۷۲۶     مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۹ /۴۷۳)

اقول :  فلا ادری کیف اجتزؤا بربع ما جعلہ النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم مجزئابل لایظن بھم انھم قنعوا بالفرائض دون السنن فاذن یکفی لغسل الیدین الی الرسغین والمضمضۃ والاستنشاق وغسل الوجہ والیدین الی المرفقین والرجلین الی الکعبین کل مرۃ سدس رطل من الماء وھذا مما لایعقل ولا یقبل الا بمعجزۃ نبی اوکرامۃ ولی صلی اللّٰہ تعالی علی الانبیـاء والاولیـاء وسلم۔

اقول :  نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جسے کافی قرار دیـا(ایک مد۔دو رطل) معلوم نہیں اس کے چوتھائی سے ان حضرات نے کیسے کفایت حاصل کرلی، بلکہ ان کے بارے مـیں یہ گمان بھی نہیں کیـاجاسکتا کہ سنتیں چھوڑ کرانہوں نے صرف فرائض پرقناعت کرلی تو(سنتوں کی ادائیگی کے ساتھ چوتھائی مُد مـیں تین تین بار جب انہوں نے سارے اعضاء دھوئے۱۲م)لازم ہے کہ گُٹّو ں تک دونوں ہاتھ دھونے ،کُلی کرنے ، ناک مـیں پانی ڈالنے،چہرہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھ، اور ٹخنوں تک دونوں پاؤں ہرایک کے ایک بار دھونے مـیں صرف ۶/۱رطل پانی کافی ہوجاتاتھا۔یہ عقل مـیں آنے والی اور ماننے والی بات نہیں مگری نبی کے معجزے یـا ولی کی کرامت ہی سے ایسا ہوسکتا ہے،تمام انبیـاء اور اولیـاپرخدائے برترکادرودوسلام ہو۔

فان قلت مایدریک لعل المراد بالمد المد العمری المساوی لصاع النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الاربعا فیکون ربع المد ثلثۃ ارباع المد النبوی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم۔

اگر کہئے آپ کو کیـا معلوم شاید مُد سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالٰی کا مُد مرادہوجوچوتھائی کمـی کے ساتھ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صاع کے برابر تھا تو وہ چوتھائی مُد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تین چوتھائی(۴/۳) مُد کے برابر ہوگا۔

قلت کلا فان ابرھیم سبق خلافۃ عمر ھذا رضی اللّٰہ تعالی عنھما مات فـــ سنۃ خمس اوست وتسعین وامـیر المؤمنین فی رجب سنۃ احدی ومائۃ وخلافتہ سنتان ونصف رضی اللّٰہ تعالی عنہ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

    مـیں کہوں گا یہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت سے پہلے وفات فرماگئے۔ ان کی وفات ۹۵ھ ؁ یـا ۹۶ھ؁ مـیں ہوئی اورامـیرالمومنین کی وفات رجب ۱۰۱ھ؁ مـیں ہوئی اور مدّتِ خلافت ڈھائی سال رہی، رضی اللہ تعالٰی عنہا۔واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

فــ:تاریخ وفات حضرت امام ابراہیم نخعی وعمر بن عبد العزیز ۔

رسالہ برکات السماء فی حکم اسراف الماء
(بے جا پانی خرچ کرنے کے حکم کے بار ے مـیں آسمانی برکات )

امر پنجم  : طہارت فــــ مـیں بے سبب پانی زیـادہ خرچ کرنا کیـا حکم رکھتا ہے۔

فــــ:مسئلہ وضو یـا غسل مـیں بے سبب پانی زیـادہ خرچ کرنے کا کیـا حکم ہے اور اس باب مـیں مصنف کی تحقیق مفرد ۔

اقول :  ملاحظہ کلمات علما ء سے اس مـیں چار قول معلوم ہوتے ہیں، ان مـیں قوی تر دو ہیں اور فضلِ الٰہی سے امـید ہے کہ بعد تحقیق وحصول توفیق اختلاف ہی نہ رہے وباللہ التوفیق۔

 (۱) مطلقاً حرام وناجائز ہے حتی کہ اگر نہر جاری مـیں وضو کرے یـا نہائے اُس وقت بھی بلاوجہ صرف گناہ وناروا ہے یہ قول بعض شافعیہ کا ہے جسے خود شیخ مذہب شافعی سیدنا امام نووی نے شرح صحیح مسلم مـیں نقل فرماکر ضعیف کردیـا اور اسی طرح دیگر محققین شافعیہ نے اُس کی تضعیف کی۔

 (۲) مکروہ ہے اگرچہ نہر جاری پر ہو اور کراہت صرف تنز یہی ہے۔ اگرچہ گھر مـیں ہو یعنی گناہ نہیں صرف خلاف سنت ہے حلیہ وبحرالرائق مـیں اسی کو اوجہ اور امام نووی نے اظہر اور بعض دیگر ائمہ شافعیہ نے صحیح کہا اور حکم آب جاری کو عام ہونے سے قطع نظر کریں تو کلام امام شمس الائمہ حلوانی وامام فقیہ النفس سے بھی اُس کا استفادہ ہوتا ہے ہاں شرنبلالی نے مراقی الفلاح مـیں عموم کی طرف صاف اشارہ کیـا،

اور امام نووی نے شرح صحیح مسلم مـیں فرمایـا: اجمع العلماء علی النھی عن الاسراف فی الماء ولوکان علی شاطیئ البحر والاظھر انہ مکروہ کراھۃ تنزیہ وقال بعض اصحابنا الاسراف حرام ۱؎۔

اس پر علماء کا اجماع ہے کہ پانی مـیں اسراف منع ہے اگرچہ سمندرکے کنارے پرہو،اوراظہریہ ہے کہ مکروہِ تنزیہی ہے ،اورہمارے بعض اصحاب نے فرمایـاکہ اسراف حرام ہے۔(ت)

(۱؎ شرح صحیح مسلم للنووی کتا ب الطہارۃ     باب القدر المستحب من الماء الخ    دارالفکر بیروت     ۲ /۱۳۷۴)

منیہ وحلیہ مـیں فرمایـا: م  ولا یسرف فی الماء ۲؎   ش   ای لا یستعمل منہ فوق الحاجۃ الشرعیۃ ۳؎ م

(م کے تحت متن کے الفاظ ہیں ش کے تحت شرح کے۱۲م) م پانی مـیں اسراف نہ کرے ش یعنی حاجتِ شرعیہ سے زیـادہ پانی استعمال نہ کرے۔

(۲؎ منیۃ المصلی    آداب الوضوء        مکتبہ قادریہ جامعہ نظامـیہ رضویہ لاہور    ص۲۹)
(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

وان کان علی شط نھر جار ۱؎ ش ذکر شمس الائمۃ الحلوانی انہ سنۃ وعلیہ مشی قاضی خان وھو اوجہ کما ھو غیر خاف فالاسراف یکون مکروھا کراھۃ تنزیہ وقد صرح النووی انہ الاظھر وحکی حرمۃ الاسراف عن بعض اھل مذھبہ وعبارۃ بعض المتأخرین منھم والزیـادہ فی الغسل علی الثلث مکروہ علی الصحیح وقیل حرام وقیل خلاف الاولی ۲؎

م اگرچہ بہتے دریـاکے کنارے ش شمس الائمہ حلوانی نے ذکرکیـا کہ یہ سنت ہے۔اسی پر قاضی خاں چلے اور یہ اَوجہ ہے جیساکہ پوشیدہ نہیں۔تواسراف مکروہ تنزیہی ہوگا۔ اور امام نووی نے اس کے اظہر ہونے کی تصریح کی اوراسراف کا حرام ہونا اپنے بعض اہل مذہب سے حکایت کیـا اوران حضرات شافعیہ کے بعد متاخرین کی عبارت یہ ہے : تین بار سے زیـادہ دھونا صحیح قول پر مکروہ ہے او ر کہا گیـا کہ حرام ہے اور کہا گیـا کہ خلاف اولٰی ہے (ت)

(۱؎ منیۃ المصلی    آداب الوضوء        مکتبہ قادریہ جامعہ نظامـیہ رضویہ لاہور    ص۲۹)
(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

بحرالرائق مـیں ہے: الاسراف ھو الاستعمال فوق الحاجۃ الشرعیہ وان کان علی شط نھر وقد ذکر قاضی خان ترکہ من السنن ولعلہ الاوجہ فیکون مکروھا تنزیھا۳؎۔

اسراف یہ ہے کہ حاجت شرعیہ سے زیـادہ استعمال کرے اگرچہ دریـاکے کنارے ہو، اور قاضی خاں نے ذکرکیـا ہے کہ اس کا ترک سنت ہے اور شاید یہی اَوجہ ہے تواسراف مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)

(۳؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)

(۳) مطلقا مکروہ تک نہیں نہ تحریمـی نہ تنزیہی صرف ایک ادب وامر مستحب کے خلاف ہے بدائع امام ملک العلما ابو بکر مسعود وفتح القدیر امام محقق علی الاطلاق ومنیۃ المصلی وغیرہا مـیں ترک اسراف کو صرف آداب ومستحبات سے شمار کیـا سنت تک نہ کہا اور مستحب کا ترک مکروہ نہیں ہوتا بلکہ سنت کا۔

حلیہ مـیں ہے : قال فی البدائع والادب فیما بین الاسراف والتقتیر اذالحق بین الغلو والتقصیر قال النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خیر الامور اوسطہا انتھی وذکر الحلوانی انہ سنہ فعلی الاول یکون الاسراف غیر مکروہ وعلی الثانی کراھۃ تنزیہ ۱؎۔

بدائع مـیں فرمایـا ادب اسراف اور تقتیر(زیـادتی اورکمـی) کے درمـیان ہے اس لئے کہ حق ،غلو اور تقصیر(حد سے تجاوز اور کوتاہی)کے مابین ہے، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا:کاموں مـیں بہتر درمـیانی ہیں، انتہی۔اور امام حلوانی نے ذکرفرمایـاکہ ترکِ اسراف سنّت ہے توقول اول کی بنیـاد پر اسراف مکروہ نہ ہوگا اورثانی کی بنیـاد پر مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)

(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

بحر مـیں ہے  : فی فتح القدیر ان المندوبات نیف وعشرون ترک الاسراف والتقتیر وکلام الناس ۲؎ الخ فعلی کونہ مندوبا لایکون الاسراف مکروھا وعلی کونہ سنۃ یکون مکروھا تنزیھا۔

فتح القدیر مـیں ہے کہ مندوباتِ وضو بیس(۲۰) سے زیـادہ ہیں۔اسراف وتقتیر اورکلام دنیـاکاترک الخ۔توترک مندوب ہونے کی صورت مـیں اسراف مکروہ نہ ہوگااورسنّت ہونے کی صورت مـیں مکروہ تنزیہی ہوگا۔(ت)

(۲؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۸)

غنیہ مـیں ہے:  (و) من الاداب (ان کان یسرف فی الماء) کان ینبغی ان یعدہ فی المناھی لان ترک الادب لاباس بہ ۳؎۔

 (اور)آداب مـیں سے یہ ہے کہ (پانی مـیں اسراف نہ کرے) اسے ممنوعات مـیں شمارکرناچاہئے تھا اس لئے کہ ترکِ ادب مـیں توکوئی حرج نہیں۔(ت)

 (۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ومن الآداب ان یستاک     سہیل اکیڈمـی لاہور    ص۳۴)

اقول : طہارت فـــــــ مـیں ترک اسراف کا صرف ایک ادب ہونا مذہب وظاہر الروایۃ ونص صریح محرر المذہب امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے، امام بخاری نے خلاصہ فصل ثالث فی الوضوء مـیں ایک جنس سنن وآداب وضو مـیں وضع کی اُس مـیں

فرمایـا:فــ : تطفل علی الغنیۃ ۔

اما سنن الوضوء فنقول من السنۃ غسل الیدین الی الرسغین ثلثا ۱؎الخ

لیکن وضو کی سنتیں،توہم کہتے ہیں سنت ہے دونوں ہاتھ گٹوں تک تین بار دھونا الخ۔(ت)

 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی      کتاب الطہارۃ الفصل الثالث     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۲۱)

پھر سُنتیں گنا کر فرمایـا: واما اداب الوضوء فی الاصل من الادب ان لایسرف فی الماء ولا یقتر ان یشرب فضل وضوئہ اوبعضہ قائما اوقاعدا مستقبل القبلۃ ۲؎ الخ

رہے آدابِ وضو، تو اصل(مبسوط) مـیں ہے کہ ادب یہ ہے کہ پانی مـیں نہ اسراف کرے نہ کمـی کرے اور اپنے وضو کا بچا ہوا کُل یـا کچھ پانی کھڑے ہوکر یـا بیٹھ کر قبلہ رُوپی جائے الخ۔(ت)

(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی      کتاب الطہارۃ الفصل الثالث     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۲۵)

اُسی کا بدائع وفتح القدیر ومنیہ وخلاصہ وہندیہ وغیرہا مـیں اتباع کیـا اور اُس سے زائد کا اتباع تھا تو اُس پر مواخذہ محض بے محل ہے واللہ الموفق۔

(۴) نہر جاری مـیں اسراف جائز کہ پانی ضائع نہ جائے گا اور اس کے غیر مـیں مکروہ تحریمـی۔ مدقق علائی نے درمختار مـیں اسی کو مختار رکھا علامہ مدقق عمر بن نجیم نے نہر الفائق مـیں کراہت تحریم ہی کو ظاہر کہا اور اُسی کوامام قاضی خان وامام شمس الائمہ حلوانی وغیرہما اکابر کا مفاد کلام قرار دیـا کہ ترک اسراف کو سنّت کہنے سے اُن کی مراد سنتِ مؤکدہ ہے اور سنتِ مؤکدہ کا ترک مکروہ تحریمـی، نیز مقتضائے کلام امام زیلعی کہ مطلق مکروہ سے غالباً مکروہ تحریمـی مراد ہوتا ہے۔ اور بحرالرائق مـیں اسے قضیہ کلام منتقٰی بتایـا کہ اُس مـیں اسراف کو منہیـات سے شمار فرمایـا اور ہر منہی عنہ کم ازکم مکروہ تحریمـی ہے۔

اقول :  اور یہی عبارت آئندہ جواہر الفتاوٰی سے مستفاد

لفحوٰھا اذا لمفاھیم فـــ معتبرۃ فی الکتب کما فی الدر والغمز والشامـی وغیرھا والقضیۃ دلیلہا ایضا کما لایخفی۔

اس کے مضمون وسیـاق کے پیش نظر کیونکہ کتابوں مـیں مفہوم معتبرہوتاہے جیسا کہ درمختار،غمز العیون اورشامـی وغیرہا مـیں ہے۔اوراس کے مقتضائے دلیل کے پیش نظر بھی، جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔(ت)

فـــ :المفاہیم معتبرۃ فی الکتب بالاتفاق۔

شرح تنویر مـیں ہے: بل فی القہستانی معزیـا للجواھر الاسراف فی الماء الجاری جائز لانہ غیر مضیع فتامل ۱؎۔

بلکہ قہستانی مـیں جوہر کے حوالے سے ہے کہ بہتے پانی مـیں اسراف جائز ہے اس لئے کہ پانی بے کار نہ جائے گا، تو تامل کرو۔(ت)

(۱؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ      مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۲)

پھر فرمایـا: مکروھہ الاسراف فیہ تحریما لوبماء النھر ولمملوک لہ اما الموقوف علی من یتطھر بہ ومنہ ماء المدارس فحرام ۲؎۔

پانی مـیں اسراف مکروہ تحریمـی ہے اگر دریـاکاپانی یـااپنی ملکیت کاپانی استعمال کرے لیکن طہارت حاصل کرنے والوں کے لئے وقف شدہ پانی ہوجس مـیں مدارِس کا پانی بھی داخل ہے تواسراف حرام ہے۔(ت)

(۲؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ          مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۴)

بحر مـیں ہے: صرح الزیلعی بکراھتہ وفی المنتقی انہ من المنھیـات فتکو ن تحریمـیۃ ۳؎۔

امام زیلعی نے اس کے مکروہ ہونے کی صراحت فرمائی اورمنتقٰی مـیں اسے منہیـات سے شمار کیـا تویہ مکروہِ تحریمـی ہوگا۔(ت)

(۳؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۲۹)

منحۃ الخالق مـیں نہر سے ہے: الظاھر انہ مکروہ تحریما اذ اطلاق الکراھۃ مصروف الی التحریم فما فی المنتقی موافق لما فی السراج عـــہ والمراد بالسنۃ المؤکدۃ لاطلاق النھر عن الاسراف وبہ یضعف جعلہ مندوبا ۱؎۔

ظاہریہ ہے کہ اسراف مکروہِ تحریمـی ہے اس لئے کہ کراہت مطلق بولی جائے تو تحریمـی کی جانب پھیری جاتی ہے تو منتقٰی کا کلام سراج کے مطابق ہے اورسنت سے مراد سنتِ مؤکدہ ہے اس لئے کہ اسراف سے مطلقاً نہی ہے اور اسی سے اُسے مندوب قراردیناضعیف ہوجاتا ہے۔(ت)

( ۱ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق     کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)

عـــہ: قال فی المنحۃ صوابہ لما فی الخانیۃ کما لایخفی اذلا ذکر للسراج فی قولہ ولافی الشارح ۱؎ ای صاحب البحر

وانا اقول :  ھذا بعید خطا ومعنی اما الاول فظاھر اذ لامناسبۃ بین لفظی السراج والخانیۃ واما الثانی ف فلان النھر فرع موافقۃ المنتقی المصرح بکونہ من المنھیـات علی اطلاق الکراھۃ فان مطلقھا یحمل علی التحریم ولا ذکر للکراھۃ فی عبارۃ الخانیۃ نعم اراد توجیہ ما فی الخانیۃ الی مااستظھرہ بقولہ بعد والمراد بالسنۃ ۲؎الخ واقرب خطا ومعنی بل الذی یجزم السامع بانہ ھو الواقع فی اصل نسخۃ النھر فحرفہ الناسخ ان نقول صوابہ لمافی الشرح والمراد بالشرح التبیین فی شرح مشروح البحر والنھر الکنز للامام الزیلعی فانہ ھو الذی صرح بالکراھۃ واطلقہا ونقلہ البحر وقرنہ بکلام المنتقی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ اھ عفی عنہ

منحۃ الخالق مـیں ہے صحیح یہ کہنا ہے کہ ''خانیہ کے مطابق'' جیسا کہ پوشیدہ نہیں اس لئے کہ سراج کا کوئی تذکرہ نہ تو کلامِ نہر مـیں ہے نہ کلامِ شارح یعنی کلامِ بحر مـیں ہے۔

اقول :  یہ خط اورمعنی دونوں اعتبار سے بعید ہے اول توظاہر ہے اس لئے کہ لفظ''سراج'' اورلفظ ''خانیہ'' مـیں کوئی مناسبت نہیں۔ اورثانی اس لئے کہ کلام منتقی جس مـیں اسراف کے منہیـات سے ہونے کی تصریح ہے اس کی کلام دیگرکے ساتھ مطابقت کی تفریع صاحبِ نہر نے اس پرفرمائی ہے کہ کراہت مطلق بولی جاتی ہے تو کراہت تحریم پرمحمول ہوتی ہے اور عبارت خانیہ مـیں کراہت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ہاں انہوں نے کلام خانیہ کی توجیہ اس عبارت سے کرنی چاہی ہے جو بعد مـیں لکھی ہے کہ سنت سے مراد سنتِ مؤکدہ ہے الخ۔رسم الخط اورمعنی دونوں لحاظ سے قریب تربلکہ جسے سننے کے بعد سامع جزم کرے کہ یقینا نہر کے اصل نسخہ مـیں یہی ہوگا اور کاتب نے تحریف کردی ہے یہ ہے کہ ہم کہیں صحیح عبارت ''موافق لمافی الشرح'' ہے، یعنی کلام منتقی اس کے مطابق ہے جوشرح مـیں ہے۔ اورشرح سے مرادامام زیلعی کی تبیین الحقائق ہے جو البحر الرائق اور النہر الفائق کے متن کنزالدقائق کی شرح ہے۔اسی مـیں کراہت کی صراحت اور اطلاق ہے اسی کوصاحبِ بحر نے نقل کیـا اور اس کے ساتھ منتقٰی کا کلام ملادیـا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

فــ: معروضۃ علی العلامۃ ش۔

( ۱ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق     کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)
(۲ ؎منحۃ الخالق علی البحرالرائق     کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۹)

التنبیہ الاول : عرض العلامۃ الشامـی نورقبرہ السامـی بالمحقق صاحب البحر انہ تبع قولالاحد من اھل المذھب حیث قال ''قولہ تحریما الخ نقل ذلک فی الحلیۃ عن بعض المتاخرین من الشافعیۃ وتبعہ علیہ فی البحر وغیرہ ۲؎الخ

تنبیہ(۱) علامہ شامـی'' نور قبرہ السامـی''نے محقق صاحبِ بحرپرتعریض فرمائی کہ انہوں نے ایک ایسے قول کااتباع کر لیـا جو اہل مذہب مـیں سےی کانہیں،اس طرح کہ وہ درمختار کے قول تحریماالخ کے تحت لکھتے ہیں: اسے حلیہ مـیں بعض متاخرین شافعیہ سے نقل کیـا ہے جس کی پیروی صاحبِ بحر وغیرہ نے کرلی ہے الخ۔

(۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ             دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۸۹)

اب بتوفیق اللہ تعالٰی یہاں تحقیق مقام وتنقیح مرام وتصحیح احکام ونقض وایرام کیلئے بعض تنبیہات نافعہ ذکر کریں۔

اقول :  لم یتبعہ فـــ البحر بل استوجہ کراھۃ التنزیہ ثم نقل عن الزیلعی کراھتہ وعن المنتقی النھی عنہ وافاد ان مقتضاہ کراھۃ التحریم وھذااختیـار الہ بل اخبار عما یعطیہ کلام المنتقی کما اخبر اولا ان قضیۃ عدم الفتح ترکہ من المندوبات عدم کراھتہ اصلا فلیس فیہ مـیل الیہ فضلا عن الاتباع علیہ ولا سیمافی کلامہ التنصیص بجریـان الحکم فی الماء الجاری والاطلاق لایسد ھھنا مسد الفصاح بالتعمـیم للفرق البین بالتضییع وعدمہ فکیف یجعل متابعا للقول الاول وعن ھذا ذکرنا کل من قضیۃ کلام المنع فی القول الرابع دون الاول اذلا ینسب الا الی من یفصح بشمول الحکم النھر ایضا نعم تبعہ علیہ فی الغنیۃ اذقال الاسراف مکروہ بل حرام وان کان علی شط نھر جار لقولہ تعالی ولا تبذر ۱؎ تبذیرا اھ

    اقول :  صاحبِ بحر نے ا س کی پیروی نہیں کی بلکہ انہوں نے مکروہ تنزیہی ہونے کو اَوجَہ کہا پھر امام زیلعی سے اس کا مکروہ ہونا اور منتقی سے منہی عنہ ہونانقل کیـا اور افادہ کیـا کہ اس کا مقتضاکراہت تحریم ہے۔یہ اس قول کواختیـار کرنا نہ ہوا بلکہ منتقٰی سے جو مفہوم اخذ ہوتا ہے اسے بتانا ہوا جیسے اس سے پہلے انہوں نے بتایـاکہ صاحبِ فتح کے ترک اسراف کومندوبات سے شمارکرنے کا مقتضایہ ہے کہ اسراف بالکل مکروہ نہ ہوتواس مـیں اس کا اتباع درکناراس کی جانب مـیلان بھی نہیں ،خصوصاً جبکہ ان کے کلام مـیں آبِ رواں کے اندرحکمِ اسراف جاری ہونے کی تصریح بھی نہیں۔اورمطلق بولنا اس مقام پرحکم کوصاف صریح طورپرعام قراردینے کے قائم مقام نہیں ہوسکتااس لئے کہ پانی کوضائع کرنے اور نہ کرنے کا بیّن فرق موجود ہے توانہیں قول اول کا متبع کیسے ٹھہر ایـا جاسکتا ہے۔ اسی لئے جن حضرات کے کلام کامقتضا ممانعت ہے انہیں ہم نے قول چہارم مـیں ذکر کیـا،قول اول کے تحت ذکر نہ کیـا اس لئے کہ قولِ اوّل اسی کی جانب منسوب ہوسکتا ہے جو صاف طور پر اس کا قائل ہوکہ اسراف کاحکم دریـا کوبھی شامل ہے۔ہاں اس قول کی پیروی غنیہ مـیں ہے کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں: اسراف مکروہ بلکہ حرام ہے اگرچہ نہر جاری کے کنارے ہو اس لئے کہ باری تعالٰی کا ارشاد ہے ولا تبذر تبذیرا اور فضول خرچی نہ کر اھ۔(ت)

فـــ: معروضۃ ثالثۃ علیہ ۔

(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ومن الآداب ان یستاک     سہیل اکیڈمـی لاہور    ص۳۵۔۳۴)

التنبیہ الثانی  : کان عرّض علی البحر واتی بالتصریح علی الدر فقال ماذکرہ الشارح ھنا قد علمت انہمن کلام مشائخ المذھب ۲؎ اھ

    تنبیہ(۲): صاحبِ بحر پر تو تعریض کی تھی اورصاحبِ درمختار کے معاملہ مـیں توتصریح کردی اور لکھا کہ:''شارح نے یہاں جو بیـان کیـا تمہیں معلوم ہے کہ وہ مشائخ مذہب مـیں سےی کاکلام نہیں''اھ

(۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ             دار ا حیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۹۰)

اقول :  والدر فــ ایضا مصفی عن ھذا الکدر کدر مکنون وانما اغتر المحشی العلامۃ بقولہ لوبماء النھر ولم یفرق بین تعبیری التوضی من النھر وبماء النھر ورأیتنی کتبت ھھنا علی الدر قولہ لوبماء النھر۔

    اقول :  اس کدورت سے دُربھیی دُرِّ مکنون کی طرح صاف ہے۔ علامہ محشی کو درمختار کے لفظ''لوبماء النھر''سے دھوکا ہوا اور التوضّی من النھراور التوضّی بماء النھر(دریـا سے وضو کرنا اوردریـا کے پانی سے وضو کرنا)کی تعبیروں مـیں فرق نہ کرسکے۔یہاں دُرِ مختار کے قول ''لو بماء النھر'' پردیکھا کہ مـیں نے یہ حاشیہ لکھا ہے:

 فـــ: معروضۃ رابعۃ علیہ

اقول :  ای فی الارض لافی النھر واراد تعمـیم الماء المباح والمملوک اخراجا للماء الموقوف فلا ینافی ماقدمہ عن القھستانی عن الجواھر ۳؎ ماکتبت علیہ۔

    اقول :  (پانی مـیں اسراف مکروہ تحریمـی ہے اگر نہر کے پانی سے طہارت حاصل کرے) یعنی نہر کے پانی سے زمـین مـیں (وضوکرے) نہر کے اندرنہیں انہوں نے وقف شدہ پانی کو خارج کرنے کے لئے حکم آب مباح اورآب مملوک کو عام کرنا چاہا ہے تو یہ اس کے منافی نہیں جو وہ قہستانی کے حوالے سے جواہر سے سابقاً نقل کرچکے۔ اھ۔مـیرا حاشیہ ختم ہوا۔

(۳؎جد الممتار علی رد المحتا ر کتاب الطہارۃ المجمع الاسلامـی مبارک پور اعظم گڑھ (ہند )۱ /۹۹)

ومما اکد الاشتباہ علی العلامۃ المحشی ان المحقق الحلبی فی الحلیۃ نقل مسألۃ الماء الموقوف وماء المدارس عن عبارۃ الشافعی المتأخر۔فتمامھا بعد قولہ مکروہ علی الصحیح وقیل حرام وقیل خلاف الاولی ومحل الخلاف مااذا توضا ء من نھر اوماء مملوک لہ فان توضأ من ماء موقوف حرمت الزیـادۃ والسرف بلا خلاف لان الزیـادۃ غیر ماذون فیھا وماء المدارس من ھذا القبیل لانہ انما یوقف ویساق لمن یتوضؤ الوضوء الشرعی ولم یقصدا باحتہا لغیر ذلک ۱؎اھ

    اور علامہ شامـی کے اشتباہ کو تقویت اس سے بھی ملی کہ محقق حلبی نے آب موقوف اور آب مدارس کا مسئلہ شافعی متاخر کی عبارت سے نقل کیـا کیونکہ ان شافعی کے قول'' مکروہ برقولِ صحیح ،اور کہا گیـا حرام اورکہاگیـا خلافِ اولٰی'' کے بعد ان کی بقیہ عبارت یہ ہے: اورمحلِ اختلاف وہ صورت ہے جب نہرسے وضوکیـاہویـااپنی ملکیت کے پانی سے کیـا ہوتوزیـادتی واسراف بلا اختلاف حرام ہے اس لئے کہ زیـادتی کی اجازت نہیں اور مدارِس کاپانی اسی قبیل سے ہے اس لئے کہ وہ ان لوگوں کے لئے وقف ہوتا اورلایـا جاتا ہے جو اس سے وضو ئے شرعی کریں اور ان کے علاوہ کے لئے اس کی اباحت مقصود نہیں ہوتی اھ۔

(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

ثم رأی المسألتین فی عبارتی البحر والدر ورأی الحکم فیھما بکراھۃ التحریم فسبق الی خاطرہ انھما تبعا قیل التحریم العام ولیس کذلک فان حرمۃ الاسراف فی الاوقاف مجمع علیھا وقد غیرا فی التعبیر بما یبرئھما عن تعمـیم التحریم فلم یقولا توضأ من نھر بل قال البحر ھذا اذا کان ماء نھر۱؎ وقال الدر لوبماء النھر ۲؎والفرق فی التعبرین لایخفی علی المتأمل ۔

    پھرعلامہ شامـی نے یہ دونوں مسئلے بحر اوردرکی عبارتوں مـیں بھی دیکھے یعنی یہ کہ ان دونوں مـیں کراہت تحریم کا حکم موجود ہے۔تو ان کاذہن اس طرف چلاگیـا کہ دونوں نے تحریم عام کے قول کی پیروی کرلی ہے۔حالاں کہ ایسا نہیں۔ اس لئے کہ اوقاف مـیں اسراف کی حرمت اجماعی ہے اوردونوں حضرات نے تعبیر مـیں اتنی تبدیلی کردی جس کے باعث تحریم کوعام قرار دینے سے بری ہوگئے۔ توان حضرات نے ''توضّأ من نھر''  (دریـا سے وضو کیـا)نہ کہابلکہ بحرنے کہا: ھذا اذا کان ماء نھر ( یہ حکم اس وقت ہے جب دریـا کا پانی ہوالخ) اورصاحب درمختارنے کہا:لوبماء النھر (اگردریـا کے پانی سے وضو کرے الخ)اور تأمل کرنے والے پردونوں تعبیروں کافرق مخفی نہیں۔

(۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)
(۲؎ الدر المختار     کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی         ۱ /۲۴)

وبیـان ذلک علی مااقول :  ان المتوضیئ من النھر وان لم یدل مطابقۃ الا علی التوضی بالاغتراف منہ لکن یدل عرفا علی نفی الواسطۃ فمن ملأکوزا من نھر واغترف عند التوضی من الکوز لایقال توضأ من النھر بل من الکوز الاعلی ارادۃ حذف ای بماء ماخوذ من النھر والتوضی من نھر بلا واسطۃ انما یکون فی متعارف الناس بان تدخل النھر اوتجلس علی شاطئہ وتغترف منہ بیدک وتتوضأ فیہ فوقوع الغسالۃ فی النھر ھو الطریق المعروف للتوضی من النھر فیدل علیہ دلالۃ التزام للعرف المعہود بخلاف التوضی بماء النھر فلا دلالۃ لہ علی وقوع الغسالۃ فی شیئ اصلا الاتری ان من توضأ فی بیتہ بماء جُلب من النھر تقول توضأ بماء النھر لامن النھر ھذا ھو العرف الفاشی والفرق فی الاسراف بین الماء الجاری وغیرہ بانہ تضییع فی غیرہ لافیہ انما یبتنی علی وقوع الغسالۃ فیہ ولا نھر وسکبہا علی الارض من دون نفع فقد ضیع وان افرغ جرۃ عندہ فی نھر لم یضیع والدال علی ھذا المبنی ھو لفظ من نھر لالفظ بماء النھر کما علمت ففی الاول تکون دلالۃ علی تعمـیم التحریم لافی الثانی ھذا ھو الفارق بین تعبیر ذلک الشافعی وتعبیر البحر والدر وحینئذ وغیرھا فلا یکون متبعا لقیل فی غیر المذھب۔

اقول :  اس کی توضیح یہ ہے کہ التوضی من النھر(دریـاسے وضوکرنا)اگرمعنی مطابقی کے لحاظ سے یہی بتاتا ہے کہ اس سے ہاتھ یـا برتن مـیں پانی لے کروضوکرنا لیکن عرفاً اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس سے بغیرکسی واسطہ کے وضو کرنا تواگری نے برتن مـیں دریـا سے پانی بھر لیـا اور وضو کے وقت برتن سے ہاتھ مـیں پانی لے کر وضو کیـا تو یہ نہ کہا جائے گا کہ اس نے دریـا سے وضو کیـا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ برتن سے وضوکیـا۔ مگر خذف مراد لے کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ دریـا سے۔ یعنی دریـا سے لئے ہوئے پانی سے وضو کیـا۔ اورنہر سے بلا واسطہ وضو کرنے کی صورت لوگوں کے عرف مـیں یہ ہوتی ہے کہ کوئی دریـا کے اندر جا کر۔یـا اس کے کنارے بیٹھ کر اس سے ہاتھ مـیں پانی لیتے ہوئے اسی مـیں وضوکرے کہ غُسالہ دریـاہی مـیں گرے یہی نہرسے وضو کا معروف طریقہ ہے کہ غُسالہ اسی مـیں گرتا ہے تو عرف معلوم کے سبب اس پراس لفظ کی دلالت التزامـی پائی جائے گی۔اور التوضی بماء النھر(دریـا کے پانی سے وضوکرنے) کا مفہوم یہ نہیں ہوتا اس لفظ کی دلالتی چیز کے اندر غسالہ کے گرنے پر بالکل نہیں ہوتی۔دیکھئے اگری نے اپنے گھر مـیں اُس پانی سے وضو کیـاجودریـاسے لایـاگیـاتھا تویہ کہاجائے گا کہ اس نے دریـاکے پانی سے وضو کیـااوریہ نہ کہاجائے گا کہ اس نے دریـاسے وضوکیـا۔ یہی عام مشہور عرف ہے۔ آبِ رواں اورغیر رواں کے درمـیان اسراف مـیں یہ فرق کہ غیر جاری مـیں پانی برباد ہوتا ہے اورجاری مـیں برباد نہیں ہوتا، اس کی بنیـادغسالہ کے اس کے اندر گرنے ہی پرہے۔اور اس فرق مـیں ہاتھ یـا برتن سے پانی لینے کوکوئی دخل نہیں کیوں کہ اگرکسی نے دریـا سے گھڑا بھر کر زمـین پر بے فائدہ بہادیـاتو اس نے پانی بربادکیـا۔ا ور اگر اپنے  پاس کا بھرا ہوا گھڑادریـا مـیں اُنڈیل دیـا تو اس نے پانی برباد نہ کیـا اور اس بنیـاد کو بتانے والالفظ وہی''من نھر'' (دریـاسے) ہے'' بما النھر'' (دریـا کے پانی سے)نہیں جیسا کہ واضح ہوا۔ تو من نھر کہنے مـیں اس پر دلالت ہوتی ہے کہ حکم تحریم دریـا سے وضو کوبھی شامل ہے اور بماء النھر کہنے مـیں یہ دلالت نہیں ہوتی ۔ یہی فرق ہے ان شافعی کی تعبیر مـیں اور بحر ودر کی تعبیر مـیں۔اورجب ایسا ہے تو صاحبِ دُر اپنے ساتھ جو اہر کو بھی پائیں گے اور منتقی ونہروغیرہا کو بھی۔تووہ غیر مذہب کےی قولِ ضعیف کی پیروی کرنے والے نہ ہوں گے۔

اقول :  فـــ بتحقیقنا ھذا ظھر الجواب عما اخذ بہ الامام المحقق الحلبی فی الحلیۃ علی المشائخ حیث یطلقون ھھنا من مکان فی یقولون توضا من حوض من نھر من کذا ویریدون وقوع الغسالۃ فیہ قول فی المنیۃ اذا کان الرجال صفوفا یتوضوء ن من الحوض الکبیر جاز ۱؎ قال فی الحلیۃ التوضی منہ لایستلزم البتۃ وقوع الغسالۃ فیہ بخلاف التوضی فیہ ووقوع غسالاتھم فیہ ھو مقصود الافادۃ ۲؎ واطال فی ذلک وکررہ فی مواضع من کتابہ وھو من باب التدنق والمشائخ یتساھلون باکثر من ھذا فکیف وھو المفاد من جہۃ المعتاد۔

اقول :  ہماری اسی تحقیق سے اس کا جواب بھی واضح ہوگیـا جو امام محقق حلبی نے حلیہ مـیں حضرات مشائخ پرگرفت کی ہے اس طرح کہ وہ حضرات یہاں''فی''(مـیں) کی جگہ''من''(سے) بولتے ہیں کہتے ہیں توضأ من حوض، من نھر، من کذا (حوض سے ،دریـا سے، فلاں سے وضو کیـا)اور مراد یہ لیتے ہیں کہ غسالہ اسی مـیں گرا۔ منیہ مـیں لکھا:جب بہت سے لوگ قطاروں مـیںی بڑے حوض سے وضوکرنا جائز ہے ۔اس پر حلیہ مـیں لکھا:حوض سے وضو کرناقطعی طورپراس بات کو مستلزم نہیں کہ غسالہ اسی مـیں گرے بخلاف حوض مـیں وضو کرنے کے۔ اورلوگوں کاغسالہ اس مـیں گرتا ہوسے یہی بتانا مقصود ہے۔اس اعتراض کو بہت طویل بیـان کیـا ہے اور اپنی کتاب کے متعددمقامات پر باربار ذکرکیـاہے حالاں کہ یہ عبارت مـیں بے جا تدقیق کے باب سے ہے۔ حضرات مشائخ تواس سے بہت زیـادہ تسامح سے کام لیتے ہیں پھراس مـیں کیـا جب کہ عرف عام اور طریق معمول کا مفاد بھی یہی ہے۔(ت)

فـــ:تطفل علی الحلیۃ ۔

(۱؎ منیۃ المصلی فصل فی الحیـاض مکتبہ قادریہ جامعہ نظامـیہ رضویہ لاہور    ص۶۷)
(۲؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

تنبیہ(۳) : علامہ عمر بن نجیم نے نہر الفائق مـیں قول سوم کو دوم کی طرف راجع کیـا اور اپنے شیخ اکرم واخ اعظم محقق زین رحمہما اللہ تعالٰی کی تقریر سے یہ جواب دیـا کہ ترک اسراف کو ادب یـا مستحب گننا اسے مقتضی نہیں کہ اسراف مکروہ تنزیہی بھی نہ ہوا کہ آخر خلاف مستحب ہے اور خلاف مستحب خلاف اولی اور خلاف اولی مکروہ تنزیہی۔

قال فی المنحۃ قال فی النھر لانسلم ان ترک المندوب غیر مکروہ تنزیھا لما فی فتح القدیر من الجنائز والشہادات ان مرجع کراھۃ التنزیہ خلاف الاولی ولا شک ان تارک المندوب اٰت بخلاف  الاولٰی۱؎۔ اھ

منحۃ الخالق مـیں ہے نہر مـیں کہا:ہم اسے نہیں مانتے کہ ترک مندوب،مکروہ تنزیہی نہیں اسلئے کہ فتح القدیر مـیں جنائز اورکتاب الشہادات مـیں لکھا ہے کہ کراہت تنزیہ کامآل خلافِ اولٰی ہے اور مندوب کوترک کرنے والا بلاشبہ خلافِ اولٰی کا مرتکب ہے اھ۔(ت)

(۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱ /۲۹)

یہی جواب کلام بدائع پر محقق حلبی کی تقریر سے ہوگا۔ علّامہ شامـی نے یہاں اُسے مقرر رکھا اور ردالمحتار مـیں صراحۃً اس کا اتباع کیـا حیث قال مامشی علیہ فی الفتح والبدائع وغیرھما من جعل ترکہ مندوبا فیکرہ تنزیھا ۲؎ اھ (اس طرح کہ وہ لکھتے ہیں:جس پرفتح ،بدائع وغیرہما مـیں گئے ہیں وہ یہ ہے کہ ترک اسراف کو مندوب قراردیـاہے تووہ اسراف تنزیہی ہوگا اھ۔(ت)

(۲؎ردالمحتار کتاب الطہارۃ مطلب فی الاسراف فی الوضوء دار احیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۹۰ )

اقول :  وباللّٰہ استعین ( مـیں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں ) اولا فــ  : یہ معلوم کیجئے کہ مکروہ تنزیہی کی تحدید مـیں کلمات علما ء مختلف بھی ہیں اور مضطرب بھی، فتح القدیر کی طرح نہ ایک کتاب بلکہ بکثرت کتب مـیں ہے کہ کراہت تنزیہ کا مرجع خلاف اولی ہے اس طور پر ہر مستحب کا ترک بھی مکروہ تنزیہی ہونا چاہئے۔

فــ  : مکروہ تنزیہی کی تحدید مـیں علماء کا اختلاف اورعبارات مـیں اضطراب۔

درمختار آخر مکروہاتِ نماز مـیں ہے : یکرہ ترک کل سنۃ ومستحب ۳؎

ہر سنت اور مستحب کا ترک مکروہ ہے۔ (ت)

(۳؎ الدر المختار کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکر ہ فیہا مطبع مجتبائی دہلی۱ /۹۳)

اور بہت محققین کراہت کیلئے دلیل خاص یـا صیغہ نہی کی حاجت جانتے ہیں یعنی جبکہ فعل سے باز رہنے کی طلب غیر حتمـی پر دال ہو۔

اقول :  ولو قطعی فـــ۱ الثبوت فان المدار علی ماذکرنا من حال الطلب کما قدمنا تحقیقہ فی الجود الحلووان قال فی الحلیۃ من صدر الکتاب المنہی خلاف المامور فان کان النھی المتعلق بہ قطعی الثبوت والدلالۃ فحرام وان کان ظنی الثبوت دون الدلالۃ اوبالعفمکروہ تحریما وان کان ظنی الثبوت والدلالۃ فمکروہ تنزیہا ۱؎ اھ

اقول :  اگرچہ دلیل قطعی الثبوت ہواس لئے کہ مداراسی پر ہے جسے ہم نے ذکرکیـا یعنی یہ کہ طلب کاحال کیـا ہے حتمـی ہے یـا غیر حتمـی،جیساکہ اس کی تحقیق الجَود الحَلُو مـیں ہم کر چکے ۔اگرچہ حلیہ کے اندر شروع کتاب مـیں یہ لکھا ہے :منہی،مامور کامخالف ہے۔اگراس سے تعلق رکھنے والی نہی ثبوت اوردلالت مـیں قطعی ہوتووہ حرام ہے۔اور اگرثبوت مـیں ظنی ہودلالت مـیں نہیں،یـا برعصورت ہوتومکروہِ تحریمـی ہے۔اوراگر ثبوت ودلالت مـیں ظنی ہوتومکروہ  تنزیہی ہے اھ۔(ت)

فـــ۱ :تطفل علی الحلیۃ۔

( ۱؎ حلیۃ ا لمحلی شرح منیۃ المصلی )

اور شک نہیں کہ اس تقدیر پر ترکِ مستحب مکروہ نہ ہوگا، مجمع الانہر باب الاذان مـیں ہے: لاکراھۃ فی ترک المندوب ۲؎ (ترکِ مندوب مـیں کوئی کراہت نہیں۔(ت)

(۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر      کتاب الصلوۃ باب الاذان     دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۷۵)

اضطراب یہ کہ جن صاحب فــ۲ فتح قدس سرہ نے جابجا تصریح فرمائی کہ خلاف اولٰی مکروہ تنزیہی ہے اور اوقاتِ مکروھہ نماز مـیں فرمایـا کہ جانب ترک مـیں مکروہ تنزیہی جانب فعل مـیں مندوب کے رتبہ مـیں ہے

فـــ۲ تطفل ما علی الفتح ۔

حیث قال التحریم فی مقابلۃ الفرض فی الرتبۃ وکراھۃ التحریم فی رتبۃ الواجب والتنزیہ برتبہ المندوب ۳؎

(ان کے الفاظ یہ ہیں: تحریم رتبہ مـیں فرض کے مقابل ہے اورکراہت تحریم رتبہ مـیں واجب کے مقابل اورکراہت تنزیہ مندوب کے رتبہ مـیں ہے۔(ت)

(۳؎ فتح القدیر    کتاب الصلوٰۃ باب المواقیت فصل فی اوقات المکروھۃ      مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۰۲)

اُنہی نے تحریر الاصول مـیں تحریر فرمایـا کہ مکروہ تنزیہی وہ ہے جس مـیں صیغہ نہی وارد ہوا جس مـیں نہی نہیں وہ خلاف اولی ہے اور کراہت تنزیہ کا مرجع خلاف اولی کی طرف ہونا ایک اطلاق موسع کی بنا پر ہے

حیث قال فی الباب الاول من المقالۃ الثانیۃ من التحریر مسألۃ اطلاق المامور بہ علی المندوب مانصہ ''المکروہ منھی ای اصطلاحا حقیقۃ مجاز لغۃ والمراد تنزیھا ویطلق علی الحرام وخلاف الاولی مما لاصیغۃ فیہ والا فالتنزیھیۃ مرجعہا الیہ۱؎۔

اس طرح کہ تحریر الاصول مقالہ دوم کے با ب اول مسألہ اطلاق الماموربہ علی المندوب کے تحت لکھا: مکروہ اصطلاح مـیں حقیقۃً منہی ہے اور لغت مـیں مجازاً۔۔۔ اورمکروہ سے مراد تنزیہی ہے اور اس کا اطلاق حرام پر بھی ہوتاہے اور اس خلافِ اولٰی پربھی جس سے متعلق صیغہ نہی وارد نہیں ورنہ کراہت تنزیہ کامرجع وہی ہے (جس مـیں صیغہ نہی وارد ہو)۔(ت)

(۱؎ التحریر فی الاصول الفقہ     المقا لۃ الثا نیۃ البا ب الاول مصطفی البابی مصر     ص۲۵۷۔۲۵۶)

جس حلیہ فــ۱ مـیں یہ فرمایـا کہ: علی الاول یکون الاسراف غیر مکروہ ۲؎ (اسراف کو خلاف ادب ٹھہرانے والے قول پر اصراف مکروہ نہ ہوگا (ت)

 فـــ۱ تطفل علی الحلیۃ

(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃالمصلی )

اُسی کے صدر مـیں ہے : المکروہ تنزیھا مرجعہ الی خلاف الاولی والظاھر انھما متساویـان ۳؎

مکروہ تنزیہی کا مرجع خلاف اولٰی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ دونوں مـیں تساوی ہے۔(ت)

(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃالمصلی )

جس غنیہ فـــ۲ کے اوقات مـیں باتباع فتح تصریح فرمائی کہ: التنزیھیۃ مقابلۃ المندوب ۴؎ (کراہت تنزیہیہ بمقابلہ مندوب ہے۔ ت)

(۴؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی الشرط الخامس         سہیل اکیڈمـی لاہور         ص۲۳۶)

فـــ۲ تطفل علی الغنیۃ ۔

اُسی کے مکروہات صلوٰۃ مـیں فرمایـا: الفعل ان تضمن ترک واجب فھو مکروہ کراھۃ تحریم وان تضمن ترک سنۃ فھو مکروہ کراھۃ تنزیہ ولکن تتفاوت فی الشدۃ والقرب من التحریمـیۃ بحسب تاکد السنۃ ۱؎۔

فعل اگر ترکِ واجب پرمشتمل ہوتو مکروہِ تحریمـی ہے اور ترکِ سنّت پر مشتمل ہوتومکروہِ تنزیہی،لیکن یہ شدّت اورمکروہِ تحریمـی سے قرب کے معاملہ مـیں سنّت کے تاکید پانے کے لحاظ سے تفاوت رکھتاہے۔(ت)

(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل مکروہا ت الصلوۃ         سہیل اکیڈمـی لاہور         ص۳۴۵)

نیز صدر کتاب مـیں فرمایـا: (اعلم ان للصلاۃ سننا) وترکھا یوجب کراھۃ تنزیہ (وادبا) جمع ادب ولا باس بترکہ ولا کراھۃ (وکراھیۃ) والمراد بھا ما یتضمن ترک سنۃ وھو کراھۃ تنزیہ اوترک واجب وھو کراھۃ التحریم۲؎۔

(واضح ہوکہ نماز کی کچھ سنتیں ہیں) اور ان کا ترک کراہت تنزیہ کا موجب ہے(اورکچھ آداب ہیں) یہ ادب کی جمع ہے اوراس کے ترک مـیں کوئی حرج اورکراہت نہیں(اور کچھ مکروہات ہیں)ان سے مرادوہ جو ترکِ سنت پرمشتمل ہویہ مکروہ تنزیہی ہے یـا وہ جو ترک واجب پر مشتمل ہویہ مکروہ تحریمـی ہے۔(ت)

(۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مقدمۃ الکتاب         سہیل اکیڈمـی لاہور         ص۱۳)

جس بحر فــ کے اوقات(نماز ) مـیں تھا التنزیہ فی رتبۃ المندوب ۳؎ (کراہت تنزیہی مندوب کے مقابل مرتبہ مـیں ہے۔ ت)

فــ:تطفل علی البحر۔

(۳؎ البحرالرائق    کتاب الصلوٰۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۴۹)

اسی کے باب العیدین مـیں فرمایـا : لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذ لابدلھا من دلیل خاص فلذا کان المختار عدم کراھۃ الا کل قبل الصلاۃ ۴؎ اھ ای صلاۃ الاضحٰی۔

ترک مستحب سے کراہت لازم نہیں اس لئے کہ کراہت کے لئے دلیل خاص ضروری ہے۔اسی لئے مختاریہ ہے کہ نمازعید قرباں سے پہلے کھالینا مکروہ نہیں۔(ت)

(۴؎ البحرالرائق     کتاب الصلوۃ     باب العیدین         ایچ ایم سعید کمپنی     ۲ /۱۶۳)

اور دربارہ عـــــہ ترک اسراف ان کا کلام گزرا اُسی کے مکروہات نماز مـیں ایسی ہی تصریح فرما کر پھر خود اُس پر اشکال وارد کردیـا کہ ہر مستحب خلافِ اولی ہے اور یہی کراہت تنزیہ کا حاصل۔

عـــہ نیز ثانیـا مـیں ان کا کلام آتا ہے کہ امام زیلعی نے لطم وجہ کو مکروہ لکھا تو اس کا ترک سنت ہوگا نہ کہ مستحب ۱۲ منہ غفرلہ ۔

حیث قال السنۃ ان کانت غیر مؤکدۃ فترکہا مکروہ تنزیھا وان کان الشیئ مستحبا او مندوبا ولیس بسنۃ فینبغی ان لایکون ترکہ مکروھا اصلا کما صرحوا بہ انہ یستحب یوم الاضحٰی ان لایـاکل قالوا ولو اکل فلیس بمکروہ فلم یلزم من ترک المستحب ثبوت کراھتہ الا انہ یشکل علیہ ماقالوہ ان المکروہ تنزیھا خلاف الاولی ولا شک ان ترک المستحب خلاف الاولی ۱؎ اھ

ان کے الفاظ یہ ہیں:سنت اگرغیر مؤکدہ ہوتواس کا ترک مکروہ تنزیہی ہے اور کوئی شی مستحب یـامندوب ہے اورسنت نہیں ہے تواس کا ترک مکروہ بالکل نہ ہوناچاہئے جیسے علماء نے تصریح فرمائی کہ عیدا ضحٰی کے دن نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے اور یہ بھی فرمایـا کہ اگر کھالیـاتومکروہ نہیں تو ترکِ مستحب سے کراہت کا ثبوت لازم نہ ہوامگر اس پر اشکال علماء کے اس قول سے پڑتا ہے کہ مکروہ تنزیہی خلاف اولٰی ہے اور اس مـیں شک نہیں کہ ترکِ مستحب خلافِ اولٰی ہے اھ۔

(۱؎ البحرالرائق     کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۲)

اما العلامۃ الشامـی فاضطراب اقوالہ ھھنا اکثروا وفرففی مستحبات فــ الوضوء نقل مسألۃ الاکل یوم الاضحی واستظھر ان ترک المستحب لایکرہ حیث قال ''اقول :  وھذا ھو الظاھر ان النوافل فعلہا اولی ولا یقال ترکہا مکروہ ۲؎ اھ

لیکن علامہ شامـی توان کے اقوال کا اضطراب یہاں بہت بڑھا ہوا ہے مستحباتِ وضومـیں روزاضحی کھانے کامسئلہ نقل کیـااورترکِ مستحب کے مکروہ نہ ہونے کوظاہر کہاعبارت یہ ہے: مـیں کہتاہوں یہی ظاہر ہے اس لئے کہ نوافل کی ادائیگی اولٰی ہے او ریہ نہیں کہاجاسکتا کہ ان کا ترک مکروہ ہے اھ۔

فــ : معروضۃ علی العلا مۃ ش۔

(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مستحبات الو ضو دار احیـا ء التراث العربی بیروت ۱ /۸۴ )

ثم بعد صفحۃ رجع وقال قدمنا ان ترک المندوب مکروہ تنزیھا ۱؎ اھ

پھر ایک صفحہ کے بعدرجوع کیـااورکہا:ہم پہلے بیـان کرچکے ہیں کہ ترکِ مندوب مکروہِ تنزیہی ہے اھ

(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مستحبات الو ضو دار احیـا ء التراث العربی بیروت ۱ /۸۵ )

وقال فی مکروھات الوضوفـــ۱ المکروہ تنزیھا یرادف خلاف الاولی۲؎ اھ

مکروہاتِ وضو مـیں کہا: مکروہِ تنزیہی خلافِ اولٰی کا مرادف ہے اھ۔

فــــ۱ :    معروضۃ اخری علیہ ۔

(۲؎ردا لمحتار کتاب الطہارۃ      مکروہات الوضو     داراحیـاء التراث العربی بیروت    ۱ /۸۹)

ورجع آخر مکروھات الصلاۃ فقال الظاھر ان خلاف الاولی اعم فقد لایکون مکروھا حیث لادلیل خاص کترک صلاۃ الضحٰی ۳؎ اھ

اور مکروہاتِ نماز کے آخر مـیں رجوع کرکے کہا: ظاہر یہ ہے کہ خلافِ اولٰی اعم ہے بعض اوقات یہ مکروہ نہیں ہوتا یہ ایسی جگہ جہاں کوئی دلیل خاص نہ ہوجیسے نماز چاشت کا ترک اھ۔

(۳؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیـاء التراث العربی بیروت۱ /۴۳۹)

وقال فی صدرھافــ۲قلت ویعرف ایضا بلا دلیل نھی خاص بان تضمن ترک واجب اوسنۃ فالاول مکروہ تحریما والثانی تنزیھا ۴؎ اھ

مکروہاتِ نماز کے شروع مـیں کہا:مـیں کہتا ہوں اس کی معرفت نہی خاص کی دلیل کے بغیر بھی ہوتی ہے اس طرح کہی واجب یـا سنت کے ترک پر مشتمل ہو ۔اوّل مکروہ تحریمـی ہے اور ثانی مکروہ تنزیہی اھ۔

فــ۲ـــ :معروضۃ ثالث علیہ۔

(۴؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیـاء التراث العربی بیروت۱ /۴۲۹)

ورجع فی اخرھا فقال بعد ما مرو بہ یظھر انترک المستحب راجعا الی خلاف الاولی لایلزم منہ ان یکون مکروھا الا بنھی خاص لان الکراھۃ حکم شرعی فلا بدلہ من دلیل ۵؎ اھ

اور مکروہاتِ نمازکے آخرمـیں رجوع کیـا اس طرح کہ مذکورہ بالاعبارت کے بعدکہا:اوراسی سے ظاہر ہوتاہے کہ ترک مستحب خلافِ اولٰی کی طرف راجع ہونے سے مکروہ ہونا لازم نہیں مگر یہ کہ خاص نہی ہواس لئے کہ کراہت ایک حکم شرعی ہے تو اس کے لئے کوئی دلیل ضروری ہے۔اھ۔

(۵؎ردا لمحتار کتاب الصلوٰ ۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا داراحیـاء التراث العربی بیروت۱ /۴۳۹)

ثم بعدفــ۱ ورقۃ رجع عن ھذا الرجوع فقال فی مسألۃ استقبال النیرین فی الخلاء الظاھر ان الکراھۃ فیہ تنزیہیۃ مالم یرد نھی خاص ۱؎ اھ

پھر ایک ورق کے بعد بیت الخلا مـیں سورج اور چاندکے رُخ پر ہونے کے مسئلہ مـیں اس سے رجوع کیـا اورکہا :ظاہر یہ ہے کہ کراہت اس مـیں تنزیہی ہے جب تک کہ کوئی خاص نہی وارد نہ ہواھ۔

فـــ۱ معروضۃ رابعۃ علیہ ۔

(۱؎ ردالمحتار     کتاب الصلوٰہ     با ب یفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا    دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۴۴۰)

وقال فی فــــــــ۲المنحۃ عند قول البحر قد صرحوا بان التفات فــــ۳البصر یمنۃ ویسرۃ من غیر تحویل الوجہ اصلا غیر مکروہ مطلقا والاولی ترکہ لغیر حاجۃ مانصہ ای فیکون مکروھا تنزیھا کما ھو مرجع خلاف الاولی کمامرعــہ۱

بحر کی عبارت ہے: علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ ذرا بھی چہرہ پھیرے بغیر نگاہ سے دائیں بائیں التفات مطلقاً مکروہ نہیں اوراولٰی یہ ہے کہ کوئی حاجت نہ ہو تواس سے بازر ہے۔اس پر منحۃ الخالق مـیں لکھا: یعنی ایسی صورت مـیں یہ مکروہ تنزیہی ہو گا جیسا کہ یہ خلافِ اولٰی کا مآل ہے ۔جیساکہ گزرا۔

فــ۲ معروضۃ خامسۃ علیہ۔
فــ۳ مسئلہ:نماز مـیں اگر کن انکھیوں سے بے گردن پھیرے ادھر ادھر دیکھے تو مکروہ نہیں ہاں بے حاجت ہوتو خلاف اولٰی ہے ۔
عـــہ۱ای فی البحر صدر المکروہات ان المکروہ تنزیہا ومرجعہ الی ما ترکہ اولی ۲؎اھ منہ
عــہ۱ یعنی بحر کے اندرمکروہات نماز کے شروع مـیں گزرا کہ مکروہ تنزیہی کا مرجع ترک  اولٰی ہے ۱۲منہ (ت)

(۲؎ البحرالرائق کتاب الصلوٰۃ باب یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۱۹ )

و بہ صرح فی النھر وفی الزیلعی وشرح الملتقی للباقانی انہ مباح لانہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یلاحظ اصحابہ فی صلاتہ بموق عینیہ ولعل المراد عند عدم الحاجۃ عـــہ۲ فلا ینافی ماھنا ۱؎ اھ

اور نہر مـیں بھی اسی کی تصریح کی ہے۔ زیلعی مـیں اور باقانی کی شر ح ملتقی مـیں ہے کہ یہ مباح ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے اصحاب کو نماز مـیں گوشہ چشم سے ملاحظہ کیـاکرتے تھے۔اور شاید مراد عدم حاجت کی حالت ہے تو یہ اس کے منافی نہیں جویہاں ہے اھ۔

عــہ ۲ اقول :  لعل لفظۃ عدم وقعت زائدہ من قلم الناسخ فالصواب عدم العدم اھ منہ (م)
عــہ ۲ اقول :  شاید لفظ'' عدم ''کاتب کے قلم سے سہوازائد ہوگیـا ہے کیونکہ صحیح عدم عدم ہے(یعنی یہ کہ مراد وقت حاجت ہے )۱۲منہ ۔ (ت)

(۱؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الصلوۃ     باب ما یفسدالصلوۃ وما یکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۲۱)

ثم رجع عما قریب فقال خلاف الاولی اعم من امکروہ تنزیھا دائما بل قد یکون مکروھا ان وجد دلیل الکراھۃ والافلا ۲؎ اھ

پھرکچھ ہی آگے جاکر اس سے رجوع کرکے کہا:خلافِ اولٰی مکروہ تنزیہی سے اعم ہے اور ترکِ مستحب ہمـیشہ خلافِ اولٰی ہوتا ہے ،ہمـیشہ مکروہ تنزیہی نہیں ہوتا بلکہ کبھی مکروہ ہوتا ہے اگردلیل کراہت موجود ہوورنہ نہیں۔

( ۲؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق کتاب الصلوۃ     باب ما یفسدالصلوۃ وما یکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۲)

اقول :  ومن العجب فـــ۱ ان البحر کان صرح فی الالتفات بنفی الکراھۃ مطلقا وان الاولی ترکہ لغیر حاجۃ فکان نصافی نفی الکراھۃ رأسا مع کونہ ترک الاولی فی بعض الصور ففسرہ بضدہ اعنی اثبات الکراھۃ لکونہ ترک الاولی مع نقلہ عن الزیلعی والباقانی انہ مباح وظاھرہ الاباحۃ الخالصۃ بدلیل الاستدلال بالحدیث فلم یتذکر ھناک ان خلاف الاولی لایستلزم الکراھۃ مالم یرد نھی۔

اقول :  اور تعجب یہ ہے کہ بحر نے تصریح کی تھی کہ التفات مـیں کوئی بھی کراہت نہیں اوراولٰی یہ ہے کہ حاجت نہ ہوتواسے ترک کرے یہ اس بارے مـیں نص تھا کہ ذرا بھی کراہت نہیں باوجودیکہ یہ بعض صورتوں مـیں ترک اولٰی ہے۔ علامہ شامـی نے اس کی تفسیر اس کی ضد سے کی یعنی چُوں کہ یہ ترک اولٰی ہے اس لئے مکروہ ہے باوجودیکہ زیلعی اور باقانی سے اس کامباح ہونا بھی نقل کیـاہے اوراس کا ظاہر یہ ہے کہ مباح خالص ہے جس کی دلیل حدیث سے استدلال ہے توانہیں وہاں یہ یـاد نہ رہا کہ خلاف اولٰی کراہت کو مستلزم نہیں جب تک کوئی نہی واردنہ ہو۔

فــــ۱: معرو ضۃ سادسۃ علیہ ۔

بااینہمہ اس مـیں شک نہیں کہ فتح القدیر مـیں محقق علی الاطلاق کی تصریحات اسی طرف ہیں کہ ترک مستحب بھی مکروہ تنزیہی ہےتو ان کا فــ ۲آداب مـیں گننا نفی کراہت تزیہہ پر کیونکر دلیل ہو خصوصاً اسی بحث کے آخر مـیں وہ صاف صاف کراہت اسراف کی تصریح بھی فرماچکے۔

فــ۲تطفل علی البحر ۔

حیث قال یکرہ الزیـادۃ علی ثلث فی غسل الاعضاء ۱؎ ا ھ ان کے الفاظ یہ ہیں: اعضاء کو تین بار سے زیـادہ دھونا مکروہ ہے اھ۔(ت)

( ۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر    ۱ /۳۲)

ثانیـا ،اقول :   اور خود علامہ صاحب بحر نے بھی اسے اُن سے نقل فرمایـا تو اُس حمل پر باعث کیـا رہا۔

اس سے قطع نظر بھی ہو تو محقق نے انہیں آداب مـیں یہ افعال بھی شمار فرمائے، نزع خاتم علیہ اسمہ تعالی واسم نبیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم حال الاستنجاء وتعاھد ماتحت الخاتم وان لایلطم وجہہ بالماء والدلک خصوصا فی الشتاء وتجاوز حدود الوجہ والیدین والرجلین لیستیقن غسلہما ۲؎۔

استنجاء کے وقت اس انگوٹھی کو اتارلینا جس پر باری تعالٰی کا یـا اس کے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کانام ہو۔

اورانگشتری کے نیچے والے حصہ بدن دھونے مـیں خاص خیـال رکھنا۔چہرے پر پانی کا تھپیڑا نہ مارنا۔اعضاء کو ملنا خصوصاً جاڑے مـیں۔چہرے،ہاتھوں اور پیروں کی حدوں سے زیـادہ پانی پہنچانا،تاکہ ان حدوں کے دُھل جانے کا یقین ہوجائے۔(ت)

(۲؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر    ۱ /۳۲)

اور شک ف۱ نہیں کہ وقت استنجاء اُس انگشتری کا جس پر اللہ عزّوجل یـا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک یـا کوئی متبرک لفظ ہو اُتار لینا صرف مستحب ہی نہیں قطعا سنّت اور اُس کا ترک ضرور مکروہ بلکہ اسأت ہے بلکہ مطلقا ف۲کچھ لکھا ہو حروف ہی کا ادب چاہئے بلکہ ف ۳ایسی انگوٹھی پہن کر بیت الخلا مـیں جانا ہی مکروہ ہے ولہٰذا ف ۴تعویذ لے جانے کی اجازت اُس وقت ہوئی کہ خلاف مثلاً موم جامہ مـیں ہو اور پھر بھی فرمایـا کہ اب بھی بچنا ہی اولی ہے اگرچہ غلاف ہونے سے کراہت نہ رہی۔

ف۱:مسئلہ جس انگشتری پر کوئی متبرک نا م لکھا ہوو قت استنجا ء اس کا اتار لینا بہت ضرور ہے ۔
ف۲:مسئلہ مطلقا حروف کی تعظیم چاہیے کچھ لکھا ہو ۔
ف۳:مسئلہ جس انگشتری پر کچھ لکھا ہواسے پہن کر بیت الخلا مـیں جانا مکروہ ہے ۔
ف۴:مسئلہ تعویذ اگر غلاف مـیں ہو تو اسے پہن کربیت الخلا مـیں جانا مکروہ نہیں پھر بھی اس سے بچنا افضل ہے ۔

ردالمحتار مـیں ہے : نقلوا فـــ عندنا ان للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ وذکر بعض القراء ان حروف الھجاء قران نزل علی ھود علیہ الصلاۃ والسلام ۱؎ الخ

منقول ہے کہ ہمارے نزدیک حروف کی بھی عزت ہے اگرچہ الگ الگ کلمے ہوں۔اوربعض قرأ نے ذکرکیـا کہ حروفِ تہجی وہ قرآن ہیں جس کا نزول حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہوا الخ۔(ت)

ف: حروف ہجا ایک قرآن ہے کہ سیدنا ہود علیہ الصلوۃ والسلام پر اترا ۔

( ۱؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ فصل الاستنجاء    داراحیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۲۲۷)

اُسی مـیں عارف باللہ سیدی عبدالغنی قدس سرہ القدسی سے ہے :

حروف الھجاء قران انزلت علی ھود علیہ الصلاۃ والسلام کما صرح بذلک الامام القسطلانی فی کتابہ الاشارات فی علم القراء ات ۲؎۔

حروف تہجی قرآن ہیں یہ حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئے جیسا کہ امام قسطلانی نے اپنی کتاب''الاشارات فی القرأ ت'' مـیں اس کی تصریح کی ہے۔(ت)

( ۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ قبیل باب المـیاہ    داراحیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۱۲۰)

بحرالرائق مـیں ہے: یکرہ ان یدخل الخلاء ومعہ خاتم مکتوب علیہ اسم اللّٰہ تعالی اوشیئ من القران ۳؎۔ خلا مـیں ایسی انگوٹھی لے کر جانا مکروہ ہے جس پر اللہ تعالی کانا م یـا قرآن سے کچھ لکھا ہو اہو۔ (ت)

(۳؎ البحرالرائق کتاب الطہارۃ باب الانجاس         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۴۳)

دُر مختار مـیں ہے : رقیۃ فی غلاف متجاف لم یکرہ الخلاء بہ والاحتراز افضل۴؎۔ ایسا تعویذ خلاء مـیں لے کر جانا مکروہ نہیں جوالگ غلاف مـیں ہو اور بچنا افضل ہے۔ ت

(۴؎ الدرالمختار     کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۳۴)

یونہی انگشتری فـــ۱ڈھیلی ہو تو اُسے دینی وضو مـیں سنّت ہے اور تنگ ہو کہ بے تحریک پانی نہ پہنچے گا تو فرض۔ ف۱:مسئلہ انگوٹھی ڈھیلی ہو تو وضو مـیں اسے پھرا کر پانی ڈالناسنت ہے اورتنگ ہو کہ بے دئے پانی نہ پہنچے تو فرض ہے یہی حکم بالی وغیرہ کا ہے ۔

خلاصہ مـیں ہے: فی مجموع النوازل تحریک الخاتم سنۃ ان کان واسعا وفرض ان کان ضیقا بحیث لم یصل الماء تحتہ ۱؎۔

مجموع النوازل مـیں ہے: انگوٹھی کو حرکت دینا سنت ہے اگرچہ کشادہ ہو اور فرض ہے اگر اتنی تنگ ہوکہ اس کے نیچے پانی نہ پہنچے تو فرض ہے۔ ت

(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارات الفصل الثالث سنن الوضو مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ         ۱ /۲۳)

یونہی ف۲ وضومـیں منہ پر زور سے چھپا کا مارنا مکروہ اور اس کا ترک مسنون۔

ف۲:مسئلہ وضومـیں منہ پر زور سے چھپا کا مارنا مکروہ ہے بلکہی عضو پر اس زور سے نہ ڈالے کہ چھینٹیں اڑ کر بدن یـا کپڑوں پر جائیں ۔

درمختار مـیں ہے : مکروھہ لطم الوجہ اوغیرہ بالماء تنزیھا ۲؎۔ چہرے یـای اور عضو پر پانی کا تھپیڑا مارنا مکروہ تنزیہی ہے ۔( ت)

(۲؎ الدرمختار    کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی۱ /۲۴)

بحر مـیں ہے: ان الزیلعی صرح بان لطم الوجہ بالماء مکروہ فیکو ن ترکہ سنۃ لاادبا ۳؎۔

اما م زیلعی نے تصریح فرمائی ہے کہ چہرے پرپانی کا تھپیڑا مارنا مکروہ ہے تو اس کا ترک صرف ادب نہیں بلکہ سنت ہوگا ۔(ت)

(۳؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)

یونہی اعضا ء کا ملنا ف ۳بھی مثل غسل سنّتِ وضو بھی ہے۔

ف۳:اعضا کا مل مل کر دھونا وضو اور غسل دونوں مـیں سنت ہے ۔

درمختار مـیں ہے : من السنن الدلک وترک الاسراف وترک لطم الوجہ بالماء ۴؎۔ سُنّتوں سے ہے اعضاء کو ملنا ، اسراف کا ترک کرنا، چہرے پرپانی کا تھپیڑا لگانے کو ترک کرنا ۔ (ت)

(۴؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۲۲)

خلاصہ فصل وضو جنس آخر صفتِ وضو مـیں ہے : وَالدَّلۡکُ عندنا سنۃ ۱؎ اعضاء کو ملنا ہمارے نزدیک سنّت ہے۔ (ت) رہا اعضا ء ف۱ مـیں حدودِ شرعیہ سے اتنا تجاوز جس سے یقین ہوجائے کہ حدود فرض کا استیعاب ہو لیـا۔

(۱؎خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارات الفصل الثالث جنس آخرفی سنن الوضو مکتبہ حبیبیہ کو ئٹہ۱/ ۲۲ )

ف۱ اعضاء وضو دھونے مـیں حدشرعی سے اتنی خفیف تحریر بڑھانا جس سے حد شرعی تک استیعاب مـیں شبہہ نہ رہے واجب ہے ۔

اقول :  اگر یقین ف۲ سے یقین فقہی مراد ہو جیسا کہ کتبِ فقہیہ مـیں وہی متبادر ہے تو یہ ادب وسنت درکنار خود واجب ولابدی ہے، ہاں یقین کلامـی مراد ہو تو ادب کہنا عجب نہیں

ف۲ : تطفل ما علی الفتح ۔

ھذا وقدنبہ من ھٰذہ الافعال الاربعۃ علی سنیۃ الاخیرین فی البحر ۔

یہ ذہن نشین رہے،ان چار افعال مـیں سے آخری دو کے مسنون ہونے پر بحر مـیں تنبیہ کردی ۔ (ت)

اقول :  والعجب فــ۳ ترک الاولین مع نقلہ ایـاھما ایضا عن الفتح فالسکوت یکون اشد ایھامامما لولم یـاثرھما ولا شک ان الثانی مثل الرابع الذی استند فیہ البحر الی ان الخلاصۃ جعلہ سنۃ فکذلک نص فیھا علی سنیۃ الثانی ایضا اما فــ۴ الاول فاھم الکل واحقہا بالتنبیہ والبحر نفسہ صرح فی الاستنجاء بما سمعت ولکن جل من لا یغیب عن علمہ شیئ قط۔

اقول اور تعجب ہے کہ پہلے دونوں کوترک کر دیـا حالانکہ ان دونوں کو بھی فتح القدیر سے نقل کیـا ہے اس لیے یہاں سکوت اس صورت سے زیـادہ ایہام خیز ہے جبکہ ان دونوں کو نقل ہی نہ کیـا ہوتااورچہارم (اعضا ء کو ملنا ) سے متعلق تو بحر نے خلاصہ کی سند پیش کی کہ اس مـیں اسے سنت قرار دیـا ہے جبکہ بلاشبہ دوم (انگشتری کوحرکت دینا) بھی اسی کی طرح ہے کہ اس سے متعلق بھی خلاصہ مـیں مسنون ہونے کی تصریح ہے،رہا اول (جس انگشتری پر خدا ورسول کا نام ہو اسے اتار لینا ) تو وہ سب سے اہم اور سب سے زیـادہ مستحق تنبیہ ہے اورخودبحر نے بیـان استنجا مـیں وہ تصریح کی ہے جو پیش ہوئی لیکن بزرگ ہے وہ جس کے علم سے کوئی شےی وقت اوجھل نہیں ہوتی ۔(ت)

فــ۳: تطفل علی البحر۔
فــ۴: تطفل اخر علیہ ۔

یہاں سے واضح ہوا کہ محقق کا اس عبارت مـیں ترک اسراف (ادب)شمار فرمانا نفی کراہت پر حاکم نہیں ۔

اقول وکان من فــ۱احسن الاعذار عن المحقق رحمہ اللّٰہ تعالی انہ تجوز فاطلق الادب علی مایعم السنن لکنہ ھھنا قدمـیز السنن من الاداب کما مـیز فی الخلاصۃ واخذفــ۲ علی الکتاب فی جعلہ التیـا من واستیعاب الرأس بالمسح مستحبین وقال بعد اقامۃ الدلیل فالحق عــــہ ان الکل سنۃ ومسح الرقبۃ مستحب ۱؎اھ

اقول محقق کی جانب سے بہتر عذر یہ تھا کہ انہوں نے مجازالفظ ادب کا اطلاق اس پر کیـا ہے جو سنتوں کو بھی شامل ہو لیکن انہوں نے یہاں سُنتوں کوآداب سے الگ رکھا ہے جیسے خلاصہ مـیں الگ الگ رکھا ہے،اور حضرت محقق نے کتاب (ہدایہ) پر داہنے سے شروع کرنے اور مسح کے پورے سر کے احاطہ کو مستحب قرار دینے پر گرفت کی ہے اوردلیل قائم کرنے کے بعد لکھا ہے : تو حق یہ ہے کہ سب سنت ہے اور گردن کا مسح مستحب ہے ۔

فــ۱:تطفل علی الفتح۔
فــ۲ مسئلہ وضومـیں ہاتھ اور یوں ہی پاوں بائیں سے پہلے داہنا دھونا یعنی سیدھے سے ابتدا کرنا سنت ہے اگر چہ بہت کتب مـیں اسے مستحب لکھا ۔
عـــہ تبعہ علی الاول فی البرھان ثم الشرنبلالی وغیرھما وعلی الثانی من لایحصی اھ منہ
عــہ اول پر حضرت محقق کا اتبا ع برہان پھر شرنبلالی وغیرہما مـیں ہے اور ثانی پر بے شمار لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے اھ منہ (ت)

(۱؎ فتح القدیر کتاب الطہارۃ         مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۱)

ثالثا اقو ل  : عبارت ف۲ بدائع مـیں بھی کہہ سکتے ہیں کہ امام ملک العلماء رحمہم اللہ تعالی نے ترک اسراف کو صرف ادب ہی نہ فرمایـا بلکہ حق بتایـا تو اسراف خلاف حق ہوا باطل ہوا اور اس کاادنی درجہ کراہت وماذابعد الحق الاالضلال ۲؎ (پھر حق کے بعد کیـا ہے مگر گمراہی۔ ت) بلکہ اسراف کو غلو کہا اور دین مـیں غلو ممنوع ،  لاتغلو فی دینکم ۳؎  (اپنے دین مـیں زیـادتی نہ کرو ۔ت)

ف۲: تطفل علی الحلیۃ۔

(۲؎ القرآن ۱۰ /۱۳۲)
(۳؎ القرآن ۴ /۱۷۱)

رابعا اقول: ان تمام که تا ئیدات فـــ ۳کے بعد بھی نہر و ردالمحتار کا مطلب کہ قو ل سوم اور دوم کی طرف راجع کرنا ہے تمام نہیں ہوتا ۔مانا کہ بدائع وفتح کی عبارات نفی نہ کریں مانا کہ فتح کی رائے مـیں ترک ادب بھی مکروہ ہو مگرنص امام محمد رضی اللہ تعالی عنہ کا کیـا جواب ہے جس مـیں اس کے ادب ہونے کی تصریح فرمائی اور مستحبات محضہ کے ساتھ اس کی گنتی آئی، اب اگر تحقیق یہ ہے کہ ترک مندوب مکروہ نہیں تو ضرور کلام امام کہ امام کلام ہے نفی کراہت کا اشعار فرمائے گا اس بارہ مـیں کلمات علماء کا اختلاف و اضطراب سن چکے۔

فـــ۳:تطفل علی النہر وش ۔

وانا اقول وبا للہ التوفیق اولاف۴ حب وکراہت مـیں مـیں تناقض نہیں کہ ایک کا رفع دوسرے کے ثبوت کو مستلزم ہو۔دیکھومباح سے دونوں مرتفع ہیں تو ترک مستحب مطلقامستلزم کراہت کیوں ہوا ۔

ف۴:فائدہ جلیلہ دربارہ مکروہ تنزیہی وتحریمـی واساء ت وخلاف اولٰی مصنف کی تحقیق نفیس فوائدکثیرہ پر مشتمل اور واجب و سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ کے فرق احکام ۔

ثانیـا،اقول اگر ترک مستحب موجب کراہت ہو تو آدمـی جس وقت خالی بیٹھا ہو اور کوئی مطالبہ شرعیہ اس وقت اس پر لازم نہ ہو لازم کہ اس وقت لاکھوں مکروہ کا مرتکب ٹھہرے کہ مندوبات بے شمار ہیں اور وہ اس وقت ان سب کا تارک۔

ثالثا ، اقو ل کراہت کا لفظ ہی بتارہاہے کہ وہ مقابل سنت نہ مقابل مندوب جو بندہ ہو کر بلا وجہ وجیہ ایسی چیز کا ارتکاب کرے جسے اس کا مولٰی مکروہ رکھتا ہے وہی ملامت و سرزنش کا بھی مستحق نہ ہو تو مولٰی کے نزدیک مکروہ ہونے کا کیـا اثر ہوا اور جب فعل پرسرزنش چاہئے تواس کا مرتبہ جانب ترک مـیں وہی ہوا جو جانب فعل مـیں سنت کاہے کہ اس کے تر ک پر ملامت ہے نہ کہ مندوب کا جس کے ترک پر کچھ نہیں، ظاہر ہے کہ کراہت کچھ ہے کی مقتضی ہے اورترک مستحب پر کچھ نہیں ،اور کچھ نہیں کچھ ہے کے برابر نہیں ہوسکتا ۔

رابعاً، اقول وباللہ التوفیق : تحقیق بالغ وتنمـیق بازغ یہ ہے کہ فعل مطلوب شرعی کاترک نادراًہوگا یـا عادۃً، اور ہر ایک پر سزاکا استحقاق ہوگا یـا سرزنش کا ، یـا کچھ نہیں تو دونوں ترک تین قسم ہوئے ہیں ،اور تین کو تین مـیں ضرب دئیے سے نو قسمـیں عقلی پیدا ہوئیں ان مـیں تین بداہۃًباطل ہیں :
(۱)ترک عادی پر کچھ نہ ہو اور نادر پر عذاب یـا عتاب(۲)، سوم(۳) ترک عادی پر عتاب اور نادر پر عقاب۔ اور دو قسمـیں شرعاً وجود نہیں رکھتیں ترک عادی پر عقاب یـا عتاب اور نادر پر کچھ نہیں کہ شرعاً مستحب کے ترک نادر پر کچھ نہیں تو عادی پر بھی کچھ نہیں اور سنّت کے ترک عادی پر عتاب ہے تو نادر پر بھی ہے کہ وہ حکم سنّت ہے اور حکم شے کو شے سے انفکاک نہیں۔

اصول امام فخرالاسلام وامام حسام الدین وامام نسفی مـیں ہے: حکم السنۃ ان یطالب المرء باقامتھا من غیر افتراض ولا وجوب لانھا طریقۃ امرنا باحیـائھا فیستحق اللائمۃ بترکہا ۱؎۔

سنت کا حکم یہ ہے کہ آدمـی سے اسے قائم کرنے کا مطالبہ ہو بغیر اس کے کہ اس پر فرض یـا واجب ہو ۔ کیونکہ یہ ایسا طریقہ ہے جسے زندہ کرنے کاہمـیں حکم دیـا گیـا تو اس کے ترک پر ملامت کا مستحق ہوگا ۔(ت)

( ۱؎ اصول البزدوی     باب العزیمۃ والرخصۃ         نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی        ص۱۳۹)

لا جرم چار قسمـیں رہیں:
(۱) ترک عادی ہونا یـا نادر مطلقا موجب استحقاق عذاب ہو یہ بحال قطعیت فرض ورنہ واجب ہے۔
(۲) عادی پر عذاب اور نادر پر عتاب۔ یہ سنت مؤکدہ ہے کہ اگر نادر پر بھی عذاب ہو تو اُس مـیں اورواجب مـیں فرق نہ رہے گا اور عادی پر بھی عتاب ہی ہو تو اُس مـیں اور سنت مؤکدہ مـیں تفاوت نہ ہوگا حالانکہ وہ ان دونوں مـیں برزخ ہے۔
(۳) عادی ہو یـا نادر مطلقا مورث عتاب ہو۔ یہ سنتِ زائدہ ہے۔
(۴) مطلقا عذاب وعتاب کچھ نہ ہو۔ یہ مستحب ومندوب وادب ہے۔

پھر ازا نجا کہ فعل وترک مـیں تقابل ہے بغرض تعادل واجب ہے کہ ایسی ہی چار قسمـیں جانب ترک نکلیں یعنی جس کا ترک مطلوب ہے:

 (۱) اس کا فعل عادی ہو یـا نادر مطلقا موجب استحقاق عذاب ہو یہ بحال قطعیت حرام ورنہ مکروہ تحریمـی ہے۔
(۲)فعل عادی پر عذاب اور نادر پر عتاب یہ اساء ت ہے جس کی نسبت علماء نے تحقیق فرمائی کہ کراہت تنزیہی سے افحش اور تحریمـی سے اخف ہے۔
(۳) مطلقا مورث عتاب ہی ہو یہ کراہت تنزیہی ہے۔
(۴) مطلقا کچھ نہ ہو یہ خلافِ اولٰی ہے۔

تنویر: اس تقریر منیر سے چند جلیل فائدے متجلی ہوئے:

 (۱) سنتِ مؤکدہ کا ترک مطلقا گناہ نہیں بلکہ اُس کے ترک کی عادت گناہ ہے۔
(۲) اساء ت کے بارے مـیں اگرچہ کلماتِ علماء مضطرب ہیں کوئی اسے کراہت سے کم کہتا ہے۔

کما فی الدر۱؎ صدر سنن الصلاۃ وبہ نص الامام عبدالعزیز فی الکشف وفی التحقیق۔

جیسا کہ درمختار مـیں سنن نماز کے شروع مـیں ہے اور امام عبدالعزیز بخاری نے کشف مـیں اور تحقیق مـیں اسی کی تصریح کی ہے۔ (ت)

 (۱؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی دہلی۱ /۷۳)

کوئی زائد ،کما فی الشامـی۲؎ عن شرح المنار للزین (جیسا کہ شامـی مـیں محقق زین بن نجیم کی شرح منار سے نقل ہے ۔ ت)

 (۲؎ردا لمحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ دار احیـاء التراث العربی بیروت۱ /۳۱۸)

کوئی مساوی کما فی الطحطاوی۱؎ ثمہ وفی ادراک الفریضۃ عن الحلبی شارح الدر  (جیسا کہ طحطاوی نے سنن نمازاور باب ادراک الفریضہ مـیں حلبی شارح دُر مختار نقل ہے ۔ ت)

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الد ر المختار کتاب الصلوٰ ۃ باب صفۃ الصلوٰۃ المکتبۃ ا لعربیہ کوئٹہ ۱ /۲۱۳)

مگر عندالتحقیق اُس کا مقابل سنتِ مؤکدہ ہونا چاہئے کہ جس طرح سنتِ مؤکدہ واجب وسنت زائدہ مـیں برزخ ہے یوں ہی اساء ت کراہت تحریم وکراہت تنزیہ مـیں کما فی الشامـی۲؎  (جیسا کہ شامـی مـیں ہے۔ ت)

 ( ۲؎ردا لمحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ دار احیـاء التراث العربی بیروت۱ /۳۱۹)

عٰلمگیریہ ف مـیں سراج وہاج سے ہے: ان ترک المضمضۃ والاستنشاق اثم علی الصحیح لانھا من سنن الھدی وترکھا یوجب الاساء ۃ بخلاف السنن الزوائد فان ترکھا لایوجب الا ساء ۃ ۳؎ اھ

اگرمضمضہ واستنشاق کا تارک ہو تو بر قول صحیح گنہگار ہوگا اس لیے کہ یہ سنن ہدٰی سے ہے اور ان کا ترک موجب اساء ت ہے بخلاف سنن زوائد کے کہ ان کا ترک موجبِ اساء ت نہیں اھ۔ت

 (۳؎الفتاو ی الہندیہ بحوالہ السراج الوہاج کتاب الطہارۃ الباب الاول الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۶،۷ )

ف: مسئلہ وضو مـیں کلی یـا ناک مـیں پانی ڈالنے کا ترک مکروہ ہے اور اس کی عادت ڈالے توگناہگارہوگایہ مسئلہ وہ لوگ خوب یـاد رکھیں کہ جو کلیـاں ایسی نہیں کرتے کہ حلق تک ہر چیز کو دھوئیں اور وہ کہ پانی جن کی ناک کو چھو جاتا ہے سونگھ کر اوپر نہیں چڑھاتے یہ سب لوگ گنہگا ر ہیں اور غسل مـیں ایسا نہ ہو تو سرے سے غسل نہ ہوگا نہ نماز۔

اقول قولہ اثم ای ان اعتاد کما ھو معروف فی محلہ فیہ وفی نظائرہ۔

اقول قول مذکور ''گنہگار ہوگا'' یعنی اگر ترک کا عادی ہو جیساکہ یہ معنی اپنی جگہ اس بارے مـیں اور اس کی نظیروں مـیں معروف ہے ۔(ت) اصول امام فخر الاسلام وامام حسام الدین وامام نسفی مـیں ہے: والسنن نوعان سنۃ الھدی وتارکھا یستوجب اساء ۃ وکراھیۃ والزوائد وتارکھا لایستوجب اساء ۃ ۱؎۔

سنت کی دو قسمـیں ہیں،(۱) سنّت ہدٰی ،اس کا تارک اسا ء ت وکراہت کا مستحق ہے(۲) سنّتِ زائدہ، اس کا تارک اسا ءت کا مستحق نہیں ۔ (ت)

(۱؎ اصول البزدوی    باب العزیمۃ والرخصۃ    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۱۳۹)

ردالمحتار فـ صدر سنن الوضوء مـیں ہے:

مطلق السنۃ شامل لقسمـیہا وھما السنۃ المؤکدۃ المسماۃ سنۃ الھدی وغیر المؤکدۃ المسماۃ سنۃ الزوائد ۲؎۔

مطلق لفظ سنّت دونوں قسموں کو شامل ہے دونوں قسمـیں یہ ہیں:(۱) سنّتِ مؤکدہ جس کا نا م سنّتِ ہدٰی ہے (۲) سنت غیرمؤکدہ جس کانا م سنّتِ زائدہ ہے ۔ ت

ف:سنت ہدی سنت مؤکدہ کا نام ہے اور سنت زائدہ سنت غیر مؤکدہ کا ۔

( ۲؎ ردا لمحتارکتاب الطہارۃ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۱)

بحرالرائق سنن نماز مسئلہ رفع یدین للتحریمہ مـیں ہے :

انہ من سنن الھدی فھو سنۃ مؤکدۃ ۳؎۔

وہ سنن ہدٰی سے ہے تو وہ سنّتِ مؤکدہ ہے۔ (ت)

(۳؎ البحرالرائق    کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ      ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱ /۳۰۲)

(۳) کراہت تنزیہ نہ مستحب کے مقابل ہے نہ سنّتِ مؤکدہ کے ،بلکہ سنّتِ غیر مؤکدہ کے مقابل ہے ، اُسے مستحب کے مقابل کہنا خلافِ تحقیق ہے اور مطلق سنّت کے مقابل بتانا اعم ہے جبکہ اُسے اساء ت کو بھی شامل کرلیـا جائے جس طرح کبھی اسا ء ت کو اعم لے کر سنّتِ زائدہ کے مقابل بولتے ہیں جس طرح اطلاق موسع مـیں خلافِ اولی کو مکر وہ تنزیہی کہہ دیتے ہیں۔

(۴) خلاف اولی مستحب کا مقابل ہے اور معنی خاص پر مکروہ تنزیہی سے بالکل جدا بمعنی اعم اُسے بھی شامل اور کراہت تنزیہ کا اُس کی طرف مرجع ہونا اسی معنی پر ہے۔ بحر کے اشکال مذکور

یشکل علیہ ما قالوہ ان المکروہ تنزیھا مرجعہ الی خلاف الاولی۴؎

    (اس پر علماء کے اس قول سے اشکال وارد ہوتا ہے کہ اس کا مرجع خلاف اولٰی ہے۔ ت)

 (۴؎ البحرالرائق    کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۲)

منحۃ الخالق مـیں فرمایـا: الکراھۃ لابدلھا من دلیل خاص وبذلک یندفع الاشکال لان المکروہ تنزیھا الذی ثبتت کراھتہ بالدلیل یکون خلاف الاولی ولا یلزم منالشیئ خلاف الاولی ان یکون مکروھا تنزیھا مالم یوجد دلیل الکراھۃ ۱؎۔

کراہت کیلئے دلیل خاص ضروری ہے ۔ اسی سے اشکال دفع ہوجاتا ہے اس لئے کہ مکروہ تنزیہی جس کی کراہت دلیل سے ثابت ہے وہ خلاف اولٰی ہے اوری شے کے خلاف اولٰی ہونے سے یہ لازم نہیں کہ وہ مکروہ تنزیہی ہو جب تک کہ دلیل کراہت دستیـاب نہ ہو۔ ( ت)

(۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲ /۳۲)

(۵) کراہت کیلئے اگرچہ تنزیہی ہو ضرور دلیل کی حاجت ہے

کما نص علیہ فی الحدیقۃ الندیۃ وغیرھا وبیناہ فی رشاقۃ الکلام

(جیسا کہ اس پر حدیقۃ الندیہ وغیرہ کی صراحت موجود ہے اور ہم نے اس کواس کو رسالہ رشاقۃ الکلام مـیں بیـان کیـا ہے۔ ت)

اقول : خلافِ سنت ف ہونا خود کراہت پر دلیل شرعی ہے۔

فـــ :معروضۃ علی العلامۃ ش ۔

لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من رغب عن سنتی فلیس منی ۲؎ رواہ الشیخان عن انس ۔

کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو مـیری سنّت سے روگردانی کرے وہ مجھ سے نہیں ، اسے بخاری ومسلم نے حضرت انس سے روایت کیـا۔

(۲؎ صحیح البخاری    کتاب النکاح با ب الترغیب فی النکاح     قدیمـی کتب خانہ کراچی۲ /۷۵۷،۷۵۸)
(صحیح مسلم کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح قدیمـی کتب خانہ کراچی۱ /۴۴۹)

ولا بن ماجۃ عن ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی۳؎

اور ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ابن ماجہ کی روایت مـیں ہے جو مـیری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں۔

(۳؎ سنن ابن ماجہ     ابواب النکاح     باب ماجاء فی فضل النکاح ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۱۳۴)

فما مر عن العلامۃ الشامـی من انھا قد یعرف بلا دلیل خاص کان تضمن ترک واجباو سنۃ ۱؎کما ینبغی ولا نعنی بالخاص خصوص النص فی الجزئی المعین اذلا حاجۃ الیہ قطعا لصحۃ الاحتجاج بالعمومات والقواعد الشرعیۃ الکلیۃ قطعا۔

تو و ہ کلام جوعلامہ شامـی سے نقل ہوا مناسب نہیں (وہ کہتے ہیں )کراہت کی معرفت کبھی دلیل خاص کے بغیر ہوتی ہے جیسے یہ کہ وہی واجب یـا سنت کے ترک پر مشتمل ہو ''دلیل خاص سے ہماری مراد یہ نہیں کہ اس معینہ جزئیہ مـیں کوئی خاص نص ہو اس لئے کہ اس کی حاجت قطعا نہیں کیونکہ شریعت کے عمومـی احکام اور قوائد کلیہ سے بھی استدلال بلاشبہ درست ہے۔

(۱؎ ردالمحتار     کتاب الصلوۃ باب مایفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا دار احیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۲۹)

(۶) یہ نفیس ف۱ جلیل تفرقے مقتضائے تقسیم عقلی واقتضائے نفس لفظ کراہت وقضیہ تفرقہ احکام ہیں نہ کہ نری اصطلاح اختیـاری کہ جس کا جو چاہا نام رکھ لیـا،

ف۱:تطفل علی الحلیۃ وش ۔

کما قالہ المحقق فی الحلیۃ ان ھذا امر یرجع الی الاصطلاح والتزامہبلازم ۲؎ اھ

جیسا کہ محقق نے حلیہ مـیں لکھا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا مرجع اصطلاح ہے اور اس کا التزام کوئی ضروری نہیں اھ۔

(۲؎ ردالمحتار بحوالہ الحلیہ کتاب الطہارۃ مستحبات الوضوء     دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۸۴)

ونقل قبیلہ عن اللامشی فی حد المکروہ وھو مایکون ترکہ اولی من فعلہ وتحصیلہ اھ ثم قال اعلم ان المکروہ تنزیھا مرجعہ الی ماھو خلاف الاولی والظاھر انھما متساویـان کما اشار الیہ اللامشی ۳؎ اھ وتبعہ فی ردالمحتار۔

اور اس سے کچھ پہلے لامشی سے تعریف مکروہ مـیں نقل کیـا کہ یہ وہ ہے جس کا نہ کرنا اس کے کرنے سے بہتر ہے اھ۔ پھر لکھا کہ واضح ہو کہ مکروہ تنزیہی کامرجع خلاف اولٰی ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ دونوں مـیں تساوی ہے جیسا کہ لامشی نے اس کی طرف اشارہ کیـا اھ اس کلام پر علامہ شامـی نے بھی ردالمحتار مـیں ان کا اتباع کیـا ۔(ت)

(۳؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

 (۷) مشہور ف۲ احکام خمسہ ہیں ۱واجب،۲ مندوب، ۳مکروہ،۴ حرام، ۵مباح

وبہ بدء فی مسلم الثبوت (اسی کو مسلم الثبوت مـیں پہلے نمبر پر بیـان کیـا ۔ ت) یہ مذہب شافعیہ سے الیق ہے کہ اُن کے یہاں واجب وفرض مـیں فرق نہیں

والیہ اشارتبعا للتحریر فی التحریر بقولہ بعدہ والحنفیۃ لاحظوا حال الدال الخ ۱؎
ۤ

اور اسی کی طرف مسلم مـیں اس کے بعد محقق ابن الہمام کی تحریر الاصول کی تبعیت مـیں یہ کہہ کر اشارہ کیـا کہ حنفیہ نے دلیل کی حالت کا اعتبار کیـا ہے الخ۔

 ( ۱؎ مسلم الثبوت     الباب الثانی فی الحکم مطبع مجتبائی دہلی     ص۱۳)

اور بعض نے برعایت مذہب حنفی فرض وواجب اور حرام ومکروہ تحریمـی کو تقسیم مـیں جدا جدا اخذ کرکے سات قرار دئے وبہ ثنی فی المسلم (اور اسی کو مسلم الثبوت مـیں دوسرے نمبرپر بیـان کیـا (ت) بعض نے فرض، واجب، سنّت، نفل، حرام، مکروہ، مباح یوں سات گنے۔

وعلیہ مشی فی التنقیح وتبعہ مولی خسرو فی مرقاۃ الوصول والعلامۃ الشمس محمد بن حمزۃ الفناری فی فصول البدائع۔

اسی پر صدر الشریعہ تنقیح مـیں چلے ہیں اور ملاّ خسرو نے مرقاۃ الوصول مـیں اور علامہ شمس الدین محمد بن حمزہ فناری نے اصول  البدائع مـیں تنقیح کی پیروی کی ہے ۔

بعض نے سنت مـیں سنت ہدی و سنت زائدہ اور مکروہ مـیں تحریمـی وتنزیہی قسمـیں کر کے نو شمار کیے۔

کمانص علیہ الفناری فی اخر کلامہ ویشیر الیہ کلام التوضیح ۔

جیساکہ فناری نے آخر کلام مـیں اس کی صراحت کی ہے اور کلام توضیح مـیں اس کی جانب اشارہ ہے۔ (ت)

اقول :  تقسیم ف۱ اول مـیں کمال اجمال اور مذہب شافعی سے الیق ہونے کے علاوہ صحت مقابلہ اس پر مبنی کہ ہر مندوب کا ترک مکروہ ہو وقد علمت انہ خلاف التحقیق (تُو نے جان لیـا یہ خلافِ تحقیق ہے۔ ت) نیز سنّت ومندوب ف۲ مـیں فرق نہ کرنا مذہب حنفی وشافعیی کے مطابق نہیں۔ یہی ف۳ دونوں کمـی تقسیم دوم مـیں بھی ہیں، سوم وچہارم مـیں عدم مقابلہ بدیہی کہ سوم ف۴ مـیں جانبِ فعل چار چیزیں ہیں ا ور جانبِ ترک دو۔ چہارم ف۵ مـیں جانبِ فعل پانچ ہیں اور جانب ترک تین۔

ف۱:تطفل علی المشہور۔
ف۲:تطفل اٰ خرعلیہ ۔
ف۳:معروضتان علی مسلم الثبوت ۔
ف۴:تطفل علی التوضیح والمولٰی خسرو ۔
ف۵:تطفل علی الشمس الفناری ۔

پھر جانب ترک بسط ف۱ اقسام کرکے تصحیح مقابلہ کیجئے تو اُسی مقابلہ نفل وکراہت سے چارہ نہیں مگر بتوفیق اللہ تعالٰی تحقیق فقیر سب خللوں سے پاک ہے ،اُس نے ظاہر کیـا کہ بلکہ احکام گیـارہ ہیں پانچ جانبِ فعل مـیں متنازلاً فرض(۵) واجب(۴) سنّت مؤکدہ (۳) غیرمؤکدہ (۲) مستحب(۱) اور پانچ جانبِ ترک مـیں متصاعداً خلاف(۱) اولی (۲) مکروہ تنزیہی  (۳) اساءت(۴) مکروہ تحریمـی  (۵) حرام جن مـیں مـیزان مقابلہ اپنے کمال اعتدال پر ہے کہ ہر ایک اپنے نظیر کا مقابل ہے اور سب کے بیچ مـیں گیـارھواں مباح خالص۔اس تقریر منیر کو حفظ کرلیجئے کہ ان سطور کے غیر مـیں نہ ملےاورہزار ہا مسائل مـیں کام دےاور صد ہا عقدوں کو حل کرےکلمات اس کے موافق مخالف سب طرح کے ملیں گے مگر بحمداللہ تعالٰی اس سے متجاوز نہیں فقیر طمع رکھتا ہے کہ اگر حضور سیدنا امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور یہ تقریر عرض کی جاتی ضرور ارشاد فرماتے کہ یہ عطر مذہب وطراز ومُذَہَّب ہے والحمدللّٰہ ربّ العٰلمـین۔ اس تحقیق انیق کے بعد قول سوم ہرگز دوم کی طرف راجع ہوکر منتفی نہیں بلکہ وہی من حیث الروایۃ سب سے اقوی ہے کہ خاص نص ظاہر الروایۃ کا مقتضی ہے۔

ف۱:تطفل اٰ خرعلی ھٰؤلاء الثلثۃ ۔

تنبیہ(۴) علامہ عمر نے جبکہ قول چہارم اختیـار فرمایـا امام اجل قاضی خان وغیرہ کا ترک اسراف کو سنّت فرمانا بھی اسی طرف راجع کرنا چاہا کہ سنّت سے مراد مؤکدہ ہے اور اُس کا ترک مکروہ تحریمـی۔

اقول : اقوال بعض متاخرین مـیں ف۲ اُس کی تائیدوں کا پتا چلے گا ۔

ف ۲:تطفل علی النہر ۔

بحرالرائق ف۳ آخر مکروہات الصلوٰۃ پھر ردالمحتار مـیں ہے: السنۃ اذا کانت مؤکدۃ قویۃ لایبعد ان یکون ترکہا مکروھا کراھۃ تحریم کترک الواجب ۱؎۔

سنّت جب مؤکدہ قوی ہو تو بعید نہیں کہ اس کا ترک واجب کی طرح مکروہ تحریمـی ہو۔ (ت)

ف۳:مسئلہ سنت مؤکدہ کا ترک ایک آدھ بار مورث عتاب ہے مگر گناہ نہیں ہاں ترک کی عادت کرے تو گناہ گار ہوگا اور اس بارے مـیں دفع اوہام وتوفیق اقوال علماء کرام ۔

(۱؎البحرالرائق کتاب الصلوۃ با ب ما یفسد الصلوٰ ۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۳۲)
ردالمحتار     کتاب الصلوۃ باب مایفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا دار احیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۳۹)
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار کتاب الصلوۃ باب مایفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۲۷۶)

ابو السعود علی مسکین پھر طحطاوی علی الدرالمختار صدر مکروہاتِ نماز مـیں ہے: الفعل اذا کان واجبا اومافی حکمہ من سنۃ الھدٰی ونحوھا فالترک یکرہ تحریما وان کانت سنۃ زائدۃ اومافی حکمہا من الادب ونحوہ یکرہ تنزیھا ۱؎ اھ

فعل جب واجب ہو یـا واجب کے حکم مـیں ہو جیسے سنتِ ہدٰی وغیرہا تو اس کا ترک مکروہ تحریمـی ہے اور اگر سنت زائدہ ہو یـا وہ ہو جو اُس کے حکم مـیں ہے یعنی ادب اوراس کی مثل تو اس کا تر ک مکروہ تنزیہی ہے۔ (ت)

( ۱؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار کتاب الصلوۃ باب مایفسدالصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۲۶۹،۲۷۰)
(فتح المعین کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوٰۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۲۴۱)

اقول اوّلا : تبعاف۱ القھستانی فانہ ذکرہ ثمہ ولم ینقلہ عن احد بل زعم ان کلامھم یدل علیہ فما کان للسید الازھری ان یسوقہ مساق المنقول۔

ان دونوں حضرات (ابو سعود و طحطاوی ) نے قہستانی کی پیروی کی ہے ۔قہستانی نے یہ بات مکروہات نماز کے شروع مـیں ذکر کی اور اسےی سے نقل نہ کیـا بلکہ یہ دعوی کیـاکہ کلام علماء اس پر دلالت کرتا ہے۔تو سید ازہری کو یہ نہ چاہیے تھا کہ اسے اس طرح ذکر کریں جیسے وہ کوئی منقول قاعدہ ہے۔

ف۱:معروضۃ علی السید ابی السعود۔

وثانیـا لا یدری ف۲ ماذا اراد بنحوھا فالحکم لایسلم لہ فی السنۃ المؤکدۃ مالم یتعود بالترک ففیم یثبت بعدھا وھل تری قائلا بہ احدا۔

ثانیـا : سنت ہدی کے بعد :''اور اس کے مثل'' کہا پتا نہیں اس سے کیـا مراد ہے خود سنت موکدہ کو واجب کا حکم نہیں ملتاجب تک کہ اس کے تر ک کی عادی نہ ہو پھر اس کے بعد چیز مـیں وہ حکم ثابت ہوگا کیـا اس کا بھی کوئی قائل مل سکتا ہے؟

ف۲ معروضۃ علی القہستانی والسیدین ابی السعود وط۔

کشف بزدوی وتحقیق علی الحسامـی بحث عزیمت ورخصت مـیں اصول امام ابو الیسر فخر الاسلام بزدوی سے ہے: حکم السنۃ ان یندب الی تحصیلہا ویلام علی ترکہا مع لحوق اثم یسیر ۱؎۔

سنت کاحکم یہ ہے کہ اس کی بجا آوری کی دعوت ہو اور اس کے ترک پر ملامت ہو ساتھ مـیں کچھ گناہ بھی لاحق ہو ۔(ت)

(۱؎کشف الاسرارعن اصول البزدوی باب العزیمۃ والرخصۃ دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۳۰۸)

درمختار صدرحظر مـیں ہے: یـاثم بترک الواجب ومثلہ السنۃ المؤکدۃ ۲؎۔

ترک واجب سے گناہگا ر ہوگا اوراسی کے مثل سنت مؤکدہ بھی ہے ۔(ت)

 ( ۲؎الدرالمختار     کتاب الحظر والاباحۃ         مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۵ )

مگر صحیح وہی ہے جو ہم اوپر بیـان کر آئے کہ سنتِ مؤکدہ کا ایک آدھ بار ترک گناہ نہیں ہاں بُرا ہے اور عادت کے بعد گناہ وناروا ہے۔

اقول : وھذا ان شاء اللّٰہ تعالی سرقول الامام الاجل فخرالاسلام ان تارک السنۃ المؤکدۃ یستوجب اساء ۃ ۳؎ای بنفس الترک وکراھۃ ای تحریمـیۃ ای عند الاعتیـاد اذھی المحل عند الاطلاق ولھذا قال الامام عبدالعزیز فی شرحہ ان الاساء ۃ دون الکراھۃ۴؎ واکتفی فی السنۃ الزائدۃ بنفی الاساء ۃ لان نفی الادنی یدل علی نفی الاعلی بالاولی وحیث ان الکراھۃ التنزیھیۃ ادنی من الاساء ۃ فنفی الاعلی لایستلزم نفی الادنی ولذا ذکر توجہ اللائمۃ حکم ترک مطلق السنۃ ثم قسمھا قسمـین وفرق بلزوم الاساء ۃ وعدمہ فتحصل ان المؤکدۃ وغیرھا تشتر کان فی توجہ الملام علی الترک وتتفار قان فی ان ترک المؤکدۃ اساءۃ  وبعد التعود کراھۃ تحریم ولیس فی ترک غیرھا الاکراھۃ التنزیہ ولعمری ان اشارات ھذا الامام الھمام ادق من ھذا حتی لقبوہ ابا العسر واخاہ الامام صدر الاسلام ابا الیسر۔

اقول: اور یہی ان شاء اللہ تعالی امام الاجل فخر الاسلام کے اس ارشاد کارمز ہے کہ ''سنت مؤکدہ کا تارک اساء ت کا مستحق ہے ''یعنی نفس ترک سے '' اور کراہت کا '' مستحق ہے یعنی کراہت تحریمـیہ کا، جب کہ عادت ہو اس لئے کہ مطلق بولنے کے وقت کراہت تحریمـیہ ہی مراد ہوتی ہے ۔ اس لئے امام عبد العزیز بخاری نے اپنی شرح مـیں فرمایـا کہ :اساء ت کا درجہ کراہت سے نیچے ہے اور سنت زائدہ مـیں نفی اسا ء ت پر اکتفا کی اس لئے کہ ادنی کی نفی سے اعلٰی کی نفی بدرجہ اولٰی معلوم ہوجائے گی۔اور چونکہ کراہت تنزیہیہ اساء ت سے ادنٰی ہے تو اعلی ٰ کی نفی سے ادنٰی کی نفی لازم نہ آئےاس لئے مستحق ملامت ہونا مطلق سنت کے ترک کا حکم بتایـا پھرسنت کی دوقسمـیں کیں اور اساء ت لازم آنے اور نہ لازم آنے سے دونوں مـیں فرق کیـا تو حاصل یہ نکلا کہ سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ دونوں اس حکم مـیں مشترک ہیں کی ترک پر ملامت ہوگی اوردونوں آپس مـیں یوں جداجدا ہیں کہ مؤکدہ کا ترک اسا ء ت اورعادت کے بعد کراہت تحریم ہے اور غیر مؤکدہ کے ترک مـیں صرف کراہت تنزیہ ہے بخدا اس امام ہمام کے ارشادات اس سے بھی زیـادہ دقیق ہوتے ہیں یہاں تک کہ علماء نے انہیں ''ابو العسر''اور ان کے برادر امام صدرالاسلام کو ''ابوالیسر'' کا لقب دیـا ۔(ت)

(۳؎اصول البزدوی باب العزیمۃ والرخصۃ نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی ص۱۳۹)
(۴؎کشف الاسرارعن اصول البزدوی باب العزیمۃ والرخصۃ دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۳۱۰)

جہاں جہاں کلمات علما ء مـیں اُس پر حکم اثم ہے اُس سے مراد بحال اعتیـاد ورنہ اُس مـیں اور واجب مـیں فرق نہ رہے۔

اقول ف۱ : والفرق بتشکیک الاثم کما لجاء الیہ فی البحر لایجدی لان التشکیک حاصل فی الواجبات انفسھا۔

اقول : اور گناہ کی تشکیک سے فرق جیسا کہ بحر مـیں اس کا سہارا لیـا ہے کارآمد نہیں اس لئے کہ تشکیک تو خو د واجبات مـیں بھی حاصل ہے(اسی مـیں کم درجہ کا گناہ ہے اسی مـیں اس سے سخت ) ۔ت

فـــ۱:تطفل علی البحر ۔

اور جب اُس کا مطلق ترک گناہ نہیں تو مکروہ تحریمـی بے عادت نہیں ہوسکتا کہ ہر مکروہ تحریمـی ف۲ گناہ ومعصیت صغیرہ ہے ۔

ف: مکروہ تحریمـی گناہ صغیرہ ہے ۔

ردالمحتار صدر واجبات صلوٰۃ مـیں ہے: صرح العلامۃ ابن نُجیم فی رسالتہا المؤلفۃ فی بیـان المعاصی بان کل مکروہ تحریما من الصغائر ۱؎۔

علامہ ابن نُجیم نے بیـان معاصی سے متعلق اپنے رسالہ مـیں تصریح فرمائی ہے کہ ہر مکروہ تحریمـی گناہ صغیرہ ہے۔(ت)

( ۱ ؎رد المحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ دار احیـاء التراث العربی بیروت۱ /۳۰۶ )

منیہ مـیں ہے: لایترک ف۳ رفع الیدین ولو اعتاد یـاثم ۲؎۔

تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو اٹھانا ترک نہ کرے اگر ترک کی عادت کرے تو گنہگا رہوگا (ت)

(۲؎منیۃ المصلی فصل فی صفۃ الصلوۃ مکتبہ قادریہ جامعہ نظامـیہ رضویہ لاہور ص۲۷۸)

ف :۳ مسئلہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین سنت مؤکدہ ہے ترک کی عادت سے گناہ گار ہوگا ورنہ مکروہ ضرور۔

غنیہ مـیں ہے: لانہ سنۃ مؤکدۃ اما لو ترکہ بعض الاحیـان من غیر اعتیـاد لایـاثم وھذا مطرد فی جمـیع السنن المؤکدۃ ۳؎۔

اس لئے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے لیکن اگر بغیر عادت کےی وقت ترک کر دیـا تو گناہگارنہ ہوگا اور یہ حکم تمام سنن مؤکدہ مـیں ہے ۔(ت)

(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی صفۃ الصلوۃ سہیل اکیڈمـی لاہور    ص۳۰۰)

حلیہ مـیں کلام مذکور امام الیسر کی طرف اشارہ کرکے فرمایـا: وھو حسن لکن بعد وجود الدلیل الدال علی لحوق الاثم لتارک السنۃ بمجرد الترک لھا ولیس ذلک بالسھل الواضح ۴؎۔

یہ کلام عمدہ ہے مگراس کے بعد تارک سنت کے لئے محض ترک سے ہی گناہ لاحق ہونے پر دلالت کرنے والی دلیل مل جائے اور یہ بہت آسان نہیں ۔(ت)

(۴؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

ردالمحتار سُنن صلاۃ مـیں نہرالفائق سے بحوالہ کشف کبیر کلام امام ابی الیسر نقل کرکے فرمایـا: فی شرح التحریر المراد الترک بلا عذر علی سبیل الاصرار وفی شرح الکیدانیۃ عن الکشف قال محمد فی المصرین علی ترک السنۃ بالقتال وابو یوسف بالتادیب اھ فیتعین حمل الترک علی الاصرار توفیقا بین کلامھم ۱؎۔

شرح تحریر مـیں ہے کہ ترک سے مراد بلا عذر ترک بطور اصرار ترک کرنا اور شرح کیدانیہ مـیں کشف سے ہے امام محمد نے ترک سنت پر قتال کااور امام ابو یوسف نے تادیب کا حکم دیـا اھ متین ہے کہ ترک کو اصرار پر محمول کیـا جائے تاکہ ان حضرات کے کلام مـیں تطبیق ہوجائے (ت)

(۱؎رد المحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃالصلوۃ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۱۹)

اُسی مـیں ہے: کونہ سنۃ مؤکدۃ لایستلزم الا ثم بترکہ مرۃ واحدۃ بلا عذر فیتعین تقیید الترک بالاعتیـاد ۲؎۔

اُس کا سنّت مؤکدہ ہونا اسے مستلزم نہیں بلا عذر ایک بار ترک سے بھی گناہ گار ہوجائے گاتو متعین ہے کہ ترک کے ساتھ عادت کی قید لگائی جائے۔ (ت)

(۲؎رد المحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃالصلوۃ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۱۹)

اُسی کے ف۱ سنن وضؤ مـیں دربارہ نیت ہے : یـاثم بترکہا اثما یسیرا کما قدمنا عن الکشف والمراد الترک بلا عذر علی سبیل الاصرار کما قدمنا عن شرح التحریر وذلک لانھا سنۃ مؤکدۃ کما حققہ فی الفتح ۳؎۔

نیت وضو کے ترک سے کچھ گناہ گار ہوگا جیسا کہ کشف کے حوالے سے ہم نے سابقا نقل کیـا اور مراد یہ ہے کہ بلاعذر بطور اصرار ترک کرے جیساکہ شرح التحریر کے حوالے سے ہم نے پہلے لکھا یہ اس لئے جیساکہ فتح القدیر مـیں تحقیق کی کہ وضومـیں نیت سنت مؤکدہ ہے ۔( ت)

ف ۱ :مسئلہ وضومـیں نیت نہ کرنے کی عادت سے گناہ گار ہو گا اس مـیں نیت سنت مؤکدہ ہے ۔

(۳؎رد المحتار کتاب االطہارۃ سنن الوضو داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۳)

فتح القدیر مـیں ہے : حکی فی الخلاصۃ خلافافی ترکہ (ای ترک رفع الیدین عند التحریمۃ) قیل یـاثم وقیل لاقال والمختار ان اعتادہ اثم لاان کان احیـانا انتھی وینبغی ان نجعل شقی ھذا القول محمل القولین فلا اختلاف ولا اثم لنفس الترک بل لان اعتیـادہ للاستخفاف والا فمشکل اویکون واجبا ۱؎۔

خلاصہ مـیں اس کے ترک پر اختلاف منقول ہے (یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت رفع بدین کے ترک پر) ایک قول ہے گنہگار ہوگا اور ایک ہے کہ نہیں ہوگا، اور مختار یہ ہے کہ اگر عادت بنالی ہے تو گنہگار ہوگا۔ اگر احیـانا ہو تو نہ ہوگا انتہی اور مناسب ہے کہ اس قول کی دونوں شقوں کو دونوں قولوں کا محمل بنا لیـا جائے تو نہ تو اختلاف ہوگا اور نہ ہی گناہ ہوگا نفس ترک مـیں، بلکہ صرف عادت بنالینے کی صورت مـیں ہوگا کہ اس مـیں استخفاف کا پہلو نکلتا ہے ورنہ مشکل ہے، یـا پھر وہ چیز واجب ہو۔ (ت)

( ۱؎فتح القدیر کتاب الصلوۃ     باب صفۃ الصلوۃ     مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۲)

دُرمختار مـیں ہے: الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال وقیل واجبۃ وعلیہ العامۃ ثمرتہ تظھر فی الاثم بترکہا مرۃ ۲؎۔

جماعت مردوں کیلئے سنت مؤکدہ ہے، اور کہا گیـاواجب ہے، اور عامہ علماء اور ثمرہ اختلاف ایک بار ترک سے گنا ہگار ہونے سے حکم مـیں ظاہر ہو گا ۔(ت)

( ۲ ؎الدرالمختار     کتاب الصلوٰۃ     باب الامامۃ     مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۲)

اُسی کے سُننِ وضو مـیں ہے: وتثلیث ف۱الغسل المستوعب ولا عبرۃف۲ للغرفات ولو اکتفی بمرۃ ان اعتادہ اثم والالا ۱؎۔

تین بار اس طرح دھونا کہ ہر مرتبہ پورے عضو کا احاطہ ہو جائے اس مـیں چُلوؤں کی تعداد کا اعتبار نہیں اگرایک بار دھونے پر اکتفا کی توبصورت عادت گنہگار ہے ا ورعادت نہ ہو تو نہیں۔( ت)

ف۱ :مسئلہ طہارت مـیں ہر عضو کا پورا تین بار دھونا سنت موکدہ ہے ترک کی عادت سے گناہ گار ہوگا

ف۲مسئلہ پانی ڈالنے کی گنتی معتبر نہیں جتنا دھونے کا حکم ہے اس پر پورا پانی بہہ جانا معتبر ہے مثلا ہاتھ پر ایک بار پانی ڈالا کہ تہائی کلائی پر بہا باقی پر بھیگا ہاتھ پھیرا دوبارہ دوسری تہائی دھلی سہ بارہ تیسری ۔تو یہ ایک ہی بار دھونا ہوا ہر بار پورے ہاتھ پر کہنی سمـیت پانی ذرہ ذرہ پر بہتا تو تین بار ہوتا اس طرح دھونے کی عادت سے گناہ گار ہوگا اور اگر سو بار پانی ڈالا اور ایک ہی جگہ بہا کچھ حصےی دفعہ نہ بہا اگرچہ بھیگا ہاتھ پھیرا تو وضو ہی نہ ہو گا ۔

( ۱؎ الدر المختار     کتاب الطہارات     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۲)

خلاصہ مـیں ف۱ ہے: ان توضأ مرۃ مرۃ ان فعل لعزۃ الماء لعذر البرد اولحاجۃ لایکرہ وکذا ان فعلہ احیـانا اما اذا اتخذ ذلک عادۃ یکرہ ۲؎ اھ

اگر ایک بار وضو کیـا اس وجہ سے کہ پانی کم یـاب ہے یـا ٹھنڈک لگنے کا عذر یـا کوئی حاجت ہے تو مکروہ نہیں اسی طرح اگر احیـانا ایساکیـا لیکن جب اسے عادت بنالے تو مکروہ ہے اھ ۔

ف۱  اگر پانی کم ہے یـا سردی سخت ہے اوری ضرورت کے لئے پانی درکار ہے اس وجہ سے اعضا ایک ایک بار دھوئے تو مضائقہ نہیں ۔

(۲؎خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الطہارات الفصل الثالث         مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۲۲ )

اقول : ای تحریما لانہ سنۃ مؤکدۃ وھی محمل الاطلاق والمنفیۃ عن فعلہ احیـانا من دون عذر۔

اقول  : یعنی مکروہ تحریمـی ہے اس لئے کہ وہ سنت مؤکدہ ہے اورکراہت مطلق بولنے سے یہی مراد ہوتی ہے اور بلا عذر احیـا نا کرنے سے جس کراہت کی نفی کی گئی ہے اس سے بھی یہی تحریمـی مراد ہے (ت)

اس کے نظائر کثیروافر ہیں،

فلا نظر الی ماوقع فی البحر صدر سنن الصلاۃ وقدردہ فی ردالمحتار ببعض ماذکرنا ھنا وباللّٰہ التوفیق۔

تو وہ قابل توجہ نہیں جو بحر مـیں سنن نماز کے شروع مـیں تحریرہے اور ردالمحتار مـیں یہاں ہمارے ذکر کردہ بعض کلام کے ذریعہ اس کی تر دید بھی کردی ہے ، اور توفیق خدا ہی سے ہے ۔ (ت)

خُوب تریہ ف۱ ہے جب ہمارے مشایخ عراق نے جماعت کو واجب اور مشائخ خراسان نے سنتِ مؤکدہ فرمایـا اور مفیدمـیں یوں تطبیق دی کہ واجب ہے اور اُس کا ثبوت سنت سے خود علامہ عمر نے نہر مـیں اسے نقل کرکے فرمایـا: ھذا یقتضی الاتفاق علی ان ترکہا (مرۃ) بلا عذر یوجب اثما مع انہ قول العراقیین والخراسانیین علی انہ یـاثم اذا اعتاد الترک کما فی القنیۃ ۱؎ اھ

اس کا مقتضا یہ ہے بلاعذر ایک بار ترک کرنے سے گناہ گار ہونے پراتفاق ہو حالاں کہ یہ مشائخ عراق کا قول ہے،اور اہل خراسان یہ کہتے ہیں کہ جب ترک کی عادت ہو تو گناہ گار ہوگا جیسا کہ قنیہ مـیں ہے۔(ت)

 ( ۱؎النہرالفائق کتاب الصلوٰۃ باب ا لامامۃ والحدث فی الصلوٰۃ قدیمـی کتب خانہ کراچی۱ /۲۳۸)

فائدہ: اس مسئلہ پر باقی کلام اور سنت کی تعریف واقسام اور سنّت غیر مؤکدہ کی تحقیق احکام اور اُس کا مستحب سے فرق اور مکروہ تحریمـی وتنزیہی کی بحث جلیل اور یہ کہ مکروہ تنزیہی اصلاً گناہ نہیں اور یہ کہ مکروہ تحریمـی مطلقاً گناہ ہے اور یہ کہ وہ بے اصرار ہرگز کبیرہ نہیں اور ان مسائل مـیں فاضل لکھنوی کی لغزشوں کا بیـان یہ سب ہمارے رسالہ "۲۷بسط الیدین فی السنۃ والمستحب والمکروھین" مـیں ہے وباللہ التوفیق۔

تنبیہ  ۵ : جبکہ علّامہ عمر نے کراہت تحریم کا استظہار کیـا علامہ شامـی نے منحۃ الخالق مـیں تو اُن کا کلام مقرر رکھا مگر ردالمحتار مـیں رائے جانب کراہت تنزیہ گئی لہٰذا دلائل تحریم کا جواب دینا چاہا۔ علامہ عمر نے تین دلیلیں پیش فرمائی تھیں:
(۱) کلامِ امام زیلعی مـیں کراہت کو مطلق رکھنا۔
(۲) اسراف سے نہی کی حدیثوں کا مطلق یعنی بے قرینہ صارفہ ہونا۔
(۳) منتقٰی مـیں اُسے منہیـات سے گننا۔
علّامہ شامـی نے اول کا یہ جواب دیـا کہ مطلق کراہت ہمـیشہ تحریم پر محمول نہیں کما ذکرنا انفا ۲؎اھ جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیـا اھ

 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     مکروہات الوضو         داراحیـاء التراث العربی بیروت۱ /۹۰)

واشاربہ الی ماقدمہ قبل ھذا بصفحۃ عن البحران المکروہ نوعان احدھما ماکرہ تحریما وھو المحمل عند اطلاقھم الکراھۃ کما فی زکاۃ فتح القدیر ثانیھما المکروہ تنزیھا وکثیرا مایطلقونہ کما شرح المنیۃ۔۱؎

 (ردالمحتار) اس سے ان کا اشارہ اس کلام کی طرف ہے جو اس سے ایک صفحہ پہلے بحر کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ مکروہ کی دو قسمـیں ہیں ایک مکروہ تحریمـی۔۔۔یہی مطلق کراہت بولنے کے وقت مراد ہوتا ہے جیسا کہ فتح القدیر مـیں کتاب الزکوٰۃ مـیں ہے۔۔۔ اور دوسری قسم مکروہ تنزیہی۔۔۔۔ اوربار ہا اسے بھی مطلق بولتے ہیں جیسا کہ منیہ کی شرح مـیں ہے۔ (ت)

(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     مکروہات الوضو         داراحیـاء التراث العربی بیروت۱ /۸۹)

اقول ف۱: اس مـیں کلام نہیں کہ فقہا ء بارہا ف۲ کراہت مطلق بولتے اور اُس سے خاص مکروہ تنزیہی یـا تنزیہی وتحریمـی دونوں کو عام مراد لیتے ہیں مگر یہ وہاں ہے کہ ارادہ کراہت تحریم سے کوئی صارف موجود ہو مثلاً دلیل سے ثابت یـا خارج سے معلوم ہو کہ جسے یہاں مطلق مکروہ کہا مکروہ تحریمـی نہیں یـا جو افعال یہاں گنے اُن مـیں مکروہ تنزیہی بھی ہیں کما یفعلونہ فی مکروھات الصلاۃ (جیسے مکروہات نماز مـیں ایسا کرتے۔ ت) بے قیـام دلیل ہمارے مذہب مـیں اصل وہی ارادہ کراہت تحریم ہے کما مرعن نص المحقق علی الاطلاق وکتب المذ ھب طافحۃ بذلک (جیسا کہ نص محقق علی الاطلاق کی تصریح گزری اور کتب مذہب اس کے بیـان سے لبریز ہیں۔ ت) تو کراہت تنزیہ کی طرف پھیرنا ہی محتاج دلیل ہے ورنہ استدلال نہر تام ہے اب یہ جواب دلیل دوم کی جواب سے محتاج تکمـیل ہوا اور اُسی کی تضعیف بھی جلوہ نما۔دوم سے یہ جواب دیـا کہ صارف موجود ہے مثلاً جس نے آبِ نہر سے وضو مـیں اسراف کیـا اگر اُسے سنت نہ جانا تو ایسا ہوا کہ نہر سے کوئی برتن بھر کر اُسی مـیں اُلٹ دیـا اس مـیں کیـا محذور ہے سوا اس کے کہ ایک عبث بات ہے۔

ف۱:معروضۃ علی العلامۃ ش۔

ف۲:اگر فقہا خاص مکروہ تنزیہی یـا تنزیہی و تحریمـی دونوں سے عام پر اطلاق کراہت فرماتے ہیں مگر اصل یہی ہے کہ اس کے مطلق سے مراد کرا ہت تحریمـی ہے جب تک دلیل سے اسکا خلاف نہ ثابت ہو ۔

اقول ف۳ : اس کا مبنٰی اُسی خیـال پر ہے کہ علّامہ نے قول اول وچہارم کو ایک سمجھا ہے ورنہ قول چہارم مـیںنہراسراف کی تحریم کہاں اور ماورا مـیں کہ پانی کی اضاعت ہے صارف کیـا۔

ف۳:معروضۃ اخری علیہ ۔

وقد قدمنا مایکفی ویشفی ومنہ ف۴ تعلم مافی تعبیرہ بالوضوء بماء النھر اما استنادہ الی ان حدیث فمن زاد علی ھذا ونقص فقد تعدی وظلم محمول علی الاعتقاد عندنا کما فی الھدایۃ وغیرھا قال فی البدائع انہ الصحیح حتی لوزاد اونقص واعتقد ان الثلاث سنۃ لایلحقہ الوعید قال وقدمنا انہ صریح فی عدم کراھۃ ذلک یعنی کراھۃ تحریم ۱؎ اھ

اس پر ہم کافی وشافی بحث کر چکے ہیں ۔ اسی سے وہ نقطہ بھی معلوم ہوم جاتا ہے جو ''وضو بماء النہر ''سے تعبیر مـیں ہے رہاان کایہ اسناد کہ حدیث ''جس نے اس پر زیـادتی یـا کمـی کی تو اس نے حد سے تجاوز اور ظلم کیـا ''ہمارے نزدیک اعتقاد پر محمول ہے جیساکہ ہدایہ وغیرہا مـیں ہے اور بدائع مـیں فرمایـا کہ یہی صحیح ہے یہاں تک کہ اگر کمـی بیشی کی اور اعتقاد یہ ہے کہ تین بار دھونا ہی سنت ہے تو وعید اس سے لاحق نہ ہوگی۔علامہ شامـی نے کہا اور ہم پہلے بیـان کر چکے ہیں کہ یہ اس بارے مـیں صریح ہے کہ ا س مـیں کراہت یعنی کراہت تحریم نہیں اھ۔

ف۴: معروضۃ ثالثۃ علیہ۔

(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     مکروہات الوضو         داراحیـاء التراث العربی بیروت۱ /۹۰)

فاقول  : لایفید فـــ ماقصدہ من قصر الحکم علی کراھۃ التنزیہ مطلقا مالم یعتقد خلاف السنۃ کیف ولو کان ترک الاسراف سنۃ مؤکدۃ کما یقولہ النھر کان تعودہ مکروھا تحریما ووقوعہ احیـانا تنزیھا والحدیث حاکم علی من زاد مطلقا ای ولو مرۃ بانہ ظالم فلزم تاویلہ بما یجعل الزیـادۃ ممنوعۃ مطلقا فحملوہ علی ذلک فمن زاد اونقص مرۃ ولم یعتقد لم یلحقہ الوعید ،الا تری انھم ھم الناصون بان من غسل الاعضاء مرۃ ان اعتاد اثم کما قدمناہ عن الدر ومعناہ عن الخلاصۃ وقد صرح بہ فی الحلیۃ وغیرما کتاب ۔

فاقول : اس سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا جو ان کامقصد ہے کہ اسراف بہرحال مکروہ تنزیہی ہے جب تک مخالف سنت کا اعتقاد نہ ہو ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟اگر ترک اسراف سنت مؤکدہ ہے۔ جیساکہ صاحب نہر اس کے قائل ہیں تو اس کی عادت بنا لینا مکروہ تحریمـی ، اور احیـانا ہونا مکروہ تنزیہی ہوگا اور حدیث یہ حکم کرتی ہے کہ مطلقاجو زیـادتی کرے خواہ ایک ہی بار وہ ظالم ہے تو اس کی تاویل اس امر سے ضروری ہوئی جوزیـادتی کو مطلقا ممنوع قرار دے دے اس لیے علما  نے اسے اس معنٰی پر محمول کیـا ۔۔۔اب جو ایک بار زیـاتی یـا کمـی کرے اور مخالفت کا اعتقاد نہ رکھے تو وعید اسے شامل نہ ہوگی کیـا یہ پیش نظر نہیں کہ علما ء اس کی تصریح فرماتے ہیں کہ جو اعضا ء ایک بار دھوئے اگر اس کا عادی ہوتو گناہ گارجیسا کہ درمختار کے حوالے سے ہم نے بیـان کیـا اور اسی کے ہم معنی خلاصہ سے نقل کیـا اور اس کی تصریح حلیہ وغیرہامتعدد کتابوں مـیں موجود ہے۔

ف: معروضۃ رابعۃ علیہ ۔

ثم ف العجب انی رأیت العلامۃ نفسہ قدصرح بھذا فی سنن الوضوء فقال'' لایخفی ان التثلیث حیث کان سنۃ مؤکدۃ واصر علی ترکہ یـاثم وان کان یعتقدہ سنۃ واما حملھم الوعید فی الحدیث علی عدم رؤیۃ الثلث سنۃ کما یـاتی فذلک فی الترک ولو مرۃ بدلیل ماقلنا (قال) وبہ اندفع مافی البحر من ترجیح القول بعدم الاثم لواقتصر علی مرۃ بانہ لواثم بنفس الترک لما احتج الی ھذا الحمل اھ واقرہ فی النھر وغیرہ وذلک لانہ مع عدم الاصرار محتاج الیہ فتدبر ۱؎ اھ

پھر حیرت یہ ہے کہ مـیں نے دیکھا علامہ شامـی نے سنن وضو کے باب مـیں خود اس کی تصریح کی ہے وہ لکھتے ہیں مخفی نہیں کہ تین بار دھونا جب بھی ہو سنت مؤکدہ ہے اور جو اس کے تر ک پر اصرار کرے گناہ گار ہے اگرچہ اس کے سنت ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو۔اور علماء کا وعید حدیث کو تثلیث کے سنت نہ ماننے پرمحمول کر نا جیسا کہ آرہا ہے یہ تو ایک بار تر ک کرنے مـیں بھی ہے جس کی دلیل وہ ہے جو ہم نے بیـان کی ۔۔۔۔آگے لکھا :اسی سے وہ دفع ہو جاتا ہے جو بحر مـیں صرف ایک با ر ترک تثلیث سے گناہگار نہ ہونے کے قول کو یہ کہہ کر ترجیح دی ہے کہ اگر نفس ترک سے گنا ہ گار ہوجاتا تو حدیث کی یہ تعبیر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی ا ھ اس کلام کو نہر وغیرہ مـیں برقرار رکھا ہے یہ کلام دفع یوں ہوجاتا ہے کہ عدم اصرار کے باوجود تاویل حدیث کی ضرورت ہے تو اس پر غور کرو ا ھ۔

ف:معروضۃ خامسۃ علیہ ۔

(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     سنن الوضو     داراحیـاء التراث العربی بیروت۱ /۸۰،۸۱)

وقال بعیدہ صریح مافی البدائع انہ لاکراھۃ فی الزیـادۃ والنقصان مع اعتقاد سنیۃ الثلٰث وھو مخالف لمامر من انہ لواکتفی بمرۃ واعتادہ اثم ولما سیـاتی ان الاسراف مکروہ تحریما ولھذا فرع فی الفتح وغیرہ علی القول بحمل الوعید علی الاعتقاد بقولہ فلوزاد لقصد الوضوء علی الوضوء اولطمانیۃ القلب عند الشک اونقص لحاجۃ لاباس بہ فان مفاد ھذا التفریع انہ لو زاد اونقص بلا غرض صحیح یکرہ وان اعتقد سنیۃ الثلث، وبہ صرح فی الحلیۃ فیحتاج الی التوفیق بین مافی البدائع وغیرہ ویمکن التوفیق بما قدمنا انہ اذا فعل ذلک مرۃ لایکرہ مالم یعتقدہ سنۃ وان اعتادہ یکرہ وان اعتقد سنیت الثلث الا اذا کان لغرض صحیح ۱؎ اھ ولکن سبحن من لاینسی۔

اس کے کچھ آگے لکھاہے بدائع کی تصریح یہ ہے کہ تثلیث کو سنت مانتے ہوئے کم وبیش کر دینے مـیں کوئی کراہت نہیں ہے، اور یہ اس کے مخالف ہے جو بیـان ہوا کہ اگرایک بار دھونے پر اکتفاء کرے اور اس کا عادی ہو تو گنہگار ہو گا اور اس کے بھی خلاف ہے جو آگے آرہا ہے کہ اسراف مکروہ تحریمـی ہے اور اسی لئے فتح القدیر وغیرہ مـیں وعید کو اعتقاد پر محمو ل کرنے کے قول پر یہ تفریع کی ہے کہ اگر وضوپر وضو کے ارادے سے یـا شک کی حالت مـیں اطمـینان قلب کے لئے زیـادتی کی یـاکسی حاجت کی وجہ سے کمـی کی توکوئی حرج نہیں کیوں کہ اس تفریع کامفاد یہ ہے کہ اگری غرض صحیح کے بغیر کمـی بیشی کی تومکروہ ہے اگرچہ تثلیث کے مسنون ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو اور حلیہ مـیں اسکی تصریح کی ہے۔توبدا ئع اوردوسری کتابوں مـیں جو مذکور ہے اس کی تطبیق دینے کی ضرورت ہے اوریہ تطبیق اس کلام سے ہو سکتی ہے جو ہم نے پہلے تحریر کیـا کہ جب ایک بار ایسا کرے تو مکروہ نہیں جبکہ اسے سنت نہ سمجھے اور اگر اس کا عادی ہوتو مکروہ ہے اگر چہ تثلیث کو سنت مانے مگر جبی غرض صحیح کے تحت ہو اھ۔لیکن پاک ہے وہ جسے نسیـان نہیں ۔

(۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     سنن الوضو     داراحیـاء التراث العربی بیروت۱ /۸۱،۸۲)

اقول : وانت تعلم ان الکراھیۃ المنفیۃ فیما اذا نقص مرۃ ھی التحریمـیۃ کما قدمنا لان ترک السنۃ المؤکدۃ مرۃ واحدۃ ایضا مکروہ ولولم یکن تحریما وعلی التعود یحمل التفریع المذکور فی الفتح والکافی والبحر وعامۃ الکتب فان نفی الباس یستعمل فی کراھۃ التنزیہ کما نصوا علیہ فاثباتہ المستفاد ھھنا بالمفھوم المخالف یفید کراھۃ التحریم۔

اقول  : ناظر کومعلوم ہے کہ کبھی ایک بارکمـی کردینے پر کراہت کی جو نفی کی گئی ہے اس سے کراہت تحریم مراد ہے جیساکہ ہم نے سابقا بیـان کیـا اسلئے کہ سنت مؤکدہ کا ایک بار بھی ترک مکروہ ہے اگرچہ مکروہ تحریمـی نہ ہو اور عادت ہونے کی صورت پر وہ تفریع محمول ہوگی جو فتح ،کافی ، بحر مـیں مذکور ہے اس لئے کہ'' لابأس بہ'' (اس مـیں حرج نہیں ) کراہت تنزیہ مـیں استعمال ہوتاہے جیسا کہ علماء نے اس کی تصریح کی تو''بأس''(حرج ) جو یہاں مفہوم مخالف سے مستفادہے وہ کراہت تحریم کا افادہ کررہا ہے۔

ھذا الکلام معہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی بما قرر نفسہ وعند العبد الضعیف منشؤ اخر لحمل العلماء الحدیث علی الاعتقاد کما سیـاتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔

یہ علامہ شامـی رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ خود انہی کی تقریر وتحریر سے کلام ہوا اور بندہ ضعیف کے نزدیک حدیث کو اعتقاد پر محمول کیے جانے کامنشا دوسرا ہے جیساکہ آ ۤگے ان شاء اللہ تعالٰی ذکرہوگا۔

سوم سے یہ جواب دیـا کہ مکروہ تنزیہی بھی حقیقۃً اصطلاحا منہی عنہ ہے اگرچہ لغتا اسے منہی عنہ کہنا مجاز ہے کما فی التحریر (ت)

اقول ف ۱اولا : رحمہ اللہ تعالی العلامۃ یہاں تحریرمـیں اصطلاح سے امام محقق علی الاطلاق کی مراداصطلاح نحویـاں ہے نہ کہ اصطلاح شرح یـا فقہ یعنی جب کہ مکروہ تنزیہی مـیں صیغہ نہی اور بعض مندوبات مـیں صیغہ امرہوتا ہے اور نحوی صیغہ ہی کودیکھتے ہیں اختلاف معانی سے انہیں بحث نہیں کہ یہاں فعل یـا ترک طلب حتمـی ہے یـا غیر حتمـی تو ان کی اصطلاح مـیں حقیقۃ مندوب مامور بہ ہوگا اور مکروہ تنزیہی منہی عنہ مگرلغۃ ف۲ ان کو مامور بہ اور منہی عنہ کہنا مجاز ہے کہ لغت مـیں ما مور بہ واجب اور منہی عنہ نا جائز سے خاص ہے اوریہی عرف شرع واصطلاح فقہ ہے تو نحویوں کے طور پر لا تفعل کا صیغہ ہونے سے فقہاکیوں کر منہیـات مـیں داخل ہونے لگا تحریر کی عبارت محل مذکور سابقاملخصا یہ ہے

ف۱:معروضۃ ثالثہ علیہ ۔
ف۲:مکروہ تنزیہی لغتا و شرعا منہی عنہ نہیں اگرچہ نحویوں کے طور اس مـیں صیغہ نہی ہو ۔

مسئلۃ   : اختلف فی لفظ المامور بہ فی المندوب قیل عن المحققین حقیقۃ والحنفیۃ وجمع من الشافعیۃ مجاز ویجبمراد المثبت ان الصیغۃ فی الندب یطلق علیھا لفظ امر حقیقۃ بناء علی عرف النحاۃ فی ان الامر للصیغۃ المقابلۃ للماضی واخیہ مستعملۃ فی الایجاب اوغیرہ فالمندوب مامور بہ حقیقۃ والنافی علی ماثبت ان الامر خاص فی الوجوب والاول (ای نفی الحقیقۃ) اوجہ لابتنائہ علی الثابت لغۃ وابتناء الاول علی الاصطلاح (للنحویین) ومثل ھذہ المکروہ (تنزیھا) منھی (عنہ) اصطلاحا (نحویـا) حقیقۃً مجاز لغۃ (لان النھی فی الاصطلاح یقال علی لاتفعل استعلاء سواء کان للمنع الحتم اولا اما فی اللغۃ فیمتنع ان یقال حقیقۃ نہی عن کذا الا اذا منع منہ ) ۱؎اھ مزیدا مابین الاھلۃ من شرحہ التقریر والتحبیرلتلمـیذہ المحقق ابن امـیر الحاج رحمھما اللّٰہ تعالٰی۔

مندوب کے بارے مـیں لفظ ماموبہ کے بارے مـیں اختلاف ہے کہا گیـا کہ محققین سے منقول ہے کہ وہ حقیقۃ مامور بہ ہے.اورحنفیہ اورایک جماعت شافعیہ سے منقول ہے کہ مجازاًہے۔ ضروری ہے کہ مثبت کی مرادیہ ہوکہ ندب مـیں جو صیغہ ہوتا ہے اس پر لفظ امر حقیقتاًبولا جاتا ہے اس بنیـاد پر کہ نحویوں کاعرف یہ ہے کہ امر اس صیغہ کو کہتے ہیں جو ماضی ومضارع کے مقابلے مـیں ہوتاہے یہ ایجاب یـا غیرایجاب مـیں استعمال ہوتا ہے تو مندوب بہ حقیقۃ ما مور بہ اور نافی اس پر ہے جو ثابت ہوا کہ امر وجوب مـیں خاص ہے اوراول ( یعنی نفی حقیقت) اوجہ ہے اسلئے کہ وہ اس پر مبنی ہے جو لغتا ثابت ہے اور پہلے کی بنیـاد (نحویوں کی )اصطلاح پر ہے اوراسی کی طرح مکروہ(تنزیہی )بھی(نحوی)اصطلاح مـیں حقیقتا منہی عنہ ہے اور لغت مـیں مجازااس لئے کہ اصطلاح مـیں نہی کا اطلاق بطور استعلاء''لاتفعل''(مت کر) پرہوتا ہے خواہ منع حتمـی ہو یـا نہ ہولیکن لغت مـیں حقیقتا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں کام سے نہی کی مگراسی وقت جب کہ اس سے اسی وقت منع کردیـا ہو۔ اھ ہلالین کے درمـیان اضافہ محقق علی الاطلاق کے شاگرد (یعنی محقق ابن امـیر الحاج) کی شرح التقریروالتحبیرسے ہیں۔

(۱؎التحریر فی اصول الفقہ       المقالۃ الثانیۃ       الباب الاول مصطفٰی البابی مصر     ص۲۵۵تا۲۵۷ )
(التقریر والتحبیر      المقالۃ الثانیۃ      الباب الاول      دار الفکر بیروت        ۲ /۱۹۱۔۱۹۰)

ثانیـا اقول  : اگر مکرو ہ فــ۱ تنزیہی شرعاً حقیقۃً منہی عنہ ہوتا واجب الاحتراز ہوتا لقولہ تعالی وما نھٰکم عنہ فانتھوا۱؎ (کیونکہ باری تعالی ٰ کا ارشاد ہے اورتمہیں جس چیز سے روکیں اس سے باز آجاؤ۔)تو مکروہ تنزیہی نہ رہتا بلکہ حرام یـا تحریمـی ہوتا اور ہم نے اپنے رسالہ جمل مجلیۃ ان المکروہ۱۳۰۴ھ تنزیھابمعصیۃ مـیں دلائل قاہرہ قائم کئے ہیں کہ وہ ہرگز شرعاً منہی عنہ نہیں۔

فــ۱:معروضۃ سابعۃعلیہ۔

(۱؎القرآن الکریم ۵۹ /۷)

ثالثا  : خود علّامہ فــ۲ شامـی کو جابجا اس کا اعتراف ہے کلام حلیہ الظاھر ان السنۃ فعل المغرب فورا وبعدہ مباح الی اشتباک النجوم (ظاہر یہ ہے کہ مغرب کی ادائیگی فوراً مسنون اوراسکے بعدستاروں کے باہم مل جانے تک مباح ہے ۔ ت) نقل کرکے فرمایـا : الظاھر انہ اراد بالمباح مالایمنع فلا ینافی کراھۃ التنزیہ ۲؎۔

ظاہر یہ ہے کہ انہوں نے مباح سے وہ مراد لیـا ہے جو ممنوع نہ ہو تویہ مکروہ مکروہ تنزیہی ہونے کے منافی نہیں ۔( ت)

فــ۲:معروضۃثامنۃ علیہ ۔

(۲؎ رد المحتار کتاب الصلوۃ     دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۲۴۶)

آخر کتاب الاشربہ مـیں سید علاّمہ ابو السعود سے نقل کیـا: المکروہ تنزیھا یجامع الاباحۃ ۳؎ اھ

(مکروہ تنز یہی مباح کے ساتھ جمع ہوتا ہے۔ ت)

(۳؎رد المحتار کتاب الاشربہ     دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۲۹۶)

 رابعا وخامسا اقول فــ۳ : عجب تریہ کہ صدر حظر مـیں ہمارے ائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اجماع بتایـا کہ مکروہ تنزیہی ممنوع نہیں۔

فــ۳ معروضۃ تاسعۃ علیہ۔

ثم ادعی فــ۴ تبعا لزلۃ وقعت فی التلویح واقمنا فی رسالتنا بسط الیدین الدلائل الساطعۃ علی بطلانھا ونقلنا مائۃ نص من ائمتنا وکتب مذھبنا متونا وشروحا وفتاوی منھا کتب نفس الشامـی کردالمحتار ونسمات الاسحار علی خلافھا ان المکروہ تحریما ایضا غیر ممنوع عند الشیخین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما وسبحن اللّٰہ ای ا عجب اعجب منھذا ان یکون المکروہ تنزیھا منھیـا عنہ والمکروہ تحریما غیر ممنوع۔

پھر تلویح مـیں واقع ہونے والی ایک لغزش کی تبعیت مـیں یہ دعوی کر دیـا کہ شیخین (امام اعظم وامام ابو یوسف ) رضی اللہ تعالی عنہما کے نزدیک مکروہ تحریمـی بھی ممنوع نہیں خداہی کے لئے پاکی ہے اس سے زیـادہ عجیبسا عجب ہوگا کہ مکروہ تنزیہی تو منہی عنہ ہو اور مکروہ تحریمـی ممنوع نہ ہو ہم نے اس کے بطلان پر اپنے رسالہ بسط الیدین مـیں روشن دلائل قائم کیے ہیں اوراسکے خلاف سو ۱۰۰نصوص اپنے آئمہ اور اپنے مذہب کی کتب متون وشروح وفتاوی سے نقل کیے ہیں جن مـیں خودعلامہ شامـی کی کتابیں رد المحتا ر،نسمات الاسحار وغیرہ بھی ہیں۔(ت)

فــ۴:معروضۃ عاشر ۃ علیہ ۔

سادسا : عجب تر یہ کہ جب شارح نے جواہر سے آب جاری مـیں اسراف جائز ہونا نقل فرمایـا علامہ محشی نے قول کراہت کے خلاف دیکھ کر اس کی یہ تاویل فرمائی کہ جائز سے مراد غیر ممنوع ہے۔ ففی الحلیۃ عن اصول ابن الحاجب انہ قدیطلق ویراد بہ مالایمتنع شرعا وھو یشمل المباح والمکروہ والمندوب والواجب ۱؎۔

کیونکہ حلیہ مـیں اصول ابن حاجب سے نقل ہے کہ کبھی جائز بولا جاتا ہے اوراس سے وہ مراد ہوتا ہے جو شرعا ممنوع نہ ہویہ مباح، مکروہ، مندوب اور واجب سب کو شامل ہے۔(ت) یعنی اب کراہت کے خلاف نہ ہوگا مکروہ تنزیہی بھی شرعاً ممنوع نہیں۔

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

اقول فــ۱ :یہ ایک تو اُس دعوے کا رد ہوگیـا کہ مکروہ تنزیہی بھی حقیقۃً منہی عنہ ہے۔

فـــ۱: المعروضۃ الحادیۃ عشرۃعلیہ ۔

سابعا فــ۲ : اصل تحقیق علّامہ محشی کے خلاف خود قول صاحب نہر کی تسلیم ہوگئی خود علامہ نے جابجا تصریح فرمائی کہ کتب مـیں مفہوم مخالف معتبر ہے جب عبارت جواہر کے معنے یہ ٹھہرے کہ جاری پانی مـیں ممنوع نہیں صرف مکروہ تنزیہی ہے تو صاف مستفاد ہوا کہ آب غیر جاری مـیں ممنوع ومکروہ تحریمـی ہے اور یہی مدعائے صاحبِ نہر تھا بالجملہ نہر کیی دلیل کا جواب نہ ہوا۔ رہا یہ کہ پھر آخر حکم منقح کیـا ہے اس کیلئے اولا تحقیق معنی اسراف کی طرف عود کریں پھر تنقیح حکم وباللہ التوفیق۔

ف۲: المعروضۃا لثانیۃ عشرۃ علیہ۔

تنبیہ۶: اسراف بلاشبہ ممنوع وناجائز ہے، قال اللہ تعالٰی: ولا تسرفوا انہ لایحب المسرفین ۱؎ بیہودہ صرف نہ کرو بیشک اللہ تعالٰی بیہودہ صرف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

( ۱؎القرآن الکریم ۶ /۱۴۱و۷ /۳۱)

قال اللہ تعالٰی : ولا تبذر تبذیراo ان المبذرین کانوا اخوان الشٰیطین وکان الشیطن لربہ کفورا ۲؎o مال بیجا نہ اُڑا بیشک بیجا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا نا شکرا۔

(۲؎ القرآن الکریم    ۱۷ /۲۶، ۲۷)

اقول  : اسراف فــ کی تفسیر مـیں کلمات متعدد وجہ پر آئے:

فــ:اسراف کے معنی کی تفصیل وتحقیق۔

(۱) غیر حق مـیں صرف کرنا۔ یہ تفسیر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمائی۔

الفریـابی وسعید بن منصور وابو بکر بن ابی شیبۃ والبخاری فی الادب المفرد وابنا جریر والمنذر وابی حاتم والطبرانی والحاکم وصححہ والبیھقی فی شعب الایمان واللفظ لابن جریر کلھم عنہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی قولہ تعالی "ولا تبذر تبذیرا " قال التبذیر فی غیر الحق وھو الاسراف ۳؎۔

فریـابی ، سعید بن منصور، ابو بکر بن ابی شیبہ ادب المفرد مـیں،بخاری ، ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم بافادہ تصحیح، شعب الایمان مـیں بیہقی اور ا لفاظ ابن جریر کے ہیں۔ یہ سب حضرات عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ارشاد باری تعالٰی '' ولا تبذر تبذیرا'' کے تحت راوی ہیں کہ انہوں نے فرمایـا تبذیر غیرحق مـیں صرف کرنا اور یہی اسراف بھی ہے۔ (ت)

 (۳؎جامع البیـان (تفسیر ابن جریر )  تحت الآیۃ   ۱۷/ ۲۶ دار احیـا ء التراث العربی بیروت       ۱۵ /۸۵ )

اور اسی کے قریب ہے وہ کہ تاج العروس مـیں بعض سے نقل کیـا : وضع الشیئ فی غیر موضعہ ۱؎ یعنی بیجا خرچ کرنا۔

 ( ۱؎تاج العروس باب الفا فصل السین دار احیـاء التراث العربی بیروت ۶/ ۱۳۸)

ابن ابی حاتم نے امام مجاہد تلمـیذ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کی: لوانفقت مثل ابی قبیس ذھبا فی طاعۃ اللّٰہ لم یکن اسرا فاولو انفقت صاعا فی معصیۃ اللّٰہ کان اسرافا ۲؎۔

اگر تو پہاڑ برابر سونا طاعت الہی مـیں خرچ کردے تو اسراف نہیں اور اگر ایک صاع جو گناہ مـیں خرچ کرے تو اسراف ہے۔

(۲؎ تفسیر ابن ابی حاتم تحت الآیہ ۶ /۱۴۱ مطبع نزا رمصطفی الباز مکۃ المکرمہ)
(مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) بحوالہ مجاہد تحت الآیہ۶ /۱۴۱ دار الکتب العلمـیہ بیروت ۱۳ /۱۷۶)

کسی نے حاتم کی کثرت داد ودہش پر کہا: لا خیر فی سرف اسراف مـیں خیر نہیں۔ اُس نے جواب دیـا: لاسرف فی خیر ۳؎ خیر مـیں اسراف نہیں۔

(۳؎مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) بحوالہ مجاہد تحت الآیہ۶ /۱۴۱ دار الکتب العلمـیہ بیروت ۱۳ /۱۷۶)

اقول  : حاتم کا مقصود تو خدا نہ تھا نام تھا کمانص علیہ فی الحدیث (جیسا کہ حدیث مـیں نص وارد ہے۔ ت) تو اس کی ساری داد ودہش اسراف ہی تھی مگر سخائے خیر مـیں بھی شرع مطہر فــ اعتدال کا حکم فرماتی ہے۔

فــ:مصارف خیر مـیں اعتدال چاہیے یـا اپنا کل مال یک راہ خدا مـیں دے دینے کی بھی اجازت ہے اس کی تحقیق ۔

قال اللّٰہ تعالی  : ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا ۴؎o باری تعالی کا ارشادہے اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا نہ رکھ اورنہ پور اکھول دے کہ تو بیٹھا رہے ملامت کیـا ہوا تھکا ہوا ۔( ت)

( ۴؎ القرآن الکریم    ۱۷/ ۱۹)

وقال تعالٰی: والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقترو اوکان بین ذلک قواما ۱؎ o اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ (ت)

( ۱؎القرآن الکریم۲۵ /۶۷)

آیہ کریمہ واٰتوا حقہ یوم حصادہ ولا تسرفوا ۲؎ (اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو اور بے جا خرچ نہ کرو۔ت)کی شانِ نزول مـیں ثابت عــــہ بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قصہ معلوم ومعروف ہے۔ رواھا ابن جریر وابن ۳؎ابی حاتم عن ابن جریج۔

 ( ۲ ؎القرآن الکریم ۶ /۱۴۱)
(۳؎الدر المنثور بحوالہ ابن ابی حاتم تحت الآیہ ۶/۱۴۱ دارا حیـاء التراث العربی بیروت۳ /۳۳۱)
(جامع البیـان (تفسیر ابن جریر ) تحت الآیۃ۶/۱۴۱ دار احیـا ء التراث العربی بیروت۸ /۷۴ )

عـــہ: نیز ایک صاحب انڈے برابر سونا لے کر حاضر ہوئے کہ یـا رسول اللہ! مـیں نے ایک کان مـیں سے پایـا مـیں اسے تصدق کرتا ہوں اس کے سوا مـیری ملک مـیں کچھ نہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض فرمایـا، انہوں نے پھر عرض کی، پھر اعراض فرمایـا۔ پھر عرض کی پھر اعراض فرمایـا۔ پھر عرض کی، حضور نے وہ سونا ان سے لے کر ایسا پھینکا کہ اگر ان کے لگتا تو درد پہنچاتا یـا زخمـی کرتا اور فرمایـا تم مـیں ایک شخص اپنا پورا مال لاتا ہے کہ یہ صدقہ ہے پھر بیٹھا لوگوں سے بھیک مانگے گا خیر الصدقۃ ماکان عن ظھر غنی۔ بہتر صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمـی محتاج نہ ہوجائے رواہ ابو داؤد۴؎ وغیرہ عن جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ (اس کو ابو داؤد وغیرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیـا۔ت) (منہ)

(۴؎سنن ابی داؤد کتاب الزکاۃ باب الرجل یخرج من مالہ آفتاب عالم پریس لاہور۱ /۳۶،۲۳۵)

اُدھر صحاح کی حدیث جلیل ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدق کا حکم فرمایـا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ خوش ہوئے کہ اگر مـیں کبھی ابو بکر صدّیق پر سبقت لے جاؤں گا تو وہ یہی بار ہے کہ مـیرے پاس مال بسیـا رہے اپنے جملہ اموال سے نصف حاضرِ خدمت اقدس لائے۔ حضور نے فرمایـا: اہل وعیـال کیلئے کیـا رکھا؟ عرض کی اتنا ہی۔ اتنے مـیں صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ حاضر ہوئے اور کل مال حاضر لائے گھر مـیں کچھ نہ چھوڑا۔ ارشاد ہوا: اہل وعیـال کیلئے کیـا رکھا؟ عرض کی: اللہ اور اس کا رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس پر حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا: تم دونوں مـیں وہی فرق ہے جو تمہارے ان جوابوں مـیں۔ اور تحقیق یہ ہے کہ عام کیلئے وہی حکم مـیانہ روی ہے اور صدق عـــہ توکل وکمال تبتُّل والوں کی شان بڑی ہے۔

عــــہ  : رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایـا:

انفق بلالا ولا تخشی من ذی العرش اقلالا ۔رواہ البزار عن بلال وابو یعلی والطبرانی فی الکبیر۱؎
والاوسط والبیہقی فی شعب الایمان عن ابی ہریرۃوالطبرانی فی الکبیرکالبزارعن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم باسانید حسان۔

اے بلال! خرچ کر اور عرش کے مالک سے کمـی کا اندیشہ نہ کر۔( بزاز نے حضرت بلال سے اور ابو یعلی اور طبرانی نے کبیر مـیں ،اور اوسط اور بیہقی نے شعب الایمان مـیں حضرت ابو ہریرہ سے ،اور طبرانی نے کبیر مـیں، جبکہ بزاز نے ا بن مسعود رضی اللہ عنہم سے حسن سندوں کے ساتھ روایت کیـا۔ت)

(۱؎ المعجم الکبیرحدیث۱۰۲۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت۱ /۳۴۰)
(الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی وابی یعلی والبزارالترغیب فی الانفاق مصطفی البابی مصر۲ /۵۱)
(کشف الخفاء حدیث۶۳۵ دار الکتب العلمـیۃ بیروت۱ /۱۹۰)
(کنز العمال حدیث ۱۶۱۸۵و۱۶۱۸۶مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۳۸۷ )

اس حدیث کا موردیوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خرمنِ خرمہ ملاحظہ فرمایـا، ارشاد ہوا:بلال ! یہ کیـا ہے؟ عرض کی: حضورکے مہمانوں کیلئے رکھ چھوڑاہے۔ فرمایـا :

اما تخشی ان یکون لک دخان فی نار جہنم ۲؎

کیـا ڈرتا نہیں کہ اس کے سبب آتشِ دوزخ مـیں تیرے لئے دُھواں ہو، خرچ کر، اے بلال !اور عرش کے مالک سے کمـی کا خوف نہ کر۔ بلکہ خود انہی بلال سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُن سے فرمایـا: اے بلال! فقیر مرنا اور غنی نہ مرنا۔ عرض کی اس کیلئے کیـا طریقہ برتوں ؟ فرمایـا:

مارزقت فلاتخباء وما سئلت فلا تمنع

جو تجھے ملے اُسے نہ چُھپا اور جو کچھ تجھ سے مانگا جائے انکار نہ کر۔ عرض کی یـا رسول اللہ! یہ مـیں کیونکر کرسکوں۔  فرمایـا :

ھوذاک اوالنار یـا یہ یـا نار۔

(۲؎ الترغیب والترھیب الترغیب فی الانفاق مصطفی البابی مصر۲ /۵۱)

رواہ الطبرانی فی الکبیر و ابو الشیخ فی الثواب والحاکم ۱؎ وقال صحیح الاسناد

(اسے طبرانی نے کبیر مـیں اور ابو شیخ نے ثواب مـیں اور حاکم نے روایت کیـا اور فرمایـا یہ صحیح الاسناد ہے۔ت)

(۱؎ المعجم الکبیرحدیث۱۰۲۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت۱ /۳۴۱)
(المستدرک لحاکم کتاب الرقاق دار الفکربیروت۴ /۳۱۶ )
(۲؎ الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی وابی الشیخ والحاکم الخ الترغیب فی الانفاق الخ مصطفی البابی مصر۲ /۵۲)

اگر کہیے ان پر تاکید اس لئے تھی کہ وہ اصحابِ صُفّہ سے تھے اور ان حضرات کرام کا عہد تھا کہ کچھ پاس نہ رکھیں گے۔

اقول  :

(مـیں کہتا ہوں) ہاں، اور ہم بھی نہیں کہتے کہ ایسا کرنا ہر ایک پر لازم ہے مگر ان حضرات پر اس کے لازم فرمانے ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام فی نفسہٖ محمود ہے اور ہر صادق التوکل کو اس کی اجازت ، ورنہ ان کو بھی منع کیـا جاتاجیسے ایک صاحب نے عمر بھر رات کو نہ سونے کا عہد کیـا اور ایک نے عمر بھر روزے رکھنے کا، ایک نے کبھی نکاح نہ کرنے کا۔ اس پر ناراضی فرمائی، اور ارشاد ہوا :مـیں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور شب کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور نکاح کرتا ہوں

فمن رغب عن سنتی فلیس منی

تو جو مـیری سنّت سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں،رواہ عن حضرت انس رضی اللہ عنہ ۲؎ ۔

(۲؎صحیح البخاری     کتاب النکاح ۲ /۷۵۷        و صحیح مسلم     کتاب النکاح         ۱ /۴۴۹)

ایک شخص نے پیـادہ حج کرنے کی منّت مانی، ضُعف سے دو۲ آدمـیوں پر تکیہ دیے کر چل رہا تھا، اُسے سوار ہونے کا حکم دیـا اور فرمایـا :

ان اللہ تعالٰی عن تعذیب ھذانفسہ لغنی ۔ رویـاہ۳؎ عنہ رضی اللہ عنہ ۱۲منہ

اللہ اس سے بے نیـاز ہے کہ یہ اپنی جان کو عذاب مـیں ڈالے۔( اس کوشیخین نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیـا۔۲۱منہ۔ت)

(۳؎صحیح البخاری ابواب العمرۃ ۱ /۲۵۱ وصحیح مسلم کتاب النذر۲/ ۴۵ قدیمـی کتب خانہ کراچی )

(۲) حکمِ الٰہی کی حد سے بڑھنا۔ یہ تفسیر ایـاس بن معٰویہ بن قرہ تابعی ابن تابعی ابن صحابی کی ہے۔ ابن جریر وابو الشیخ عن سفین عــــہ بن حسین عن ابی بشر قال اطاف الناس بایـاس بن معویۃ فقالوا ما السرف قال ماتجاوزت بہ امر اللّٰہ فھو سرف ۱؎۔

ابن جریر اور ابو الشیخ سفیـان بن حسین سے راوی ہیں وہ ابو البشر سے، انہوں نے کہا اِیـاس بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہوکرلوگوں نے ان سے پوچھا : اسراف کیـا ہے ؟ فرمایـا جس خرچ مـیں تم امر الہی سے تجاوز کر جاؤ وہ اسراف ہے ۔ (ت)

عــــہ وقع فی نسخۃ الدرالمنثور المطبوعۃ بمصرسعید بن جبیروھو تصحیف اھ منہ عفی عنہ۔
در منثورمطبوعہ مصر کے نسخہ مـیں سعید بن جبیر واقع ہوا ہے یہ تصحیف ہے اھ منہ عفی عنہ

( ؎۱ جامع البیـان (تفسیرابن جریر ) تحت الآیۃ۶/۱۴۱ دار احیـاء التراث العربی بیروت۸ /۷۴ )
(الدرالمنثور بحوالہ ابی الشیخ تحت الآیۃ۶/۱۴۱ دار احیـاء التراث العربی بیروت۳ /۳۳۲)

اور اسی کی مثل اہل لغت سے ابن الاعرابی کی تفسیر ہے کما سیـاتی من التفسیر الکبیر (جیسا کہ تفسیر کبیر سے ذکر آئے گا۔ ت) تعریفات السید مـیں ہے : الاسراف تجاوز الحد فی النفقۃ۲؎ (نفقہ مـیں حد تجاوز کرنا اسراف ہے۔ ت)

(۲؎التعریفات للسیدالشریف     انتشارات ناصر خسرو تہران ایران     ص۱۰)

اقول  : یہ تفسیر مجمل ہے حکم الٰہی وضو مـیں کُہنیوں تک ہاتھ، گِٹّوں تک پاؤں دھونا ہے، مگر اس سے تجاوز اسراف نہیں بلکہ نیم بازو ونیم ساق تک بڑھانا مستحب ہے جیسا کہ احادیث سے گزرا تو امر سے مراد تشریع لینی چاہئے یعنی حدِ اجازت سے تجاوز، اور اب یہ تفسیر ایک تفسیر تبذیر کی طرف عود کرے گی۔

(۳) ایسی بات مـیں خرچ کرنا جو شرعِ مطہر یـا مروّت کے خلاف ہو اول حرام ہے اور ثانی مکروہ تنزیہی۔
طریقہ محمدیہ مـیں ہے :

الاسراف والتبذیر ملکۃ بذل المال حیث یجب امساکہ بحکم الشرع اوالمرؤۃ بقدر مایمکن وھما فی مخالفۃ الشرع حرامان وفی مخالفۃ المروء ۃ مکروھان تنزیھا ۳؎ اھ

اسراف اور تبذیر:  اس جگہ مال خرچ کرنے کا ملکہ(نفس کی قوت راسخہ ) جہاں شریعت یـا مروت روکنا لازم کرے اور مروت امکانی حد تک پہنچانے کے کام مـیں نفس کی سچی رغبت کو کہتے ہیں اسراف وتبذیر شریعت کی مخالف مـیں ہوں تو حرام ہیں اور مروت کی مخالف مـیں ہوں تومکروہ تنزیہی ہیں اھ

(۳؎طریقہ محمدیہ السابع والعشرون الاسراف والتبذیر مکتبہ حنفیہ کوئٹہ ۱ /۱۵و۱۶)

اقول  : وزاد ملکۃ لیجعلھما من منکرات القلب لانہ فی تعدیدھا ومثل الشارح العلامۃ سیدی عبدالغنی النابلسی قدس سرہ القدسی مخالفۃ المروء ۃ بدفعہ للا جانب والتصدق بہ علیھم وترک الاقارب والجیران المحاویج ۱؎ اھ

اقول: ان دونوں کو منکرات قلب سے قرار دینے کے لئے لفظ ملکہ کا اضا فہ کر دیـا کیونکہ یہاں وہ دل کی برائیـاں ہی شمار کرا رہے ہیں ۔اور شارح علامہ سید عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے مخالفت مروت کی مثال یہ پیش کی ہے کہ حاجت مندوں قرابت داروں اورہمسایوں کو چھوڑ کر دور والوں کو مال دے اوران پر صدقہ کرے اھ

(۱؎ الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ السابع والعشرون مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۲۸)

اقول  : اخرج الطبرانی فــــ۱ بسند صحیح عن ابی ھریرۃفـــ۲ رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یـا امۃ محمد والذی بعثنی بالحق لایقبل اللّٰہ صدقۃ من رجل ولہ قرابۃ محتاجون الی صلتہ ویصرفہا الی غیرھم والذی نفسی بیدہ لاینظر اللّٰہ الیہ یوم القیمۃ ۲؎ اھ فھو خلاف الشرع لامجرد خلاف المروء ۃ واللّٰہ تعالی اعلم۔

اقول  : طبرانی نے بسند صحیح حضرت ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایـا :اے امت محمد (علیہ الصلوۃ والسلام ) اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایـا خدااس شخص کا صدقہ قبول نہیں فرماتا جس کے کچھ ایسے قرابت دارہوں جواس کے صلہ کے محتاج ہوں اور وہ دوسروں پرصرف کرتا ہو اس کی قسم جس کے دست قدرت مـیں مـیری جان ہے خدا اسکی طرف روز قیـامت نظر رحمت نہ فرمائے گا اھ تو یہ (حاجت مند اقارب کو چھوڑ کر اجانب کو دینا ) صرف مروت ہی کے خلاف نہیں شریعت کے بھی خلاف ہے اورخدائے برتر ہی کو خوب علم ہے ۔( ت)

ف۱ تطفل علی المولی النابلسی ۔
ف۲مسئلہ جس کے عزیز محتا ج ہوں اسے منع ہے کہ انہیں چھوڑ کر غیروں کو اپنے صدقات دے حدیث مـیں فرمایـا ایسے کا صدقہ قبول نہ ہوگا اور اللہ تعالی ٰ روزقیـامت اس کی طرف نظرنہ فرمائے گا ۔

(۲؎مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ علی الاقارب دارلکتاب بیروت ۳ /۱۱۷)

انااقول وباللہ التوفیق : آدمـی کے پاس جو مال زائد بچا اور اُس نے ایک فضو ل کام مـیں اُٹھا دیـا جیسے بے مصلحت شرعی مکان کی زینت وآرائش مـیں مبالغہ، اس سے اُسے تو کوئی نفع ہوا نہیں اور اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو دیتا تو اُن کو کیسا نفع پہنچتا تو اس حرکت سے ظاہر ہوا کہ اس نے اپنی بے معنی خواہش کو اُن کی حاجت پر مقدم رکھا اور یہ خلافِ مروت ہے۔

(۴) طاعتِ الٰہی کے غیر مـیں اٹھانا۔ قاموس مـیں ہے : الاسراف التبذیر اوما انفق فی غیر طاعۃ ۱؎ اھ

اسراف تبذیریـا وہ جو غیر طاعت مـیں خرچ ہو ۔ (ت)

( ۱؎القاموس المحیط باب الفاء فصل السین تحت السرف مصطفی البابی مصر ۳ /۱۵۶)

ردالمحتار مـیں اسی کی نقل پر اقتصار فرمایـا۔

اقول  : ظاہرف ہے کہ مباحات نہ طاعت ہیں نہ اُن مـیں خرچ اسراف مگر یہ کہ غیر طاعت سے خلاف طاعت مراد لیں تو مثل تفسیر دوم ہوگی اور اب علّامہ شامـی کا یہ فرمانا کہ: لایلزم من کونہ غیر طاعۃ ان یکون حراما نعم اذا اعتقد سنیتہ (ای سنیۃ الزیـادۃ علی الثلث فی الوضوء) یکون منھیـا عنہ ویکون ترکہ سنۃ مؤکدۃ ۲؎۔

اس کے غیر طاعت ہونے سے حرام ہونا لازم نہیں آتا، ہاں( وضوء مـیں تین بار سے زیـادہ دھونے کے) مسنون ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو تو وہ منہی عنہ ہے اور اس کا ترک سنّتِ مؤکدہ ہوگا۔( ت)

ف: معروضۃ علی العلامۃ ش والقاموس المحیط۔

(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مکروہات الوضو     داراحیـاء التراث العربی ۱ /۹۰)

(۵) حاجتِ شرعیہ سے زیـادہ استعمال کرنا کما تقدم فی صدر البحث عن الحلیۃ والبحروتبعھما العلامۃ الشامـی ( جیسا کہ اس مبحث کے شروع مـیں حلیہ وبحر کے حوالے بیـان ہوااور علامہ علامہ شامـی نے ان دونوں کا اتبا ع کیـا ۔ ت)

اقول اولا  : مراتب ف۱ خمسہ کہ ہم اوپر بیـان کر آئے اُن مـیں حاجت کے بعد منفعت پھر زینت ہے اور شک نہیں کہ ان مـیں خرچ بھی اسراف نہیں جب تک حدِ اعتدال سے متجاوز نہ ہو، قال اللہ تعالٰی قل من حرم زینۃ اللّٰہ التی اخرج لعبادہ والطیبٰت من الرزق ۱؎ اے نبی! تم فرمادو کہ اللہ کی وہ زینت جو اُس نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کی اور پاکیزہ رزق نے حرام کئے ہیں۔(ت) مگر یہ تاویل کریں کہ حاجت سے ہر بکار آمد بات مراد ہے۔

ف۱: تطفل علی الحلیۃ والبحروش۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم۷ /۳۲)

ثانیـا : شرعیہ ف۲ کی قید بھی مانع جامعیت ہے کہ حاجت دنیویہ مـیں بھی زیـادہ اڑانا اسراف ہے مگر یہ کہ شرعیہ سے مراد مشروعہ لیں یعنی جو حاجت خلافِ شرع نہ ہو تو یہ اُس قول پر مبنی ہوجائے گا جس مـیں اسراف وتبذیر مـیں حاجت جائزہ وناجائز ہ سے فرق کیـا ہے۔ اگر کہیے ان علماء کا یہ کلام دربارہ  وضو ہے اُس مـیں تو جو زیـادت ہوگی حاجت شرعیہ دینیہ ہی سے زائد ہوگی۔

ف۲: تطفل اخر علیہم۔

اقول  : اب مطلقاً حکم ممانعت مسلم نہ ہوگا مثلاً مـیل چھڑانے یـا شدّت گرما مـیں ٹھنڈ کی نیت سے زیـادت کی تو اسراف نہیں کہہ سکتے کہ غرض صحیح جائز مـیں خرچ ہے۔ شاید اسی لئے علّامہ طحطاوی نے لفظ شرعیہ کم فرما کر اتنا ہی کہا الاسراف ھو الزیـادۃ علی قدر الحاجۃ ۲؎

(ضرورت سے زیـادہ خرچ اسراف ہے۔ ت)

(۲؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار    کتاب الطہارۃ     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ    ۱ /۷۶)

اقول: مگر یہ تعریف اگر مطلق اسراف کی ہو تو جامعیت مـیں ایک اور خلل ہوگا کہ قدر حاجت سے زیـادت کیلئے وجود حاجت درکار اور جہاں حاجت ہی نہ ہو اسراف اور زائد ہے ہاں حلیہ واتباع کی طرح خاص اسراف فی الوضوء کا بیـان ہوتو یہ خلل نہ ہوگا۔

(۶) غیر طاعت مـیں یـا بلا حاجت خرچ کرنا۔ نہایہ ابن اثیر ومجمع بحار الانوار مـیں ہے: الاسراف والتبذیر فی النفقۃ لغیر حاجۃ اوفی غیر طاعۃ اللّٰہ تعالٰی ۳؎۔

اسراف اور تبذیر: بغیر حاجت یـا غیرطاعت الہی مـیں خرچ کرنا ہے ۔ (ت)

(۳؎النہایۃ لابن اثیر فی غریب الحدیث واثر تحت الفظ'' سرف '' دار الکتب العلمـیہ بیروت ۲ /۳۲۵)
(مجمع بحار الانوارتحت الفظ سرف مکتبہ دار ایمان مدینۃ المنورۃ السعودیہ ۳ /۶۶ )

یہ تعریف گویـا چہارم وپنجم کی جامع ہے۔

اقول اولا فــ۱: طاعت مـیںوہی تاویل لازم جو چہارم مـیں گزری۔

فــ۱: تطفل علی ابن الاثیر والعلامۃ طاہر ۔

ثانیـا : حاجت فــ۲مـیں وہی تاویل ضرور جو پنجم مـیں مذکور ہوئی۔

فــ۲:تطفل آخر علیہما ۔

(۷) دینے مـیں حق کی حد سے کمـی یـا بیشی۔

تفسیر ابنِ جریر مـیں ہے: الاسراف فی کلام العرب الاخطاء باصابۃ الحق فی العطیۃ اما بتجاوزہ حدہ فی الزیـادۃ واما بتقصیر عن حدہ الواجب ۱؎۔

کلامِ عرب مـیں اسراف اسے کہتے ہیں کہ دینے مـیں حق کے حصول سے خطا کر جائے یـا تو حق کی حد سے آگے بڑھ جائے یـا اس کی واجبی حد سے پیچھے رہ جائے ۔(ت)

(۱؎ جامع البیـان (تفسیر ابن جریر )تحت الآیۃ ۶ /۱۴۱ دار احیـاء التراث العربی بیروت ۸ /۷۵)

اقول  : یہ عطا کے ساتھ خاص ہے اور اسراف کچھ لینے دینے ہی مـیں نہیں اپنے خرچ کرنے مـیں بھی ہے۔ حدیث مـیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فی الوضوء  اسراف وفی کل شیئ اسراف ۲؎ رواہ سعید بن منصور عن یحیی بن ابی عمر والسَّیبانی الثقۃ مرسلا

وضو مـیں بھی اسراف ہوتا ہے اور ہر کام مـیں اسراف کو دخل ہے اسے سعید بن منصور نے یحیٰی بن ابی عمرو سیبانی ثقہ سے مرسلاً روایت کیـا ہے ۔ (ت)

(۲؎ کنزا لعمال بحوالہ ص عن یحٰیی بن عمرو حدیث۲۶۲۴۸ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت۹ /۳۲۵ )

(۸) ذلیل غرض مـیں کثیر مال اُٹھادینا۔تعریفات السید مـیں ہے: الاسراف انفاق المال الکثیر فی الغرض الخسیس ۳؎ اھ قدمہ ھھنا واقتصر علیہ فی المسرف۔

اسراف گھٹیـا مقصد مـیں زیـادہ مال خرچ کردینا اھ بیـان اسرا ف مـیں اس  تعریف کو مقدم رکھا اور مُسِرف کی تعریف مـیں صرف اسی کو ذکر کیـا ۔ (ت)

(۳؎التعریفات للسیدالشریف انتشارات ناصر خسر وتہران ایران ص ۱۰)

اقول  : یہ بھی جامع فــ۴ نہیں بے غرض محض تھوڑا مال ضائع کردینا بھی اسراف ہے۔

فــ ۴: تطفل علی العلامۃ ا لسیدالشریف۔

(۹) حرام مـیں سے کچھ یـا حلال کو اعتدال سے زیـادہ کھانا حکاہ السید قیلا ۱؎

( تعریفات مـیں سید شریف نے اسے بطور قیل حکایت کیـا ۔(ت) اقول یہ کھانے فــ سے خاص ہے۔

(۱؎التعریفات للسیدالشریف انتشارات ناصر خسر وتہران ایران ص ۱۰)

ف: معروضۃ علی من نقل عنہ السید ۔

(۱۰) لائق وپسندیدہ بات مـیں قدر لائق سے زیـادہ اُٹھادینا ۔

تعریفات علّامہ شریف مـیں ہے: الاسراف صرف الشیئ فیما ینبغی زائداعلی  ماینبغی بخلاف التبذیر فانہ صرف الشیئ فیما لاینبغی ۲؎۔

اسراف: مناسب کام  مـیں حد مناسب سے زیـادہ خرچ کرنا ،بخلاف تبذیر کے کہ وہ نا مناسب امر مـیں خرچ کرنے کو کہتے ہیں ۔ (ت)

(۲؎التعریفات للسیدالشریف انتشارات ناصر خسر وتہران ایران ص ۱۰)

اقول  : ینبغی کا اطلاق کم از کم مستحب پر آتا ہے اور اسراف مباح خالص مـیں اُس سے بھی زیـادہ ہے

مگر یہ کہ جو کچھ لاینبغی نہیں سب کو ینبغی مان لیں کہ مباح کاموں کو بھی شامل ہوجائے ولیس ببعید (اور یہ بعید نہیں۔ ت) اور عبث محض اگرچہ بعض جگہ مباح بمعنی غیر ممنوع ہو مگر زیر لاینبغی داخل ہے تو اس مـیں جو کچھ اُٹھے گا اس تفسیر پر داخل تبذیر ہوگا۔

(۱۱) بے فائدہ خرچ کرنا۔ قاموس مـیں ہے: ذھب ماء الحوض سرفا فاض من نواحیہ ۳؎۔

حوض کا پانی اسکے کناروں سے بہ گیـا ۔ (ت)

(۳؎القاموس المحیط باب الفاء فصل السین مصطفی البابی مصر ۳/۱۵۶)

تاج العروس مـیں ہے: قال شمر سرف الماء ماذھب منہ فی غیر سقی ولا نفع یقال اروت البئر النخیل وذھب بقیۃ الماء سرفا۔۴؎

شمر نے کہا سَرف الماء کے معنی وہ پانی جوسینچائی یـای فائدہ کے بغیر جاتا رہاکہا جاتا ہے کنویں نے کھجوروں کو سیراب کر دیـا اور باقی پانی سرف (بے کار ) گیـا ۔(ت)

(۴؎ تاج العروس باب الفاء فصل السین داراحیـاء التراث العربی بیروت۶ /۱۳۸)

تفسیر کبیر وتفسیر نیشا پوری مـیں ہے: اعلم ان لاھل اللغۃ فی تفسیر الاسراف قولین الاول قال ابن الاعرابی السرف تجاوز ماحد لک الثانی قال شمر عـــــہ۱ سرف المال عـــــہ ۲ماذھب منہ فی غیر منفعۃ ۱؎۔

واضع ہو کہ اسراف کی تفسیر مـیں اہل لغت کے دوقول ہیں : اول ،ابن الاعرابی نے کہا سرف کام معنی مقررہ حد سے تجاوز شمر نے کہا سرف الما ل وہ جو بے فا ئدہ چلا جائے(ت)

عـــہ۱ وقع ھھنا فی نسخۃ النیسا بوری المطبوعۃ بمصر عمر بالعین وھو تحریف منہ۔ (م)

یہاں تفسیر نیشاپوری کے مصری مطبوعہ نسخہ مـیں شمر کے بجائے عین سے عمر چھپ گیـا ہے ،یہ تحریف ہے ۱۲ منہ (ت)

عــــہ۲ ھکذا ھو المال باللام فی کلا التفسیرین وقضیۃ التاج انہ الماء بالھمزۃ منہ۔ (م)
یہ دونوں تفسیروں مـیں اسی طرح "لام" سے مال لکھا ہوا ہے اور که تا ج العروس کا تقاضہ ہے کہ یہ ہمزہ سے ''ماء''ہو ۱۲منہ(ت)

( ۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر ) تحت الآیۃ ۶ /۱۴۱ دار الکتب العلمہ بیروت ۱۳ /۱۷۵،۱۷۶ )

اقول :  منفعت کے بعد بھی اگرچہ ایک مرتبہ زینت ہے مگر ایک معنی پر زینت بھی بے فائدہ نہیں۔ ہمارے کلام کا ناظر خیـال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات مـیں سب سے جامع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اُس عبداللہ کی تعریف ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم کی گٹھری فرماتے اور جو خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بعد تمام جہان سے علم مـیں زائد ہے اور ابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مورث علم ہے رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنہ وعنہم اجمعین۔ تبذیر ف کے باب مـیں علما ء کے دو قول ہیں:

ف :تبذیر و اسراف کی معنی مـیں فرق کی بحث ۔

 (۱) وہ اور اسراف دونوں کے معنی ناحق صرف کرنا ہیں۔

اقول : یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبداللہ بن مسعود وحضرت عبداللہ بن عباس وعامہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا ہے، قول  اول کی حدیث مـیں اس کی تصریح گزری اور وہی حدیث بطریق آخر ابن جریر نے یوں روایت کی: کما اصحاب محمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نتحدث ان التبذیر النفقۃ فی غیر حقہ ۲؎۔

ہم اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیـان کرتے تھے تبذیر غیر حق مـیں خرچ کرنے کا نا م ہے۔( ت)

 (۲؎جامع البیـان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷ /۲۶،۲۷ داراحیـاء التراث ا لعربی بیروت ۱۵ /۸۶)

سعید بن منصور سنن اور بخاری ادب مفرد اور ابن جریر وابن منذر تفاسیر اور بیہقی شعب الایمان مـیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: المبذر المنفق فی غیر حقہ ۔۱؎ (مبذر وہ جو غیرحق مـیں خرچ کرے ۔ت)

 (۱؎جامع البیـان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷/۲۶و۲۷ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱۵ /۸۶)
(الدر المنثور بحوالہ سعید بن منصور والبخاری فی الادب و ابن المنذر ولبیہقی شعب الایمان دار احیـاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۳۹)

ابن جریرکی ایک روایت اُن سے یہ ہے: لاتنفق فی الباطل فان المبذر ھو المسرف فی غیر حق وقال مجاھد لوانفق انسان مالہ کلہ فی الحق ماکان تبذیرا ولو انفق مدا فی الباطل کان تبذیرا ۲؎۔

باطل مـیں خرچ نہ کر کہ مُبذّر وہی ہے جو ناحق مـیں خرچ کرتا ہو۔مجاہد نے کہا:کہ اگر انسان اپنا سارا مال حق مـیں خرچ کردے توتبذیر نہیں اور اگر ایک مُد بھی باطل مـیں خرچ کردے توتبذیر ہے۔(ت)

(۲؎جامع البیـان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷ /۲۶و۲۷ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱۵ /۸۷)

نیز قتادہ سے راوی: التبذیر النفقۃ فی معصیۃ اللّٰہ تعالی وفی غیر الحق وفی الفساد۳؎۔

تبذیر:اللہ کی معصیت مـیں غیر حق مـیں اورفساد مـیں خرچ کرناہے۔ (ت)

(۳؎جامع البیـان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷/ ۲۶و۲۷ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱۵ /۸۷)

نہایہ ومختصر امام سیوطی مـیں ہے : المباذر والمبذر المسرف فی النفقۃ ۴؎۔

مباذر و مبذر:خرچ مـیں اسراف کرنے والا۔ (ت)

(۴؎ النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثرباب الباء مع الذال،تحت لفظ بذر دار الکتب العلمـیۃ بیروت ۱ /۱۱۰مختصر احیـاء العلوم)

نیز مختصر مـیں ہے: الاسراف التبذیر۵؎

(اسراف کا معنی تبذیر ہے۔ت)

(۵؎ مختصر احیـاء العلوم)

قاموس مـیں ہے: بذرہ تبذیرا خربہ و فرقہ اسرافا۱؎

بذرہ تبذیرا اسے خراب کیـا اور بطور اسراف بانٹ دیـا۔(ت)

( ۱؎ قاموس المحیط    باب الراء فصل الباء    مصطفی البابی مصر    ۱ /۳۸۳)

تعریفات السید مـیں ہے : التبذیر تفریق المال علی وجہ الاسراف ۲؎

تبذیر:بطور اسراف مال بانٹنا۔(ت)

(۲؎التعریفات للسیدالشریف انتشارات ناصر خسر وتہران ایران ص ۲۳)

اسی طرح مختار الصحاح مـیں اسراف کو تبذیر اور تبذیر کو اسراف سے تفسیر کیـا۔

(۲) اُن مـیں فرق ہے تبذیر خاص معاصی مـیں مال برباد کرنے کا نام ہے ابنِ جریر عبدالرحمن بن زید بن اسلم مولائے امـیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:

لاتبذر تبذیرا لا تعط فی المعاصی۳؎

''لاتبذر تبذیرا'' کا معنی''معاصی مـیں نہ دے''۔(ت)

(۳؎جامع البیـان (تفسیر ابن جریر ) تحت الایۃ ۱۷/ ۲۶و۲۷     داراحیـاء التراث العربی بیروت     ۱۵ /۸۷)

اقول اس تقدیر پر اسراف تبذیر سے عام ہوگا کہ ناحق صرف کرنا عبث مـیں صرف کو بھی شامل اور عبث مطلقاً گناہ نہیں تو از انجا کہ اسراف ناجائز ہے یہ صرف معصّیت ہوگا مگر جس مـیں صرف کیـا وہ خود معصیت نہ تھا اور عبارت ''لاتعط فی المعاصی''(اس کی نافرمانی مـیں مت دے۔ت) کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کام خود ہی معصیت ہو بالجملہ تبذیر کے مقصود وحکم دونوں معصیت ہیں اور اسراف کو صرف حکم مـیں معصیت لازم، وھذا ھو المشتھر الیوم و وقع فی التاج عن شیخہ عن ائمۃ الاشتقاق ان التبذیر یشمل الاسراف فی عرف اللغۃ اہ۴؎ ،وبہ صرح العلامۃ الشہاب فی عنایۃ القاضی ومفادہ ان التبذیر اعم ولم یفسراہ۔

اوراس وقت یہی مشہور ہے،اور تاج العروس مـیں اپنے شیخ کی روایت سے اشتقاق سے نقل کیـا ہے کہ لغت کے عرف مـیں تبذیر،اسراف کوشامل ہے اھ-اسکی صراحت علّامہ شہاب خفاجی نے عنایۃ القاضی مـیں کی ہے اور اس کا مفاد یہ ہے کہ تبذیر اعم ہے اور دونوں نے اس کی تفسیر نہ کی ہے۔(ت)

(۴؎تاج العروس    باب الراء،فصل الباء    داراحیـاء التراث العربی بیروت    ۳ /۳۶)

بعض نے یوں فرق کیـا کہ مقدار مـیں حد سے تجاوز اسراف ہے اور بے موقع بات مـیں صرف کرنا تبذیر، دونوں بُرے ہیں اور تبذیر بدتر۔ قال الخفاجی وفرق بینھما علی مانقل فی الکشف بان الاسراف تجاوز فی الکمـیۃ وھو جہل بمقادیر الحقوق والتبذیر تجاوز فی موقع الحق وھو جہل بالکیفیۃ وبمواقعھا وکلاھما مذموم والثانی ادخل فی الذم ۱؎۔

خفاجی نے فرمایـا:جیساکشف مـیں نقل کیـا ہے ان دونوں مـیں یہ فرق کیـا گیـاہے کہ اسراف مقدار مـیں حد سے آگے بڑھنا اور یہ حقوق کی قدروں سے نا آشنائی ہے - اور تبذیر حق کی جگہ سے تجاوز کرنا اور یہ کیفیت ہے اور اس کے مقامات سے نا آشنائی ہے،اور دونوں ہی مذموم ہیں اورثانی زیـادہ براہے۔(ت)

( ۱؎ عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی    تحت الآیۃ ۲۷ /۲۶    دار الکتب العلمـیۃبیروت    ۶ /۴۲)

اس تقدیر پر دونوں متباین ہوں گے۔

اقول : اگرچہ مقدار سے زیـادہ صرف بھی بے موقع بات مـیں صرف ہے کہ وہ مصرف اس زیـادت کا موقع ومحل نہ تھا ورنہ اسراف ہی نہ ہوتا مگر بے موقع سے مراد یہ ہے کہ سرے سے وہ محل اصلا مصرف نہ ہو۔

بالجملہ احاطہ کلمات فــ سے روشن ہوا کہ وہ قطب جن پر ممانعت کے افلاک دورہ کرتے ہیں دو ہیں ایک مقصدمعصیت  دوسرا بیکار اضاعت اور حکم دونوں کا منع وکراہت۔

فـــ:مسئلہ اسراف کہ ناجائز و گناہ ہے صرف دو صورتوں مـیں ایسا ہوتا ہے ایک یہ کہی گناہ مـیں صرف و استعمال کریں دوسرے بیکار محض مال ضائع کریں۔

اقول  : معصیت تو خود معصیت ہی ہے ولہٰذا اُس مـیں منع مال ضائع کرنے پر موقوف نہیں اور غیر معصیت مـیں جبکہ وہ فعل فی نفسہٖ گناہ نہیں لاجرم ممانعت مـیں اضاعت ملحوظ ولہٰذا عام تفسیرات مـیں لفظ انفاق ماخوذ کہ مفید خرچ واستہلاک ہے کہ اہم بالافادہ یہی ہے معاصی مـیں صرف معصیت ہونا تو بدیہی ہے زید نے سونے چاندی کے کڑے اپنے ہاتھوں مـیں ڈالے یہ اسراف ہوا کہ فعل خود گناہ ہے اگرچہ تھوڑی دیر پہننے سے کڑے خرچ نہ ہوجائیں گے اور بلا وجہ محض اپنی جیب مـیں ڈالے پھرتا ہے تو اسراف نہیں کہ نہ فعل گناہ ہے نہ مال ضائع ہوا اور اگر دریـا مـیں پھینک دیے تو اسراف ہوا کہ مال کی اضاعت ہوئی اور اضاعت کی ممانعت پر حدیث صحیح ناطق صحیح بخاری وصحیح مسلم مـیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان اللّٰہ تعالی کرہ لکم قیل وقال وکثرۃ السؤال واضاعۃ المال ۱؎۔

بے شک اللہ تعالٰی تمہارے لئے مکروہ رکھتا ہے فضول بک بک اور سوال کی کثرت اور مال کی اضاعت۔

(۱؎ صحیح البخاری کتاب فی الاستقراض الخ باب ما ینہی عن اضاعت المال قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۲۴)
(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نہی عن کثر ۃ المسائل الخ قدیمـی کتب خا نہ کراچی ۲ /۷۵ )

یہ تحقیق معنی اسراف ہے جسے محفوط وملحوظ رکھناچاہئے کہ آئندہ انکشاف احکام اسی پر موقوف وباللہ التوفیق۔

فائدہ ـ: فــ یہاں سے ظاہر ہوا کہ وضو وغسل مـیں تین بار سے زیـادہ پانی ڈالنا جبکہی غرض صحیح سے ہو ہرگز اسراف نہیں کہ جائز غرض مـیں خرچ کرنا نہ خود معصیت ہے نہ بیکار اضاعت۔ اس کی بہت مثالیں اُن پانیوں مـیں ملیںجن کو ہم نے آب وضوء  سے مستثنٰی بتایـا نیز تبرید وتنظیف کی دو مثالیں ابھی گزریں اور ان کے سوا علماء کرام نے دو صورتیں اور ارشاد فرمائی ہیں جن مـیں غرض صحیح ہونے کے سبب اسراف نہ ہوا:
 (۱) یہ کہ وضو علی الوضوء  کی نیت کرے کہ نور علٰی نور ہے۔
(۲) اگر وضو کرتے مـیںی عضو کی تثلیث مـیں شک واقع ہو تو کم پر بنا کرکے تثلیث کامل کرلے مثلاً شک ہوا کہ منہ یـا ہاتھ یـا پاؤں شاید دو ہی بار دھویـا تو ایک بار اور دھولے اگرچہ واقع مـیں یہ چوتھی بار ہو اور ایک بار کا خیـال ہوا تو دوبار، اور یہ شک پڑا کہ دھویـا ہی نہیں تو تین بار دھوئے اگرچہ واقع کے لحاظ سے چھ بار ہوجائے یہ اسراف نہیں کہ اطمـینانِ قلب حاصل کرنا غرض صحیح ہے۔

فــ:مسئلہ ان صحیح غرضوں کا بیـان جن کے لئے وضو و غسل مـیں تین تین با ر سے زیـادہ اعضاء کا دھونا داخل اسرف نہیں بلکہ جائز وروا یـا محمود و مستحسن ہے ۔

ہم امر چہارم مـیں ارشاد اقدس حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم بیـان کر آئے کہ: دع ما یریبک الی مالا یریبک ۲؎ شک کی بات چھوڑ کروہ کر جس مـیں شک نہ رہے۔

(۲؎ صحیح البخاری کتاب البیوع باب تفسیر المشتبہات     قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۷۵)

کافی امام حافظ الدین نسفی مـیں ہے  : ھذا (ای وعید الحدیث من زاد علی ھذا اونقص فقد تعدی وظلم) اذا زادہ معتقدا ان السنۃ ھذا فاما لو زاد لطمانیۃ القلب عند الشک اونیۃ وضوء  اخر فلا باس بہ لانہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم امر بترک مایریبہ الی مالا یریبہ ۱؎۔

حدیث پاک '' جس نے اس سے زیـادتی یـا کمـی کی وہ حد سے بڑھا اور ظلم کیـا '' کی وعید اس صورت مـیں ہے کہ جب یہ اعتقاد رکھتے ہوئے زیـادہ کرے کہ زیـادہ کرناہی سنت ہے لیکن شک کے وقت اطمـینان قلب کے لئے زیـادہ کرے یـادوسرے وضو کی نیت ہو تو کوئی حرج نہیں ا س لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم دیـا ہے کہ شک کی حالت چھوڑ کر وہ صورت اختیـار کرے جس مـیں شک نہ رہے ۔(ت)

(۱؎الکافی شرح الوافی)

فتح القدیر مـیں قولِ ہدایہ : الوعید لعدم رویتہ سنۃ (وعید اس لئے ہے کہ وہ سنت نہیں سمجھتا ہے۔ ت) کے تحت مـیں ہے: فلو راٰہ و زاد لقصد الوضوء  علی الوضوء  اولطمانیۃ القلب عند الشک اونقص لحاجۃ لاباس بہ ۲؎۔

تو اگر تثلیث کو سنت مانا اور وضو پر وضو کے ارادے یـا شک کے وقت اطمـینان قلب کے لئے زیـادہ کیـا یـاکسی حاجت کی وجہ سے کمـی کی تو کوئی حرج نہیں(ت)

(۲؎ فتح القدیر        کتا ب الطہارت    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۷)

عنایہ مـیں ہے : اذا زاد لطمانیۃ القلب عند الشک اوبنیۃ وضوء  اخر فلا باس بہ فان الوضوء علی الوضوء نور علی نور وقد امر بترک مایریبہ الی مالا یریبہ ۳؎۔

شک کے وقت اطمـینان قلب کے لئے یـا دوسرے وضو کی نیت سے زیـادہ کیـا تو حرج نہیں اس لئے کہ وضو پر وضو نور علٰی نور ہے اور اسے حکم ہے کہ شک کی صورت چھوڑ کر وہ راہ اختیـار کرے جس مـیں اسے شک نہ ہو (ت)

(۳؎ عنایہ مع الفتح القدیر علی الہدایۃ    کتاب الطہارت    نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۷)

حلیہ مـیں ہے : الوعید علی الاعتقاد المذکور دون نفس الفعل وعلی ھذا مشی فی الھدایۃ ومحیط رضی الدین والبدائع ونص فی البدائع انہ الصحیح لان من لم یرسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فقد ابتدع فلیحقہ الوعید وان کانت الزیـادۃ علی الثلاث لقصد الوضو علی الوضوء اولطمانینۃ القلب عند الشک فلا یلحقہ الوعید وھو ظاھر وھل لو زاد علی الثلث من غیر قصد لشیئ مما ذکر یکرہ الظاھر نعم لانہ اسراف ۱؎۔

وعید اعتقاد مذکور پر ہے خود فعل پر نہیں ۔ اسی کو ہدایہ، محیط رضی الدین اور بدائع مـیں بھی اختیـار کیـا ہے ، اور بدائع مـیں صراحت کی ہے کہ یہی صحیح ہے اس لئے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سنت کو نہ مانے وہ بد مذہب ہے اسے وعیدلاحق ہوگی۔اگر تین پراضافہ وضو علی وضو کے ارادے سے ہے یـا شک کے وقت اطمـینان قلب کے لئے تو اسے وعید لاحق نہ ہوگی اوریہ ظاہرہے۔سوال یہ ہے کہ اگرمذکورہ با توں مـیں سےی کا قصد ہوئے بغیراس نے تین بار سے زیـادہ دھویـا مکروہ ہے یـانہیں ،ظاہریہ ہے کہ مکروہ ہے کیونکہ یہ اسراف ہے ۔( ت)

( ۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

اسی طرح نہایہ ومعراج الہدایہ ومبسوط وسراج وہاج وبرجندی ودرمختار وعالمگیری وغیرہا کتب کثیرہ مـیں ہے مگر بعض متاخرین شراح کو ان صورتوں مـیں کلام واقع ہوا:

صُورتِ اولٰی مـیں تین وجہ سے :

وجہ اول  :

وضو عبادت ف مقصودہ نہیں بلکہ نماز وغیرہ کیلئے وسیلہ ہے ہمارے علماء کا اس پر اتفاق ہے تو جب تک اُس سے کوئی فعل مقصود مثل نماز یـا سجدہ تلاوت یـا مس مصحف واقع نہ ہولے اُس کی تجدید مشروع نہ ہونی چاہئے کہ اسراف محض ہوگی۔ یہ اعتراض محقق ابراہیم حلبی کا ہے۔

فــ:مسئلہ بعض نے فرمایـا کہ وضو پر وضو اسی وقت مستحب ہے کہ پہلے سے وضو کوئی نمازیـا سجدہ تلاوت وغیرہ کوئی فعل جس کے لئے با وضو ہونے کا حکم ہے ادا کر چکا ہوبغیر اس کے تجدید وضو مکروہ ہے ۔ بعض نے فرمایـا کہ ایک بار تجدید تو بغیر اس کے بھی مستحب ہے،ایک سے زیـادہ بے اسکے مکروہ ہے اور مصنف کی تحقیق کہ ہمارے ائمہ کا کلام اور نیز احادیث خیر الانام علیہ افضل الصلوۃ السلام مطلقا تجدید وضو کو مستحب فرماتی ہیں اوران قیدوں کا کوئی ثبوت ظاہر نہیں ۔

خلاصہ مـیں اعضائے وضو چار بار دھونے کی کراہت مـیں دو قول نقل کرکے فرمایـا تھا: ھذا اذالم یفرغ من الوضوء فان فرغ ثم استأنف الوضوء لایکرہ بالاتفاق ۱؎۔

یہ اس صورت مـیں ہے کہ ابھی وضو سے فارغ نہ ہواہو اگرفارغ ہوگیـا پھرازسر نو وضو کیـا تو بالاتفاق مکروہ نہیں ۔( ت )

 (۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارۃ     سنن الوضوء مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۲)

اسی طرح تاتارخانیہ مـیں امام ناطفی سے ہے کما فی ش اس سے ثابت کہ ایک وضو سے فارغ ہو کر معاً بہ نیت وضو علی الوضو شروع کردینا ہمارے یہاں بالاتفاق جائز ہے اوری کے نزدیک مکروہ نہیں۔ اس پرعلامہ حلبی نے وہ اشکال قائم کیـا اور علامہ علی قاری نے مرقات باب السنن الوضوء فصل ثانی مـیں زیر حدیث فمن زاد علی ھذا فقد  اساء وتعدی ۲؎ (جس نے اس پر زیـادتی کی اس نے برا کیـا اور حد سے آگے بڑھا۔ت) اُن کی تبعیت کی۔

 (۲؎مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب سنن الوضو تحت الحدیث۴۱۷ مکتبہ اسلامـیہ کوئٹہ ۲ /۱۲۴)

اقول اولا فــــ۱ : جب ائمہ ثقات نے ہمارے علماء کا اتفاق نقل کیـا اور دوسری جگہ سے خلاف ثابت نہیں تو بحث کی کیـا گنجائش۔

فــ۱ تطفل علی الغنیۃ وعلی القاری ۔

ثانیـا فــ ۲: عبادت غیر مقصودہ بالذات ہونے پر اتفاق سے یہ لازم نہیں کہ وہ وسیلہ ہی ہو کر جائز ہو بلکہ فی نفسہ بھی ایک نوع مقصودیت سے حظ رکھتا ہے ولہٰذا اجماع ہے کہ ہر وقت باوضو رہنا فــ۳ ہر حدث کے بعد معاً وضوء کرنا مستحب ہے۔

فـــ۲ :تطفل اٰخر علیہما۔
فــ۳ مسئلہ ہروقت با وضو رہنا مستحب ہے اور اس کے فضائل۔

فتاوٰی قاضی خان وخزانۃ المفتین وفتاوٰی ہندیہ وغیرہا مـیں وضوئے مستحب کے شمار مـیں ہے: ومنھا المحافظۃ علی الوضوء وتفسیرہ ان یتوضأ کلما احدث لیکون علی الوضوء فی الاوقات کلھا ۳؎۔

اسی مـیں سے وضو کی محافظت یہ ہے کہ جب بے وضو ہو وضو کر لے تاکہ ہمہ وقت با وضورہے وضو کی محافظت اسلام کی سنت ہے۔(ت)

 (۳؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الباب الاول الفصل الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۹)

بلکہ امام رکن الاسلام محمد بن ابی بکر نے شرعۃ الاسلام مـیں اُسے اسلام کی سُنّتوں سے بتایـا فرماتے ہیں: المحافظۃ علی الوضوء سنۃ الاسلام ۱؎

(ہمـیشہ باوضو رہنا اسلام کی سنّت ہے۔ ت)

 ( ۱؎ شرعۃ الاسلام مع شرح مفاتیح الجنان فصل فی تفضیل سنن الطہارۃمکتبہ اسلامـیہ کوئٹہ ص۸۲)

اُس کی شرح مفاتیح الجنان ومصابیح الجنان مـیں بستان العارفین امام فقیہ ابو اللیث سے ہے : بلغنا ان اللّٰہ تعالٰی قال لموسٰی علیہ الصلاۃ والسلام یـا موسٰی اذا اصابتک مصیبۃ وانت علی غیر وضوء فلا تلو من الانفسک ۲؎۔

یعنی ہم کو حدیث پہنچی کہ اللہ عزّوجل نے موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایـا اے موسٰی! اگر بے وضو ہونے کی حالت مـیں تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو خود اپنے آپ کو ملامت کرنا۔

( ۲؎ مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام فصل فی تفضیل سنن الطہارۃمکتبہ اسلامـیہ کوئٹہ ص۸۲)

اُسی مـیں کتاب خا لصۃ الحقائق ابو القاسم محمود بن احمد فارابی سے ہے: قال بعض اھل المعرفۃ من داوم علی الوضوء اکرمہ اللّٰہ تعالی بسبع خصال ۳؎ الخ

یعنی بعض عارفین نے فرمایـا جو ہمـیشہ باوضو رہے اللہ تعالٰی اُسے سات۷ فضیلتوں سے مشرف فرمائے:

(۳؎ مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام فصل فی تفضیل سنن الطہارۃمکتبہ اسلامـیہ کوئٹہ ص۸۲)

(۱) ملائکہ اس کی صحبت مـیں رغبت کریں۔
(۲) قلم اُس کی نیکیـاں لکھتا رہے۔
(۳) اُس کے اعضاء تسبیح کریں۔
(۴) اُسے تکبیر اولٰی فوت نہ ہو۔
(۵) جب سوئے اللہ تعالٰی کچھ فرشتے بھیجے کہ جن وانس کے شر سے اُس کی حفاظت کریں۔
(۶)  سکرات موت اس پر آسان ہو۔
(۷) جب تک باوضو ہو امانِ الٰہی مـیں رہے۔

اُسی مـیں بحوالہ مقدمہ غزنویہ وخالصۃ الحقائق انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے : من احدث ولم یتوضأ فقد جفانی ۴؎

جسے حدث ہو اور وضو نہ کرے اس نے مـیرا کمالِ ادب جیسا چاہئے ملحوظ نہ رکھا۔

(۴؎ مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام فصل فی تفضیل سنن الطہارۃمکتبہ اسلامـیہ کوئٹہ ص۹۴)

اقول  : مگر ظاہراً یہ حدیث بے اصل ہے،تشہد بہ قریحۃ من نظرہ فیہ بتمامہ وایضا لوصح لوجبت استدامۃ الوضوء ولا قائل بہ واللّٰہ تعالٰی اعلم جوپوری حدیث مـیں غور کرے تواسکی طبیعت اس کی شہادت دےاور اگر یہ درست ہوتی تو ہمـیشہ با وضو رہنا واجب ہوتا اور کوئی اس کا قائل نہیں ۔ واللہ تعالی اعلم (ت )

ثالثا : وہ تنظیف فــ۱ ہے اور دین کی بنا نظافت پر ہے اور شک نہیں کہ تجدید موجب تنظیف مزید، ولہٰذا فــ ۲جمعہ وعیدین وعرفہ عــــہ واحرام ووقوف عرفات ووقوف مزدلفہ حاضری حرم وحاضری سرکار اعظم و منٰی ورمـی جمار ہرسہ روزہ شب برات وشب قدر وشب عرفہ وحاضری مجلس مـیلاد مبارک وغیرہا کے غسل مستحب ہوئے،

 فــ۱:تطفل ثالث علیہما۔
فــ۲:مسئلہ ان بعض اوقات و مواقع کا ذکر جن کے لیے غسل مستحب ہے ۔
عـــہ قال فی الدر  و فی جبل عرفۃ ۱؎ قال ش'' اقحم لفظ جبل اشارۃ الی ان الغسل للوقوف نفسہ لالد خول عرفات ولا للیوم وما فی البدائع من انہ یجوز ان یکون علی الاختلاف ای للوقوف اوللیوم کما فی الجمعۃ ردہ فی الحلیۃ بان الظاھر انہ للوقوف قال وما اظن ان احد اذھب الی استنانہ لیوم عرفۃ بلا حضور عرفات اھ
عــــہ درون مختار مـیں ہے مـیں''جبلِ عرفات پرغسل '' شامـی مـیں ہے لفظ جبل اس بات کی جانب اشارہ کے لئے بڑھا دیـا کہ غسل خود وقوف کی وجہ سے ہے عرفات مـیں داخل ہونے یـا روز عرفہ کی وجہ سے نہیں اور بدائع مـیں جو ہے کہ ''ہوسکتا ہے کہ اس مـیں اختلاف ہوکہ غسل وقوف کی وجہ سے ہے یـا اس دن کی وجہ سے ہے جیسے جمعہ مـیں اختلاف ہے ''حلیہ مـیں اسکی تردید یوں کی ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ غسل وقوف کی وجہ سے ہے۔ اور مـیں یہ نہیں سمجھتا کہی کا یہ مذہب ہو کہ عر فات کی حاضری کے بغیر روزعرفہ کا غسل مسنون ہے ۔اھ

( ۱؎ ا لدر المختار     کتاب الطہارۃ     مکتبہ مجتبائی دہلی     ۱ /۳۲)

واقر ہ فی البحر والنہر لکن قال المقد سی فی شرح نظم الکنز لا یستبعد سنیتہ للیوم لفضیلتہ حتی لوحلف بطلاق امرأتہ فی افضل الایـام العام تطلق یوم العرفۃ ذکرہ ابن ملک فی شرح الشارق اھ ۲؎

اوراسے بحر ونہر مـیں برقراررکھا لیکن مقدسی نے شرح نظم کنز مـیں لکھا کہ:''دن کے باعث اس غسل کا مسنون ہونا بعید نہیں کیونکہ یہ دن فضیلت رکھتا ہے یہا ں تک کہ اگر یہ کہا کہ مـیری عور ت کو سال کے سب سے افضل دن مـیں طلاق تو روز عرفہ اسپرطلاق واقع ہوگی اسے ابن ملک نے شرح مشارق مـیں ذکر کیـا اھ

( ۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیـاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۱۴)

اقول : ھذاصاحب ف الدر ناصا علی استنانہ ای استحبابہ لیلۃ عرفۃ وقدعد ھافی التاتارخانیہ والقہستانی فالیوم احق فلذا افردت عرفۃ من الوقوف وکذا من رمـی الجمار تبعاللتنویر شرح الغزنویۃ کما نقل عنہ ش واللہ تعالٰی اعلم اھ۱۲  منہ

اقول یہ خود صاحب درمختارہیں جنہوں نے عرفہ کی شب غسل مسنون یعنی مستحب ہونے کی صراحت فرمائی اور تاتار خانیہ وقہستانی نے بھی اسے شمار کیـا اسی طرح منٰی کو رمـی جمار سے الگ کیـا تنویر اور شرح غزنویہ کی تبعیت مـیں جیسا کہ اس سے علامہ شامـی نے نقل کیـا ہے واللہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ (ت)

فــ: تطفل علی الدر۔

درمختار مـیں قول ماتن  : سن لصلاۃ جمعۃ وعید الخ ماتن نے کہا جمعہ وعیدین کیلئے سنّت ہے الخ۔ (ت) کے بعد ہے وکذا ال المدینۃ ولحضور مجمع الناس الخ ۱؎ اسی طرح مدینہ مـیں داخل ہونے والے اور لوگوں کے مجمع مـیں حاضر ہونے کیلئے سنت ہے الخ۔( ت)

( ۱؎ ا لدر المختار     کتاب الطہارۃ     مکتبہ مجتبائی دہلی         ۱ /۳۲)

ان سب مـیں نماز کیلئے وسیلہ ہونا کہاں کہ جنابت نہیں۔

رابعا فـــ ۱: صرف وسیلہ ہی ہوکر مشروع ہوتا تو ایک بار کوئی فعل مقصود کرلینے کے بعد بھی تجدید مکروہ ہی رہتی کہ پہلا وضو جب تک باقی ہے وسیلہ باقی ہے تو دوبارہ کرنا تحصیل حاصل وبیکار واسراف ہے۔

فــ۱ تطفل رابعۃ علی الغنیۃ والقاری ۔

خامسا  : بلکہ ف۲ چاہئے تھا کہ شرع مطہر وضو مـیں تثلیث بھی مسنون نہ فرماتی کہ وسیلہ تو ایک بار دھونے سے حاصل ہوگیـا اب دوبارہ سہ بارہ لئے۔

ف۲: تطفل خامس علیہما ۔

سادسا  : رزین فــ ۳نے عبداللہ فــ ۴ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم توضا مرتین مرتین وقال ھو نور علٰی نور ۲؎۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو مـیں اعضائے کریمہ دو دوبار دھوئے اور فرمایـا یہ نور پر نور ہے۔

(۲؎ مشکوٰۃ المصابیح     باب سنن الوضوء     الفصل الثالث     قدیمـی کتب خانہ کراچی ص۴۷)

فــ ۳: تطفل سادس علیہما۔
فــ ۴: وضو پر وضو کے مسائل ۔

ایک ہی بار کے دھونے مـیں نور حاصل تھا پھر دوبارہ اور سہ بارہ نور پر نور لینا فضول نہ ہوا تو اس پر اور زیـادت کیوں فضول ہوگی حالانکہ اُنہی رزین کی حدیث مـیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

الوضوء علی الوضوء نور علٰی نور ۳؎ وضو پر وضو نور پر نور ہے۔ (ت)

(۳؎ کشف الخفاء     حدیث۲۸۹۷     دار الکتب العلمـیہ بیروت     ۲ /۳۰۳)

سابعا: ابو داؤد وترمذی وابن ماجہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من توضا علی طھر کتب لہ عشر حسنات ۱؎۔

جو باوضو وضو کرے اس کیلئے دس نیکیـاں لکھی جائیں ۔

(۱؎سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ با ب الرجل یجددا لوضومن غیر حدیث آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۹)
(سنن التررمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضو لکل الصلوٰۃ حدیث ۵۹ دار الفکر بیروت۱ /۱۲۲و۱۲۳ )
(سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب الوضو علی الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۹ )

مناوی نے تیسیر مـیں کہا: ای عشر وضوء ات ۲؎

یعنی دس بار وضو کرنے کا ثواب لکھا جائے۔

( ۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث من توضأ علی طہر مکتبۃ الامام الشافعی ریـاض ۲ /۴۱۱ )

ظاہر ہے کہ حدیثوں مـیں فصل نماز وغیرہ کی قید نہیں تو مشایخ کرام کا اتفاق اور حدیث کریم کا اطلاق دونوں متوافق ہیں اسی بنا پر سیدی عارف باللہ علّامہ عبدالغنی نابلسی رحمہ اللہ تعالٰی نے یہاں محقق حلبی کا خلاف فرمایـا،ردالمحتار مـیں ہے :

لکن ذکر سیدی عبدالغنی النابلسی ان المفہوم من اطلاق الحدیث مشروعیتہ ولو بلا فصل بصلاۃ اومجلس اخرو لااسراف فیما ھو مشروع اما لوکررہ ثالثا او رابعا فیشترط لمشروعیتہ الفصل بما ذکروا لاکان اسرافا محضا اھ فتامل ۳؎اھ۔

سیدی عبدالغنی النابلسی نے فرمایـا کہ حدیث کے اطلاق کا مفہوم تو یہ ہے کہ یہ مشروع ہے خواہ اس کے درمـیانی نماز یـای مجلس سے فصل نہ ہواور جو چیز مشروع ہو اس مـیں اسراف نہیں ہوتا، لیکن اگر تیسری چوتھی مرتبہ کیـا تو اُس کی مشروعیت کیلئے اُن چیزوں سے فصل ضروری ہے جن کا ذکر کیـا گیـا ہے ور نہ تو محض اسراف ہوگا اھ تو که تا مل کرو اھ۔ (ت)

( ۳؎ ردا لمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیـاء التراث العربی بیروت         ۱ /۸۱)

اقول : لکن فــ اطلاق الحدیثین یشمل الثالث والرابع ایضا وایضا اذالم یکن اسرافا فی الثانی لم یکن فی الثالث والرابع وکان المولی النابلسی قدس سرہ القدسی نظر الی لفظ الوضوء علی الوضوء فھما وضواٰن فحسب وکذلک من توضأ علی طھر۔

اقول : لیکن دونوں حدیثوں کا اطلاق تو تیسری اور چوتھی بار کو بھی شامل ہے اور یہ بھی ہے کہ جب دوسری بار مـیں اسراف نہ ہوا تو تیسری چوتھی بار مـیں بھی نہ ہوگا ، شاید علامہ نابلسی قدس سرہ کی نظر لفظ وضو علی الوضوء پر ہے کہ یہ صرف دو وضو ہوتے ہیں اور یہی حال اس کا ہے جس نے وضو ہوتے ہوئے وضو کیـا ۔

ف :تطفل علی المولی النابلسی ۔

اقول : ووھنہ لایخفی فقولہ تعالی وھنا علی وھن ۱؎ لایدل ان ھناک وھنین فقط وکان الشامـی الی ھذا اشار بقولہ تأمل وسیـاتی ماخذ کلام العارف مع الکلام علیہ قریبا ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔

اقول اس خیـال کی کمزوری مخفی نہیں،دیکھیے ارشاد باری تعالٰی وھن علی وھن (کمزوری پر کمزوری ) یہ نہیں بتاتا کہ وہاں صرف دو ہی کمزوریـاں ہیں شاید شامـی نے لفظ '' تأمل '' سے اسی کی طرف اشارہ کیـا ہے تأمل کرو اور علامہ شامـی نے سیدی العارف کے کلام کا جو حصہ ذکر نہیں کیـا وہ آ گے ان شاء اللہ تعالٰی اس پر کلام کے ساتھ جلدی آئے گا۔ (ت)

        (۱ ؎القرآن الکریم     ۳۱ /۱۴)

اقول : اس خیـال کی کمزوری مخفی نہیں،دیکھیے ارشاد باری تعالٰی وھن علی وھن (کمزوری پر کمزوری ) یہ نہیں بتاتا کہ وہاں صرف دو ہی کمزوریـاں ہیں شاید شامـی نے لفظ '' تأمل '' سے اسی کی طرف اشارہ کیـا ہے تأمل کرو اور علامہ شامـی نے سیدی العارف کے کلام کا جو حصہ ذکر نہیں کیـا وہ آ گے ان شاء اللہ تعالٰی اس پر کلام کے ساتھ جلدی آئے گا۔ (ت)

        (۱ ؎القرآن الکریم     ۳۱ /۱۴)

ثامنا اقول فــ۱  : حل یہ ہے کہ جو وضو فرض ہے وہ وسیلہ ہے کہ شرط صحت یـا جواز ہے اور شروط وسائل ہوتے ہیں مگر جو وضو مستحب فــ ۲ ہے وہ صرف ترتبِ ثواب کیلئے مقرر فرمایـا جاتا ہے تو قصد ذاتی سے خالی نہیں اگرچہ اُس سے عمل مستحب فیہ مـیں حُسن بڑھے کہ مستحب فــ ۳ کی یہی شان ہے کہ وہ اکمال سنن کیلئے ہوتا ہے اور سنن اکمال واجب اور واجب اکمال فرض۔

فــ ! تطفل سابعا علی الغنیۃ والقاری ۔
فــ ۲:مصنف کی تحقیق کہ جو وضو یـا غسل مستحب ہے وہ وسیلہ محضہ نہیں خود بھی مخصوص ہے ۔
فــ ۳: مستحب سنت کی تکمـیل ہے سنت واجب کی واجب فرض کی فرض ایمان کی ۔

اقول  : اور فرض اکمال ایمان کیلئے اس سے اُن کا غیر مقصود ہونا لازم نہیں آتا۔ خلاصہ وبزازیہ وخزانۃ المفتین مـیں ہے:الواجبات اکمال الفرائض والسنن اکمال الواجبات والاداب اکمال السنن ۱؎۔

واجبات فرائض کا تکملہ ہیں اور سنتیں واجبات کا تکملہ اورآداب سنتوں کا تکملہ ۔ (ت)

 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الصلوٰۃ     الفصل الثانی واجبات الصلوٰۃ عشرۃ     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۵۱)
(خزانۃ المفتین     فرائض الصلوٰۃ وواجباتہا     قلمـی (فوٹو )    ۱ /۲۶)

درمختار باب ادر اک الفریضہ مـیں ہے:یأتی بالسنۃ مطلقا ولو صلی منفرداعلی الاصح لکونھا مکملات ۲؎۔

سنّت کی ادائیگی کا حکم مطلقاً ہے اگر چہ تنہا نماز پڑھے یہی اصح ہے اس لئے کہ (فرائض وواجبات ) کی تکمـیل کرنے والی ہیں۔(ت)

(۲؎ الدر المختار        ادراک الفریضۃ     مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۰۰)

اُسی کی بحث تراویح مـیں ہے: ھی عشرون رکعۃ حکمۃ مساواۃ المکمل للمکمل ۳؎

تراویح کی بیس رکعتیں ہیں اس مـیں حکمت یہ ہے کہ مکمل، مکمل کے برابر ہوجائے۔(ت)

(۳؎ الدرالمختار         کتا ب الصلوٰۃ     باب الوتر والنوافل     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۹۸)

ولہذا ہمارے ائمہ تصریح فرماتے ہیں کہ وضوئے بے نیت پر ثواب نہیں۔
بحرالرائق مـیں ہے:

اعلم ان النیۃ لیست شرطافیـالوضوء مفتاحا للصلاۃ قیدنا بقولنا فی کونہ مفتاحا لانھا شرط فی کونہ سببا للثواب علی الاصح ۴؎۔

واضح ہو کہ وضو کے کلید نماز بننے مـیں نیت شرط نہیں کلید نماز بننے کی قید ہم نے اس لئے لگائی کہ وضو کے سبب ثواب بننے مـیں بر قول اصح نیت ضرور شرط ہے۔(ت)

(۴؎ البحرالرائق    کتاب الصلوٰۃ باب الوتر والنوافل     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۴)

اور مستحب پر ثواب ہے تو وضوئے فـــ۱ مستحب محتاج نیت ہوا اور وسائل محضہ محتاج نیت نہیں ہوتے۔

فــ ۱: وضوئے مستحب بے نیت ادا نہ ہوگا ۔

فتح القدیر وبحرالرائق مـیں ہے: اذالم ینو حتی لم یقع عبادۃ سببا للثواب فھل یقع الشرط المعتبر للصلاۃ حتی تصح بہ اولا قلنا نعم لان الشرط مقصود التحصیل لغیرہ لالذاتہ فکیف حصل حصل المقصود وصارتر العورۃ باقی شروط الصلاۃ لایفتقر اعتبارھا الی ان تنوی.۱؎۔

بے نیت وضو کر لیـا جس کے باعث وہ عبادت سبب ثواب نہ بن سکا تو کیـا اس (بے نیت وضو ) سے نماز صحیح ہوجائےاور یہ اس وضوکی جگہ ہو جائےجس کی شرط نماز مـیں رکھی گئی ہے ہم جواب دیں گے ہاں اس لئے کہ شرط دوسری چیز کو بروئے کار لانے کے لئے مقصود ہے بذات خود مقصود نہیں تو یہ جیسے بھی حاصل ہومقصود حاصل ہوجائے گا جیسے ستر عورت اور باقی شرائط نماز ہیں کہ ان کے قابل اعتبار ہونے کے لئے ان مـیں نیت ہونے کی ضرورت نہیں ۔(ت)

(۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۵و۲۶)

تو ثابت ہوا کہ وضوئے مستحب وسیلہ نہیں وھو المقصود والحمدللّٰہ الودود۔

تاسعا: محقق حلبی کا یہ استناد کہ اکیلا فــ ۱سجدہ (یعنی سجدہ تلاوت وسجدہ شکر کے سوا محض سجدہ بے سبب) جبکہ عبادت مقصودہ نہ تھا تو علماء نے اُس پر حکم کراہت دیـا تو وضوئے جدید کی کراہت بدرجہ اولٰی۔

فــ ۱: سجدہ بے سبب کا حکم ۔

اقول : خود محقق فـ ۲رحمہ اللہ نے آخر غنیہ مـیں سجدہ نماز وسہو وتلاوت ونذر وشکر پانچ سجدے ذکر کرکے فرمایـا: اما بغیر سبب فلیس بقربۃ ولامکروہ ۲؎ نقلہ عن المجتبی مقرا علیہ ونقلہ عن الغنیۃ فی ردالمحتار ایضا واقر ھذا ھھنا واعتمد ذاک ثمہ الا ان یحمل ماھنا علی کراھۃ التنزیہ وما ثم علی نفی المأ ثم ای کراھۃ التحریم فیتوافقان لکن یحتاج الحکم بکراھتہ ولو تنزیہا الی دلیل یفیدہ شرعا کما تقدم وھو لم یستند ھھناا لی نقل فاللّٰہ تعالی اعلم۔

یعنی سجدہ بے سبب مـیں نہ ثواب نہ کراہت۔ غنیہ مـیں اسے مجتبٰی سے نقل کر کے برقرار رکھا، اور غنیہ سے اسے ردالمحتار مـیں بھی نقل کیـا اور وضو علی الوضو کے بیـان مـیں غنیہ کے قول (سجدہ بے سبب کی کراہت ) کوبرقرار رکھااور آخر باب سجدہ تلاوت مـیں سجدہ بے سبب کے غیر مکروہ ہونے پر اعتماد کیـا مگر تطبیق یوں ہوسکتی ہے یہاں جو کراہت مذکور ہے وہ کراہت تنزیہیہ پر محمول ہو اور وہاں جو نفی کراہت ہے وہ نفی گناہ یعنی کراہت تحریم کی نفی پرمحمول ہو لیکن کراہت کا حکم کرنے کے لئے اگر چہ کراہت تنزیہیہ ہی ہو اس دلیل کی حاجت ہے جو شرعا اس کی کراہت بتاتی ہو جیسا کہ یہ قاعدہ ذکر ہوا اور یہاں انہوں نےی نقل سے استناد نہ کیـا اور خدائے بر تر ہی کو خوب علم ہے ۔ (ت)

فــ ۲ تطفل ثامن علیہما ۔

(۲؎ غنیۃ المستملی    فصل مسائل شتی    سہیل اکیڈمـی لاہور    ص۶۱۶و۶۱۷)

عاشرا :وباللہ ف التوفیق سجدہ سب سے زیـادہ خاص حاضری دربار ملک الملوک عزجلالہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اقرب مایکون العبد من ربہ وھو ساجد فاکثروا الدعاء رواہ مسلم وابو داؤد۱؎ والنسائی عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۔

سب حالتوں سے زیـادہ سجدہ مـیں بندہ اپنے رب سے قریب ہوتا ہے تو اس مـیں دعا بکثرت کرو (اسے مسلم ،ابو داؤد اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیـا )

فــ: تطفل تاسع علیہا۔

( ۱؎ صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب ما یقال فی الرکوع والسجود قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۱)
(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الدعاء فی الرکوع والسجود آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۲۷)
(سنن النسائی کتاب افتتاح الصلوۃ باب اقرب ما یکون العبد من اللہ نور محمدکارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۱۷۰و۱۷۱)

اور دربار شاہی مـیں بے اذن حاضری جرأت ہے اور سجدہ بے سبب کے لئے اذن معلوم نہیں ،ولہٰذا شافعیہ کے نزدیک حرام ہے کما صرح بہ الامام الا ردبیلی الشافعی فی الانوار جیسا کہ امام اردبیلی شافعی نے انوار مـیں تصریحات کی۔ ت) اس بناء پر اگر سجدہ بے سبب مکروہ ہو تو وضو کا اُس پر قیـاس محض بلا جامع ہے۔
رہا علامہ شامـی کا اُس کی تائید مـیں فرمانا کہ ہدیہ ابن عماد مـیں ہے: قال فی شرح المصابیح انما یستحب الوضوء اذا صلی بالوضوء الاول صلٰوۃ کذا فی الشرعۃ والقنیۃ اھ وکذا ماقالہ المناوی فی شرح الجامع الصغیرعندحدیث من توضأ علی طھران المراد الوضوء الذی صلی بہ فرضا او نفلا کما بینہ فعل راوی الخبر ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فمن لم یصل بہ شیـا لایسن لہ تجدیدہ اھ ومقتضی ھذا کراھتہ وان تبدل المجلس مالم یؤدبہ صلاۃ اونحوھا ۱؎ اھ

( ۱؎ ردا لمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیـاء التراث العربی بیروت         ۱ /۸۱)

اقول : شرعۃ الاسلام مـیں اس کا پتا نہیں ،اس مـیں صرف اس قدر ہے: التطھر لکل صلاۃ سنۃ النبی علیہ الصلاۃ والسلام ۲؎۔

ہر نماز کے لئے وضو کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔ (ت)

( ۲؎ شرعۃ الاسلام مع شرح مصابیح الجنا ن فصل فی تفضیل سنن الطہارۃ مکتبہ اسلامـیہ کوئٹہ ص۸۳)

ہاں سید علی زادہ نے اُس کی شرح مـیں مضمون مذکور شرح مصابیح سے نقل کیـا اور اُس سے پہلے صاف تعمـیم کا حکم دیـا، حیث قال فالمؤمن ینبغی ان یجدد الوضوء فی کل وقت وان کان علی طہر قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من توضأ علی طھر کتب لہ عشر حسنات وقال فی شرح المصابیح تجدید الوضوء فی کل وقت انما یستجب اذا صلی بالوضوء الاول صلاۃ والا فلا ۱؎ اھ

ان کے الفاظ یہ ہیں : تومومن کو چاہیے کہ ہر وقت تازہ وضو کرے اگرچہ باوضو رہا ہو،حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے باوضو ہوتے ہوئے وضو کیـا اس کے لئے دس نیکیـاں لکھی جائیں۔۔۔اورشرح مصابیح مـیں کہا کہ ہر وقت تجدید وضو مستحب ہونے کی شرط یہ ہے کہ پہلے وضو سے کوئی نماز ادا کر لی ہو ،ورنہ نہیں ۔

( ۱؎ مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام     فصل فی تفضیل سنن الطہارۃ     مکتبہ اسلامـیہ کوئٹہ ص۸۳)

قلت وبہ ظھر ان قولہ کذا فی الشرعۃ ای شرحہا اشارۃ الی قولہ قال فی شرح المصابیح لاداخل تحت قال۔

قلت اسی سے ظاہر ہوا کہ ابن عماد کی عبارت ''کذافی الشرعۃ ۔۔۔۔ایساہی شرعۃ الاسلام یعنی اسکی شرح مـیں ہے '' کا اشارہ ان کی عبارت''قال فی شرح المصابیح '' (شرح مصابیح مـیں کہا ) کی طرف  ہے ۔ یہ شرح مصابیح کے کلام مـیں شامل نہیں (ت)

بہرحال اولا : قنیہ کا فــ ۱ حال ضعف معلوم ہے اور شرح شرعہ بھی مبسوط ونہایہ وعنایہ ومعراج الدرایہ وکافی وفتح القدیر وحلیہ وسراج وخلاصہ وناطفی مـیںی کے معارض نہیں ہوسکتی نہ کہ اُن کا اور اُن کے ساتھ اور کتب کثیرہ سب کے مجموع کا معارضہ کرے۔ پھر اعتبار منقول عنہ کا ہے اور شرح فــ۲ مصابیح شروح حدیث سے ہے معتمدات فقہ کا مقابلہ نہ کرےنہ کہ مسئلہ اتفاق

فــ ۱: معروضۃ علی العلامۃ ش۔
فــ ۲:کتب شروح حدیث مـیں جو مسئلہ کتب فقہ کے خلاف ہو معتبر نہیں ۔

علامہ مصطفی رحمتی نے شرح مشارق ابن ملک کے نص صریح کو اسی بنا پر رد کیـا اور اُسے اطلاقات کتب مذہب کے مقابل معارضہ کے قابل نہ مانا اور خود علامہ شامـی نے اُسے نقل کرکے مقرر فرمایـا۔ حیث قال علی قولہ لکن فی شرح المشارق لابن ملک لو وطئہا وھی نائمۃ لایحلہا للاول لعدم ذوق العسیلۃ فیہ ان ھذا الکتابموضوعا لنقل المذھب واطلاق المتون والشروح یردہ وذوق العسیلۃ للنائمۃ موجود حکما الا یری ان النائم اذا وجد البلل یجب علیہ الغسل وکذا المغمـی علیہ ۱؎ الخ

تفصیل یہ ہے کہ درمختار مـیں لکھا لیکن ابن ملک کی شرح المشارق مـیں ہے کہ اگر عورت سو رہی تھی اور اس سے وطی کی تو شوہر اول کے لئے حلال نہ ہوگی اس لئے کہ اس کے حق مـیں ذوق عسیلہ (مر دکے چھتے کا مزہ پانے) کی شرط نہ پائی گئی اس پر علامہ رحمتی نے یہ اعتراض کیـا:اس مـیں خامـی یہ ہے کہ کتاب نقل مذہب کے لئے نہ لکھی گئی اور متون وشروح کے اطلاق سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اور سونے والی کے لئے بھی مزہ پانے کی شرط حکما موجود ہے کیـا دیکھا نہیں کہ سونے والا تری پائے تواس پر غسل واجب ہوجاتاہے اسی طرح وہ بھی جو بے ہوش رہا ہو ۔(ت)

( ۱ ؎ردا لمحتار     کتاب الطلاق     باب الرجعۃ     دار احیـاء التراث العربی بیروت ۲/ ۵۴۰)

ثانیـا : علامہ مناوی فــ۱ شافعی ہیں فقہ مـیں اُن کا کلام نصوص فقہ حنفی کے خلاف کیـا قابل ذکر۔

فـــ ۱:معروضۃ اخری علیہ۔

ثالثا فـــ۲ : وہی مناوی اسی جامع صغیر کی شرح تیسیر مـیں کہ شرح کبیر کی تلخیص ہے اسی حدیث کے نیچے فرماتے ہیں

فتجدید الوضوء سنۃ مؤکدۃ اذا صلی بالاول صلاۃ مّا ۲؎۔

توتجدید وضوء سنّتِ مؤکدہ ہے جب پہلے وضو سے کوئی بھی نماز اداکر چکا ہو۔( ت)

فـــ۲ :معروضۃ ثالثۃ علیہ۔

(۲؎التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث من توضاء علی طہر مکتبہ الامام الشافعی ریـاض۲ /۴۱۱ )

معلوم ہوا کہ لایسن سے اُن کی مراد نفی سنت مؤکدہ ہے

وصاحب الدار   اَدرٰی (اور صاحبِ خانہ کو زیـادہ علم ہوتا ہے۔ت) اور اُس کی نفی مقتضی کراہت نہیں کمالایخفی (جیساکہ پوشیدہ نہیں۔ت)

وجہ دوم  :

ایک جلسہ فــ۱ مـیں وضو کی تکرار مکروہ ہے۔ سراج وہاج مـیں اسے اسراف کہا تو قبل تبدل مجلس وضو علی الوضوء کی نیت کیونکر کرسکتا ہے۔ یہ شبہہ بحرالرائق کا ہے کہ اسی عبارت خلاصہ پر وارد فرمایـا۔

فــ۱ :مسئلہ بعض نے فرمایـا ایک جلسہ مـیں دوبار وضومکروہ ہے۔ بعض نے فرمایـا دوبارتک مستحب اس سے زائدمکروہ ہے اور مصنف کی تحقیق کہ احادیث وکلمات ائمہ مطلق ہیں اور تحدیدوں کا ثبوت ظاہر نہیں ۔

اقول : جس مسئلہ پر عبارت فــ۲ سراج سے اعتراض فرمایـا وہ خود سراج کا بھی مسئلہ ہے۔

ہندیہ مـیں ہے : لوزاد علی الثلث لطمانینۃ القلب عند الشک اوبنیۃ وضوء اخر فلا باس بہ ھکذا فی النھایۃ والسراج الوھاج ۱؎۔

شک ہونے کے وقت اطمـینانِ قلب کیلئے یـا دوسرے وضو کی نیت سے دھویـا تو کوئی حرج نہیں ایساہی نہایہ اور سراج وہاج مـیں ہے ۔(ت)

فـــ۲ :تطفل علی البحر۔

( ۱؎الفتاوی الہندیہ کتاب الطہارۃ الباب الاول الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور۱ /۷ )

کیـا کلام سراج خود اپنے مناقض ہے اور اگر ہے تو اُن کا وہ کلام احق بالقبول ہوگا جو عامہ اکابر فحول کے موافق ہے یـاوہ کہ اُن سب کے اور خود اپنے بھی مخالف ہے۔ لاجرم صاحب بحر کے برادر وتلمـیذ نے نہرالفائق مـیں ظاہر کردیـا کہ سراج نے ایک مجلس مـیں چند بار وضو کو مکروہ کہا ہے دوبار مـیں حرج نہیں تو اعتراض نہ رہا۔ سراج وہاج کی عبارت یہ ہے: لو تکرر الوضوء فی مجلس واحد مرارا لم یستحب بل یکرہ لما فیہ من الاسراف ۲؎ اھ وھذا ھو ماخذ ماقدمنا عن المولی النابلسی رحمہ اللّٰہ تعالٰی۔

اگر وضو ایک مجلس مـیں چند بار مکرر ہو تو مستحب نہیں بلکہ مکروہ ہے کیونکہ اس مـیں اسراف ہے اھ یہی اس کلام کا ماخذ ہے جو ہم نے علامہ نابلسی رحمہ اللہ کے حوالہ سے پیش کیـا۔ (ت)

( ۲ ؎ردا لمحتار     کتاب الطہارۃ          دار احیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۸۱)

اقول وباللہ التوفیق فــ ۱: وضوئے جدید مـیں کوئی غرض صحیح مقبول شرع ہے یـا نہیں ،اور اگر نہیں تو واجب کہ مطلقا تجدید مکروہ وممنوع ہو اگرچہ ایک ہی بار اگرچہ مجلس بدل کر اگرچہ ایک نماز پڑھ کرکہ بیکار بہانا ہی اسراف ہے اور اسراف ناجائز ہے ، اور اگر غرض صحیح ہے مثلاً زیـادت نظافت تو وہ غرض زیـادت قبول کرتی ہے یـا نہیں، اگر نہیں تو ایک ہی بار کی اجازت چاہئے اگرچہ مجلس بدل جائے کہ تبدیل مجلس نامتزاید نہ کردے گا وہ کونسی غرض شرعی ہے کہ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے تو قابل زیـادت نہیں اور وہاں سے اُٹھ کر ایک قدم ہٹ کر بیٹھ جائے تو از سرنو زیـادت پائے، اور اگر ہاں تو کیـا وجہ ہے کہ مجلس مـیں دوبارہ تکرار کی اجازت نہ ہو بالجملہ جگہ بدلنے کو اسباب مـیں کوئی دخل نظر نہیں آتا تو قدم قدم ہٹ کر سوبار تکرار کی اجازت اور بے ہٹے ایک بار سے زیـادہ کی ممانعت کوئی وجہ نہیں رکھتی۔ احادیث بے شک مطلق ہیں اور ہمارے ائمہ کا متفق علیہ مسئلہ بھی یقینا مطلق اور ایک اور متعدد کا تفرقہ ناموجَّہ واللہ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔

فــ :تطفل علی سراج الوہاج والنہر والبحر ۔

واشار فی الدر الی الجواب بوجہ اخر فقال لعل کراھۃ تکرارہ فی مجلس تنزیہیۃ ۱؎ اھ ای فلا یخالف قولھم لو زاد بنیۃ وضوء اخر فلا باس بہ لان الکلمۃ غالب استعمالھا فی کراھۃ التنزیہ۔

در مختار مـیں ایک دوسرے طریقے پر جواب کی طرف اشارہ کیـا اس کے الفاظ یہ ہیں شاید ایک مجلس کے اندر تکرار وضو کی کراہت تنزیہی ہو اھ مطلب یہ ہے کہ یہ مان لینے سے ان کے اس قول کی مخالفت نہ ہوگی کہ '' اگر وضو کی نیت سے زیـادتی کی تو کوئی حرج نہیں( فلا بأس بہ ) اس لئے کہ یہ کلمہ زیـادہ تر کراہت تنزیہیہ مـیں استعمال ہوتا ہے

( ۱؎ الدرالمختار    کتاب الطہارت    مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۲)

اقول : ویبتنی علی مااختارہ ان الاسراف مکروہ تحریما لان المستثنی اذا ثبت فیہ کراھۃ التنزیہ  فلولم تکن فی المستثنی منہ الاھی لم یصح الثنیـا ۔

اقول : اس جواب کی بنیـاد اس پر ہے جو صاحب درون مختار نے اختیـار کیـا کہ اسراف مکروہ تحریمـی ہے اس لئے کہ مستثنٰی مـیں جب کراہت تنزیہیہ ثابت ہوئی تو اگرمستثنی منہ مـیں بھی یہی کراہت رہی ہو تو استثنا ء درست نہ ہو ا۔ فان قلت معھا مسألۃ الزیـادۃ للطمانینۃ عند الشک وقد حکموا علیہما بحکم واحد وھو لاباس بہ وھذہ الزیـادۃ مطلوبۃ قطعا لقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم دع مایریبک ۱؎ فکیف یحمل علی کراھۃ التنزیہ۔

اگر یہ سوال ہو کہ اس کے ساتھ بوقت شک اطمـینان کے لئے زیـادتی کا مسئلہ بھی توہے اوردونوں پر ایک ہی حکم لگایـا گیـا ہے کہ لا بأس بہ (اس مـیں حرج نہیں )حالانکہ کہ یہ زیـادتی تو قطعا مطلوب ہے اس لئے کہ سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے شک کی حالت چھوڑ کروہ اختیـار کرو جو شک سے خالی ہو تو اسے کراہت تنزیہ پر کیسے محمول کریں گے ۔

(۱؎ صحیح البخاری کتاب البیوع باب التفسیر المشتبہات قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۷۵)

قلت المعنی لایمنع شرعا فیشمل المکروہ تنزیھا والمستحب ھذا وردہ فی ردالمحتار اخذا من ط بانھم عللوہ بانہ نور علی نور قال وفیہ اشارۃ الی ان ذالک مندوب فکلمۃفــ لاباس وان کان الغالب استعمالہا فیما ترکہ اولی لکنھا قد تستعمل فی المندوب کما فی البحر من الجنائز والجھاد ۱؎ اھ

    قلت مـیں کہوں گا(لابأس بہ) کامعنی یہ ہوگا کہ شرعاً ممنوع نہیں تویہ مکروہ تنزیہی اورمستحب دونوں کوشامل ہوگا یہ بات توہوگئی مگر ردالمحتار مـیں طحطاوی سے اخذ کرتے ہوئے درمختار کے جواب کی یہ تردید کی ہے کہ علماء نے اس کی علّت یہ بتائی ہے کہ وہ نور علٰی نو ر ہے۔ فرمایـا: اس تعلیل مـیں اس کا اشارہ ہے کہ وہ مندوب ہے تولفظ ''لاباس'' اگرچہ زیـادہ تر اس مـیں استعمال ہوتا ہے جس کاترک اولٰی ہے لیکن بعض اوقات مندوب مـیں بھی استعمال ہوتاہے جیسا کہ البحرالرائق کے بیـان جنائز وجہاد مـیں ہے اھ۔(ت)

ف: کلمۃ لا بأس لما ترکوہ اولٰی وقد تستعمل فی المندوب ۔

(۲؎ردالمحتار     کتاب الطہارۃ    دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۸۱)

اقول :  الندب ف۱ لاینافی ف۲ فی الکراھۃ فلا یبعد ان یکون مندوبا فی نفسہ لما فیہ من الفضیلۃ لکن ترکہ فی مجلس واحد اولی قال فی الحلیۃ النفل لاینافی عدم الاولویۃ ۱؎ اھ ذکرہ فی صفۃالصّلوٰۃ مسألۃ القراء ۃ فی الاٰخریین وقال السید ط فی حواشی المراقی الکراھۃ لاتنافی الثواب افادہ العلامۃ نوح۲؎ اھ قالہ فی فصل الاحق بالامامۃ مسألۃ الاقتداء بالمخالف۔ نعم یرد علیہ ماذکرنا ان لااثر للمجلس فیما ھنا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

اقول : ندب کراہت کے منافی نہیں توبعید نہیں کہ بربنائے فضیلت فی نفسہ مندوب ہولیکن ایک مجلس مـیں اس کاترک اولٰی ہو۔ حلیہ مـیں لکھا ہے کہ نفل خلافِ اولٰی ہونے کے منافی نہیں اھ

اسے صفۃ الصلوٰۃ کے تحت بعد والی دونوں رکعتوں مـیں قرأت کے مسئلہ مـیں ذکرکیـاہے اور سید طحطاوی نے حواشی مراقی مـیں لکھا ہے کہ کراہت ثواب کے منافی نہیں علامہ نوح نے اس کا افادہ کیـااھ۔ یہ انہوں نے فصل احق بالامامۃ مـیں اقتدائے مخالف کے مسئلہ مـیں ذکرکیـاہے۔ہاں اس پر وہ اعتراض وارد ہوگا جوہم نے بیـان کیـاکہ'' جگہ بدلنے کو اس باب مـیں کوئی دخل نہیں''۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔(ت)

فـــ۱معروضۃ علی العلامۃ ش ۔
فـــ۲ الندب لا ینافی الکراھۃ۔

( ۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
(۲؎حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الصلوٰۃ فصل فی بیـان الاحق بالامامۃ دار الکتب العلمـیہ بیروت ص۳۰۴ )

وجہ سوم :

 یہ سب کچھ سہی پھر تجدید وضو تو بعد تکمـیل وضوئے اول ہو اثنائے وضو مـیں تجدید کیسی۔ یہ اعتراض علامہ علی قاری کا ہے کہ مرقاۃ موضع مذکور مـیں اصل مسئلہ دائرہ یعنی بہ نیت وضو علی الوضو تین بار سے زیـادہ اعضا ء دھونے پر ایراد کیـا۔

والی ھذا اشارط اذقال علی قول الدر لقصد الوضوء علی الوضوء ظاھرہ ان نیۃ وضوء اخر متحققۃ فی الغرفۃ الرابعۃ اوالخامسۃ ولا کراھۃ والحدیث یدل علی غیر ھذا ۱؎ اھ

اور اسی اعتراض کی طرف سید طحاوی نے اشارہ کیـا،اس طرح کہ درمختار کی عبارت لقصد الوضوء علی الوضوء پر لکھا:اس کا ظاہر یہ ہے کہ چوتھے یـا پانچویں چلّومـیں دوسرے وضو کی نیت متحقق ہوجاتی اور کوئی کراہت نہیں ---------مگر حدیث کچھ اور بتارہی ہے اھ۔

قلت وکانہ الی ھذا نظر العلامۃ فـــ البحر فزاد علی خلاف سائر المعتمدات قید الفراغ من الاول وعزاہ لاکثر شروح الھدایۃ مع عدمہ فیھا ظنا منہ رحمہ اللّٰہ تعالی انہ ھو المحمل المتعین لکلامھم فقال وعلی الاقوال کلھا لوزاد لطمانینۃ القلب عند الشک اوبنیۃ وضوء اخر بعد الفراغ من الاول فلا باس بہ لانہ نور علی نور وکذا ان نقص لحاجۃ لاباس بہ کذا فی المبسوط واکثر شروح الھدایۃ ۲؎ اھ

قلت شاید علامہ بحر نے اسی طرف نظر کرتے ہوئے تمام کتب معتمدہ کے برخلاف''وضوئے اول سے فارغ ہونے'' کی قید کا اضافہ کردیـااوراسے اکثر شروحِ ہدایہ کی جانب منسوب کیـا، جبکہ ان مـیں یہ بات نہیں ۔ صاحبِ بحر رحمہ اللہ تعالٰی کا خیـال ہے کہ ان شارحین کے کلام کا یہی مطلب متعین ہے۔ بحر کے الفاظ یہ ہیں:اورتمام اقوال پر اگر شک کی حالت مـیں اطمـینا ن قلب کے لئے زیـادہ کیـا یـا'' پہلے وضو سے فارغ ہونے کے بعد'' دوسرے وضو کی نیت سے زیـادہ کیـاتو کوئی حرج نہیں اس لئے یہ نور علٰی نور ہے۔ یوں ہی اگری حاجت کی وجہ سے کمـی کی توکوئی حرج نہیں، ایساہی مبسوط اور اکثر شروحِ ہدایہ مـیں ہے اھ۔

( ۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار     کتاب الطہارۃ      المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ         ۱ /۷۲)
(۲؎ البحرالرائق        کتاب الطہارۃ         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۳)

ثم بعد ھذا الحمل البعید من کلامھم کل البعد تکلم فیہ باتحاد المجلس کما تقدم قال الا ان یحمل علی ما اذا اختلف المجلس وھو بعید کمالا یخفی ۳؎ اھ

پھر ان حضرات کے کلام سے یہ بالکل ہی بعید مطلب لینے کے بعداس پراتحادمجلس سے کلام کیـاجوگزرا، آگے فرمایـا: مگر یہ کہ مجلس بدل جانے کی صورت پرمحمول ہو، اور وہ بعید ہے جیسا کہ مخفی نہیں اھ۔

 (۳؎ البحرالرائق        کتاب الطہارۃ         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۳)

اقول رحمک ف۱ اللّٰہ ورحمنا بک اولیس ماحملتم علیہ بعیدا فاین الزیـادۃ علی الثلث فی الغسلات من التجدید بعد انھا الوضوء الاول۔

اقول آپ پرخدا کی رحمت ہواورآپ کے طفیل ہم پر بھی رحمت ہو۔کیـاآپ نے جو مطلب لیـاوہ بعید نہیں؟ کہاں دورانِ وضوی عضو کوتین بارسے زیـادہ دھونا اورکہاں پہلا وضو پورا کرنے کے بعد تازہ وضو کرنا(ان کے کلام مـیں وہ تھا اورآپ نے اس کامعنٰی یہ لیـا دونوں مـیں کیـا نسبت؟)
یہ اعتراض ضرور محتاج توجہ ہے۔

فــ ۱: تطفل رابع علیہ ۔

وانا اقول وباللّٰہ استعین فــ ۲ (مـیں کہتا ہوں اللہ تعالٰی کی مدد کے ساتھ۔ت) شے کے فــ۳ اسباب وشروط ہوں یـا احکام وآثار اُس کا ذکر اگرچہ مطلق ہو اُن سب کی طرف اشعار کہ مسبب ومشروط کا وجود بے سبب وشرط نہ ہوگا۔

ان عقلیـا فعقلیـا اوشرعیـا فشرعیـا کصلاۃ الظہر قبل الزوال او بدون نیۃ ۔

اگر وہ امر عقلی ہے تو اس کا وجود عقلی اور اگرشرعی ہے تووجودشرعی بے سبب وشرط نہ ہوگا جیسے قبل زوال یـابے نیت، نماز ظہر کا وجود شرعی نہیں ہوسکتا(اول فقدان سبب کی مثال ہے دوم فقدان شرط کی ۱۲م)۔

نہ شے اپنے احکام وآثار سے خالی ہوگی کہ یہ دونوں فریق دو طرف تقدم وتاخر ذاتی مـیں لوازم وجود شے ہیں والشیئ اذا ثبت ثبت بلوازمہ  (اگر کچھ ثابت ہوگا تو تمام لوازم کے ساتھ ثابت ہوگا۔ ت) تبیین الحقائق مسئلہ ذکاۃ الجنین مـیں ہے: ای اذبحوہ وکلوہ وھذا مثل مایروی انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذن فی اکل لحم الخیل ای اذا اذبح لان الشیئ اذا عرف شروطہ وذکر مطلقا ینصرف الیھا کقولہ تعالٰی اقم الصلاۃ ای بشروطھا ۱؎۔

یعنی اسے ذبح کرلوتب کھاؤ اور یہ اسی کے مثل ہے جو مروی ہے کہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی یعنی جب ذبح کرلئے جائیں۔اس لئے کہی شے کی شرطیں جب معروف ہوں اور ا س کومطلقاً ذکرکردیـاجائے تواس کا ان شرطوں کے ساتھ ہونا ہی مراد ہوگا جیسے باری تعالٰی کا ارشاد ہے نماز قائم کر، یعنی اس کی شرطوں کے ساتھ۔(ت)

 ( ۱؎ تبیین الحقائق     کتاب الذبائح     دار الکتب العلمـیۃ بیروت     ۶ /۴۶۵)

اب وضو دو قسم ہے: واجب ومندوب۔
واجب کا سبب معلوم ہے کہ اُس چیز کا ارادہ جو بغیر اس کے حلال نہ ہو جیسے نماز یـا سجدہ یـا مصحف کریم کو ہاتھ لگانا۔ اور مندوب فــ۱ کے اسباب کثیر مـیں ازانجملہ:
(۱) قہقہہ سے ہنسنا        (۲) غیبت کرنا
(۳) چغلی کھانا        (۴)ی کو گالی دینا
(۵) کوئی فحش لفظ زبان سے نکالنا    (۶) جھوٹی بات صادر ہونا
(۷) حمد ونعت ومنقبت ونصیحت کے علاوہ کوئی دنیوی شعر پڑھنا    (۸) غصہ آنا
(۹) غیر عورت کے حُسن پر نظر۔
(۱۰)ی کافر سے بدن چھو جانا اگرچہ کلمہ پڑھتا اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو جیسا فــ۲ قادیـانی عـــہ۱یـا چکڑالوی عـــہ۲نیچری عـــہ۳ یـا آج کل کے تبرائی رافضی عـــہ۴ یـاکذابی عـــہ ۵یـا بہائمـی عـــہ۶یـا شیطانی عـــہ۷ خواتمـی عـــہ۸ وہابی جن کے عقائد کفر کا بیـان حسام الحرمـین مـیں ہے۔یـا اکثر غیرعـــہ۹ مقلد خواہ بظاہر مقلد وہابیہ کہ اُن عقائدار تداد پر مطلع ہو کر اُن کو عالم دین وعمدہ مسلمـین کہتے یـا اللہ ورسول کےمقابل اللہ ورسول کو گالیـاں دینے والوں کی حمایت کرتے ہیں جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

فــ ۱: مسئلہ ان بعض اشیـاء کا بیـان جن کے سبب وضوکی تجدید مطلقا بالا تفاق مستحب ہوتی ہے خوا ہ ابھی اس سے نماز وغیرہ کوئی فعل ادا کیـا ہو یـا نہیں مجلس بدلی ہو یـا نہیں وضو پورا ہوا ہو یـا نہیں تجدید ایک با ر ہو یـا سو بار ۔
فــ ۲: فائدہ ضروریہ ان دس فرقوں کا بیـان جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور شرعا مرتد ہیں۔
عـــہ ۱غلام احمد قادیـانی کے پیرو جو اپنے آپ کو نبی ورسول کہتا اپنے کلام کو کلامِ الٰہی بتاتا سیدنا عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیـاں دیتا چارسو انبیـا کی پیشگوئی جھوٹی بتاتا خاتم النبیین مـیں استثنا کی پچّر لگاتا وغیرہ کفریـات ملعونہ ۱۲ (م)
عـــہ۲ یہ ایک نیـا طائفہ ملعونہ حادث ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے منکر ہے تمام احادیث مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو صراحۃً باطل وناقابل بتاتا اور صرف قرآن عظیم کے اتباع کا ادعا رکھتا ہے اور حقیقۃً خود قرآن عظیم کا منکر ومبطل ہے، ان خبیثوں نے اپنی نماز بھی جُدا گھڑی ہے جس مـیں ہر وقت کی صرف دو۲ ہی رکعتیں ہیں ۱۲ ۔

عـــہ۳ یہ باطل طائفہ ضروریـات دین کا منکر ہے قرآن عظیم کے معانی قطعیہ ضروریہ مـیں درون پردہ تاویل وتحریف وتبدیل کرتا وجودِ ملائکہ وآسمان وجن وشیطان وحشر ابدان وناروجنان ومعجزات انبیـاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے انہیں ملعون تاویلوں کی آڑ مـیں انکاررکھتا ہے ۱۲ ۔
عـــہ۴ یہ ملاعنہ صراحۃً قرآنِ عظیم کو ناقص بتاتے اور مولٰی علی وائمہ اطہار رضی اللہ تعالٰی عنہم کو انبیـاء سابقین علیہم الصلوۃ والتسلیم سے افضل ٹھہراتے ہیں ۱۲۔
عـــہ ۵ یہ ملاعنہ طائفہ اللہ تعالٰی کو بالفعل جھوٹا بتاتا اور صاف کہتا ہے کہ وقوع کذب کے معنے درست ہوگئے ۱۲۔
عـــہ۶ یہ گروہ لعین ہر پاگل اور چوپائے کے لئے علم غیب مان کر صاف کہتا ہے کہ جیسا علم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تھا ایسا علم تو ہر پاگل اور جانور کو ہوتا ہے ۱۲

عـــہ ۷ اس شیطانی گروہ کے نزدیک ابلیس لعین کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیـادہ بلکہ بے شمار زیـادہ ہے ابلیس کی وسعت علم کو نص قطعی سے ثابت کہتا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وسعت علم کو باطل بے ثبوت مانتا ہے اُن کیلئے وسعتِ علم کے ماننے کو خالص شرک بتاتا مگر ابلیس کو وسعتِ علم مـیں خدا کا شریک جانتا ہے ۱۲ ۔
عـــہ۸یہ شقی گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے کا صاف منکر ہے خاتم النبیین کے معنی مـیں تحریف کرتا اور بمعنی آخر النبیین لینے کو خیـالِ جہال بتاتا یـا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چھ یـا سات مثل موجود مانتا ہے ۱۲

عـــہ۹ یہ بدبخت طائفہ ان ملعون ارتدادوں کو دفع تو کر نہیں سکتا بلکہ خوب جانتا ہے کہ ان سے دفع ارتداد ناممکن ہے مگر ان مرتدوں کو پیشوا اور ممدوح دینی ماننے سے بھی باز نہیں آتا اللہ جل وعلا ورسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مقابل ان کی حمایت پر تُلا ہوا ہے اللہ ورسول کو گالیـاں دینا بہت ہلکا جانتا ہے مگر ان دشنام دہندوں کا حکم شرعی بیـان کرنے کو گالیـاں دینا کہتا اور بہت سخت برا مانتا ہے اور ازانجا ف کہ اُن صریح ارتدادوں کی حمایت سے قطعاً عاجز ہے باوصف ہزاروں تقاضوں کے اُن کا نام زبان پر نہیں لاتا اور براہ گریز خدا ورسول جل وعلا و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب مـیں اُن صریح گالیوں کو بالائے طاق رکھ کر سہل اختلاف مسئلہ عطائے بعض علوم غیبیہ کی طرف بحث کو پھیرنا چاہتا ہے پھر اس مـیں بھی افترا واختراع سے کام لیتا ہے اور اصل مقصود صرف اتنا کہ وہ قہر عظیم والی دشنام ہائے خدا ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھُول مـیں پڑ جائیں اور بات این وآں کی طرف منتقل ہو اس چالاکی کا موجد امر تسر کے پرچہ "اہلحدیث" کا ایڈیٹر ہے دیکھو چابک لیث اور ظفر الدین الطیب اور کین کش پنجہ پیچ وغیرہا، یہ چالاک پرچہ۲۶ جمادی الاولٰی ۱۳۲۶ھ مـیں حسام الحرمـین کا ذکر منہ پر لایـا مگر یوں کہ براہ عیـاری اُس کے تمام مقاصد سے دامن بچا کر دو بالائی باتوں امکانِ کذب وعلم غیب کو اس کا مبنائے بحث ٹھہرایـا پھر اُن مـیں بھی امکانِ کذب کو الگ چھوڑ کر صرف علم غیب مـیں اپنی بعض فاحشہ جہالتیں دکھائیں جن کا ردبا رہا ہو چکا اسی پرچہ کے رد مـیں چابک لیث براہل حُدیث دومجلد مـیں ہے پھر ۳۰ جولائی ۲۰ اگست ۹ ؁ء کے پرچوں مـیں وہی انداز کہ اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب مـیں گالیـاں شیر مادر۔ قاہر مناظروں کے جواب سے گنگ وکر۔ اور اغوائے عوام کو مناظرہ کا نام زبان پر، اس کے رد مـیں ظفر الدین الطیب چھاپ کر بھیج دیـا انتالیس رات بعد پرچہ ۲۹ رمضان مـیں اُس کے دیکھنے کا اقرار تو کیـا مگر چال وہی کہ اُس کے تمام اعتراضات سے ایک کا بھی جواب نہ دیـا اور ایک بالائی لطیفہ تردید کے متعلق لکھا تھا صرف اُس کے ذکر پر اکتفا کیـا کہ مـیری ارد ودانی پر بھی اعتراض ہے۔ اے سبحٰن اللہ اور وہ جو آپ کے دعوٰی ایمان پر قاہر اعتراض ہیں وہ کیـا ہوئے وہ جو ثابت کیـا تھا کہ تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جتنا افترا اُٹھایـا اور اُس پر تمہاری حدیث دانی سے بارہ۱۲ سوال تھے وہ کدھر گئے۔

ف: ایڈیٹر الحدیث امر تسر کی باربار گریز فرار پر فرار اور عوام کے بہکانے کو نام مناظرہ کی عیـارانہ پکار۔

خیر اس کے جواب مـیں رسالہ کین کش پنجہ پیچ برایڈیٹر اے ایچ رجسٹری شدہ بھیجا آج پچپن دن ہوئے اُس کا بھی ذکر غائب، مگر بکمال حیـا بعد کے بعض پرچوں مـیں وہی رٹ موجود، خدا جانے ان صاحبوں کے نزدیک مناظرہ شے کا نام ہے، ان سے سیکھ کر یہی چال ایک گمنام صاحب چاند پوری دیوبند دربھنگی چلے۔ دشنامـی اکابر جن کے رد مـیں پینتیس سال سے بکثرت رسائل آستانہ علیہ رضویہ سے شائع ہورہے ہیں اور ان کو خود اقرار ہے کہ آج تک ایک پرچہ کا جواب نہ دے سکے بلکہ بڑے بڑوں نے مناظرہ سے عجز کا صاف صاف اقرار کیـا بلکہ لکھ دیـا (دیکھو رسالہ دفع زیغ ورسالہ بطش غیب) اب اُن کی حمایت مـیں جمے ہوئے مناظرے یوں ہی چھوڑ کر یہ دربھنگی صاحب سوال علی السوال لے کر چلے اور ایک بے معنی رسالہ بنام اسکات المعتدی چھاپا اور بعنایت الٰہی خود بھی اس رسالے مـیں صاف اقرار کردیـا کہ اُن کے تمام اکابر آج تک لاجواب ہیں۔ یہ رسالہ یہاں ۹ شعبان کو پہنچا اور ۲۰ شعبان کو اس کا رد ظفر الدین الطیب چھپا ہوا تیـار  تھا کہ اُسی دن جلسہ مدرسہ اہلسنت مـیں شائع کردیـا اور ۲۱ شعبان کو ان کے سرآمد کے پاس رجسٹری شدہ اور اتباع کے یہاں نام بنام بھیج دیـا۔ ساٹھ رات کے بعد دربھنگی صاحب بولے تو یہ بولے کہ رسالہی کو بھیجا ہی نہیں اور ایک خط اُسی چالاکی پر مشتمل بھیجا کہ صرف دو مسئلہ امکانِ کذب وعلمِ غیب مـیں اختلاف ہے وبس یعنی وہ شدید شدید گالیـاں کہ اُن کے اکابر نے اللہ ورسول جل وعلاوصلی اللہ علیہ وسلم کو لکھ لکھ کر چھاپیں اصلا کوئی قابل پروابات نہیں۔ اس خط کے جواب مـیں معاً دو رسالے تصنیف ہو کر رجسٹری شدہ اُن کے پاس روانہ ہوئے، اول بارش سنگی، دوسرا پیکان جانگداز برجان مکذّبان بے نیـاز، اس دوسرے مـیں گریز والے صاحبوں کی وہ ہوس بھی پوری کردی یعنی مسئلہ امکان کذب وعلم غیب ہی مـیں مناظرہ تازہ کردیـا۔ رجسٹری رسید طلب تھی ڈاک کی رسید تو آئی مگر آج پچاس دن ہوئے وہ بھی سو رہے حالانکہ اُن کو صرف دس دن کی مہلت تھی۔ مسلمانو! للہ انصاف، یہ ان مدعیـانِ دین ودیـانت کی حالت ہے منہ بھر بھر کر اللہ ورسول کو سخت سخت گالیـاں دیں پھر جب مسلمان اس پر مؤاخذہ کریں جواب نہ دیں، سوالات جائیں جواب غائب، رسائل جائیں جواب غائب، رجسٹریـاں جائیں جواب غائب۔ مناظرہ سے اپنا عجز صاف صاف لکھ دیں کہہ دیں اپنے اکابر کا لاجواب رہنا قبول کریں چھاپ دیں اور پھر عوام کے بہکانے کو مناظرہ مناظرہ کی پکار۔ اُس پکار پر جو گرفت ہو اس کے جواب سے پھر فرار اور وہی پکار اس حیـا کی کوئی حد ہے۔ سچ فرمایـا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: اذالم تستحی فاصنع ماشئت جب تجھے حیـا نہ ہو تو جو چاہے کر۔
ع بے حیـا باش و ہرچہ خواہی کن
(بیحیـا ہو جاپھر جو چاہے کر )

ہاں ہاں اے اللہ ورسول (جل وعلا وصلی اللہ علیہ وسلم) کو گالیـاں دینے والو! کیـا مسلمان اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے معاذ اللہ ایسے بے علاقہ ہوگئے کہ تم اُنہیں گالیـاں لکھ لکھ کر چھاپو اور وہ بے پروائی کرکے ٹال دیں۔ نہیں نہیں ضرور تمہیں دو باتوں سے ایک ماننی ہوگی، یـا تو خدا توفیق دے اُن گالیوں سے صراحۃً توبہ کرو جس طرح اُن کی اشاعت کی اُن سے صاف صاف اپنی توبہ اور اپنے حکم دشنام کا اعتراف چھاپو یـا اُن تمام رسائل وکُتب کا جواب دو، جواب دو، جواب دو۔ اس کے سوا تمہارے حیلے حوالے ٹالے بالے ہرگز نہ سُنے جائیں گے،

وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۲؎۔ ولا حول ولا قوۃ الّا باللہ العلی العظیم ۱۲ عبدہ محمد ظفر الدین قادری غفرلہ۔

( ۱؎المعجم الکبیر حدیث ۶۵۸و۶۶۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۷ /۲۳۷و۲۳۸)
(۲؎القران الکریم ۲۶ /۲۷۷)

یـا عـــہ۰ ۱ جھو ٹے متصوف کہ حلول واتحاد کے قائل یـا شریعت مطہرہ کے صراحۃً منکر ومبطل ہیں ان مـیں دسوں طائفوں اور ان کے امثال سے مصافحہ کرنا تو خود ہی حرام قطعی گناہِ کبیرہ ہے اگر بلا قصد بھی ان کے بدن سے بدن چھُو جائے تو وضو کا اعادہ مستحب ہے۔

عـــہ۰ ۱ ان تمام مرتد طوائف کارد کافی وشافی کتاب مستطاب المعتمد المستند وکتاب لاجواب حسام الحرمـین وکتاب کامل النصاب تمہید ایمان بآیـات قرآن وظفر الدین الجید وظفر الدین الطیب وغیرہا مـیں ملاحظہ ہو، سوا فرقہ چکڑالو یہ کہ تالیف المعتمد المستند تک اس کا کوئی تذکرہ ان بلاد مـیں نہ آیـا تھا یہ کتابیں بریلی مطبع اہلسنت وجماعت کے پتے سے مولوی حکیم حسین رضا خان صاحب سلمہ سے مل سکتی ہیں۔المعتمد المستند عربی زبان مـیں ۲۳۲ صفحہ مـیں ہے قیمت (عہ)________ تمہید ایمان بآیـات قرآن مـیں صرف آیـاتِ قرآنیہ سے بتایـا ہے کہ ایمان کے یہ معنی ہیں اللہ ورسول( جل وعلا وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) کی تعظیم ومحبت ایسی ہوتو مسلمان ہے اللہ ورسول (جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کو گالیـاں دینا کفر ہے۔ ایسوں کے کفر مـیں جو خود یہ لوگ اور آج کل کے بعض آزاد خیـال والے حیلے حوالے نکالتے ہیں نہایت سلیس ومہذب بیـان مـیں قرآن مجید سے ان کا جواب ہے، یہ وہ کتاب ہے جس کا دیکھنا ہر مسلمان کو نہایت ضروری ہے ۔حسام الحرمـین مـیں اکابر علمائے حرمـین شریفین کی مُہری تصدیقات وفتاوٰی ہیں جن مـیں اُن دشنام دہندوں کا حکم شرعی مدلل ہے اُس کا مطالعہ پکا مسلمان بناتا ہے دونوں کا مجموعہ ۱۵ جز ہے ۔ہدیہ ۱۰۔ اور یکم محرم ۱۳۲۸ھ سے ۱۲ربیع الاول تک آٹھ ہی آنے (۸۔)ظفر الدین الجید وظفر الدین الطیب۔ اُن دشنامـیوں کے فرار اور عیـاریوں کے اظہار مـیں۔ حجم سواد وجزقیمت (۱۔) مسلمان اپنا دینی فائدہ حاصل کریں وباللہ التوفیق ۱۲ سید عبدالرحمن عفا عنہ ۲ محرم الحرام ۱۳۲۸ھ۔ م

فـــ:ان نفیس اسلامـی کتابوں کے نام جن سے ایمان تازہ ہو اور مرتدوں کی چالاکیوں کا حال کھلے ۔

 (۱۱) ناخن سے کُہنی تک اپنے ہاتھ کا کوئی حصّہ اگرچہ کھُجانے مـیں اگرچہ بھُولے سے بلا حائل اپنے ذَکر کو لگ جانا۔
(۱۲) ہتھیلی یـای اُنگلی کا پیٹ اپنے یـا پرائے ستر غلیظ یعنی ذَکر یـا فرج یـا دُبر کو بے حائل چھُو جانا اگرچہ وہ دوسرا آدمـی کتنا ہی چھوٹا بچّہ یـا مردہ ہو۔
(۱۳) نامحرم عورت کےی حصہ جلد سے اپنا کوئی حصہ جلد بے حائل چھُو جانا اگرچہ اپنی زوجہ ہو اگرچہ عورت مُردہ یـا بڑھیـا ہو اگرچہ نہ قصد ہو نہ شہوت چاہے لذت نہ پائے جبکہ وہ عورت بہت صغیرہ چار پانچ برس کی بچّی نہ ہو۔
(۱۴) اگر اُس چھُو جانے سے لذت آئی تو نامحرم کی بھی قید نہیں نہ جِلد کی خصوصیت نہ بے حائل کی ضرورت مثلاً رقیق یـامتوسط حائل کے اوپر سے اپنی بہن یـا بیٹی کے بال سے مس ہوجانے پر اتفاقا لذت کا آجانا جبکہ عورت قابلِ لذت ہو اور حائل بہت بھاری مثل رضائی وغیرہ کے نہ ہو۔

 (۱۵) نامحرم عورت قابلِ لذت کو بقصدِ شہوت چھُوجانا اگرچہ حائل کتنا ہی بھاری ہو اگرچہ اپنی زوجہ ہو اگرچہ لذت نہ پائے مثلاً لحاف کے اوپر سے اُس کے بالوں پر ہاتھ رکھنا، اور ان کے سوا اور بہت صورتیں ہیں اور ایک اصل کُلی یہ ہے کہ جس بات سےی اور امام مجتہد کے مذہب مـیں وضو جاتا رہتا ہے اُس کے وقوع سے ہمارے مذہب مـیں اعادہ وضو مستحب ہے

درمختار مـیں ہے: الوضوء مندوب فی نیف وثلثین موضعا ذکرتھا فی الخزائن منھا بعد کذب وغیبۃ وقہقہۃ و شعر واکل جزور وبعد کل خطیئۃ وللخروج من خلاف العلماء ۱؎ اھ

وضوتیس۳۰ سے زیـادہ مقامات مـیں مستحب ہے، ان سب کا ذکر مـیں نے خزائن مـیں کیـا ہے۔ اُن مـیں سے چند یہ ہیں جھُوٹ، غیبت، قہقہہ، شعر ، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد اور ہر گناہ کے بعد اور اختلافِ علماء سے نکلنے کیلئے اھ۔ (ت)

 ( ۱؎الدرالمختار     کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۷و۱۸ )

اقول والحقت النمـیمۃ لانھا کالغیبۃ اواشد ثم رأیتھا فی مـیزان الامام الشعرانی وغیرہ والحقت الفحش لانہ اخنأمن الشعر وربما یدخل فی قولہ خطیئۃ والشتم لانہ اخبث واخنع ثم رأیت التصریح بہ فی انوار الشافعیۃ۔

اقول مـیں نے چغلی کو بھی شامل کیـا اس لئے کہ وہ غیبت ہی کی طرح ہے یـا اس سے بھی سخت پھر مـیں نے مـیزان امام شعرانی وغیرہ مـیں اس کا ذکر دیکھا اور فحش کو مـیں نے شامل کیـا اس لئے کہ وہ شعر سے زیـادہ برا ہے اور یہ درون مختار کے لفظ ہر گناہ کے تحت آسکتا ہے ۔ اور گالی دینے کواس لئے کہ یہ اور بد تر اور فحش تر ہے پھر انوار شافعیہ مـیں مـیں نے اس کی تصریح دیکھی۔ ( ت)

ردّالمحتار مـیں ہے: منھا لغضب ونظر لمحاسن امرأۃ وبعد کذب وغیبۃ لانھما من نجاسات فــ المعنویۃ ولذا یخرج من الکاذب نتن یتبا عدمنہ الملک الحافظ کما ورد فی الحدیث وکذا اخبر صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن ریح منتنۃ بانھا ریح الذین یغتابون الناس والمؤمنین ولالف ذالک منا وامتلاء انوفنا منہا لا تطہر لنا کا لساکن فی محلہ الدباغین وقہقہۃ لانہالما کانت فی الصلٰوۃ جنایۃ تنقض الوضوء اوجبت نقصان الطہارۃ خارجا فکان الوضوء منہا مستحباکما ذکرہ سیدی عبد الغنی النابلسی فی نہایۃ المراد علٰی ھدیۃ ابن العمادو شعر ای قبیح للخروج من خلاف العلماء کمس ذکرہ وامرأۃ اھ۱؎

ان اسباب مـیں چند یہ ہیں غصہ آنا ،ی عورت کے حسن پر نظر ، اور جھوٹ اور غیبت کے بعد، اس لئے کہ یہ دونوں معنوی نجاستیں ہیں، اس لئے جھُوٹ بولنے والے سے ایسی بد بو اٹھتی ہے جس سے محافظ فرشتہ دُور ہٹ جاتا ہے جیسا کہ حدیث مـیں ہے، اسی طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بد بو سے متعلق بتایـا کہ یہ ان کی بد بو ہے جولوگوں کی اور مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں چونکہ ہمـیں ان سے الفت ہوگئی ہے اور ہماری ناکیں ان سے بھری ہوئی ہیں اس لئے یہ ہمـیں محسوس نہیں ہوتی جیسے چمڑا پکانے والوں کے محلے مـیں رہنے والوں کا حال ہوتا ہے اور قہقہہ اس لئے کہ جب اندرون نماز ایساجرم ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو بیرون نماز اس سے وضو مـیں نقص آجا ئے گا اس لئے اس سے وضو مستحب ہواجیسا کہ سیدی عبد الغنی نابلسی نے ''نہایۃ المراد علی ہدیۃ ابن ا لعماد مـیں ذکر کیـا ہے ۔ اور شعر یعنی برا شعر ،اپنے ذکر یـای عورت کا چھو جانا اھ ملتقطا(ت)

 ( ۱؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     دار احیـا ء التراث العربی بیروت    ۱ /۶۱ )

فـــ: جھوٹ اور غیبت معنوی نجاست ہیں ولہٰذا جھوٹے کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ حفاظت کے فرشتے اُس وقت اُس کے پاس سے دُور ہٹ جاتے ہیں جیسا کہ حدیث مـیں وارد ہوا ہے اور اسی طرح ایک بدبو کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ یہ اُن کے منہ کی سٹراند ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں اور ہمـیں جو جھوٹ یـا غیبت کی بدبُو محسوس نہیں ہوتی اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُس سے مالوف ہوگئے ہماری ناکیں اُس سے بھری ہوئی ہیں جیسے چمڑا پکانے والوں کے محلہ مـیں جو رہتا ہے اُس کی بدبُو سے ایذا نہیں ہوتی دوسرا آئے تو اُس سے ناک نہ رکھی جائے انتہی

مسلمان اس نفیس فائدے کو یـاد رکھیں اور اپنے رب سے ڈریں جھوٹ اور غیبت ترک کریں کیـا معاذ اللہ منہ سے پاخانہ نکلنای کو پسند ہوگا باطن کی ناک کھلے تو معلوم ہو کہ جھوٹ اور غیبت مـیں پاخانے سے بدتر سڑاند ہو۔ رہیں وہ حدیثیں جن کی طرف علامہ شامـی نے اشارہ کیـا۔ جامع ترمذی بسند حسن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

اذا کذب العبد کذبۃ تباعد الملک عنہ مسیرۃ مـیل من نتن ماجاء بہ ۱؎رواہ ابن ابی الدنیـا فی کتاب الصمت وابونعیم فی حلیۃ الاولیـاء ۲؎عنہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔ جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے اُس کی بدبو کے باعث فرشتہ ایک مـیل مسافت تک اُس سے دُور ہوجاتا ہے۔ کتاب الصمت مـیں ابن ابی الدنیـا اور ابو نعیم نے حلیۃ الاولیـاء مـیں روایت کیـا عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 (۱؎ سنن الترمذی کتاب البر والصلۃ حدیث۱۹۷۹    دار الفکر بیروت    ۳ /۳۹۲)
( ۲؎حلیۃ الاولیـاء ترجمہ عبد العزیز بن ابی رواد ۴۰۰حدیث ۱۱۹۱۸دار الکتب العلمـیہ بیروت ۸ /۲۱۴)

امام احمد بسند صحیح جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ہم خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مـیں حاضر تھے کہ ایک بدبو اُٹھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایـا:

اتدرون ماھذہ الریح ھذہ ریح الذین یغتابون المومنین ورواہ ابن ابی الدنیـا فی کتاب ذم الغیبت عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ غفرلہ (م) جانتے ہو کہ یہ بدبو کیـا ہے،یہ ان کی بدبو ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں،(اس کو ابن الدنیـا نے کتاب ذم الغیبت مـیں روایت کیـا ہے، اللہ ان سے راضی ہو ۱۲ منہ غفرلہ۔ ت)

 (۲؎مسند احمد بن حمبل عن جابر بن عبداللہ المکتب ا لاسلامـی بیروت۳ /۳۵۱ )
مـیزان امام شعرانی قدس سرہ الربانی مـیں ہے: سمعت سیدی علیـا الخواص رحمہ اللّٰہ تعالٰی یقول وجہ من نقض الطہارۃ بالقہقہۃ اونوم الممکن فــ ۱ ۃ اومس فــ ۲الابط الذی فیہ صنان اومس فــ ۳ ابرص اوجذم اوکافر اوصلیب فــ ۴او غیر ذلک مماوردت فیہ الاخبار الاخذ بالاحتیـاط قال وجمـیع النواقض متولدۃ من الاکل ولیس لنا ناقض من غیر الاکل ابدا فلولا الاکل والشرب مااشتھینا لمس النساء ولا تکلمنا بغیبۃ ولا نمـیمۃ اھ بالا لتقاط ۲؎۔

مـیں نے سیدی علی الخواص کو فرماتے سنا قہقہہ سے طہارت ٹوٹ جاتی ہے، اسی طرح وہ نیند جس مـیں زمـین سے لگی ہو، بغل کو کھجانا جس مـیں بدبو ہو، برص والے کو یـا جذامـی کو یـا کافر کو چھُونے سے یـا صلیب کو چھونے سے، اس کے علاوہ اور دوسری اشیـاء جن کے بارے مـیں احادیث وارد ہیں، احتیـاط کے طور پر۔ فرمایـا تمام نواقض وضو کھانے سے پیدا ہونے والے ہیں،اور ہمارے لئے غیر اکل سے کوئی ناقض نہیں اگر کھانا پینا نہ ہوتا توعورتوں کے چھونے کی ہم مـیں شہوت بھی نہ ہوتی نہ ہی غیبت وچغلی ہماری زبان پر آتی اھ بالالتقاط۔ (ت)

 (۱؎ مـیزان الشریعۃ الکبری     با ب اسباب الحد ث         دارا لکتب العلمـیہ بیروت     ۱ /۱۴۵ )

فــ ۱ مسئلہ سوتے مـیں دونوں سرین زمـین پر جمے ہوں تو وضو نہیں جاتا مگر اعادہ وضو مستحب جب بھی ہے۔
فــ ۲: مسئلہ بغل کھجانے سے وضو مستحب ہے جبکہ اس مـیں بد بو ہو ۔
فــ ۳مسئلہ جزامـی یـا برص والے سے مس کرنے مـیں بھی تجدید وضو  مستحب ہے۔
فــ ۴: مسئلہ صلیب جسے نصاری پوجتے ہیں اور ہنود کے بت وغیرہ کے چھونے سے بھی نیـا وضو چاہیے ۔

کتاب الانوار امام یوسف اردبیلی مـیں ہے: لاینقض بالکذب والشتم والغیبۃ والنمـیمۃ ویستحب فی الکل للخلاف ۲؎ جھُوٹ، گالی دینے ، غیبت، چغلی سے وضو نہیں ٹوٹتا اور مستحب ان سب مـیں ہے کیوں کہ محل اختلاف ہے ۔(ت)

 (۲؎الانوار لاعمال الابرار     کتاب الطہارۃ     فصل اسبا ب الحدث         مطبع جمالیہ مصر ۱ /۲۹)

فتح العین بشرح قرۃ العین للعلامۃ زین الشافعی تلمـیذ ابن حجر المکی مـیں ہے: یندب الوضوء من لمس یھودی ونظر بشھوۃ ولوالی محرم وتلفظ بمعصیۃ وغضب ۱؎۔ یہودی کو چھو جانے ، شہوت سے نظر کرنے اگرچہ محرم ہی کی طرف ہو ۔۔ معصیت کی بات زبان پر لانے اور غصہ سے وضو مستحب ہے ۔

 (۱؎ فتح المعین شرح قرۃ العین بیـان نواقض الوضو ء عامر الاسلام پور پریس کیبرص ص ۲۴و۲۵ )

رحمۃ الامہ فی اختلاف الائمہ مـیں ہے: اتفقوا علی ان من مس فرجہ بعضو غیریدہ لاینتقض وضوؤہ واختلفوا فیمن مس ذکرہ بیدہ فقال ابو حنیفۃ لامطلقا والشافعی ینتقض بالمس بباطن کفہ دون ظاھرہ من غیر حائل بشھوۃ اوبغیرھا والمشہور عند احمد انہ ینتقض بباطن کفہ وبظاھرہ ۲؎۔

اس پر اتفاق ہے کہ جو اپنی شرمگاہ ہاتھ کے علاوہی اور عضو سے چھودے اس کا وضو نہ ٹوٹے گا، اور اس کے بارے مـیں اختلاف ہے جس نے اپنا ذَکر اپنے ہاتھ سے چھو دیـا امام ابو حنیفہ نے فرمایـا : مطلقا نہ ٹوٹے گا، اور امام شافعی نے فرمایـا پشت دست سے چھو دے تو نہ ٹوٹے گا اور اگر ہتھیلی کے پیٹ سے بغیری حائل کے شہوت کے ساتھ یـا بلا شہوت چھو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔(ت) اور امام احمد کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ ہتھیلی کے باطن وظاہری طرف سے بھی چھو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔(ت)

 (۲؎ رحمۃ الامۃ فی اختلاف الائمۃ         باب اسبا ب الوضوء         دولۃ قطرص ۱۳)

مـیزان مـیں ہے: وجہ من نقض الطہارۃ بلمس الذکر بظھر الکف اوبالید الی المر فق فھو الاحتیـاط لکون الید تطلق علی ذلک کما فی حدیث اذا افضی احدکم بیدہ الی فرجہ ولیس بینھما ستر ولا حجاب فلیتوضأ ۳؎۔

ہتھیلی کی پشت سے یـا کہنی تک ہاتھ کےی حصے سے وضو ٹوٹنے کی وجہ احتیـاط کو بتایـا گیـا ہے اس لئے کہ ہاتھ کا اطلاق اس پر ہو که تا ہے جیسا کہ حدیث مـیں ہے :جب تم مـیں کوئی اپنا ہاتھ اپنی شرمگاہ تک پہنچادے اور دونوں مـیں کوئی پردہ اور حائل نہ رہ جائے تو وہ وضو کرے ۔(ت)

 (۳؎ مـیزان الشعریعۃ     باب اسباب الحدث    دار الکتب العلمـیہ بیروت     ۱ /۱۴۲)

انوار ائمہ شافعیہ مـیں ہے: اسباب الحدث اربعۃ الرابع مس فرج ادمـی بالراحۃ اوبطن اصبع قبلا کان اودبرا ناسیـا اوعامدا من ذکر اوانثی صغیر اوکبیرحی اومـیت من نفسہ اوغیرہ ولومس برؤس الاصابع اوبما بینھا مما لایلی بطن الکف اوبحروف الکفین اومس انثییہ اوالیتیہ اوعجانہ اوعانتہ لم ینتقض۔۱؎

حدث کے چار اسباب ہیں چوتھای انسان کی شرمگاہ کا مس ہوجانا ہتھیلی سے یـا انگلی کے پیٹ سے ، آگے کی شرمگاہ ہو یـا پیچھے کی ، بھول کر ہو یـا قصدا مرد کی ہو یـا عورت کی ، چھوٹا ہو یـا بڑا ، زندہ یـا مردہ اپنی شرمگاہ ہویـا دوسرے کی اور اگر انگلیوں کے سروں سے مس ہو جائے یـا انگلیوں کے ان درمـیانی حصوں سے جو بطن کف سے ملے ہوئے نہیں ہیں ،یـا ہتھیلیوں کے کناروں سے مس ہو یـا انثیین کو یـا سرینوں کو یـا خصیتین اور دبرکے درمـیان کے حصے کو یـا پیڑو کو چھو دے تو وضو نہ ٹوٹے گا (ت)

 (۱؎الانوار لاعمال الابرار     کتاب الطہارۃ     فصل اسبا ب الحدث         مطبع جمالیہ مصر ۱ /۳۱)

اُسی مـیں ہے: الثالث لمس بشرۃ المرأۃ الکبیرۃ الاجنبیۃ بلا حائل فان لمس شعرا اوسنا اوظفرا اوبالشعر اوالسن اوالظفر اوصغیرۃ لاتشتھی اومحرما بنسب اورضاع اومصاھرۃ اوکبیرۃ اجنبیۃ مع حائل وان رق ولو بشھوۃ لم ینتقض ولو لمس امراتہ اوامتہ اومـیتۃ اوعجوزۃ فانیۃ اوبلا شھوۃ اوبلا قصد انتقض واذا کانت المرأۃ فوق سبع سنین فلا شک فی انتقاض الوضوء بلمسھا واما اذا کانت دون ست سنین فاصحابنا خرجوا علی قولین المذھب انہ لاینتقض۱؎

تیسرا اجنبی قابل شہوت عورت کی جلد کا بغیر حائل چھو جانا اگر بال یـا دانت یـا ناخن کو مس یـا بال یـا دانت یـا ناخن سے مس کیـا یـا عورت اتنی چھوٹی ہے کہ قابل شہوت نہیں ، یـا نسب یـا رضاعت یـا مصاہرتی سبب سے وہ محرم ہے یـا بڑی اجنبیہ ہے مگر کوئی حا ئل درمـیان ہے اگرچہ باریک ہوا گرچہ شہوت کے ساتھ ہو تو وضو نہ ٹوٹے گا اور اگر اپنی بیوی یـا باندی یـا مری ہوئی یـا فانیہ بڑھیـا کو مس کیـا تو وضو ٹوٹ جا ئے گا اور جب سات سال سے زیـادہ کی ہو تو اس کے چھونے سے وضوٹوٹنے مـیں کوئی شک نہیں اور اگر چھ سال سے کم کی ہو تو یہاں ہمارے اصحاب کے دو قول ہیں مذہب یہ ہے کہ وضو نہ ٹوٹے گا

 (۱؎الانوار لاعمال الابرار     کتاب الطہارۃ     فصل اسبا ب الحدث         مطبع جمالیہ مصر ۱ /۳۱)

عشماویہ اور اس کی شرح جواہر زکیۃ العلامۃ احمد المالکی مـیں ہے:  (و) ینتقض الوضوء( بلمس) اجنبیۃ یلتذ بمثلھا عادۃ ولو ظفرھا اوشعرھا اوفوق حائل خفیف قیل والکثیف (وان لم یقصد اللذۃ ولم یجدھا فلا وضوء علیہ ۲؎

ایسی اجنبیہ جوعادتا قابل لذت ہے اس کے چھو جانے سے وضو ٹوٹ جائے گا اگرچہ اس کے ناخن یـا بال ہی کو چھوئے یـا خفیف حائل کے اوپر سے چھوئے ایک قول ہے کہ دبیز کے اوپر سے بھی اور اگر لذت کا قصد نہیں نہ لذت پائی تو اس پر وضو نہیں ۔(ت)

 (۲؎ا لجواہر الزکیۃ شرح مقدمۃ العشماویۃ )

حاشیہ علامہ سِفطی مـیں ہے: قولہ لمس اجنبیۃ ھذا ضعیف والمعتمد ان وجود اللذۃ بالمحرم ناقض ولا فرق بین المحرم وغیرھا الافی القصد وحدہ بدون وجدان ففی الاجنبیۃ ناقض وفی المحرم غیر ناقض قولہ عادۃ ای عادۃ الناس لاالملتذ وحدہ فخرج بہ صغیرۃ لاتشتھی کبنت خمس وعجوز مسنۃ انقطع منھا ارب الرجال بالکلیۃ قولہ والکثیف قال الشیخ حاشیۃ ابی الحسن المعتمد ان الاقسام ثلثۃ خفیف جد اوکثیف لاجد اکالقباء وجدا کالطراحۃ فالاولان حکمھا النقض علی الراجح واما الاخیر فالنقض فی القصد دون الوجدان ۱؎۔

ان کا قول ''اجنبیہ کو مس کرنا '' یہ ضعیف ہے، معتمد یہ ہے کہ محرم سے لذت پائی گئی تو یہ بھی ناقض ہے اور محرم و نا محرم مـیں فرق یہ ہے کہ قصد لذت نہ ملے تو اجنبیہ مـیں ناقض ہے اور محرم مـیں ناقض نہیں ان کا قول ''عادۃ'' یعنی لوگوں کی عادت کے لحاظ سے ،صرف لذت پانے والے کی عاد ت مراد نہیں تو اس قید سے وہ صغیرہ خارج ہو گئی جو قابل شہوت نہیں جیسے پا نچ سال کی بچی اور وہ سن رسیدہ بڑھیـا جس سے مردوں کی خواہش با لکل منقطع ہو چکی۔۔ قولہ ''دبیز سے بھی ''شیخ نے حاشیہ ابو الحسن مـیں لکھا ہے کہ معتمد یہ ہے کہ تین قسمـیں ہیں : (۱)بہت خفیف (۲) دبیز جو بہت زیـادہ دبیز نہ ہو جیسے قبا (۳)اور بہت دبیز جیسے لحاف، تو پہلے دونوں کا حکم بر قول راجح یہ ہے کہ وضو ٹوٹ جائے گا اور اخیر مـیں یہ حکم ہے کہ قصد ہو تو وضو ٹوٹ جائے گاا ور اتفاقا لذت مل جانے سے نہ ٹوٹے گا ۔(ت)

 (۱؎ حاشیہ علامہ سفطی مقدمۃ العشماویۃ)

مستحب وضو اور بھی ہیں مگر یہاں وہی اکثر ذکر کئے جن کا وضو مـیں وقوع عادۃً بعید نہ ہو۔ ولہٰذا کفار کی وہ قسمـیں بیـان کرنی ہوئیں جو بغلط مدعی اسلام ہیں کہ ان مـیں بہتیرے نماز پڑھتے، وضو کرتے، مسجدوں مـیں آتے ہیں تو وضو کرتے ہیں ان سے بدن چھُوجانا بعید نہیں۔ یوں ہی کبھی وضو کرتے مـیں پانی کم ہوجاتا اور آدمـی اپنی کنیز یـا خادمہ یـا زوجہ وغیرہا سے مانگتا اور لینے مـیں ہاتھ سے ہاتھ لگ جاتا ہے وغیرہ ذلک۔ کامل احتیـاط والے کو ان مسائل پر اطلاع نہایت مناسب ہے۔ اب بے فصل نماز وغیرہ عبادات مقصودہ یـابے تبدل مجلس اعادہ وضو کی کراہت اگر ہوگی بھی تو وہاں کہ اعادہ کیلئے کوئی سبب خاص نہ ہو ورنہ بعد وجود سبب وہ بے وجہ نہیں کہ اسراف ہو۔ اور اگر مواضع خلاف مـیں نزاع عود بھی کرے کہ رعایت خلاف وہیں مستحب ہے کہ اپنے مذہب کا مکروہ نہ لازم آئے کما فی ردالمحتار وغیرہ تو پہلی نو دس صورتیں کہ گویـا حدث معنوی ونجاست باطنی مانی گئیں اثباتے وضو مـیں اُن کا وقوع کیـا نادر ہے اور شک فــ نہیں کہ دربارہ نقض ونقض وضو بعض وضو کا حکم ایک ہی ہے جس طرح وضوئے کامل پر کوئی ناقض طاری ہونے سے پورا وضو جاتا رہتا ہے اور خلال وضو مـیں اس کے وقوع سے جتنا وضو ہوچکا ہے اتنا ٹوٹ جاتا ہے یونہی یہ اشیـا جن سے طہارت ناقص وبے نور ہوجاتی ہے جب کامل وضو پر واقع ہوں تو پورے وضو کا اعادہ مستحب ہوگا اور اثنائے وضو مـیں ہوں تو جتنا کر چکا ہے اُس قدر کا۔ اور بہرحال یہ وضوئے آخر یـا وضو علی الوضو سے خارج نہ ہوگا کہ وضوئے اول متنقض نہ ہوا۔ اس تقریر پر نہ صرف یہی وجہ اخیر بلکہ تینوں وجہیں مندفع ہوگئیں وللہ الحمد۔

فــ : جن باتوں سے اعادہ وضو مستحب ہے جب وہ وضو کرتے مـیں واقع ہوں تو مستحب ہے کہ پھر سے وضو کرے۔

صورت ثانیہ : یعنی شک مـیں فقیر نے نہ دیکھا کہی کو شک ہوماسوا ملا علی قاری کے کہ انہوں نے شک کویکسر ساقط اللحاظ کیـا اور اس کے اعتبار کو وسوسہ کی طرف منجر مانا، مرقاۃ مـیں فرمایـا: قلت اما قولہ (ای قول الامام النسفی فی الکافی) لطمانینۃ القلب عند الشک ففیہ ان الشک بعد التثلیث لاوجہ لہ وان وقع بعدہ فلا نھایۃ لہ وھو الوسوسۃ ولھذا اخذ ابن المبارک بظاھرہ فقال لااٰمن اذا زاد علی الثلث انہ یـاثم وقال احمد واسحق لایزید یحتاط لدینہ قال ابن حجر ولقد شاھد نامن الموسوسین من یغسل یدہ فوق المئین وھو مع ذلک یعتقد ان حدثہ ھو الیقین قال واما قولہ (ای الامام النسفی) لانہ امر بترک مایریبہ ففیہ ان غسل المرۃ الاخری مما یر یبہ فینبغی ترکہ الی مالایریبہ وھو ماعینہ الشارع لیتخلص عن الریبۃ والوسو سۃ ۱؎ اھ

کافی مـیں امام نسفی کے قول ''شک کے وقت اطمـینان قلب کے لئے زیـادتی ''پر یہ کلام ہے کہ تین بار دھو لینے کے بعد شک کی کوئی وجہ نہیں اور اگر اس کے بعد بھی شک واقع ہوتو اس کی کوئی انتہا نہیں اور یہی وسوسہ ہے ۔ اسی لئے حضرت ابن مبارک نے ظاہر حدیث کواختیـار کرکے فرمایـا مجھے اندیشہ ہے کہ تین بار سے زیـادہ دھونے کی صور ت مـیں وہ گناہ گارہو ۔امام احمد واسحاق نے فرمایـا : تین پر زیـادتی وہی کرے گا جو جنون مـیں مبتلا ہو اس گمان کی وجہ سے کہ وہ اپنے دین مـیں احتیـاط سے کا م لے رہا ہے ۔۔۔ابن حجر نے فرمایـا : ہم نے ایسے وسوسہ زدہ بھی دیکھے  جو سو بار سے زیـادہ ہاتھ دھوکر بھی یہ سمجھتا ہے کہ اب بھی اس کا حدث یقینا باقی ہے مولانا علی قاری آگے لکھتے ہیں کہ امام نسفی کا یہ فرمانا کہ اسے شک کی حالت چھوڑ دینے کا حکم ہے تو اس پر یہ کلام ہے کہ ایک با ر اور دھونے سے بھی اسے شک ہی رہے گا تو اسے یہی چاہیے کہ اسے چھوڑ کر وہ اختیـار کرے جس سے شک نہ پیدا ہو اور یہ وہی ہے جسے شارحین نے متعین فرمایـا ہے تاکہ شک اور وسوسہ سے چھٹکارا پائے اھ (ت)

 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح    کتاب الطہارۃ تحت الحدیث۴۱۷ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۱۲۴)

اقول اولافــ۱ : شک کیلئے منشأ صحیح ہوتا ہے مثل سہو وغفلت بخلاف وسوسہ۔ اول بلا شبہ شرعا معتبر اور فقہ مـیں صدہا مسائل اُس پر متفرع۔ اگر اُسے ساقط اللحاظ کریں تو شک کا باب ہی مرتفع ہوجائے گا اور ایک جمِ غفیر مسائل واحکام سے جن پر اطباق واتفاق ائمہ ہے انکار کرنا ہوگا۔

فـــ ۱تطفل تاسع علی القاری ۔

ثانیـا حدیث فــ ۲ دع مایریبک الی مالایریبک کا صریح ارشاد طرح مشکوک واخذ متیقن ہے کہ مشکوک مـیں ریب ہے اور متیقن بلا ریب نہ یہ کہ شک کا کچھ لحاظ نہ کرو اور امر مشکوک ہی پر قانع رہ کر یہ مالا یریبک نہ ہوا بلکہ یریبک۔

فــ ۲ : تطفل عاشر علیہ ۔

ثالثا صحیح فــ ۳مسلم شریف مـیں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا شک احدکم فی صلاتہ فلا یدرکم صلی ثلثا اواربعا فلیطرح الشک ولیبن علی مااستیقن ثم یسجد سجدتین قبل ان یسلم فان کان یصلی خمسا شفعن لہ صلاتہ وان کان صلی تماما لاربع کانتا ترغیما للشیطٰن ۱؎۔

جب تم مـیںی کو اپنی نماز مـیں شک پڑے یہ نہ جانے کہ تین رکعتیں پڑھیں یـا چار تو جتنی بات مشکوک ہے اُسے چھوڑ دے اور جس قدر پر یقین ہے اس پر بنائے کار رکھے (یعنی صورت مذکورہ مـیں تین ہی رکعتیں سمجھے کہ اس قدر پر یقین ہے اور چوتھی مـیں شک ہے تو چارنہ سمجھے لہٰذا ایک رکعت اور پڑھ کر) سلام سے پہلے سجدہ سہو کرلے اب اگر واقع مـیں اس کی پانچ رکعتیں ہوئیں تو یہ دونوں سجدے (گویـا ایک رکعت کے قام مقام ہوکر) اس کی نماز کا دوگانہ پُورا کردیں گے (ایک رکعت اکیلی نہ رہےجو شرعاً باطل ہے بلکہ ان سجدوں سے مل کر ایک نفل دوگانہ جُدا گانہ ہوجائے گا) اور اگر واقع مـیں چار ہی ہوئیں تو یہ دونوں سجدے شیطان کی ذلّت وخواری ہوں گے (کہ اُس نے شک ڈال کر نماز باطل کرنی چاہی تھی اُس کی نہ چلی اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے نماز پوری کی پوری رہی)
یہ اس مطلب کا خاص جزئیہ خود حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشادِ مقدس سے ہے۔

فــ ۳: تطفل الحادی عشر علیہ ۔

 (۱؎ صحیح مسلم کتاب المساجد فصل من شک فی صلوٰۃ فلم یدرکم صلی الخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۲۱۱)

رابعا فــ ۱ مسند احمد مـیں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من صلی صلاۃ یشک فی النقصان فلیصل حتی یشک فی الزیـادۃ ۱؎۔ جسے نماز مـیں کامل وناقص کا شک ہو وہ اتنی پڑھے کہ کامل وزائد مـیں شک ہوجائے۔

فــ۱ تطفل الثانی عشر علیہ ۔

 (۱؎ مسند احمد بن حنبل حدیث عبد الرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامـی بیروت    ۱ /۱۹۵)

مثلاً تین اور چار مـیں شُبہ تھا تو یہ تمامـی ونقصان مـیں شک ہے اسے حکم ہے کہ ایک رکعت اور پڑھے اب چار اور پانچ مـیں شُبہ ہوجائے گا کہ تمامـی وزیـادت مـیں شک ہے۔ یہ حدیث سے تو اُس مطلب کی دوسری تصریح ہے ہی مگر دکھانا یہ ہے کہ اس کی شرح مـیں خود ملّا علی قاری فرماتے ہیں: لیبن علی الاقل المتیقن فان زیـادۃ الطاعۃ خیر من نقصانھا ۲؎۔ یعنی کم پر بنا رکھے جتنی یقینا ادا کی ہیں کہ اگر واقع مـیں کامل ہوچکی تھیں اور ایک رکعت بڑھ گئی تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک رکعت کم رہ جائے طاعت کی افزونی اس کی کمـی سے افضل ہے۔
معلوم نہیں یہ حکم وضو مـیں کیوں نہ جاری فرمایـا حالانکہ اس کی بیشی نماز مـیں رکعت بڑھا دینے کے برابر نہیں ہوسکتی۔

 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح     کتاب الصلوٰۃ باب السہو حدیث ۱۰۲۲ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۳ /۱۰۸)

خامسا وہ جوفــ۲ فرمایـا تثلیث کے بعد شک کی کوئی وجہ نہیں اس سے مراد علم الٰہی مـیں تثلیث ہولینا ہے یـا علم متوضی مـیں۔ برتقدیر ثانی بیشک شک کی کوئی وجہ نہیں مگر وہ ہرگز مراد نہیں کہ کلام شک مـیں ہے نہ علم مـیں۔ اور برتقدیر اول علم الٰہی شک عبد کا کیـا منافی۔ بندہ اُس پر مکلّف ہے جو اس کے علم مـیں ہے نہ اس پر جو علم الٰہی مـیں ہے جس کے علم کی طرف اسے کوئی سبیل نہیں۔

فــ ۲ تطفل الثالث عشر علیہ ۔

سادسا فــ ۳ معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غسل مـیں سرِ انور پر تین بار پانی ڈالتے اور اسی کا حکم مردوں عورتوں سب کو فرمایـا خاص عورتوں کے باب مـیں بھی یہی حکم بالتصریح ارشاد ہوا۔

فــ ۳ تطفل الرابع عشر علیہ ۔

صحیح مسلم وسنن اربعہ مـیں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے مـیں نے عرض کی: یـا رسول اللہ! مـیں سرگندھواتی ہوں کیـا نہاتے مـیں کھول دیـا کروں؟ فرمایـا: انما یکفیک ان تحثی علی رأسک ثلث حثیـات ۱؎۔ سر پر تین لپ پانی ڈال لیـا کرو یہی کافی ہے۔

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الحیض باب حکم ضفائر المغتسلۃ قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۰
سنن ترمذی     ابواب الطہارۃ باب ھل تنقض المرأۃ شعرہا عندالغسل حدیث ۱۰۵ دارلفکر بیروت ۱ /۱۶۰
سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃباب ما جاء فی غسل النساء من الجنابۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۴۵
سنن ابی داؤد ابواب الطہارۃ باب المرأۃ ھل تنقض شعرھا الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۳ )

آخر امر چہارم مـیں حدیث ابی داؤد ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے گزری کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا: اما المراۃ فلا علیھا ان لاتنقضہ لتغرف علی رأسھا ثلث غرفات بکفیھا۲؎۔ عورت کو کچھ ضرور نہیں کہ اپنا گُندھا سر کھولے،بس تین لَپ پانی ڈال لے۔

اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے طریقہ غسل مـیں روایت فرماتی ہیں: ثم یصب علی رأسہ ثلث غرفات بیدیہ ۳؎۔ رؤیـاہ عنہا رضی اللہ تعالی عنہا۔ پھر سر مبارک پر تین لپ ڈالتے تھے ۔

 (۲؎سنن ابی داؤد ابواب الطہارۃ باب المرأۃ ھل تنقض شعرھا الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۴ )
(۳؎ صحیح البخاری کتاب الغسل باب الوضوء  قبل الغسل قدیمـی کتب خانہ کراچی۱ /۳۹ )

اور خود اپنا فرماتی ہیں: لقد کنت اغتسل انا ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من اناء واحد وما ازید علی ان افرغ علی رأسی ثلث افراغات رواہ احمد ومسلم ۴؎۔

مـیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک برتن سے نہایـا کرتے اور مـیں اپنے سر پر تین ہی بار پانی ڈالتی یعنی جعد مبارک نہ کھولتیں۔ اسے احمد ومسلم نے روایت کیـا ت)

 (صحیح مسلم کتاب الحیض باب حکم ضفائر المغتسلۃ قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۰
مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا المکتب الاسلامـی بیروت ۶ /۴۳)

بااینہمہ ف۱ یہی ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: کان رسول اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یتوضأ وضؤہ للصلاۃ ثم یفیض علی رأسہ ثلث مرار ونحن نفیض علی رؤسنا خمسا من اجل للضفر ۱؎۔ رواہ ابو داؤد۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نماز کا سا وضو کرکے سرِ اقدس پر تین بار پانی بہاتے تھے اور ہم بیبیـاں سر گُندھے ہونے کی وجہ سے اپنے سروں پر پانچ بار پانی بہاتی ہیں۔(اس کو ابو داؤد نے روایت کیـا )
ابکہہ سکتا ہے کہ معاذ اللہ امہات المومنین کا یہ فعل وسوسہ تھا حاشا بلکہ وہی اطمـینان قلب جسے علماء کرام یہاں فرمارہے ہیں۔

فــ۱ مسئلہ عورت کے بال گندھے ہوں اور تین بار سر پر پانی بہانے سے تثلیث مـیں شبہ رہے تو پانچ بار بہا سکتی ہے

 (۱؎سنن ابی داؤدکتاب الطہارۃ باب فی الغسل من الجنابۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۲)

سابعا وھوفــ۲ الحل  : صورتیں تین ہیں :
اول  : یہ کہ متوضی جانتا ہے کہ مـیں نے تین بار دھو لیـا ،ہر بار بالاستیعاب ،پھر اُس کا دل مطمئن نہ ہو اور چوتھی بار اور بہانا چاہے۔
دوم : یـاد نہیں کہ تین بار پانی ڈالا یـا دو بار۔
سوم  : تثلیث تو معلوم ہے مگر ہر بار استیعاب مـیں شک ہے۔

فــ۲ :تطفل الخامس عشر علیہ۔

ملّا علی صورت اولٰی سمجھے ہیں جب تو فرماتے ہیں کہ تین پورے ہونے کے بعد شک کے کیـا معنے۔ اپنا شک چھوڑے اور جو عدد شارع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مقرر فرمایـا اُس پر قانع رہے۔ اس صورت پر اُن کا انکار بیشک صحیح ہے مگر یہ ہرگز مرادِ علماء نہیں، اُن کا کلام صورت شک مـیں ہے اور یہ صورت صورت علم ہے اور وسوسہ مردود دونا معتبر ہے۔ شک کی صورت دو۲ صورت اخیر ہیں وہی مرادِ ائمہ ہیں اور ان پر قاری کا کوئی اعتراض وارد نہیں ان مـیں طمانینت قلب ضرور مطلوبِ شرع ہے جن مـیں سے امہات المومنین کا پانچ بارپانی ڈالنا صورت اخیرہ ہے وباللہ التوفیق۔

بالجملہ : جس مسئلہ پر ہمارے علماء کے کلمات متظافر ہوں اپنے فہم سے اُس پر اعتراض آسان نہیں معترضین ہی کی لغزش نظر ثابت ہوتی ہے اگرچہ غنیہ وبحر وقاری جیسے ماہرین ہوں   والحمدللّٰہ رب العٰلمـین۔

تنبیہ۷ :  الحمدللہ کلام اپنے منتہی کو پہنچا اور اسراف کے معنے وصور نے بھی بروجہ کامل انکشاف پایـا اب بتوفیق اللہ تعالٰی تحقیق حکم کی طرف باگ پھیریں۔
اقول انصافاً چاروں قول مـیں کوئی ایسا نہیں ہے جسے مطروح وناقابل التفات سمجھئے۔
قول سوم کی عظمت تو محتاج بیـان نہیں ،بدائع وفتح وخلاصہ کی وقعت درکنار خود ظاہر الروایۃ مـیں محرر المذہب کا نص ہے

قول دوم کے ساتھ حلیہ وبحر کا اوجہ کہنا ہے کہ الفاظ فتوٰی سے ہے اور امام ابو زکریـا نووی کے استظہار پر نظر کیجئے تو گویـا اُسی پر اجماع کا پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اسراف سے نہی پر اجماعِ علماء نقل فرما کر نہی سے کراہت تنزیہ مراد ہونے کو اظہر بتایـا ۔

قول چہارم جسے علامہ شامـی نے خارج از مذہب گمان فرمایـا تھا اُس کی تحقیق سُن چکے اور یہ کہ وہی مختار درمختار(۱) ونہر الفائق(۲) ومفاد(۳) منتقی وجواہر(۴) الفتاوٰی وتبیین(۵) الحقائق ہے نیز زبدہ(۶) وحجہ(۷) سے مستفاد کہ ان مـیں بھی کراہت مطلق ہے ،جامع الرموز مـیں ہے: تکرہ الزیـادۃ عی الثلث کما فی الزبدۃ ۱؎۔ تین مرتبہ سے زیـادہ مکروہ ہے جیسا کہ زبدہ مـیں ہے۔ (ت)

 (۱؎جامع الرموز کتاب الطہارۃ سنن الوضوء مکتبہ اسلامـیہ گنبد قاموس ایران۱ /۳۵ )

ط    علی المراقی مـیں ہے: فی فتاوی الحجۃ یکرہ صب الماء فی الوضوء زیـادۃ علی العدد المسنون والقدر المعھود لماورد فی الخبر شرار امتی الذین یسرفون فی صب الماء ۲؎۔ فتاوی الحجہ مـیں ہے وضو مـیں تعدا د مسنون اور مقدا معہود سے زیـادہ پانی بہا نا مکروہ ہے اس لئے کہ حدیث مـیں آیـا ہے کہ مـیری امت کے برے لوگ وہ ہیں جو پانی بہانے مـیں اسراف کرتے ہیں

 ( ۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الطہارۃفصل فی المکروہات دار الکتب ا لعلمـیہ بیروت ص ۸۰)

بلکہ علامہ طحطاوی نے اُس پر اتفاق بتایـا قول دُر الاسراف فی الماء الجاری جائز لانہ غیر مضیع۳؎  (ماء جاری مـیں اسراف جائز ہے اس لئے کہ پانی ضائع نہیں جاتا (ت)

 (۳؎الدرا لمختار     کتاب الطہارۃ     سنن الوضو     مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۲)

پر لکھتے ہیں: ای لانہ یعود الیہ ثانیـا فلواخرج الماء خارجہ یکرہ اتفاقا ۱؎ اھ ومن الظاھر ان ھذہ الکراھۃ مذکورۃ فی مقابلۃ الجائز فتکون تحریمـیۃ۔

یعنی اس لئے کہ پانی اس مـیں دوبارہ لوٹ جائیگا اگر پانی نکال کر اس کے باہر گرائے تو بالاتفاق مکروہ ہے اھ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ مکروہ جائز کے مقابلہ مـیں مذکور ہے تو تحریمـی ہوگا(ت)

 ( ۱؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الطہارۃ سنن الوضوء     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۲)

اور ہماری تقریرات سابقہ سے اس کے دلائل کی قوت ظاہر ہاں قول اول بعض شافعیہ سے منقول تھا مگر علامہ محقق ابراہیم حلبی نے کتب مذہب سے غنیہ مـیں اُس پر جزم فرمایـا کما سمعت پھر علامہ ابراہیم حلبی وعلامہ سید احمد مصری نے حواشی دُر مـیں اُسی پر اعتماد کیـا اور اُس کے خلاف کو ضعیف بتایـا درمختار مـیں قول مذکور جواہر نقل فرمایـا: الاسراف فی الماء الجاری جائز ۲؎۔ بہتے پانی مـیں اسراف جائز ہے۔ (ت)

 (۲؎ الدرالمختار        کتاب الطہارت    سنن الوضوء مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۲)

علّامہ طحطاوی اُس پر فرماتے ہیں: ضعیف بل ھو مکروہ سواء کان فی وسط الماء اوفی ضفتہ حیث کان لغیر حاجۃ ۳؎ اھ حلبی

یہ قول ضعیف ہے بلکہ آب رواں مـیں بھی اسراف مکروہ ہے چاہے بیچ نہر مـیں ہو یـا کنارے ہو اس لئے کہ بلاضرورت ہے اھ حلبی (ت)

 ( ۳؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الطہارۃ سنن الوضوء     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۲)

نیز دونوں حاشیوں مـیں ہے: من المعلوم ان الاسراف مکروہ تحریما لاتنزیھا ۴؎۔ معلوم ہے کہ اسراف مکروہ تنزیہی نہیں تحریمـی ہے ۔ (ت)

 ( ۴؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الطہارۃ سنن الوضوء     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۷۲)

بلکہ شرح شرعۃ الاسلام مـیں ہے: ھو حرام وان کان فی شط النھر ۵؎ اسراف حرام ہے اگرچہ نہر کے کنارے پر ہو۔( ت) اور اُس کے ساتھ نص فــ۱ حدیث ہے۔

فــ۱ وضو مـیں ممانعت اسراف کی حدیثیں ۔

( ۵؎شرعۃ الاسلام شرح مفاتیح الجنان فصل فی تفضیل سنن الطہارۃ مکتبہ اسلامـیہ کوئٹہ ص۹۱)

حدیث۱: عــہ امام احمد بن حنبل وابن ماجہ وابو یعلی اور بیہقی شعب الایمان مـیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم مربسعد وھو یتوضأ فقال ماھذا السرف فقال افی الوضوء اسراف قال نعم وان کنت علی نھر جار ۱؎۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ پر گزرے وہ وضو کررہے تھے ارشاد فرمایـا: یہ اسراف کیسا؟ عرض کی: کیـا وضو مـیں اسراف ہے؟ فرمایـا: ہاں اگرچہ تم نہر رواں پر ہو۔ (ت)

عــہ :فتاوی حجہ سے ایک حدیث ابھی گزری کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مـیری امت کے بد لوگ ہیں جو پانی بہانے مـیں اسراف کرتے ہیں۔

( ۱؎ مسند احمد بن حنبل      عن عبد اللہ بن عمر و     المکتب الاسلامـی بیروت    ۲ /۲۲۱
سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی القصد فی الوضوء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۴)

اقول :  اتمام تقریب یہ کہ حدیث نے نہر جاری مـیں بھی اسراف ثابت فرمایـا اور اسراف شرع مـیں مذموم ہی ہو کر آیـا ہے۔ آیہ کریمہ لاتسرفوا انہ لایحب المسرفین۲؎  (اور اسراف نہ کرو اللہ مسرفین کو محبوب نہیں رکھتا۔ ت) مطلق ہے تو یہ اسراف بھی مذموم وممنوع ہی ہوگا بلکہ خود اسراف فی الوضوء مـیں بھی صیغہ نہی وارد اور نہی حقیقۃً مفید تحریم۔

حدیث۲: سنن ابن ماجہ مـیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے: رأی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم رجلا یتوضأ فقال لاتسرف لاتسرف ۳؎۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا فرمایـا اسراف نہ کر اسراف نہ کر۔

 ( ۲؎ القرآن الکریم         ۶ /۱۴۱ و۷ /۳۱)
(۳؎ سنن ابن ماجۃ ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی القصد فی الوضوء الخ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۴

حدیث۳ :سعید بن منصور سنن اور حاکم کُنٰی اور ابن عساکر تاریخ مـیں ابن شہاب زہری سے مرسلا راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا فرمایـا ! یـاعبداللّٰہ لاتسرف ۵؎  (اللہ کے بندے اسراف نہ کر۔ ت) انہوں نے عرض کی: یـانبی اللّٰہ وفی الوضوء اسراف قال نعم (زاد الاخیران) وفی کل شیئ اسراف ۱؎ یـا رسول اللہ! کیـا وضو مـیں بھی اسراف ہے؟ فرمایـا :ہاں اور ہر شے مـیں اسراف کودخل ہے۔

 (تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ابو عیسٰی الدمشقی ۹۰۸۱ دار احیـاء التراث العربی بیروت ۷۱ /۹۴
کنز العمال بحوالہ الحاکم فی الکنٰی و ابن عساکر عن الزہری مرسلا حدیث ۲۶۲۶۱ موسسۃ الرسالہ بیروت۹ /۳۲۷)

حدیث۴: مرسل یحیٰی بن ابی عمرو کہ بیـان معانی اسراف مـیں گزری : فی الوضوء اسراف وفی کل شیئ اسراف ۲؎ وضو مـیں اسراف ہے اور ہر شے مـیں اسراف ہے۔

 (۲؎کنز العمال بحوالہ یحیی بن ابی عمر الشیبانی حدیث ۲۶۲۴۸ موسسۃ الرسالہ بیروت۹ /۳۲۵ )

حدیث۵: ترمذی وابن ماجہ وحاکم حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان للوضوء شیطانا یقال لہ الولہان فاتقوا وسواس الماء ۳؎۔ بے شک وضو کیلئے ایک شیطان ہے جس کانام وَلَہان ہے تو پانی کے وسواس سے بچو۔

 (۳؎سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی کراھیۃ الاسراف حدیث ۵۷ دار الفکر بیروت۱ /۱۲۲
سنن ابن ماجہ ابواب الطہارت باب ما جاء فی القصد فی الوضوء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۴)

حدیث۶: مسند احمد وسنن ابی داؤد وابن ماجہ وصحیح ابن حبان ومستدرک حاکم مـیں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: انہ سیکون فی ھذہ الامۃ قوم یعتدون فی الطہور والدعاء ۴؎۔ بیشک عنقریب اس اُمت مـیں وہ لوگ ہوں گے کہ طہارت ودعاء مـیں حد سے بڑھیں گے۔

 (۴؎ سنن ابو داؤد کتاب الطہارۃ     باب الاسراف فی الوضوء     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۱۳
مشکوۃ المصابیح بحوالہ احمد و ابی داؤدوابن ماجہ کتاب الطہارت با ب سنن الوضو قدیمـی کتب خانہ کراچی ص ۴۷ )

اور اللہ عزوجل فرماتا ہے: ومن یتعد حدوداللّٰہ فقد ظلم نفسہ ۵؎۔ جو اللہ تعالٰی کی باندھی حدوں سے بڑھے بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیـا۔

 (۵؎ القرآن الکریم     ۶۵ /۱)

حدیث۷: ابو نعیم حلیہ مـیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: لاخیر فی صب الماء الکثیر فی الوضوء وانہ من الشیطان ۱؎۔ وضو مـیں بہت سا پانی بھپکانے مـیں کچھ خیر نہیں اور وہ شیطان کی طرف سے ہے۔

 ( ۱؎ کنز العمال     بحوالہ ابی نعیم عن انس حدیث ۲۶۲۶۰    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹ /۳۲۷)

نفی خیر اپنے فــ۱ معنی لغوی پر اگرچہ مباح سے بھی ممکن کہ جب طرفین برابر ہیں توی مـیں نہ خیر نہ شرو لہٰذا علامہ عمر نے نہرالفائق مـیں مسئلہ فــ۲ کراہت کلام بعد طلوع فجر که تا طلوع شمس وبعد نماز فــ۳ عشا مـیں فرمایـا: المراد مالیس بخیر وانما یتحقق فی کلام ھو عبادۃ اذالمباح لاخیر فیہ کما لااثم فیہ فیکرہ فی ھذہ الاوقات کلہا ۱؎ نقلہ السید ابو السعود فی فتح اللّٰہ المعین۔ مراد وہ کلام ہے جو خیر نہ ہو اور خیر کا تحقق اسی کلام مـیں ہوگا جو عبادت ہو اس لئے کہ مباح مـیں'' کوئی خیر نہیں'' جیسے اس مـیں '' کوئی گناہ نہیں تو مباح کلام بھی ان اوقات مـیں مکروہ ہوگا اسے سید ابو السعود نے فتح اللہ المعین مـیں نہر سے نقل کیـا(ت)

فــ۱: تحقیق مفاد لا خیر فیہ ۔
فــ۲ مسئلہ طلوع صبح صادق سے طلوع شمس تک دنیـاوی کلام مطلقا مکروہ ہے ۔
فــ۳ مسئلہ نماز عشاء پڑھنے کے بعد بے حاجت دنیـاوی باتوں مـیں اشتغال مکروہ ہے۔

 (النہر الفائق کتاب الصلوۃ قبیل باب الاذان قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۶۹
فتح المعین کتاب الصلوۃ قبیل باب الاذان ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۴۷)

اقول مگر نظرِ دقیقبخیر اور لاخیر فیہ مـیں فرق کرتی ہے مباح ضرور، نہ خیر نہ شر ،مگر اُس کے فعل پر مواخذہ نہیں ،اور مؤاخذہ نہ ہونا خود خیر کثیر ونفع عظیم ہے تو لاخیر فیہ وہیں اطلاق ہوگا جہاں شر حاصل ہو۔ فاصاب فــ۴ رحمہ اللّٰہ تعالی فی قولہ المراد مالیس بخیر وتسامح فی قولہ لاخیر فیہ فحق العبارۃ المباحبخیر کما انہبشر۔ صاحب النہر نے یہ تو ٹھیک فرمایـا کہ مراد مالیس بخیر (وہ جو خیر نہیں ) اور اس مـیں ان سے تسامح ہوا کہ المباح لا خیر فیہ (مباح مـیں کوئی خیر نہیں ) صحیح تعبیر یہ تھی کہ المباحبخیر کما انہبشر مباح اچھا نہیں جیسے کہ وہ برا بھی نہیں ۔(ت)

فــ۴: تطفل علی النہر ومن تبعہ ۔

ولہٰذا جبکہ ہدایہ مـیں فرمایـا: لاخیر فی السلم فی اللحم ۱؎  (گوشت مـیں بیع سلم بہتر نہیں۔ ت)

محقق علی الاطلاق نے فتح مـیں فرمایـا: ھذہ العبارۃ تاکید فی نفی الجواز ۲؎ ( یہ عبارت نفی جواز کی تاکید کرتی ہے۔ ت)

 ( ۱؎الہدایہ کتاب البیوع باب السلم مطبع یوسفی لکھنؤ۳ /۹۵)
( ۲؎ فتح القدیر کتاب البیوع باب السلم مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۶ /۲۱۵)

اقول رب عزوجل فرماتا ہے: لاخیر فی کثیر من نجوٰھم الا من امر بصدقۃ اومعروف اواصلاح بین الناس ۳؎۔ ان کے اکثر مشوروں مـیں کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے خیرات ،اچھی با ت ،یـا لوگوں مـیں صلح کرنے کا۔ (ت)

 (۳؎ القرآن الکریم۴ / ۱۱۴)

ہر معروف کو استثنا فرمالیـا اور ہر طاعت معروف ہے تو باقی نہ رہے مگر مباح یـا معاصی تو اگر لاخیر فیہ مباح کو بھی شامل ہوتا فی کثیر نہ فرماتے بلکہ فی شی من نجوٰھم لاجرم وہ معصیت کے ساتھ خاص ہے واللہ تعالٰی اعلم۔

حدیث۸ :حدیث صحیح جس کی طرف بارہا اشارہ گزرا احمد وسعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابو داؤد ونسائی وابن ماجہ وطحاوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ایک اعرابی نے خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم مـیں حاضر ہوکر وضو کو پوچھا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں وضو کر کے دکھایـا جس مـیں ہر عضو تین تین بار دھویـا پھر فرمایـا: ھکذا الوضوء فمن زاد علی ھذا اونقص فقد اساء وظلم اوظلم واساء ۴؎ ھذا لفظ د وقد اوردہ مطولا مع ذکر صفۃ الوضو۔ اسی طرح ہے وضو تو جس نے اس پر بڑھایـاگھٹایـا تویقینااس نے برا کیـااور ظلم کیـا۔۔یـا (فرمایـا ) ظلم کیـا اور برا کیـا ۔۔یہ ابوداؤ د کے الفاظ ہیں اور انہوں نے یہ حدیث طریقہ وضو کے بیـان کے ساتھ طویل ذکر کی ہے ۔

 ( ۴؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب الوضوء ثلثا آفتاب عالم پریس لاہور۱ /۱۸)

ومثلہ لفظ الامام الطحاوی ومقتصرا علی قولہ اساء وظلم من دون شک۱؎ اسی کے مثل امام طحاوی کے بھی الفاظ ہیں اور ان کی راویت مـیں بغیر شک صرف اتنا ہے کہ اس '' اس نے برا کیـا اور ظلم کیـا ''

ولفظ س وق فمن زاد علی ھذا فقد اساء وتعدی وظلم ۲؎ اور نسائی و ابن ماجہ کے الفاظ یہ ہیں : تو جس نے اس پر زیـادتی کی بہ تحقیق اس نے بر اکیـا اور حد سے بڑھا اور ظلم کیـا ۔

ولفظ سعید وابی بکر فمن زاد اونقص فقد تعدی وظلم ۳؎۔ سعید بن منصور اور ابوبکر بن شیبہ کے الفاظ یہ ہیں جس نے زیـادتی یـا کمـی کی تو یقینا وہ حد سے بڑھا اور ظلم کیـا ۔۔ (ت)

 ( ۱؎شرح معانی الاثار کتاب الطہارۃ با ب فرض الرجلین فی وضوء الصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۲)
(۲؎سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی قصد الوضوء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۴)
( ۳؎المصنف ابن ابی شیبۃ کتاب النہارۃ باب الوضوء کم ہو مرۃ حدیث ۵۸ دار الکتب العلمـیہ بیروت ۱ /۱۷)

(ان تمام روایـات کا حاصل یہ ہوا کہ ) وضو اس طرح ہے جس نے اس پر بڑھایـا یـا گھٹایـا اُس نے بُرا کیـا اور حد سے بڑھا اور ظلم کیـا۔ یہ تمام احادیث مطلق ہیں اور مذہب اول وچہارم کی مؤید بالجملہ ان مـیں کوئی مذہب مطر ودو مطروح نہیں لہٰذا راہ یہ ہے کہ بتوفیق الٰہی جانبِ توفیق چلئے۔

فاقول وباللہ فــ التوفیق وبہ الاصول الی ذری التحقیق : (تحقیق کی انتہاء تک پہنچنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ت) تقدیر شرعی سے زیـادہ پانی ڈالنا سہواً ہوگا یـا بحال شک یـا دیدہ ودانستہ۔

اول یہ کہ تین بار استیعاباً دھو لیـا اور یـاد رہا کہ دو ہی بار دھویـا ہے۔اور دوم یہ کہ مثلاً دو یـا تین مـیں شبہ ہوگیـا، یہ دونوں صورتیں یقینا ممانعت سے خارج ہیں۔ لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم رفع عن امتی الخطأ والنسیـان ۱؎ اس لئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشادہے مـیری اُمّت سے خطاء ونسیـان اٹھا لیـا گیـا ہے ۔ (ت)

 (۴؎ الجامع الصغیر حدیث ۴۴۶۱ دار الکتب العلمـیہ بیروت        ۲ /۲۷۳
کشف الخفاء حدیث ۱۳۹۱ دار الکتب العلمـیہ بیروت ۱ /۳۸۲
کشف الخفاء حدیث ۱۳۰۵ دار الکتب العلمـیہ بیروت ۱ /۳۶۰)

وقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم دع مایریبک ۲؎۔ اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو شک پیدا کرے اسے چھوڑ وہ لو جس مـیں شک نہ ہو ۔

 (۲؎الجامع الصغیر حدیث ۴۲۱۱تا ۴۲۱۴ دار الکتب العلمـیہ بیروت ۲ /۲۵۶و۲۵۷)

اور دیدہ ودانستہی غرض صحیح وجائز کیلئے ہوگا یـا غرض فاسد وممنوع کیلئے یـا محض بلا وجہ، برتقدیر اولی طرح اسراف نہیں ہوسکتا نہ اُس سے منع کی کوئی وجہ ،عام ازینکہ وہ غرض غرض مطلوب شرعی ہو جیسے منہ سے ازالہ بدبو یـا پان یـا چھالیہ کے ریزوں کا اخراج، یـا حسب بیـانات سابقہ وضو علی الوضو کی نیت یـا غرض صحیح جسمانی جیسے مـیل کا ازالہ یـا شدت گرما مـیں تحصیل برودت۔ تواب نہ رہیں مگر دو صورتیں اور یہی ان اقوالِ اربعہ مـیں زیر بحث ہیں تحقیق معنی اسراف مـیں ہمارا بیـان یـاد کیجئے یہ وہی دو قطب ہیں جن پر اُس کا فلک دورہ کرتا ہے اور یہ بھی اُسی تقریر پر نظر ڈالے سے واضح ہوگا کہ ان صورتوں مـیں کی اول یعنی غرض فاسد وناروا کیلئے تقدیر شرعی پر زیـادت مطلقا ممنوع وناجائز ہے اگرچہ پانی اصلا ضائع نہ ہو۔

قول اوّل کا یہی محمل ہے اور حق صریح بلکہ مجمع علیہ ہے اور اسی پر حمل کے لئے ہمارے علماء نے حدیث ہشتم کو صورت فساد اعتقاد پر محمول فرمایـا یعنی جبکہ جانے کہ تقدیر شرعی سے زیـادہ ہی مـیں سنّت حاصل ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس نیت فاسدہ سے نہر نہیں سمندر مـیں ایک چُلّو بلکہ ایک بوند زیـادہ ڈالنا اسراف وگناہ ناجائز ہوگا کہ اصل گناہ اُس نیت مـیں ہے ،گناہ کی نیت سے جو کچھ کرے گا سب گناہ ہوگا۔ رہی صورت اخیرہ کہ محض بلا وجہ زیـادت ہو، اوپر واضح ہولیـا کہ یہاں تحقیق اسراف وحصول ممانعت اضاعت پر موقوف ہے تو اس صورت مـیں دیکھنا ہوگا کہ پانی ضائع ہوا یـا نہیں، اگر ہوا مثلاً زمـین پر بہہ گیـا اوری مصرف مـیں کام نہ آیـا تو ضرور اسراف وناروا ہے۔ اور یہی محمل قول چہارم ہے اور یقینا صواب وصحیح بلکہ متفق علیہ ہےکہے گا کہ بیکار پانی ضائع کرنا جائز وروا ہے۔ باقی رہی ایک شکل کہ زیـادت ہو تو بلاوجہ مگر پانی ضائع نہ ہو۔ مثلاً بلا وجہ چوتھی بار پانی اس طرح ڈالے کہ نہر مـیں گرے یـای پیڑ کے تھالے مـیں جسے پانی کی حاجت ہے یـای برتن مـیں جس کا پانی اسپ وگاؤ وغیرہ جانوروں کو پلایـا جائے گا یـا گارا بنانے کیلئے تغار مـیں پڑے گا یـا زمـین ہی پرگرا مگر موسم گرما ہے چھڑکاؤ کی حاجت ہے یـا ہوا سے ریتا اڑتا ہے اس کے دبانے کی ضرورت ہے اور انہیں کے مثل اور اغراض صحیحہ جن کے سبب پانی ضائع نہ جائے۔ یہ غرضیں اگرچہ صحیح وروا ہیں، جن کی سبب اضاعت نہ ہوگی مگر اعضا پر یہ پانی مثلاً چوتھی بار ڈالنا محض بے وجہ ہی رہا کہ یہ غرضیں تو برتن مـیں ڈالنا یـا زمـین پر بہانا چاہتی ہیں عضو پر ڈال کر گرانے کو ان مـیں کیـا دخل تھا لاجرم وہ عبث محض رہا مگر پانی ضائع نہ ہوگیـا تو اسراف کی کوئی صورت متحقق نہ ہوئی اور اس کے ممنوع وناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں یہی قول دوم وسوم کا محمل ہے اور قطعا مقبول وبے خلل ہے بلکہ اتفاق واطباق کا محمل ہے۔ اب نہ باقی رہی مگر ان دونوں قولوں پر نظر وہ ایک مقدمہ کی تقدیم چاہتی ہے۔

فاقول وباللہ التوفیق فائدہ تحقیق فــ معنی وحکمِ عبث مـیں تتبع کلمات علماء  سے اس کی تعریف وجوہِ عدیدہ پر ملے گی۔ فــ : عبثے کہتے ہیں اور اس کا حکم کیـا ہے۔
(۱) جس فعل مـیں غرض غیر صحیح ہو وہ عبث ہے اور اصلا غرض نہ ہو تو سفہ۔ یہ تفسیر امام بدرالدین کردری کی ہے امام نسفی نے مستصفی پھر علامہ حلبی نے غنیہ مـیں اسی طرح اُن سے نقل فرما کر اس پر اعتماد کیـا اور محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر اور علامہ طرابلسی نے برہان شرح مواہب الرحمن اور دیگر شراح نے شروح ہدایہ وغیرہا مـیں اسی کو اختیـار فرمایـا غنیہ حلبیہ مـیں ہے:

فی المستصفی قال الامام بدر الدین یعنی الکردری العبث الفعل الذی فیہ غرض غیر صحیح والسفہ مالاغرض فیہ اصلا ۱؎۔ مستصفی مـیں ہے کہ امام بدرالدین عینی کردری نے فرمایـا:فرماتے ہیں عبث وہ فعل ہے جس مـیں کوئی غرض غیر صحیح ہو، اور سَفہ وہ ہے جس مـیں بالکل کوئی غرض نہ ہو ۔( ت)

 (۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی کراھیۃ الصلوۃ سہیل اکیڈمـی لاہور ص۳۴۹)

غنیہ شرنبلالیہ مـیں ہے: فی البرھان ھو فعل لغرض غیر صحیح ۱؎۔ برہا ن مـیں ہے وہ ایسا کا م ہے جو غرض غیر صحیح کے لئے ہو۔(ت)

 ( ۱؎ غنیۃ ذوی الاحکام حاشیۃ علی الدررالحکام باب ما یفسدالصلٰوۃ الخ مـیر محمد کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۷)

فتح مـیں ہے: العبث الفعل لغرض غیر صحیح ۲؎۔ عبث غرض غیر صحیح کے لئے کوئی کام کر نا ہے ۔ ت

 (۲؎فتح القدیر کتاب الصلوٰۃ فصل ویکرہ للمصلی الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۵۶ )

 (۲) جس مـیں غرض غیر شرعی ہو۔
اقول یہ اول سے اعم ہے کہ ہر غرض غیر صحیح غیر شرعی ہے اور ضرور نہیں کہ ہر غرض غیر شرعی غیر صحیح ہو جیسے ٹھنڈ کیلئے زیـادہ پانی ڈالنا کہ غرض صحیح ہے مگر شرعی نہیں۔ علّامہ اکمل اور اُن کی تبعیت سے حلیہ وبحر نے امام بدرالدین سے اسی طرح نقل کیـا عنایہ مـیں ہے: قال بدرالدین الکردری العبث الفعل الذی فیہ غرض لکنہبشرعی والسفہ مالا غرض فیہ اصلا ۳؎۔ بدرالدین کردری نے فرمایـا : عبث وہ کام ہے جس مـیں کوئی غرض تو ہولیکن شرعی نہ ہو اور سَفہ وہ ہے جس مـیں کوئی غرض ہی نہ ہو۔( ت)

 (۳العنایۃ شرح الہدایۃ علی ہامش فتح القدیر کتاب الصلوۃ الخ فصل ویکرہ للمصلی الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۵۶)

 (۳) جس مـیں غرض صحیح نہ ہو۔
اقول : یہ ان دونوں سے اعم ہے کہ اصلا عدم غرض کو بھی شامل اور ثانی سے اخص بھی کہ غرض غیر شرعی صحیح کو بھی شامل یہ تفسیر امام حمـید الدین کی ہے عنایہ مـیں بعد عبارت مذکور ہے : وقال حمـید الدین العبث کل عملفیہ غرض صحیح ۴؎ امام حمـید الدین نے فرمایـا:عبث ہر وہ کام ہے جس مـیں کوئی غرض صحیح نہ ہو۔

 (۴؎العنایۃ شرح الہدایۃ علی ہامش فتح القدیر کتاب الصلوۃ الخ فصل ویکرہ للمصلی الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۵۶)

مفردات راغب مـیں ہے: یقال لمالہ غرض صحیح عبث۔۵؎ عبث اسے کہا جاتا ہے جس مـیں کوئی غرض صحیح نہ ہو ۔( ت)

تفسیر رغائب الفرقان مـیں ہے: ھو الفعل الذی لاغایۃ لہ صحیحۃ ۱؎ عبث ایسا کام ہے جس کا کوئی صحیح مقصد نہ ہو۔ (ت)

 (۵؎ المفردات امام راغب    باب العین مع الباء         نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۳۲۲)
(۱؎ غرائب القرآن ورغائب الفرقان تحت الایۃ ۲۳ /۱۱۵    مصطفی البابی مصر        ۱۸ /۴۲)

 (۴) غرض شرعی نہ ہو۔
اقول یہ اول ثانی ثالث سب سے اعم مطلقا ہے کہ انتفائے غرض صحیح انتفائے غرض شرعی کو مستلزم ہے اور عنہیں اور انتفائے غرض شرعی انتفائے مطلق غرض سے بھی حاصل امام نسفی اپنی وافی کی شرح کافی مـیں فرماتے ہیں: العبث مالا غرض فیہ شرعا فانما کرہ لانہ غیر مفید ۲؎ عبث بلا ضرورت شرعی مکروہ ہے اس لئے کہ یہ بے فائدہ ہے۔ (ت)

 (۲؎ الکافی شرح الوافی )

 (۵) جس مـیں فاعل کیلئے کوئی غرض صحیح نہ ہو۔
اقول یہ ۱ و ۳ سے اعم عـــہ مطلقا ہے کہ ممکن کہ فعل غرض صحیح رکھتا ہو اور فاعل بے غرض یـا غرض صحیح کیلئے کرے اور ۲ و ۴ سے اعم من وجہ کہ غرض فاسد مـیں تینوں صادق اور غرض صحیح غیر شرعی مقصود فاعل ہے تو وہ دو صادق خامس منتفی اور غرض شرعی مـیں مقصود فاعل ہے تو بالعکس۔

عــہ: اور اگر قصد غلط بھی ملحوظ کر لیجئے کہ جس فعل کی غرض فاسد ہے یہ جہلا اس سے غرض صحیح کا قصد کرے تو ان دو سے بھی عام من وجہ ہوگا ۱۲منہ ۔

تعریفات السید مـیں ہے: وقیل مالیس فیہ غرض صحیح لفاعلہ ۳؎ اھ اور کہا گیـا کہ عبث وہ کام ہے جس مـیں کرنے والے کی کوئی غرض صحیح نہ ہو۔ (ت)

 (۳؎ التعریفات للسید الشریف باب العین انتشارات ناصر خسرو تہران ایران ص ۶۳)

اقول : اشارفــ الی ضعفہ وسیـاتیک ان شاء اللّٰہ تعالٰی انہ الحق۔

اقول  : حضرت سید نے اس کے ضعیف ہونے کا اشارہ دیـا اور اِن شاء اللہ تعالٰی آگے بیـان ہوگا کہ یہی تعریف حق ہے ۔ (ت)

فــ: تطفل علی العلامۃ الشریف ۔

(۶) بے فائدہ کام۔

بحرالرائق مـیں نہایہ امام سغناقی سے ہے : مالیس بمفید فھو العبث ۱؎ جو فائدہ مند نہ ہو وہ عبث ہے۔( ت)

(۱؎ بحرالرائق کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۲ /۱۹)

امام سیوطی کی درنثیر مـیں ہے: عبثا ای لالمنفعۃ ۲؎ عبث یعنی بے فائدہ ۔ (ت)

 (۲؎ درنثیر )

مراقی الفلاح مـیں ہے: العبث عمل لافائدۃ فیہ ولا حکمۃ تقتضیہ ۳؎ عبث وہ کام ہے جس مـیں نہ کوئی فائدہ ہو نہ کو ئی حکمت اس کی مقتضی ہو ۔ (ت)

(۳؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الصلوٰۃ فصل فی المکروہات دارالکتب العلمـیہ بیروت ص۳۴۵)

جلالین مـیں ہے:  عبثا لالحکمۃ ۴؎  (عبث بے حکمت۔ ت)

 (۴؎ جلالین    تحت الآیۃ ۲۳ /۱۱۵    النصف الثانی مطبع مجتبائی دہلی ص۲۹۱)

غنیہ مـیں ہے:  الفرقعۃ فعل لافائدۃ فیہ فکان کالعبث ۵؎

(انگلیـاں چٹخانا ایسا کام ہے جس مـیں کوئی فائدہ نہیں تو یہ عبث کی طرح ہوا ۔( ت)

(۵؎ غنیۃ المستملی    کراھیۃ الصلوٰۃ    سہیل اکیڈمـی لاہور        ص۳۴۹)

اقول : عبدالملک بن جریج تابعی نے کہ عبث کو باطل سے تفسیر کیـا اسی معنے کی طرف مشیر ہے: فان الشیئ اذا خلا عن الثمرۃ بطل (کیونکہ شے کا جب کوئی ثمرہ نہ ہو تو وہ باطل ہے۔ ت)

تفسیر ابن جریر مـیں اُن سے مروی: عبثا قال باطلا ۶؎(عَبث کے معنی مـیں کہا باطل ۔ ت)

( ۶؎ جامع البیـان( تفسیر ابن جریر)تحت الآیۃ ۲۳ /۵۱۱      دار احیـاء التراث العربی بیروت         ۱۸ /۷۹)

 (۷) جس مـیں فائدہ معتد بہانہ ہو۔
تاج العروس مـیں ہے: قیل العبث مالافائدۃ فیہ یعتد بھا ۱؎ کہا گیـا عَبث ایساکام ہے جس مـیں کوئی قابل لحاظ فائدہ نہ ہو۔( ت)

(۱؎ تاج العروس     باب الثا ء فصل العین دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۳۲)

اقول  : اسی طرف کلام علّامہ ابو السعود ناظر کہ ارشاد العقل مـیں فرمایـا: عبثا بغیر حکمۃ بالغۃ۲؎ اھ فافھم عبث جس مـیں کوئی حکمت بالغہ نہ ہو اھ تو اسے سمجھو ۔ (ت)

(۲؎ ارشاد العقل السلیم     تحت الآیۃ     ۲۳  /۱۱۵ دار احیـاء التراث العربی بیروت        ۶  /۱۵۳)

(۸) اُس کام کے قابل فائدہ نہ ہو یعنی اُس مـیں جتنی محنت ہو نفع اس سے کم ہو۔

اقول : اسے ہفتم سے عموم وخصوص من وجہ ہے کہ اگر کام نہایت سہل ہوا جس مـیں کوئی محنت معتد بہا نہیں
تو فائدہ غیر معتمد بہا اُس کے قابل ہوگا اس تقدیرپر ہفتم صادق ہوگا نہ ہشتم اور اگر فائدہ فی نفسہا معتد بہا ہے مگر اُس کام کے لائق نہیں تو ہشتم صادق ہوگا نہ ہفتم۔

علّامہ شہاب کی عنایۃ القاضی مـیں ہے: العبث کاللعب ماخلا عن الفائدۃ مطلقا او عن الفائدۃ المعتد بھا اوعما یقاوم الفعل کما ذکرہ الاصولیون ۳؎۔

عبث لعب کی طرح کام ہے جس مـیں مطلقا کوئی فائدہ نہ ہویـا قابل لحاظ فائدہ نہ ہو یـا اس فعل کے مقابل فائدہ نہ ہو جیسا کہ اہل اصول نے ذکر کیـا۔ (ت)

(۴؎ عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی تحت الایۃ ۲۳ /۱۱۵    دار احیـاء التراث العربی بیروت        ۶ /۶۱۱)

اقول : مقابلہ مشعر مغایرت ہے یوں یہ قول اضعف الاقوال ہوگا کہ خاص مشقت طلب کاموں سے خاص رہے گا ہاں اگر معتدبہ سے معتدبہ بنظر فعل مراد لیں تو ہفتم وہشتم ایک ہوجائیں گے اور اعتراض نہ رہے گا اور کہہ سکتے ہیں کہ تغییر تعبیر مجوز مقابلہ ہے۔
(۹) وہ کام جس کا فائدہ معلوم نہ ہو۔
اقول اولا مراد عدم علم فاعل ہے تو حکیم کے دقیق کام جن کا فائدہ عام لوگوں کی فہم سے ورا ہو عبث نہیں ہوسکتے۔
ثانیـا حکمت وغایت مـیں فرق ہے احکام تعبدیہ غیر معقولۃ المعنی کی حکمت ہمـیں معلوم نہیں فائدہ معلوم ہے کہ الاسلام گردن نہادن۔

ثالثا :  عدم علم مستلزم عدم نہیں تو یہ تفسیر اُن تینوں سے اعم ہے۔تعریفات السید مـیں ہے: العبث ارتکاب امر غیر معلوم الفائدۃ ۱؎ عبث ایسے امر کا ارتکاب جس کا فائدہ معلوم نہ ہو ۔ (ت)

 ( ۱؎ التعریفات للسید الشریف         باب العین        انتشارات ناصر خسرو تہران ایران     ص۶۳)

اقول : مگر فــ۱ علم بے قصد کیـا مفید بلکہ اس کی شناعت اور مزید تو یہ حد جامع نہیں۔

فــ۱: تطفل اٰ خر علیہ ۔

 (۱۰) وہ کام جس سے فائدہ مقصود نہ ہوا قول یہ نہم سے بھی اعم کہ عدم علم عدم قصد کو مستلزم ولا عتاج العروس مـیں ہے: وقیل ما لایقصد بہ فائدۃ ۲؎ اھ اور کہا گیـا وہ جس سے کوئی فائدہ مقصود نہ ہو۔ اھ

 (۲؎ تاج العروس باب الثاء    فصل العین         دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۳۲)

اقول : اومافــ۲ الی تزیفہ وستسمع بعونہ تعالی انہ ھو الصحیح ۔ اقول : اس کی خامـی کا اشارہ دیـا اور بعونہ تعالٰی آگے واضع ہوگا کہ یہی تعریف صحیح ہے۔ (ت)

فــ۲ معروضۃ علی السید مرتضٰی ۔

 (۱۱) بے لذت کام عبث ہے اور لذّت ہو تو لعب۔جوہرہ نیرہ مـیں ہے: العبث کل فعل لالذۃ فیہ فاما الذی فیہ لذۃ فھو لعب ۳؎ عبث ہروہ کام جس مـیں کوئی لذت نہ ہو اور جس مـیں کوئی لذت  ہو وہ  لعب ہے۔ ت)

 (۳؎ الجوہرۃ النیرۃ     کتاب الصلوٰۃباب صفۃ الصلوٰۃ         مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱ /۷۴)

اقول : یہ فــ۳ اپنے اس ارسال پر بدیہی البطلان ہے نہ ہر بے لذت کام عبث جیسے دوائے تلخ پینا، نہ ہر لذت والا لعب جیسے درود شریف ونعت مقدس کا ورد۔ تو بعض تعریفات مذکورہ سے اُسے مقید کرنا لازم مثلاً یہ کہ جس فعل مـیں غرض صحیح نہ ہو۔

فــ۳ تطفل علی الجوھرۃ ۔

 (۱۲) عبث ولعب ایک شے ہیں۔ یہ تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے، اورکثرت اقوال بھی اسی طرف ہے۔ ابن جریر اُس جناب مشرف بہ تشریف اللھم علمہ الکتاب سے راوی تعبثون تلعبون ۴؎ تم عبث کرتے ہو یعنی کھیل کود کرتے ہو ۔ (ت)

 (۴؎ جامع البیـان ( تفسیر ابن جریر)    تحت الایۃ ۲۶ /۱۲۸      دار احیـاء التراث العربی بیروت ۱۹ /۱۱۱)

بعینہٖ اسی طرح اُن کے تلمـیذ ضحاک سے روایت کیـا۔ نہایہ اثیریہ ومختار الصحاح مـیں ہے: العبث اللعب ۱؎ عبث لعب ہے۔ (ت) اسی طرح سمـین وجمل مـیں ہے وسیـاتی مصباح المنیر وقاموس مـیں ہے: عبث کفرح لعب ۲؎  (عبث فرِ ح کی طرح ہے(یعنی باب سمع سے ہے )کھیل کا نام ہے۔(ت) تاج العروس مـیں ہے: عابث لاعب بمالا یعینہ ولیس من بالہ۳؎  (عابث ایسا کھیل کرنے والا جو بے معنی اور جس سے اسے کام نہیں ۔ (ت)

 (۱؎النہایہ فی غریب الحدیث والاثر باب العین مع الباء دار الکتب العلمـیہ بیروت ۳ /۱۵۴
مختار الصحاح        باب العین         موسسۃ علوم القرآن بیروت        ص۴۰۷)
۲؎القاموس المحیط    باب الثاء فصل العین     مصطفی البابی مصر    ۱ /۱۷۶
(۳؎ تاج العروس باب الثاء    فصل العین         دار احیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۳۲)

صراح مـیں ہے: عبث بازی ۴؎  (عبث ایک کھیل ہے ۔ت) درر شرح غرر مـیں ہے: عبثہ ای لعبہ ۵؎  (عبث یعنی لعب۔ ت) مفرداتِ راغب مـیں ہے: العبث ان یخلط بعملہ لعبا ۶؎ الخ عبث یہ ہے کہ اپنے کام مـیں کوئی کھیل ملا لے ۔ ت)

 (۴؎صراح باب الثاء فصل العین     مطبع مجیدی کانپور ۱ /۷۵)
(۵؎االدررالحکام فی شرح غرر الاحکام کتاب الصلوٰۃ باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا مـیر محمد کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۷ )
(۶؎المفردات باب العین مع الباء نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۳۲۲)

اقول  : وانما صار عبثا لما خلط لالذاتہ فالعبث حقیقۃ ماخلط لاما خلط بہ ۔

اقو ل وہ کام عبث اسی کھیل کی وجہ سے ہوا جو اس مـیں ملا دیـا خود عبث نہ ہوا تو عبث حقیقتا وہ ہے جس کو ملا یـا گیـاوہ نہیں جس مـیں ملایـا گیـا۔(ت) طحطاوی علی الدر مـیں ہے:

العبث اللعب وقیل مالا لذۃ فیہ واللعب مافیہ لذۃ ۷؎

عبث کھیل کو کہتے ہیں او ر کہاگیـاوہ جس مـیں کوئی لذت نہ ہو اور لعب وہ جس مـیں کوئی لذت ہو ۔( ت)

 (۷؎حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۲۷۰)

تفسیر ابن جریر مـیں ہے:  عبثا لعبا وباطلا ۱؎ عبث جولعب اورباطل ہے۔ (ت)

 (۱؎ جامع البیـان ( تفسیر ابن جریر)    تحت الایۃ۲۳/ ۱۵  دار احیـاء التراث العربی بیروت    ۱۸/ ۷۸)

یہ بارہ تعریفیں فــ۱ ہیں اور بعونہٖ تعالٰی بعد تنقیح سب کا مآل ایک اگرچہ ۹ و ۱۱ کی عبارات مـیں تقصیر واقع
ہوئی اس کی تحقیق چند امور سے ظاہر

فاقول وباللّٰہ التوفیق ، اولا :  لعب فــ۲ ولہو وہزل ولغو وباطل وعبث سب کا محصل متقارب ہے کہ بے ثمرہ نامفید ہونے کے گرد دورہ کرتا ہے۔

فــ۱:مصنف کی تحقیق کہ عبث کی بارہ تعریفو ں کا حاصل ایک ہے اوراس کی تعریف جامع مانع کا استخراج
فــ۲: لعب ولہوو ہزل وباطل وعبث متقارب المعنی ہیں ۔

نہایہ ابن اثیر مـیں ہے:  یقال لکل من عمل عملا لایجدی علیہ نفعا انما انت لاعب ۲؎

جو شخص کوئی ایساکام کرے جو اسے کو ئی فائدہ نہ دے اس سے کہا جاتا ہے کہ تم بس کھیل کرتے ہو۔ (ت)

( ۲؎ ا لنہایہ فی غریب الحدیث والاثر باب اللام مع العین دار الکتب العلمـیۃ بیروت۴ /۲۱۸)

علامہ خفاجی سے گزرا:  العبث کاللعب ماخلا عن الفائدۃ ۳؎

عبث لعب کی طرح ہے جوفائدہ سے خالی ہو ۔(ت)

(۳؎عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی تحت الآیۃ ۲۳ /۱۱۵ دار الکتب العلمـیۃ بیروت ۶ /۱۱۱ )

تعریفات علامہ شریف مـیں ہے: اللعب ھو فعل الصبیـان یعقب التعب من غیرفائدۃ ۴؎ اھ

لعب و ہ بچوں کا کام ہے جس کے بعد تکان آتی ہے اور فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔

(۴؎التعریفات للسید الشریف باب اللام انتشارات ناصر خسرو تہران ایران ص۸۳)

اقول : وتعقیب التعب خرج نظرا الی الغالب ولیس شرطا لازما کما لایخفی ۔

اقول : بعدمـیں تکان ہونے کا ذکر غالب واکثر کے لحاظ سے ہوا یہ لعب کی کوئی لازمـی شرط نہیں جیسا کہ واضح ہے۔(ت)
اصول امام فخر الاسلام بزدوی قدس سرّہ مـیں ہے:

اما الھزل فتفسیرہ اللعب وھو ان یراد بالشیئ مالم یوضع لہ وضدہ الجد ۱؎ ھزل کی تفسیر لعب ہے وہ یہ کہی شے سے وہ قصد کیـاجائے جس کے لئے اس کی وضع نہ ہوئی اس کی ضد ''جِدّ'' ہے ۔(ت)

 (۱؎ اصول البزدوی    فصل الہزل         نور محمد خانہ تجارت کتب کراچی     ص۳۴۷)

اُس کی شرح کشف الاسرار مـیں ہے:المراد من الوضع ھھنا وضع اللغۃ لاغیر بل وضع العقل اوالشرع فان الکلام موضوع عقلا لافادۃ معناہ حقیقۃ کان اومجاز اوالتصرف الشرعی موضوع لافادۃ حکمہ فاذا ارید بالکلام غیرموضوعہ العقلی وھو عدم افادۃ معناہ اصلا،ارید بالتصرف غیر موضوعہ الشرعی وھو عدم افادتہ الحکم اصلا فھو الھزل ولھذا فسرہ الشیخ باللعب اذاللعب مالا یفید فائدۃ اصلا وھو معنی مانقل عن الشیخ ابی منصور رحمہ اللّٰہ تعالٰی ان الھزل ما لا یراد بہ معنی۲؎

یہاں وضع سے صرف وضع لغت مراد نہیں۔ بلکہ وضع عقل یـا وضع شرعی بھی مراد ہے۔ اس لئے کہ عقلاً کلام کی وضع اس لئے ہے کہ اپنے معنی کاافادہ کرے خواہ وہ معنی حقیقی ہویـا مجازی۔ اورتصرف شرعی کی وضع اس لئے ہے کہ اپنے حکم کا افادہ کرے۔توجب کلام کامقصد وہ ہو جس کے لئے عقلاً اس کی وضع نہ ہوئی۔ وہ یہ کہ اپنے حکم کا بالکل کوئی فائدہ نہ دے۔ اور تصرف کا مقصد وہ ہو جس کے لئے شرعاً اس کی وضع نہ ہوئی۔۔۔۔۔وہ یہ کہ اپنے حکم کا بالکل کوئی فائدہ نہ دے۔۔۔۔۔۔ تو وہ ھزل ہے۔۔۔۔۔اسی لئے شیخ نے ھزل کی تفسیر لعب سے فرمائی اس لئے کہ لعب وہ ہے جوبالکل کوئی فائدہ نہ دے اور یہی اس کا مطلب ہے جو شیخ ابو منصور رحمہ اللہ تعالٰی سے منقول ہے کہ ہزل وہ ہے جس سے کوئی معنی مقصود نہ ہو۔(ت)

 (۲؎ کشف الاسرار    فصل الہزل        دارالکتاب العربی بیروت        ۴ /۳۵۷)

تو تفسیر ۶ و ۱۲ کا حاصل ایک ہے ولہٰذا مصباح مـیں عبث من باب تعب لعب وعمل مالافائدۃ فیہ۱ ؎ (عبث باب تعب(سمع) سے ہے اس کا معنی کھیل کیـا اور بے فائدہ کام کیـا ۔ت)

 (۱؎ مصباح المنیر کتاب العین تحت لفظ عبث منشورات دار الہجرۃ قم ایران     ۲ /۳۸۹ )

اور منتخب مـیں عبث بفتتحین بازی وبے فائدہ بطور عطفِ تفسیری لکھا۔
ثانیـا اقول : جس طرح عاقل سے کوئی فعل اختیـاری صادر نہ ہوگا جب تک تصّور بوجہ مَّا وتصدیق بفائدۃ مّا نہ ہو یونہی انسان کے ہوش وحواس جب تک حاضر ہیں بےی شغل کے نہیں رہتا خواہ عقلی ہو جیسےی قسم کا تصور یـا عملی جیسے جوارح سے کوئی حرکت توی قسم کا شغل ہو نفس کیلئے اُس مـیں اپنی عادت کا حصول اور اپنے مقتضی کا تیسر ہے اور یہ خود اُس کیلئے ایک نوع نفع ہے اگرچہ دین ودنیـا مـیں سوا ایک عادت بے معنے کی تحصیل کے اور کوئی ثمر ونفع اُس پر مترتّب نہ ہو یـابایں معنی کوئی فعل اختیـاری فاعل کیلئے اصلا فائدہ سے عاری محض نہ ہوگا ہاں یہ ممکن کہ وہ فائدہ قضیہ شرع بلکہ قضیہ عقل سلیم کے نزدیک بھی مثل لافائدہ محض غیر معتد بہا ہو بلکہ ممکن کہ اُس کا مآل ضرربحت ہو جیسے کفار کی عبادات شاقہ عاملۃ ناصبۃ o تصلٰی نارا حامـیۃ o عمل کریں مشقّت جھیلیں اور نتیجہ یہ کہ بھڑکتی آ گ مـیں غرق ہوں گے تو ۶ سے مقصود وہی ۷ ہے ۔

ثالثا: یہ بھی ظاہر کہ کوہ کندن وکاہ برآور دن ہر عاقل کے نزدیک حرکتِ عبث ہے تو مقدار فائدہ وفعل مـیں اگرچہ تساوی درکار نہیں تفاوت فاحش بھی نہ ہونا ضرور ۸ سے یہی مراد اور معتدبہ بنظر فعل ہونے سے یہی ہفتم کا مفاد۔ فائدہ کا فی نفسہا کوئی امر عظیم مہتم بالشان ہونا ہرگز ضرور نہیں بلکہ جیسا کام اُسی کے قابل فائدہ معتد بہا ہے وھـذا ما کنا اشـرنا الـیہ  (یہ وہ ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیـا۔ ت)

رابعا :لذتِ لعب شرع کریم وعقل سلیم کے نزدیک فائدہ معتد بہا نہیں جبکہ فـــــــ لہو مباح ہو اور تعب کے بعد اُس سے ترویح قلب مقصود اب نہ وہ عبث رہے گا نہ حقیقۃً لعب اگرچہ صورت لعب ہو ۔

فــــــ : مسئلہ :عبادت ومحنت دینیہ کے بعد دفع کلال وملال وحصول تازگی وراحت کے لئے احیـانای امر مباح مـیں مشغولی جیسے جائز اشعار عاشقانہ کا پڑھنا سننا شرعا مباح بلکہ مطلوب ہے ۔

ولہٰذا حدیث مـیں ہے حضور سید اکرم رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: الھوا والعبوا فانی اکرہ ان یری فی دینکم غلظۃ رواہ البیہقی ۱؎۔فی شعب الایمان عن المطلب بن عبداللّٰہ المخزومـی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔ لہو ولعب(کھیل کُود) کرو کیوں کہ مـیں یہ پسند نہیں کرتاکہ لوگ تمہارے دین مـیں سختی و درشتی دیکھیں۔ اسے امام بیہقی نے شعب الایمان مـیں مطلب بن عبداللہ مخز ومـی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیـا۔(ت)

 (۱؎ شعب الایمان حدیث ۶۵۴۲ دارالکتب العلمـیہ بیروت ۵ / ۲۴۷)

امام ابن حجر مکی کف الرعاع پھر سیدی عارف باللہ حدیقہ ندیہ مـیں فرماتے ہیں: اللھو المباح ماذون فیہ منہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وانہ فی بعض الاحوال قد لاینافی الکمال وقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الھوا والعبوا دلیل لطلب ترویح النفوس اذا سئمت وجلاھا اذا صدئت باللھو واللعب المباح ۲؎۔ حضور اقدس کی طرف سے مباح لہو کی اجازت ہے او ریہ بعض احوال مـیں منافی کمال نہیں۔حضور ؐ کا ارشاد ''کھیل کُود کرو'' اس بات کی دلیل ہے کہ جب طبیعت اکتاجائے اورزنگ خوردہ سی ہوجائے تو مباح لہو و لعب کے ذریعہ اسے راحت دینا اوراس کازنگ دُور کرنا مطلوب ہے۔(ت)

 (۲؎ حدیقۃ الندیۃ الصنف الخامس من الاصناف التسعۃ فی بیـان آفات الید    نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲ /۴۳۹)
(کف الرعاع الباب الثانی القسم الاول دارالکتب العلمـیہ بیروت      ص ۲۵۲)

تو ۱۱ بھی ان تفا سیر سے جدا نہیں نہ لعب مـیں بوجہ لذت فائدہ معتد بہا ہوا نہ عبث سے بسبب عدم لذت فائدہ نامعتبرہ منتفی۔

خامسا: بلا شبہ فاعل سے دفع عبث کیلئے صرف فعل فی نفسہ مفید ہونا کافی نہیں بلکہ ضرور ہے کہ یہ بھی اُس سے فائدہ معتدبہا بمعنی مذکور کا قصد کرے ورنہ اس نے اگری قصد فضول وبیمعنے سے کیـا تو اس پر الزام عبث ضرور لازم فانما الاعمال بالنیـات وانما لکل امرئ مانوی ۳؎  (کیوں کہ اعمال کا مدارنیت پر ہے اورہر آدمـی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ ت)

 (۳؎ صحیح البخاری باب کیف کان بدو الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ / ۲)

اور قصد کیلئے علم درکار کہ مجہول کا ارادہ نہیں ہوسکتا۔ زید سرِراہ بیٹھا تھا ایک کھاتا پیتا ناشناسا گھوڑے پرسوار جارہا تھا اس نے ہزار روپے اٹھا کر اُسے دے دیے کہ نہ صدقہ نہ صلہ رحم نہ محتاج کی اعانت نہ دوست کی امداد کوئی نیت صالحہ نہ تھی نہ ریـایـا نام وغیرہی مقصد بد کا محل تھا تو اُسے ضرور حرکت عبث کہیں گے اگرچہ واقع مـیں وہ اس کا کوئی ذی رحم ہو جسے یہ نہ پہچانتا تھا مقاصد شرعیہ پر نظر کرنے سے یہ حکم خوب منجلی ہوتا ہے رب فـــــــ عزوجل فرماتا ہے: وما اٰتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربوا عند اللّٰہ وما اٰتیتم من زکوٰۃ تریدون وجہ اللّٰہ فاولٰئک ھم المضعفون ۱؎ o جو فزونی تم دو کہ لوگوں کے مال مـیں زیـادت ہووہ خدا کے نزدیک نہ بڑھےاورجو صدقہ دوخدا کی رضا چاہتے تو انہیں لوگوں کے دُونے ہیں۔

فـــــ : مسئلہ صلہ رحم اور اپنے اقرباء کی مواسات عمدہ حسنات سے ہے مگر اگر نیت لوجہ اللہ نہ ہو بلکہ خون کی شرکت اور طبعی محبت کا تقاضا ہو تو اس سے عنداللہ کچھ فائدہ نہیں ۔

 (۱؎ القرآن الکریم         ۳۰ /۳۹)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے آیہ کریمہ کی تفسیر مـیں فرماتے ہیں: الم تر الی الرجل یقول للرجل لامولنک فیعطیہ فھذا لایربو عنداللّٰہ لانہ یعطیہ لغیر اللّٰہ لیثری مالہ ۲؎۔ کیـا تونے نہ دیکھاکہ ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے مـیں تجھے مالدارکردوں گا، پھر اسے دیتا ہے تو یہ دینا خداکے یہاں نہ بڑھے گا کہ اس نے غیر خدا کے لئے صرف اس نیت سے دیـا کہ اس کا مال بڑھادوں۔

 (۲؎ جامع البیـان ( تفسیر الطبری ) عن ابن عباس تحت الایہ ۳۰ /۳۹ دار احیـاء التراث العربی بیروت ۲۱ /۵۵ )

امام ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: کان ھذا فی الجاھلیۃ یعطی احدھم ذا القرابۃ المال یکثربہ مالہ ۳؎۔ یہ زمانہ جاہلیت مـیں تھا اپنے عزیز کا مال بڑھانے کو اسے مال دیـا کرتے۔

 (۳؎ جامع البیـان ( تفسیر الطبری ) بحوالہ ابراہیم نخعی تحت الایہ ۳۰ /۳۹ دار احیـاء التراث العربی بیروت ۲۱ /۵۵ )

رواھما ابن جریر ان دونوں کو ابن جریر نے روایت کیـا دیکھو فعل فی نفسہ مثمر ثمرہ شرعیہ ہونے کا صالح فائدہ شرعیہ یعنی صلہ رحم و مواسات پر مشتمل تھا مگرجبکہ اُس نے اُس کا قصد نہ کیـا بے ثمر رہا تو حاصل یہ ٹھہرا کہ دفع عبث کو فائدہ معتد بہا بنظر فعل معلومہ مقصودہ للفاعل درکار ہے تو ان تفاسیر کا وہی مآل ہوا جو ۹ و ۱۰ مـیں ملحوظ تھا

مفرداتِ راغب مـیں ہے: لعب فلان اذا کان فعلہ غیر قاصد بہ مقصدا صحیحا ۱؎ لعب فلاں اس وقت بولتے ہیں جب ایسا کام کرے جس سے وہ کوئی صحیح مقصدنہ رکھتا ہو۔(ت)

 (۱؎ المفردات فی غرائب القرۤن تحت لفظ لعب الام مع العین     نور محمد کارخانہ کراچی     ص ۴۶۶)

سادسا: غرض وہی فائدہ مقصودہ ہے اور صحیح یہی کہ معتد بہا ہو تو ۳، ۵ بھی اسی معنی کو ادا کررہی ہیں اور غرض مـیں جبکہ قصد ملحوظ ہے تو تعریف سوم ودہم اوضح واخصر تعریفات ہیں اور یہیں سے واضح ہوا کہ قول سمـین وجمل العبث اللعب وما لا فائدۃ فیہ وکل مالیس فیہ غرض صحیح۲؎  (عبث لعب بے فائدہ جن مـیں غرض صحیح نہ ہو۔ ت)مـیں سب عطف تفسیری ہیں۔

 (۲؎ الفتوحات الالہیۃ تحت الایہ ۳۲ /۱۱۵ دارالفکر بیروت ۵ / ۲۶۷)

سابعا: ہم بیـان کر آئے کہ فعل اختیـاری بے غرض محض صادر نہ ہوگا تو جو بے غرض صحیح ہے ضرور بغرض صحیح ہے تو ۱ ، ۳ کا مفاد واحد ہے اور اس تقدیر پر سفہ کا مصداق افعال جنون ہوں گے۔
ثامنا: فـــــــ شرعی سے اگر مقبول شرع مراد لیں تو وہی حاصل غرض صحیح ہے کہ ہر غرض صحیح کو اگرچہ مطلوب فی الشرع نہ ہو شرع قبول فرماتی ہے جبکہ اپنے اقوی سے معارض نہ ہو اور ہنگام معارضہ عدم قبول قبول فی نفسہ کا منافی نہیں جیسے حدیث آحاد وقیـاس کہ بجائے خود حجت شرعیہ ہیں اور معارضہ کتاب کے وقت نا مقبول امام نسفی کا عدم غرض شرعی سے تعریف فرما کر تعلیل کراہت مـیں لانہ غیر مفید  (اس لئے کہ یہ غیر مفید ہے۔ ت) فرمانا اس کی طرف مشعر ہوسکتا ہے اس تقدیر پر ۲ اول اور ۴ سوم کی طرف عائد اور ظاہر ہوا کہ بارہ کی بارہ تعریفوں کا حاصل واحد

فــــ : شرع کے دو معنی ہیں ، مقبول فی الشرع و مطلوب فی الشرع۔

اقول: مگر غیر شرعی سے متبادر تر غرض عــہ مطلوب فی الشرع ہے اب یہ تخصیص بحسب مقام ہوگی کہ اُن کا کلام عبث فی الصلاۃ مـیں ہے تو وہاں غرض مطلوب شرع ہی غرض صحیح ہے نہ غیر۔ آخر نہ دیکھا کہ مٹی سے بچانے فـــ ۱ کیلئے دامن اٹھانا غرض صحیح ہے اور نماز مـیں مکروہ کہ غرض مطلوب شرعی نہیں اور پیشانی  فـــ ۲ سے پسینہ پونچھنا باآنکہ غرض مطلوب فی الشرع نہیں نماز مـیں بلا کراہت روا جبکہ ایذا دے اور شغل خاطر کا باعث ہو کہ اب اس کا ازالہ غرض مطلوب شرع ہوگیـا۔

فــــ ۱: مسئلہ نماز مـیں مٹی سے بچانے کے لئے دامن اٹھانا مکروہ ہے ۔
فــــ ۲: مسئلہ نماز مـیں منہ پر پسینہ ایسا آیـا کہ ایذا دیتا اور دل بٹتا ہے تو اس کا پونچھنا مکروہ نہیں ورنہ مکروہ تنزیہی ہے ۔
عـــــــہ : وعن ھذا ما قال فی البحر اختلف فی تفسیر العبث فذکر الکردری انہ فعل فیہ غرضبشرعی والمذکور فی شرح الھدایۃ وغیرھا ان العبث الفعل لغرض غیر صحیح حتی قال فی النھایۃ مابمفید فھو العبث ۱؎ اھ
یہی منشا ہے اس کا جوبحرمـیں فرمایـاکہ عبث کی تفسیرمـیں اختلاف ہے۔ بدر الدین کردری نے فرمایـاوہ ایسا کام ہے جس مـیں کوئی ایسی غرض ہوجوشرعی نہ ہو۔ اور شرح ہدایہ وغیرہا مـیں ہے کہ عبث وہ کام ہے جو غرض غیر صحیح کے سبب ہو،یہاں تک کہ نہایہ مـیں فرمایـا:جو فائدہ مند نہیں وہی عبث ہے اھ۔

 (۱؎بحرالرائق     کتا ب الصلوۃ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۱۹)

فاقام الخلاف لاجل التعبیر فی احدھما بشرعی وفی الاخر بصحیح ومال سعدی افندی الی ان المراد بالصحیح ھو الشرعی اذفیہ الکلام فاشار الی نحوما نحونا الیہ ان التخصیص لخصوص المقام و لقد احسن فی البحر اذ جعل ماٰل مافی النھایۃ وغیرھا من الشروح واحد ا ولم یلتفت الی الفرق بین الغرض الغیر الصحیح وعدم الغرض ولکن کان عبارۃ العنایۃ محتملا للفرق بہ ایضا حیث نقل التعریف بما فیہ غرض غیر شرعی وبمافیہ غرض صحیح ثم قال ولا نزاع فی الاصطلاح ۱؎ اھ
توصاحبِ بحرنے ایک مـیں ''شرعی'' سے تعبیر اوردوسری مـیں''صحیح''سے تعبیر کی وجہ سے اختلاف قرار دیـااورسعدی آفندی کا مـیلان اس طرف ہے کہ صحیح سے مراد وہی شرعی ہے اس لئے کہ کلام اسی سے متعلق ہے۔ توجس ر وش پرہم چلے اسی کی جانب انہوں نے اشارہ کردیـاکہ یہ تخصیص خصوصیت مقام کے پیشِ نظر ہے۔ اوربحرمـیں یہ بہت خوب کیـا کہ نہایہ اوراس کے علاوہ شروح کی تعبیرات کا مآل ایک ٹھہرایـا اور''غرض غیرصحیح'' و''عدم غرض''کے فرق پر التفات نہ کیـا۔مگر عنایہ کی عبارت اس تفریق کابھی احتمال رکھتی تھی کیوں کہ اس مـیں دونوں تعریفیں نقل کیں:''وہ جس مـیں غرض غیر شرعی ہواوروہ جس مـیں کوئی غرض صحیح نہ ہو''۔پھرکہا کہ : اصطلاح مـیں کوئی نزاع نہیں اھ۔

 (۱؎ العنایہ علی الہدایہ علی ہامش فتح القدیر کتاب الصلوۃ باب یفسد الصلوۃ الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۶)

فلہذا اجاب عنہ سعدی افندی بان النفی فی التعارف الثانی داخل علی القید ۲؎ اھ
اسی لئے سعدی آفندی نے اس کا جواب دیـا کہ دوسری تعریف مـیں نفی قید پر داخل ہے اھ۔

 (۲؎ حاشیہ سعدی آفندی علی العنایہ کتاب الصلوۃ باب یفسد الصلوۃ الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۶)

اقول : وھو مشکل بظاھرہ فان النفی اذا استولی علی مقید بقید صدق بانتفاء ایھما کان وانما یتم بالتحقیق الذی القینا علیک ان لا وقوع للفعل الاختیـاری من دون غرض اصلا اھ منہ عفی منہ۔ (م)
اقول  :  اور وہ بظاہر مشکل ہے اس لئے کہ نفی جبی ایسی چیز پر وارد ہوتی ہے جوی قیدسے مقید ہے تو مقید اورقیدی کے بھی انتفا سے نفی کا صدق ہوجاتا ہے۔ اب دونوں کے مآل مـیں وحدت کی بات اسی وقت تام ہوسکتی ہے جب وہ تحقیق لی جائے جو ہم نے پیش کی کہ فعل اختیـار ی کا وقوع بغیری غرض کے ہوتا ہی نہیں(تومالیس فیہ غرض صحیح کا مآل یہی ہوگاکہ اس کی کوئی غرض تو ضرور ہے مگرغرض صحیح ہے اوریہ صورت کہ سرے سے صحیح غیر صحیح کوئی غرض ہی نہ ہو، واقع مـیں اس کا وجود نہ ہوگا ۱۲م)۱۲منہ۔(ت)

عنایہ ونہایہ وبحر وغیرہا مـیں ہے: کل عمل یفید المصلی لاباس بہ لما روی انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم عرق فی صلاتہ لیلۃ فسلت العرق عن جبینہ ای مسحہ لانہ کان یؤذیہ فکان مفید اواذا قام فـــ من سجودہ فی الصیف نفض ثوبہ یمنۃ ویسرۃ کیلا تبقی صورۃ ۱؎۔

جس کام سے مصلی کو فائدہ ہواس مـیں حرج نہیں اس لئے کہ مروی ہے کہ حضورکوایک رات نماز مـیں پسینہ آیـاتو حضور نے جبین مبارک سے پسینہ پونچھ دیـا، اس لئے کہ اس سے حضور کو تکلیف ہوتی تھی توپونچھنا مفید تھا۔۔۔۔۔۔۔اور جب گرمـی کے موسم مـیں سجدہ سے اٹھتے تودائیں یـا بائیں اپنا کپڑا جھٹک دیتے تاکہ صورت باقی نہ رہے۔(ت)

فـــــ : مسئلہ : گرمـی کے موسم مـیں دامن پاجامہ سرین سے مل کر ان کی صورت ظاہر کرتا ہے اس سے بچنے کے لئے کپڑا داہنے بائیں نماز مـیں جھٹک دینا مکروہ نہیں بلکہ مطلوب ہے اور بلاحاجت کراہت ۔

 (۱؎ العنایہ علی الہدایہ علی ہامش فتح القدیر   باب مایفسد الصلوۃ  فصل ویکرہ للمصلی الخ   مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۷ )
البحرالرائق     بحولہ النہایہ کتا ب الصلوۃ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۱۹
رد المحتار بحولہ النہایہ کتا ب الصلوۃ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۳۰)

حاشیہ سعدی افندی مـیں ہے: یعنی حکایۃ صورۃ الا لیۃ ۲؎۔ یعنی سرین کی صورت کی نقل نہ ظاہر ہو۔(ت)

 (۲؎ حاشیہ سعدی آفندی علی العنایہ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۷ )

جس کام سے مصلی کو فائدہ ہواس مـیں حرج نہیں اس لئے کہ مروی ہے کہ حضورکوایک رات نماز مـیں پسینہ آیـاتو حضور نے جبین مبارک سے پسینہ پونچھ دیـا، اس لئے کہ اس سے حضور کو تکلیف ہوتی تھی توپونچھنا مفید تھا۔۔۔۔۔۔۔اور جب گرمـی کے موسم مـیں سجدہ سے اٹھتے تودائیں یـا بائیں اپنا کپڑا جھٹک دیتے تاکہ صورت باقی نہ رہے۔(ت)

فـــــ : مسئلہ : گرمـی کے موسم مـیں دامن پاجامہ سرین سے مل کر ان کی صورت ظاہر کرتا ہے اس سے بچنے کے لئے کپڑا داہنے بائیں نماز مـیں جھٹک دینا مکروہ نہیں بلکہ مطلوب ہے اور بلاحاجت کراہت ۔

 (۱؎ العنایہ علی الہدایہ علی ہامش فتح القدیر   باب مایفسد الصلوۃ  فصل ویکرہ للمصلی الخ   مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۷ )
البحرالرائق     بحولہ النہایہ کتا ب الصلوۃ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۱۹
رد المحتار بحولہ النہایہ کتا ب الصلوۃ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۳۰)

حاشیہ سعدی افندی مـیں ہے: یعنی حکایۃ صورۃ الا لیۃ ۲؎۔ یعنی سرین کی صورت کی نقل نہ ظاہر ہو۔(ت)

 (۲؎ حاشیہ سعدی آفندی علی العنایہ باب یفسد الصّلوٰۃمایکرہ فیہا مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۵۷ )

ردالمحتار مـیں ہے: فلیس نفضہ للتراب فلا یرد ما فی البحر عن الحلیۃ انہ اذا کان یکرہ رفع الثوب کیلا یتترب لایکون نفضہ من التراب عملا مفیدا ۳؎ اھ تواسے جھٹکنا مٹی کی وجہ سے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے وہ اعتراض واردنہ ہوگا جوبحرمـیں حلیہ سے منقول ہے کہ جب خاک آلود ہونے کے اندیشے سے کپڑا اٹھالینامکروہ ہے تو مٹی سے اسے جھاڑنا کوئی مفید عمل نہ ہوا اھ۔

 (۳؎ رد المحتار کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱ / ۴۳۰)

ورأیتنی کتبت علیہ اقول الذی فـــ ۱ فی الحلیۃ ھکذاثم فی الخلاصۃ والنھایۃ وحاصلہ فـــ ۲ ان کل عمل مفید للمصلی فلا باس بفعلہلت العرق عن جبینہ ونفض ثوبہ من التراب ومالیس بمفید یکرہ للمصلی الاشتغال بہ اھ اس عبارت پر مـیراحاشیہ یہ ہے: اقول حلیہ کی عبارت اس طرح ہے: پھرخلاصہ اورنہایہ مـیں ہے کہ اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو مصلی کے لئے مفیدہواس کے کرنے مـیں حرج نہیں جیسے پیشانی سے پسینہ پونچھنا، اورمٹی سے کپڑا جھاڑنا۔اورجومفید نہیں ہے اس مـیں مشغول ہونا مصلی کے لئے مکروہ ہے اھ۔

فـــــ ۱: مسئلہ : معروضۃ علی العلامۃ ش ۔
فـــــ ۲: مسئلہ : نمازی کو ہر وہ عمل کہ نماز مـیں مفید ہو جائز و غیر مکروہ اور ہر وہ عمل جس کا فائدہ نماز کی طرف عائد نہ ہو کم از کم مکروہ و خلاف اولی ہے ۔

واعترض علیہ بثلثۃ وجوہ۱؎ فقال قلت لکن اذا کان یکرہ رفع الثوب کیلا یتترب کما تقدم وانہ قد فـــ وقع الخلاف فی انہ یکرہ مسح التراب عن جبھتہ فی الصلاۃ کما سنذکرہ وانہ قد وقع فـــ الندب الی تتریب الوجہ فی السجود فضلا عن الثوب فکون نفض الثوب من التراب عملا مفیدا وانہ لاباس بہ مطلقا فیہ نظر ظاھر۲؎ اھ وانت تعلم ان اعتراضہ علی مانقل عن الخلاصۃ والنھایۃ صحیح الی الغایۃ للتصریح فیہ ان النفض من التراب۔

حلبی نے اس عبارت پرتین طرح اعتراض کیـا،وہ لکھتے ہیں:مـیں کہوں گا (۱)جب خاک آلود ہونے کے اندیشے سے کپڑا اٹھانا مکروہ ہے تومٹی سے اسے جھاڑنا کوئی مفید عمل نہ ہوا (۲)اوراس بارے مـیں اختلاف ہے کہ نماز مـیں پیشانی سے مٹی صاف کرنامکروہ ہے یـا نہیں جیسا کہ آگے اسے ہم ذکرکریں گے۔(۳) اور کپڑا تو درکنار چہرے کوسجدے مـیں مٹی کا پونچھنا مکروہ ہے جیسا کہ ہم ذکر کریں گے اور یہ کہ تو یہ بات عیـاں طور پر محلِ نظر ہے کہ مٹی سے کپڑے کو جھاڑنا کوئی مفید عمل ہے اور اس مـیں'' مطلقاً'' کوئی حرج نہیں ہے اھ۔  ناظر کومعلوم ہے کہ حلبی نے خلاصہ ونہایہ سے جس طرح عبارت نقل کی ہے اس پر ان کا اعتراض بالکل درست اوربجا ہے کیوں کہ اس عبارت مـیں مٹی سے جھاڑنے کی صراحت موجود ہے۔

فـــــ۱: سجدہ مـیں ماتھے پر لگی ہوئی مٹی اگر ایذاء دے مثلا اس مـیں باریک کنکریـاں ہوں یـا کثیر ہوں کہ آنکھوں پلکوں پر چھڑتی ہے جب تو مطلقا اسے پونچھنے مـیں حرج نہیں اور نہ اخیر التحیـات کے ختم سے پہلے مکروہ ہے اور اس کے بعد سلام سے پہلے حرج نہیں اور سلام کے بعد اسے صاف کردینا تو مستحب ہے بلکہ اگر ریـا کا خیـال ہو کہ لوگ ٹیکا دیکھ کر نمازی سمجھیں جب تو اس کا باقی رکھنا حرام ہوگا۔
فـــــ۲مسئلہ مستحب ہے کہ سجدہ مـیں سر خاک پر بلا حائل ہو ۔

 (۱؎ جدالمحتار علی رد المحتار کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ الخ المجمع الاسلامـی مبارکپور ، ہند ۱ /۳۰۵   
۲ ؎ البحرالرائق بحوالہ الحلبی کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیھا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ / ۱۹)

عــــہ ذکـر فیہ معترکا ولم یتخلص من کلامہ کبیر شیئ اقول والاوفق الالصق باصول المذھب ان لو اٰذاہ وشغل قلبہ کأن کان فیہ صغار حصی اوکان کثیرا یتناثر علی عیونہ وجفونہ مسح مطلقا ولو فی وسط الصلوٰۃ والاکرہ فی خلال الصلوۃ ولو فی التشہد الاخیر امابعدہ وقبل السلام فقد نصوا ان لاباس بہ بلا خلاف وبعد السلام یستحب المسح دفعا للاذٰی وکراھۃ للمثلۃ ففی الخانیۃ لاباس بان یمسح جبھتہ من التراب والحشیش بعد الفراغ من الصلوٰۃ وقبلہ اذا کان یضر ذالک و یشغلہ عن الصلوۃ وان کان ذالک یکرہ فی وسط الصلوٰۃ ولا یکرہ قبل التشہد والسلام ۱؎ اھ وفی الحلیۃ وفی التحفۃ فی ظاھر الروایۃ یکرہ فی وسطھا ولا باس بہ اذا قعد قدر التشہد ۱؎

اس مـیں معرکہ آرائی کی جگہ بتائی ہے اور ان کے کلام سے کوئی بڑی بات حاصل نہیں ہوتی۔ اقول اصولِ مذہب سے زیـادہ مطابق اور ہم آہنگ یہ ہے کہ مٹی سے اگر اسے تکلیف ہو اور اس کا دل بٹے مثلاً یہ کہ اس پر کنکریوں کے ریزے ہوں یـا مٹی اتنی زیـادہ ہوکہ آنکھوں اورپلکوں پرجھڑکرگرتی ہو تو اسے صاف کردے۔ مطلقاً۔اگرچہ درمـیانِ نماز مـیں ہو۔ ورنہ درمـیانِ نماز صاف کرنامکروہ ہے اگرچہ تشہد اخیر مـیں ہو،اور اس کے بعد، سلام سے قبل صاف کرنے سے متعلق علماء کی بلا اختلاف تصریح ہے کہ اس مـیں کوئی حرج نہیں۔اور بعدسلام صاف کرنادفع اذٰی اورکراہت مثلہ کے پیش نظر مستحب ہے۔ خانیہ مـیں ہے: اس مـیں حرج نہیں کہ پیشانی سے مٹی اورتنکا نماز سے فارغ ہونے کے بعدصاف کردے اوراس سے پہلے بھی جب کہ اس سے اسے ضررہو اور نماز سے اس کا دل بٹتاہو۔اور اگر اس سے ضرر نہ ہو تودرمـیانِ نماز مکروہ ہے اورتشہد وسلام سے پہلے مکروہ نہیں۔اھ۔

 (۱؎ فتوی قاضی خان کتاب الصلوۃ باب الحدث الصلوۃ الخ نولکشور لکھنو     ص ۱ / ۵۷)

ونص علی انہ الصحیح ونص رضی الدین فی المحیط علی انہ الاصح الخ وفیھا نصوا علی انہ لاباس بان یمسح بعد مافرغ من صلوتہ قبل ان یسلم ۲؎ قال فی البدائع بلا خلاف لانہ لوقطع الصلوٰۃ فی ھذہ الحالۃ لایکرہ فلأن لایکرہ ادخال فعل قلیل اولی ۳؎ الخ وفیھا عن الذخیرۃ اذمسح جبھۃ بعد السلام یستحب لہ ذلک لانہ خرج من الصلوٰۃ وفیہ ازالۃ الاذی عن نفسہ ۴؎ الخ

حلیہ مـیں ہے : تحفہ مـیں ہے کہ ظاہر الروایہ مـیں یہ درمـیان نماز مکروہ ہے اور جب بقدر تشہد بیٹھ چکا ہو تو اس مـیں کوئی حرج نہیں اوراس پر نص فرمایـا کہ یہی صحیح ہے اورمحیط مـیں رضی الدین نے یہ تصریح فرمائی کہ یہ اصح ہے الخ۔
اورحلیہ مـیں یہ بھی ہے: علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے صاف کرنے مـیں کوئی حرج نہیں ۔بدائع مـیں فرمایـا اس مـیں کوئی اختلاف نہیں تو فعل قلیل اختلاف نہیں کیوں کہ اس حالت مـیں اس کا نماز قطع کردینا مکروہ نہیں توفعل قلیل داخل کردینا بدرجہ اولٰی مکروہ نہ ہوگا۔
اورحلیہ مـیں ذخیرہ کے حوالے سے ہے: بعد سلام اپنی پیشانی صاف کرے تویہ اس کے لئے مستحب ہے اس لئے کہ وہ نماز سے باہر آچکا ہے اوراس مـیں اپنے سے گندگی(اذی) دور کرنا بھی ہے الخ۔

 (۱؎ تحفۃ الفقہاء کتاب الصلوۃ باب مایستحب فی الصلوۃ وما یکرہ فیہا دارالفکر بیروت ص ۷۲)
 (۳؎ بدائع الصنائع کتاب الصلوۃ باب مایستحب فی الصلوۃ وما یکرہ فیہا ایچ ایم سعید کمپنی لاہور ۱ / ۲۲۰ و ۲۱۹)
(۴؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )

اقول ولو ابقاہ معاذ اللّٰہ ریـاء الناس حرم قطعا کما لایخفی ورأیتنی کتبت علی قول البدائع لوقطع الصلوۃ فی ھذہ الحالۃ لایکرہ مانصہ۔
اقول اور اگر معاذاللہ  ریـا کاری کے لئے اسے باقی رکھے تو قطعاً حرام ہے جیسا کہ واضح ہے۔ اور بدائع کی عبارت''اس حالت مـیں اس کانماز قطع کردینا مکروہ نہیں'' پرمـیں نے اپنا تحریر کردہ یہ حاشیہ دیکھا:
اقــول کیف لایکرہ مع ان الواجب علیہ الانھاء بالسلام لاالقطع بعمل غیرہ فان اراد بالقطع الانھاء منعنا القیـاس لانہ مامور بہ کیف یقاس علیہ مالیس مطلوبا وھو مالم ینھھا لایقع مایقع الا فی خلالھا الا تری الی الاثنا عشریۃ قال فی الھدایۃ علی تخریج البردعی ان الخروج عن الصلوٰۃ بصنع المصلی فرض عند ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فاعتراض ھذہ العوارض عندہ فی ھذہ الحالۃ کاعتراضھا فی خلال الصلوۃ اھ وفی الفتح ناقلا عن الکرخی انما تبطل عندہ فیھا لانہ فی اثنائہا کیف وقد بقی علیہ واجب وھو السلام وھو اٰخرھا داخلا فیھا اھ فاتفق التخریجان ان ماقبل السلام داخل فی خلال الصلوۃ فلم لایکرہ مایکون فیہ ممامن افعال الصلوۃ ولا مفیدا محتاجا الیہ فتدبر اذلابحث مع الاطباق لاسیما من مثلی والاتباع للمنقول وان لم یظھر للعقول واللّٰہ تعالٰی اعلم اھ منہ غفرلہ۔ (م)

اقول کیوں مکروہ نہیں جب کہ اس پرواجب یہ ہے کہ سلام پرنماز پوری کرے نہ یہ کہ سلام کے علاوہی عمل سے نماز قطع کردے۔ تواگر قطع سے ان کی مراد نماز پوری کرنا ہے تو قیـاس درست نہیں کیوں کہ سلام پرنماز پوری کرنے کا تواسے حکم ہے اس پراس عمل کاقیـاس کیسے ہوسکتا ہے جو مطلوب نہیں اورجب تک وہ نماز سلام سے پوری نہ کرے جو عمل بھی ہوگا درمـیانِ نماز ہی ہوگا کیـاوہ مشہور بارہ مسائل پیشِ نظر نہیں۔ ہدایہ مـیں فرمایـا: امام بردعی کی تخریج پریہ ہے کہ نماز سے مصلی کا اپنے عمل کے ذریعہ باہر آنا امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک فرض ہے۔ تو ان کے نزدیک اس حالت مـیں ان عوارض کا پیش آنا ایسا ہی ہے جیسے نماز کے درمـیان پیش آنا اھ۔اور فتح القدیر مـیں امام کرخی سے نقل ہے: امام صاحب کے نزدیک ان عوارض کی صورتوں مـیں نماز اسی لئے باطل ہوتی ہے کہ وہ ابھی اثنائے نماز مـیں ہے کیوں نہ ہو جب کہ ابھی اس کے ذمہ ایک واجب باقی ہے وہ ہے سلام، یہ نماز کا آخری عمل ہے اورنماز مـیں داخل ہے اھ۔تو امام بردعی وامام کرخی دونوں حضرات کی تخریجیں اس پر متفق ہیں کہ ماقبل سلام، درمـیان نماز داخل ہے تواس حالت مـیں واقع ہونے والا وہ کام مکروہ کیوں نہ ہوگا جو نہ افعالِ نماز سے ہے نہ مفید ہے نہ اس کی حاجت ہے تو تدبر کرو۔ اس لئے کہ اتفاق موجود ہوتے ہوئے بحث کی خصوصاً مجھ جیسے سے۔گنجائش نہیں۔ اتباع منقول کا ہوگا اگرچہ اس کی وجہ معقول ظاہر نہ ہو ۔ واللہ تعالٰی اعلم اھ منہ غفرلہ ۔(ت)

اقــول  : وانمافـــ قید بقولہ مطلقا لان الثوب ان کان مما یفسدہ التراب کأن یکون من لاحریر المخلوط للرجل اوالخالص للمرأۃ وکان فی التراب نداوۃ فلولم یغسل بقی متلوثا ولو غسل فسد فحینئذا فان الضرورات تبیح المحظورات ۔واللّٰہ تعالی اعلم ۔ اقول :  اعتراض کے الفاظ مـیں انہوں نے ''مطلقاً'' کی قید اس لئے رکھی ہے کہ اگرکپڑا ایسا ہو جوکہ مٹی سے خراب ہوجائے مثلاً مرد کا کپڑا مخلوط ریشم کا یـاعورت کاخالص ریشم کا ہو اورمٹی مـیں نمـی ہو اب اگر اسے دھوتا نہیں تو کپڑا خاک آلود رہ جاتا ہے اوردھوتا ہے تو خراب ہوتا ہے ایسی صورت مـیں مٹی سے بچانا ممنوع نہ ہونا چاہئے کیوں کہ ضرورتوں کے پاس ممنوعات مباح ہوجاتے ہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔

فـــــ : مسئلہ اگر کپڑا بیش قیمت ہے جیسے ریشمـیں تانے کا مرد کے لئے یـا خالص ریشمـی عورت کے لئے اور نماز خالی زمـین پر پڑھ رہا ہے اور مٹی گیلی ہے کہ کپڑا نہ بچائے تو کیچڑ سے خراب ہوگا اور دھونے سے بگڑ جائے گا تو ایسی حالت مٰیں بچانے کی اجازت ہونی چاہیئے واللہ تعالی اعلم۔

ولکن الشان انلفظ التراب لافی الخلاصۃ ولا فی النھایۃ فنص نسختے الخلاصۃ ولا یعبث بشیئ من جسدہ وثیـابہ والحاصل ان کل عمل ھو مفید لاباس بہ للمصلی وقد صح عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم انہ سلت العرق عن جبینہ وکان اذا قام من سجودہ فنفض ثوبہ یمنۃ ویسرۃ ومابمفید یکرہ کاللعب ونحوہ ۱؎ اھ

لیکن معاملہ یہ ہے کہ لفظ''تراب(مٹی)'' نہ خلاصہ مـیں ہے نہ نہایہ مـیں ہے۔ مـیرے نسخہ خلاصہ کی عبارت یہ ہے :''اوراپنے جسم یـا کپڑے کےی حصے سے کھیل نہ کرے۔ اورحاصل یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو مفید ہو مصلی کے لئے اس مـیں حرج نہیں،نبی سے بطریق صحیح ثابت ہے کہ جبین مبارک سے  پسینہ صاف کیـا اورجب سجدہ سے اٹھتے تو اپنا کپڑا دائیں بائیں جھٹک دیتے۔ اورجو مفید نہیں وہ مکروہ ہے جیسے لعب اوراس کے مثل اھ۔

 (۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الصلوۃ الفصل الثانی مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱/ ۵۷)

ونص النھایۃ علی مانقل فی البحر مثل مااثرتہ عن العنایۃ بمعناہ وقد صرح فیہ بالمراد اذقال کیلا تبقی صورۃ ولا توجہ علیہ لشیئ من الایرادات بیدان الامام الحلبی ثقۃ حجۃ امـین فی النقل فالظاھر انہ وقع ھکذا فی نسختیہ الخلاصۃ والنھایۃ ولکن العجب فــــ من البحر نقل عبارۃ النھایۃ مصرحۃ بالصواب ثم عقبہا بالاعتراضات الواردۃ علی لفظ من التراب واقرھا کانہعنہا جواب۔

اور نہایہ کی عبارت جیسے بحرمـیں نقل کی ہے بالمعنی اسی کی طرح ہے جو مـیں نے عنایہ سے نقل کی اوراس مـیں مراد کی تصریح کردی ہے کیوں کہ اس مـیں کہاہے:''تاکہ صورت نہ باقی رہے''اوراس عبارت پر ان تینوں اعتراضوں مـیں سے ایک بھی وارد نہیں ہوسکتا۔ مگر امام حلبی نقل مـیں ثقہ،حجت،امـین ہیں توظاہر یہ ہے کہ ان کے خلاصہ اورنہایہ کے نسخوں مـیں عبارت اسی طرح ہوگی جیسے انہوں نے نقل کی۔لیکن تعجب بحر پر ہے کہ انہوں نے نہایہ کی عبارت تو صاف صحیح کی تصریح کے ساتھ نقل کی (وہ جس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا) پھر بھی اس کے بعد لفظ''تراب'' سے متعلق وارد ہونے والے اعتراضات نقل کرکے انہیں برقرار رکھا گویـا ان کا کوئی جواب نہیں۔

فـــــ : تظفل علی البحر ۔

یہ نہایت فـــــ کلام ہے تحقیق معنی عبث مـیں، اب تنقیح حکم کی طرف چلئے وباللہ التوفیق ۔اقول بیـان سابق سے واضح ہوکہ عبث کا مناط فعل مـیں فائدہ معتدبہا مقصود نہ ہونے پر ہے اور وہ اپنے عموم سے قصد مضر وارادہ شرکو بھی شامل تو بظاہر مثل اسراف اُس کی بھی دو۲ صورتیں ایک فعل بقصد شنیع دوسری یہ کہ نہ کوئی بُری نیت ہو نہ اچھی۔ رب عزوجل نے فرمایـا: اَفحسبتم انما خلقنکم عبثا وانکم الینا لاترجعون ۱؎o کیـا اس گمان مـیں ہو کہ ہم نے تمہیں عبث بنایـا اور تم ہماری طرف نہ پلٹوگے۔

فـــــ :حکم عبث کی تنقیح ۔

 (۱؎ القرآن    ۲۳ /۱۱۵)

علماء نے اس آیہ کریمہ مـیں عبث کو معنی دوم پر لیـا یعنی کیـا ہم نے تم کو بیکار بنایـا تمہاری آفر ینش مـیں کوئی حکمت نہ تھی یوں ہی بے معنی پیدا ہوئے بیہودہ مرجاؤ گے نہ حساب نہ کتاب نہ عذاب نہ ثواب، جیسے وہ خبیث کہا کرتے تھے: ان ھی الاحیـاتنا الدنیـا نموت ونحیی وما نحن بمبعوثین ۱؎۔ یہ تو نہیں مگر یہی ہماری دنیـا کی زندگی ،ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں، اورمرنے کے بعددوبارہ ہم اٹھائے نہ جائیں گے۔(ت)

اِس پر رَد کو  یہ آیت اُتری۔ کما تقدم بعض نقولہ وزعم العلامۃ الخفاجی بعدما ذکر فی العبث ثلث عبارات تقدمت والظاھر ان المراد (ای فی ھذہ الکریمۃ) الاول ۲؎ اھ جیسا کہ اس کی کچھ نقلیں گزرچکیں۔اور علامہ خفاجی نے عبث سے متعلق وہ تین عبارتیں ذکرکیں جوگذر چکیں پھر یہ کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت کریمہ مـیں مراد پہلا معنٰی ہے۔اھ۔

 (۱ ؎ القرآن    ۲۳ /۳۷)
(۲؎ عنایۃ القاضی علی تفسیر البیضاوی تحت الایہ ۲۳ /۱۱۵ دارالکتب العلمـیہ بیروت ۶ / ۶۱۱)

اقول اوّلا علمت فـــــ ۱ ان الکل واحد وثــانــیـا ان فـــــ۲ ابقینا التغایر فالظاھر الاخیران لان فی الھمزۃ انکار ما حسبوہ لایجاب ما سلبوہ ولیس المراد اثبات فائدۃ ما ولو غیر معتمدبھا ولھذا قال فی الارشاد بغیر حکمۃ بالغۃ ۳؎ واطلق الجلال لان حکم اللّٰہ تعالی کلھا بالغۃ علی ان الحکمۃ نفسہا یستحیل ان لایعتد بھا۔

اقول اولاً یہ واضح ہوچکا کہ سب تعریفیں ایک ہی ہیں۔ثانیـاً اگرہم تغایر باقی رکھیں توظاہر آخری دوتعریفیں ہیں۔اس لئے کہ ہمزہ مـیں ان کے گمان کا انکار ہے تاکہ اس کا اثبات ہوجس کی انہوں نے نفی کی۔اور مراد یہ نہیں کہی بھی فائدہ کا اثبات ہو جائے اگرچہ قابل لحاظ وشمار نہ ہو۔ اوراس لئے ارشاد مـیں فرمایـا: بغیر حکمت بالغہ کے۔ اور جلال نے مطلق رکھا، کیوں کہ اللہ تعالٰی کا ہر حکم بالغ ہے علاوہ ازیں بذاتِ خود حکمت ناممکن ہے کہ غیر معتد بہا ہو۔(ت)

ف ۱: معروضۃ علی العلامۃ الخفاجی ف ۲: معروضۃ اخری علیہ ۔

 (۳؎ الارشاد العقل السلیم تحت الایۃ ۲۳ / ۱۱۵ دار احیـاء التراث العربی بیروت ۶ / ۱۵۳ )

اور سیدنا ہُود علٰی نبینا الکریم وعلیہ الصّلوٰۃ والتسلیم نے اپنی قوم عاد سے فرمایـا: اتبنون بکل ریع ایۃ تعبثونo وتتخذون مصانع لعلکم تخلدون ۱؎o کیـا ہر بلندی پرایک نشان بناتے ہوعبث کرتے یـا عبث کے لئے اور کارخانے بناتے ہوگویـا تمہیں ہمـیشہ رہنا ہے۔

 (۱؎ القرآن الکریم  ۲۶ /۱۲۸ و ۱۲۹)

اس آیہ کریمہ مـیں بعض نے کہا راستوں مـیں مسافروں کیلئے بے حاجت بھی جگہ جگہ علامتیں قائم کرتے تھے۔ ذکرہ فی الکبیر وتبعہ البیضاوی وابو السعود والجمل قال فی الانوار (ایۃ) علما لمارۃ (تعبثون) ببنائھا اذکانوا یھتدون بالنجوم فی اسفارھم فلا یحتاجون الیھا ۲؎ اھ اسے تفسیر کبیر مـیں ذکر کیـا اور بیضاوی، ابو السعود اورجمل نے اس کا اتباع کیـا۔ انوار التنزیل بیضاوی مـیں ہے (نشان )گذرنے ولوں کے لئے علامت (عبث کرتے ہو) اسے بنا کر۔اس لئے کہ وہ اپنے سفروں مـیں ستاروں سے راہ معلوم کرتے تھے تو انہیں نشانات کی حاجت نہ تھی اھ۔

 (۲؎ انوار التنزیل ( تفسیر بیضاوی) تحت الایہ    ۲۶ /۱۲۸و ۱۲۹ دارالفکر بیروت     ۴ /۲۴۷ )

فاورد ان لانجوم بالنھار وقد یحدث باللیل من الغیوم ما یسترالنجوم واجاب فی العنایۃ بانھم لایحتاجون الیھا غالبا اذ ا مرالغیم نادر لاسیما فی دیـار العرب ۳؎ اھ

اس پراعتراض ہواکہ دن مـیں ستارے نہیں ہوتے اور رات کو بھی کبھی اتنی بدلی ہوجاتی ہے کہ ستارے چھُپ جاتے ہیں۔ عنایۃ القاضی مـیں علامہ خفاجی نے اس کا یہ جواب دیـاکہ زیـادہ ترانہیں اس کی حاجت نہ تھی اس لئے کہ بدلی ہونا نادرہے خصوصاً دیـارِ عرب مـیں۔اھ۔

 (۳؎ عنایۃ القاضی علی التفسیر البیضاوی تحت الایہ     ۶ /۱۲۸و ۱۲۹ دارالکتب العلمـیہ بیروت     ۴ /۲۴۷ )

اقـول اولالم ف یجب عن النھار و انمابہ اکثر الاسفار ۔ اقول اولا دن والی صورت سے اعتراض کا جواب نہ دیـا جب کہ زیـادہ تر سفر دن ہی مـیں ہوتے ہیں۔

ف:معروضۃ ثالثۃ علیہ ۔

وثـانـیـا ان سلم فــــ۱الندور فعمل مایحتاج الیہ ولو احیـانا لایعد عبثا قال مع انہ لو احتیج الیھا لم یحتج الی ان یجعل فی کل ریع فان کثرتھا عبث ۱؎ اھ۔

ثانیـا اگر بدلی کا نادراً ہی ہونا تسلیم کرلیـاجائے توبھی ایسی چیز بنانا جس کی ضرورت پڑتی ہو اگرچہ کبھی کبھی پڑتی ہو،عبث شمار نہ ہوگا۔آگے فرماتے ہیں: باوجود یکہ اگر اس کی ضرورت ہو تو بھی اس کی ضرورت نہیں کہ ہر بلندی پر بنائیں اس لئے کہ ان نشانات کی کثرت بلا شبہہ عبث ہے اھ۔

فــــــــــ۱:معروضۃ رابعۃ علیہ۔

 (۱؎ عنایۃ القاضی علی تفسیر البیضاوی     تحت الآیۃ ۲۶ /۱۲۸و۱۲۹    دار الکتب العلمـیہ بیروت     ۷ /۱۹۹)

اقول ھذا فـــ۲منزع اخر فلا یرفع الایراد عن القاضی قال وقال الفاضل الیمنی ان اما کنہا المرتفعۃ تغنی عنھا فھی عبث۲؎ اھ۔

اقول یہ ایک دوسرا رخ ہے اس سے قاضی کا اعتراض نہیں اٹھتا۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں: فاضل یمنی نے کہا: ان بلند جگہوں سے ان نشانات کا مقصد یونہی پورا ہوجاتاتھا تویہ عبث ٹھہرے اھ۔

فــــــــ۲:معروضۃ خامسۃ علیہ۔

 (۲؎ عنایۃ القاضی علی تفسیر البیضاوی     تحت الآیۃ ۲۶ /۱۲۸و۱۲۹    دار الکتب العلمـیہ بیروت     ۷ /۱۹۹)

اقول اولا  : ارتفاع فــــ۳ الاماکن لا یبلغ بحیث یراھا القاصد من ای مکان بعید قصد ۔

اقول اولا :  جگہوں کی انچائی اس حد تک نہیں ہوتی کہ عازم سفر جس دورجگہ سے بھی چاہے دیکھ لے۔

فـــــــــ۳:معروضۃ سادسۃ علیہ و علی الفاضل الیمنی ۔

وثــانیـا : ھوفـــ۴منزع ثالث وکلامنا فی کلامـی والانوار،بالجملۃ ھو وجہ زیف ولا اعلم لہ سندا من السلف ولقد احسن النیسابوری اذا سقطہ من تلخیص الکبیر ۔

ثانیـا : یہ ایک تیسرا رُخ ہوا۔ اورہماری گفتگو کلام بیضاوی سے متعلق ہے۔الحاصل یہ ایک کمزوروجہ ہے اورسلف سے اس کی کوئی سند مـیرے علم مـیں نہیں۔اورنیشاپوری نے بہت اچھا کیـا کہ تفسیر کبیر کی تلخیص سے اسے ساقط کردیـا۔

ف۴:معروضۃ سابعۃ علیھما۔

اقول : وتعبیری ف۱اذ قلت یبنون من دون حاجۃ ایضا احسن من تعبیر الکبیر ومن تبعہ کما تری۔

اقول مـیری یہ تعبیر کہ ''بے حاجت بھی بناتے تھے'' تفسیرکبیراوراس کے متبعین کی تعبیرسے بہتر ہے جیسا کہ پیشِ نظر ہے۔(ت)

ف۱:علی الامام الرازی والبیضاوی وابی سعود۔

امام مجاہد و سعید بن جبیر نے فرمایـا : جگہ جگہ کبوتروں کی کابکیں بناتے ہیں ۔ رواہ عن الاول ابن جریر۱؎ فی (ایۃ) وھو والفریـابی وسعید بن منصور وابن ابی شیبہ و عبد بن حمـید واباالمنذر وابی حاتم فی ( مصانع۲؎) وعزاہ للثانی فی المعالم ۳؎ اسے امام مجاہد سے ابن جریر نے''آیہ '' کے معنی مـیں روایت کیـا او رابن جریر،فریـابی، سعیدبن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمـید،ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے ان سے''مصانع'' کے معنی مـیں روایت کیـا۔ اورمعالم التنزیل مـیں اسے حضرت سعیدبن جبیر کے حوالے سے بیـان کیـا۔(ت)

 (۱؎ جامع البیـان( تفسیر الطبری) تحت الایہ ۲۶/ ۱۲۸ دار احیـاء التراث العربی بیروت۱۹ / ۱۱۰)
(۲؎ الدرالمنثور بحوالہ الفریـابی تحت الایہ ۲۶/ ۱۲۸ دار احیـاء التراث العربی بیروت۶ / ۲۸۲)
(۳؎ معالم التنزیل ( تفسیر البغوی ) تحت الایہ ۲۶/ ۱۲۸ دار احیـاء التراث العربی بیروت۳ / ۳۳۶)

ان دونوں تفسیروں پر یہ عبث بمعنی دوم ہوگا یعنی لغو و لہو۔ بعض نے کہا ہر جگہ اونچے اونچے محل تکبر وتفاخر کے لئے بناتے ۔ ذکرہ الکبیر ومن بعدہ وللفریـابی وابناء حمـید وجریر والمنذر وابی حاتم عن مجاھد وتتخذون مصانع قال قصورا مشیدۃ وبنیـانا مخلدا ۱؎ ولابن جریر عنہ قال ایۃ بنیـان ۲؎۔

اسے تفسیر کبیر مـیں ذکرکیـا اوراس کے بعدکے مفسرین نے بھی۔اورفریـابی،ابن حمـید،ابن المنذر،ابن ابی حاتم نے حضرت مجاہد سے روایت کی ''وتتخذون مصانع'' انہوں نے کہا مضبوط محل اوردوامـی عمارت۔اور ابن جریر نے ان سے روایت کیـا کہ آیۃ یعنی عمارت۔(ت)

 (۱؎ الدرالمنثور بحوالہ الفریـابی وغیرہ تحت الایہ ۲۶ / ۲۹ ۱ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۶ / ۲۸۲
۲؎ جامع البیـان ( تفسیر الطبری ) تحت الایہ ۲۶ / ۲۹ ۱ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۱۹ / ۱۱۰)

ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے منقول ہوا جو راستے سیدنا ہُود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف جاتے ان پر محل بنائے تھے کہ اُن مـیں بیٹھ کر خدمتِ رسالت مـیں حاضر ہونے والوں سے تمسخر کرتے ذکرہ فی مفاتیح الغیب ورغائب الفرقان (مفاتیح الغیب ۳؎ (تفسیر کبیر ) اور رغائب الفرقان (نیشاپوری) مـیں اس کا ذکر کیـا گیـا۔ ت) یـا سرِراہ بناتے ہر راہ گیر سے ہنستے ذکرہ البغوی والبیضاوی۴؎ وابو السعود واقتصر علیہ الجلال۵؎ ملتزما الاقتصار علی اصح الاقوال (ذکر کیـا بغوی اور بیضاوی اور ابو السعود نے اختصار کیـا جلال نے اختصار اقوالِ اصح مـیں لازم ہے۔ ت)
ان دونوں تفسیروں پر یہ عبث بمعنی اول ہوگا یعنی قصد شر و ارادہ ضرر۔ بالجملہ دونوں معنے کا پتا قرآنِ عظیم سے چلتا ہے اگرچہ متعارف غالب مـیں اُس کا استعمال معنی دوم ہی پر ہے بیہودہ وبے معنے کام ہی کو عبث کہتے ہیں نہ کہ معاصی وظلم وغصب وزنا وربا وغیرہا کو۔

 (۳؎ مفاتیح الغیب ( التفسیر الکبیر ) تحت الایہ ۲۶ /۱۲۹دارالکتب العلمـیہ بیروت ۲۴ / ۱۳۵
غرائب القرآن ورغائب الفرقان تحت الایہ ۲۶ / ۱۲۹مصطفی البابی مصر ۱۹ /۶۵
۴؎ معالم التنزیل( تفسیر البغوی ) تحت الایہ ۲۶ /۱۲۹دارالکتب العلمـیہ بیروت۳ / ۳۳۷
انوار التنزیل ( تفسیر البیضاوی ) تحت الایہ ۲۶ / ۱۲۹دارالفکر بیروت۴ / ۲۴۸
۵؎ تفسیر الجلالین الایہ ۲۶ / ۱۲۸ا صح المطابع دہلی ص ۳۱۴ )

اذا تقرر ھذا فـاقـول ظھر ان لاعتب علی الامام الجلیل صاحب الھدایۃ رحمہ اللّٰہ تعالی اذ یقول ان العبث خارج الصلاۃ حرام فما ظنک فی الصلوۃ ۶؎ اھ

جب یہ طے ہوگیـا تومـیں کہتاہوں واضح ہوگیـا کہ امام جلیل صاحبِ ہدایہ رحمہ اللہ تعالٰی پرکوئی عتاب نہیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ:عبث بیرون نماز حرام ہے تو اندرونِ نماز سے متعلق تمہارا کیـا خیـال ہے اھ۔

 (۶؎ الھدایہ کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ مایقرہ فیھا المکتبۃ العربیہ کراچی ۱/ ۱۱۹ ،۰ ۱۲)

وقد اقرہ فی العنایۃ والفتح وتبعہ فی الدرر والغنیۃ ولفظ مولٰی خسرو انہ خارج الصلاۃ منھی عنہ فما ظنک فیھا ۱؎ ھ

اسے عنایہ وفتح القدیر مـیں برقرار رکھااور درروغنیہ مـیں اس کا اتباع کیـا۔مولٰی خسرو کے الفاظ یہ ہیں: وہ بیرونِ نماز منہی عنہ ہے تو اندرونِ نماز سے متعلق تمہاراکیـاخیـال ہے اھ

 (۱؎ الدرر ا لحکام شرح غرر الاحکام کتاب الصلوۃ مایفسد الصلوۃ مـیر محمد کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۷)

ولفظ المحقق الحلبی العبث حرام خارج الصلاۃ ففی الصلوۃ اولی ۲؎ اھ اورمحقق حلبی کے الفاظ یہ ہیں: عبث بیرونِ نماز حرام ہے تو اندرونِ نماز بدرجہ اولٰی(حرام) ہوگا اھ۔

 (۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی     کراھیتہ الصلوٰۃ     سہیل اکیڈمـی لاہور    ص۳۴۹)

فان قلت اطلقوا وانما ھو حکم القسم الاول۔ قلت اصل الکلام فی الصلاۃ وکل عبث فیہا من القسم الاول فتعین مرادا وکان اللام للعھد فحصل التفصی عما او رد فــــ السروجی فی الغایۃ وتبعہ فی البحر والشرنبلالی فی الغنیۃ وش ان العبث خارجہا بثوبہ اوبدنہ خلاف الاولی ولا یحرم قال والحدیث (ای ان اللّٰہ کرہ لکم ثلثا العبث فی الصلاۃ والرفث فی الصیـام والضحک فی المقابر رواہ القضاعی۳؎ عن یحیی بن ابی کثیر مرسلا) قید بکونہ فی الصلاۃ ۱؎ اھ

اگر کہئے ان حضرات نے مطلق رکھاہے اور یہ قسم اول کا حکم ہے مـیں کہوں گااصل کلام نماز سے متعلق ہے اورنمازمـیں ہرعبث قسم اول سے ہے تو اسی کا مراد ہونا متعین ہے اور''العبث'' مـیں لام عہد کا ہے تو اس اعتراض سے چھٹکاراہوگیـا جو سروجی نے غایہ مـیں وارد کیـا اور صاحبِ بحر نے بحر مـیں اورشرنبلالی نے غنیہ مـیں اورشامـی نے اس کی پیروی کی۔(اعتراض یہ ہے)کہ بیرونِ نماز اپنے کپڑے یـابدن سے عبث(کھیل کرنا) خلافِ اولٰی ہے، حرام نہیں۔ اور کہا کہ:یہ حدیث''بیشک اللہ نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند فرمائیں: نماز مـیں عبث ،روزے مـیں بے ہودگی، قبرستانوں مـیں ہنسنا۔ قضاعی نے یحیٰی بن ابی کثیر سے مرسلاً روایت کی''۔اس مـیں عبث کے ساتھ اندورنِ نماز ہونے کی قید لگی ہوئی ہے اھ۔(ت)

فــــــ: تظفل علی السروجی والبحر والشرنبلالی و ش۔۔

 (۳؎ البحرالرائق بحوالہ القضاعی فی مسند الشہاب کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ / ۲۰
۱؎ البحرالرائق بحوالہ الغایہ للسروجی کتاب الصلوۃ باب ما یفسد الصلوۃ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ / ۲۰
غنیہ ذوی الاحکام فی بغیۃ درر الاحکام علی ہامش درر الحکام باب مایفسد الصلوۃ مـیر محمد کتب خانہ کراچی ۱ / ۱۰۷
رد المحتار کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا دار احیـاء التراث العربی بیروت ۱ /۴۳۰)

ظاہر ہے کہ معنی اول پر عبث ممنوع وناجائز ہوگا نہ دوم پر ، اور یہاں ہمارا کلام قسم دوم مـیں ہے یعنی جہاں نہ قصدِ معصیت نہ پانی کی اضاعت۔

بل اقـول  : لک فـــــ ۱ ان تقول ان فی النظر الدقیق لاحکم علی العبث فی نفسہ بالحظر والتحریم اصلا وما کان لانضمام ضمـیمۃ ذمـیمۃ فانما مرجعہ الیہا دونہ وتحقیق ذلک انا اریناک تظافر الکلمات علی ان مناط العبث علی عدم قصد الفائدۃ بالفعل وھذہ حقیقۃ متحصلۃ بنفسھا ولیس قصد المضر اوعدم قصدہ من مقوماتھا ولا مما یتوقف علیہ وجود ھابب وشرط فیعد من محصلاتھا فاذنقصد مضرٍا لا من مجاوراتھا وما کان لمجاور یکون حکمالہ لالصاحبہ، الا تری البیع یحرم بشرط فاسد وبعد اذان الجمعۃ واذا سئلت عـن حکم البیع قلت مشروع بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ کما ذکرہ فی غایۃ البیـان وغیرھا والصلاۃ تکرہ فی ثیـاب الحریر للرجل وفی الارض المغصوبۃ ولا یمنعک ذلک بان تقول اذا سئلت عن حکمھا ان الصلاّۃ خیر موضوع فمن استطاع ان یستکثر منھا فلیستکثر کما رواہ ۱؎ الطبرانی فی الاوسط عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان المصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وبالجملۃ یؤاخذ علی المعصیۃ من حیث قصد الشر لا من حیث عدم قصد الخیر وھی انما کانت عبثا من ھذہ الحیثیۃ لامن تلک فلیس الحظر حکم العبث اصلا۔

    بلکہ مـیں کہتاہوں تم کہہ سکتے ہوکہ بنظرِ دقیق دیکھا جائے توخود عبث پرمنع وتحریم کاحکم بالکل نہیں اور جو حکم منعی مذموم ضمـیمہ کے شامل ہوجانے کی وجہ سے ہے اس کا مرجع اس ضمـیمہ کی طرف ہے عبث کی جانب نہیں۔ اس کی تحقیق یہ ہے کہ ہم دکھا چکے کہ کلمات کا اس پر اتفاق ہے کہ عبث کا مدار اس پر ہے کہ بالفعل فائدہ کا قصد نہ ہو۔ اوریہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خود حصول وثبوت رکھتی ہے۔اورمضرکاقصد یـاعدمِ قصد اس کا نہ توجز ہے نہ سبب وشرط کی طرح اس پراس کا وجودموقوف ہے کہ اسے اس کا محصّل شمار کیـاجائے۔توی مضر کا قصدبس اس کا مجاوِراور اس سے متصل ہی ہوسکتا ہے اورجو حکمـی مجاوِر ومتصل کے سبب ہو وہ دراصل اسی متصل کا حکم ہے اس کے ساتھ والے کا نہیں۔ ۔۔۔۔۔ دیکھئےی شرط فاسد سے بیع حرام ہوتی ہے یوں ہی اذانِ جمعہ کے بعد بیع حرام ہے،اور اگرخود بیع کاحکم پوچھا جائے توجواب ہوگاکہ جائز ،اورکتاب وسنت واجماعِ اُمت سے مشر وع ہے جیسا کہ اسے غایۃ البیـان وغیرہامـیں ذکرکیـا ہے۔ یوں ہی نماز ریشمـی کپڑے مـیں مردکے لئے اورغصب کردہ زمـین مـیںی کے لئے بھی مکروہ ہے لیکن اگرخود نماز کا حکم پوچھاجائے توجواب یہی ہوگا نماز ایک وضع شدہ خیر اورنیکی ہے توجس سے ہوسکے کہ اسے زیـادہ حاصل کرے تو اُسے چاہئے کہ وہ زیـادہ حاصل کرے۔ جیسا کہ اسے طبرانی نے معجم اوسط مـیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ،مصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کیـا ہے ۔ الحاصل معصیت پرمواخذہ اس لحاظ سے ہے کہ شرکا قصد ہوا، اس لحاظ سے نہیں کہ خیر کا قصد نہ ہوا، اوروہ عبث اسی حیثیت سے ہے اُس حیثیت سے نہیں توعبث کا حکم ممانعت بالکل نہیں۔(ت)

 (۱؎ المعجم الاوسط حدیث ۲۴۵ مکتبۃ المعارف ریـاض     بیروت    ۱ /۱۸۳)

اس کا حکم وہی ہے جو ابھی غایہ سروجی وبحرالرائق وغنیہ شرنبلالی وردالمحتار سے منقول ہوا کہ خلاف اولٰی ہے اور یہی مفاد درمختار ہے ۔ حیث قال کرہ عبثہ للنھی الالحاجۃ ولا باس بہ خارج الصلاۃ ۲؎ اھ فان لاباس لما ترکہ اولی  (اس کے الفاظ یہ ہیں: اس کا عبث نہی کی وجہ سے مکروہ ہے مگریہ کہی حاجت کی وجہ سے ہواوربیرونِ نمازاس مـیں حرج نہیں اھ۔ اس لئے کہ لاباس(حرج نہیں) اسی کے لئے بولا جاتا ہے جس کا ترک اولی ہے۔(ت)

 (۲؎ الدر المختار کتاب الصلوۃ باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا مطبع مجتباہی دہلی ۱ / ۹۱)

اور یہی وہ ہے جو قول سوم مـیں ارشاد ہوا کہ پانی مـیں اسراف نہ کرنا آداب سے ہے۔ اما ما فی الحلیۃ فی مسألۃ فرقعۃ الاصابع فــــ ۱ھل یکرہ خارج الصّلاۃ فی النوازل یکرہ والظاھران المراد کراھۃ تنزیہ حیث لایکون لغرض صحیح اما لغرض صحیح ولو اراحۃ الاصابع فلا ۱؎ اھ

مگر حلیہ مـیں انگلیـاں چٹخانے کے مسئلہ مـیں ہے: کیـا یہ بیرونِ نماز بھی مکروہ ہے؟ نوازل مـیں ہے کہ مکروہ ہے۔ اورظاہر یہ ہے کہ کراہت تنزیہ مراد ہے جبکہ اس کی کوئی غرض صحیح نہ ہو۔اوراگرکسی غرض صحیح کے تحت ہو اگرچہ انگلیوں کو راحت دینا ہی مقصودہوتوکراہت نہیں اھ۔

فــ ۱: مسئلہ نماز مـیں انگلی چٹخانا گناہ وناجائز ہے یوں ہی اگر نماز کے انتظار مـیں بیٹھنا ہے یـا نماز کے لئے جارہا ہے ۔ اور ان کے سوا اگر حاجت ہو مثلا انگلیوں مـیں بخارات کے سببل پیدا ہو تو خالص اباحت ہے اور بے حاجت خلاف اولی و ترک ادب ہے ۔

(۱؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی )

وفی فــــ ۲ تشبیکھا بعد ذکر النھی عنہ فی الصلاۃ وفی السعی الیھا ولمنتظرھا کمثلھم فی الفرقعۃ مانصہ فیبقی فیما وراء ھذہ الاحوال حیث لایکون عبثا علی الاباحۃ من غیر کراھۃ وان کان علی سبیل العبث یکرہ تنزیھا ۲؎ اھ

اور ایک ہاتھ کی انگلیـاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں مـیں ڈالنے سے متعلق، نمازمـیں، اورنمازکے لئے جانے اور نمازکے انتظار کی حالتوں مـیں انگلیـاں چٹخانے کی طرح نہی کاذکرکرنے کے بعد حلیہ مـیں لکھا ہے: ان کے علاوہ احوال مـیں جہاں کہ عبث نہ ہو بغیری کراہت کے اباحت پرحکم رہے گا اور اگر بطورِ عبث ہو تومکروہ تنزیہی ہوگااھ۔

ف۲: مسئلہ یہی سب احکام اپنے ایک ہاتھ کی انگلیـاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں مـیں ڈالنے کے ہیں .

(۲؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی )

وتبعہ فیہما ش والبحر فی الاولی و زاد انہ لما لم یکن فیھا خارجہا نھی لم تکن تحریمـیۃ کما اسلفناہ قریبا ۳؎ اھ

ان دونوں مسئلوں مـیں شامـی نے حلیہ کا اتباع کیـا ہے اوربحرنے پہلے مسئلہ مـیں اتباع کیـا ہے اور مزیدیہ لکھا:چوں کہ انگلیـاں چٹخانے سے متعلق بیرونِ نماز ممانعت نہیں اس لئے وہاں یہ مکروہ تحریمـی نہیں جیساکہ کچھ پہلے اسے ہم بیـان کرچکے اھ۔

 (۳؎ بحرالرائق        مایفسد الصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۲۰)

یرید ماقدم انہ ان لم یکن الدلیل نھیـا بل کان مفیدا للترک الغیر الجازم فھی تنزیھیۃ ۱؎ اھ

پہلے یہ بتایـا ہے کہ اگردلیل مخالفت نہ کرتی ہوبلکہ غیر جزمـی طورپرترک کاافادہ کررہی ہو تو کراہت تنزیہی ہواھ

 (۱؎ بحرالرائق کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۱۹
ردالمحتار    کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا     دار احیـاء التراث العربی بیروت    ۱ /۴۲۹)

وعقب الثانیۃ بقولہ وقد قدمناہ عن الھدایۃ ان العبث خارج الصلوٰۃ حرام وحملناہ علی کراھۃ التحریم فینبغی انیکون العبث خارجہا لغیر حاجۃ کذلک ۲؎ اھ

او ربحر نے مسئلہ دوم کے بعد یہ لکھا کہ : ہم ہدایہ کے حوالے سے بیـان کرچکے ہیں کہ بیرونِ نماز عبث حرام ہے اور اسے ہم نے کراہت تحریم پر محمول کیـا تو بیرونِ نماز بے حاجت عبث کا حکم بھی یہی ہونا چاہئے اھ۔

ف : تطفل علی البحر ۔

 (۲؎ بحرالرائق کتاب الصلوۃ باب مایفسد الصّلوٰۃ وما یکرہ فیہا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۲۰،۲۱)

فـاقول دعوی کراھۃ التنزیہ مبتنیہ علی عدم الفرق بین خلاف الاولی وکراھۃ التنزیہ وزعم ان ترک کل مستحب مکروہ کما قدمنا فی التنبیہ الثالث عن الحلیۃ ان المکروہ تنزیھا مرجعہ خلاف الاولی والظاھر انہما متساویـان وعن البحر ان التنزیہ فی رتبۃ المندوب وعن ش ان ترک المندوب مکروہ تنزیھا وقد علمت ما ھوالتحقیق وباللّٰہ التوفیق۔

اس پرمـیں کہتاہوں کراہت تنزیہ کا دعوٰی، خلاف اولٰی اورکراہت تنزیہ کے درمـیان عدمِ فرق پر اور اس خیـال پر مبنی ہے کہ ہر مستحب کاترک مکروہ ہے جیسا کہ تنبیہ سوم مـیں حلیہ کے حوالے سے ہم نے نقل کیـا کہ: مکروہِ تنـزیہی کا مرجع خلاف اولٰی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ دونوں مـیں تساوی ہے۔ اوربحر سے نقل کیـا کہ کراہت تنزیہ کا مرتبہ مندوب کے مقابل ہے اورشامـی سے نقل کیـاکہ ترکِ مندوب مکروہ تنزیہی ہے۔اور وہاں واضح ہوچکا کہ تحقیق کیـاہے،اور توفیق خدا ہی سے ہے۔

اما ما عقب بہ الثانیۃ فاقول اولا اعجب واغرب مع انہ اسلف الاٰن انخارجہا نھی فلا تحریمـیۃ وثانیـا فــــ ۱ حققنا ان کلام الہدایۃ فی القسم الاول من العبث فاجراؤہ فی الثانی غیر سدید۔

اب رہا وہ جو بحر نے مسئلہ دوم کے بعد لکھا تو مـیں کہتاہوں اولاً : بہت زیـادہ عجیب وغریب ہے باوجودیکہ ابھی انہوں نے پہلے بتایـاکہ بیرونِ نماز نہی نہیں تومکروہ تحریمـی نہیں ثانیـا ہم تحقیق کرچکے کہ ہدایہ کا کلام عبث کی قسم اول سے متعلق ہے تواسے قسم دوم مـیں جاری کرنا درست نہیں۔(ت)

ف : تطفل اخر علیہ ۔

ہم اوپر بیـان کر آئے کہ کراہت تنزیہی کیلئے بھی نہی ودلیل خاص کی حاجت ہے اور مطلقا کوئی فعل کبھیی فائدہ غیر معتد بہا کیلئے کرنے سے شرع مـیںسی نہی مصروف ہے کہ کراہت تنزیہ ہو ہاں خلافِ اولٰی ہونا ظاہر کہ ہر وقت اولی یہی ہے کہ انسان فائدہ معتد بہا کی طرف متوجہ ہو۔ رہی حدیث صحیح

من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ رواہ الترمذی ۱؎ وابن ماجۃ والبیہقی فی الشعب عن ابی ھریرۃ والحاکم فی الکنی عن ابی بکرالصدیق وفی تاریخہ عن علی المرتضی  واحمد والطبرانی فی الکبیر عن سید ابن السید الحسین بن علی والشیرازی فی الالقاب عن ابی ذر والطبرانی فی الصغیر عن زید بن ثابت وابن عساکر عن الحارث بن ھشام رضی اللّٰہ تعالی عنھم عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حسنہ النووی وصححہ ابن عبد البر والھیثمـی۔

انسان کے اسلام کی خوبی سے ہے یہ بات کہ غیر مہم کام مـیں مشغول نہ ہولایعنی بات ترک کرے
(اس کو ترمذی وابن ماجہ نے اور شعب الایمان مـیں بیہقی نے حضرت ابو ھریرہ سے ،اورحاکم نے کُنٰی مـیں حضرت ابو بکر صدیق سے اور اپنی تاریخ مـیں حضرت علی مرتضٰی سے ،اور امام احمد نے اور معجم کبیرمـیں طبرانی نے سید ابن سید حضرت حسین بن علی سے، اورشیرازی نے القاب مـیں حضرت ابو ذر سے ،اورمعجم صغیر مـیں طبرانی نے حضرت زید بن ثابت سے ،اورابن عساکرنے حضرت حارث بن ہشام سے ، ان حضرات رضی اللہ تعالٰی عنہم نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کیـا۔ امام نووی نے اسے حسن اور ابن عبدالبروھیثمـی نے صحیح کہا۔(ت)

 (۱؎ سنن الترمذی    کتاب الزہد     حدیث ۲۳۲۴ دارالفکر بیروت         ۴ /۱۴۲
سنن الترمذی    کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۹۵
مجمع الزوائد کتاب الادب باب من حسن اسلام المرء الخ دارالکتب بیروت     ۸ /۱۸ )

اقول : اس کا مفاد بھی اس قدر کہ حسن اسلام سب محسنات سے ہے اور محسّنات مـیں سب مستحسنات بھی، نہ کہ ہر غیر مہم سے نہی، ورنہ غیر مہم تو بیکار سے بھی اعم ہے، تو سوا مہمات کے سب زیر نہی آکر مباحات سراسر مرتفع ہوجائیں گے۔ لاجرم امام ابنِ حجر مکی شرح اربعین نووی مـیں فرماتے ہیں: الذی یعنی الانسان من الامور ما یتعلق بضرورۃ حیـاتہ فی معاشہ مما یشبعہ من جوع ویرویہ من عطش ویستر عورتہ ویعف فرجہ ونحوہ ذلک مما یدفع الضرورۃ دون ما فیہ تلذذ واستمتاع واستکثار وسلامتہ فی معادہ ۱؎۔

انسان کے لئے مہم امور وہ ہیں جو اس کی حیـات ومعاش کی ضر ورت سے وابستہ ہوں اس قدر خوراک جو اس کی بھوک دورکرکے سیری حاصل کرائے اورپانی اس کی پیـاس دور کرکے سیراب کردے اور کپڑا جس سے اس کی ستر پوشی ہو اور وہ جس سے اس کی پارسائی کی حفاظت اورعفت ہو،اوراسی طرح کے امور جن سے اس کی ضرورت دفع ہو، اورجس مـیں اس کے معاد و آخرت کی سلامتی ہو وہ نہیں جس مـیں صرف لطف ولذت اندوزی اورکثرت طلبی ہو۔(ت)

 (۱؎ شرح اربعین لامام ابن حجر مکی )

ابن عطیہ مالکی کی شرح اربعین مـیں ہے: مالایعنیہ ھو مالا تدعو الحاجۃ الیہ مما لایعود علیہ منہ نفع اخروی، والذی یعنیہ مایدفع الضرورۃ دون مافیہ تلذذ وتنعم وقال الشیخ یوسف بن عمر مالایعنیہ ھو مایخاف فیہ فوات الاجر والذی یعنیہ ھو الذی لایخاف فیہ فوات ذلک۱؎ اھ مختصرا۔ لا یعنی وغیر مہم امور وہ ہیں جن کی کوئی حاجت نہ ہو ، جن سے کوئی اُخروی فائدہ نہ ہو۔ اورمہم امور وہ ہیں جن سے ضرورت دفع ہو نہ وہ جن مـیں لذت اندوزی وآسائش طلبی ہو۔ اورشیخ یوسف بن عمر نے فرمایـا: لایعنی امور وہ ہیں جن مـیں اجر فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔اور یعنی و مہم امور وہ ہیں جن مـیں اجر فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو اھ مختصرا۔(ت)

 (۱؎ شرح اربعین للامام ابن عطیۃ مالکی)

علاّمہ احمد بن حجازی کی شرح اربعین مـیں ہے: الذی یعنی الانسان من الامور ما یتعلق بضرورۃ حیـاتہ فی معاشہ وسلامتہ فی معادہ ومما لایعنیہ التوسع فی الدنیـا وطلب المناصب والریـاسۃ ۲؎ اھ ملخصا۔ انسان کے لئے مہم وہ امور ہیں جو اس کی معاشی زندگی اوراُخروی سلامتی کی ضرورت سے متعلق ہوں اور لایعنی وغیرمہم امور دنیـا کی وسعت اورمنصب وریـاست کی طلب ہے اھ ملخصاً۔(ت)

 (۲؎ المجالس السنیہ فی الکلام علی اربعین للنوویہ المجلس الثانی عشر الخ دار احیـاء الکتب العربیہ مصر     ص۳۶و۳۷)

تیسیر مـیں ہے : الذی یعنیہ ما تعلق بضرورۃ حیـاتہ فی معاشہ دون ما زاد وقال الغزالی حدما لایعنی ھوالذی لو ترک لم یفت بہ ثواب ولم ینجزبہ ضرر ۱؎۔ مہم امر وہ ہے جواس کی معاشی زندگی کی ضرورت سے وابستہ ہو وہ نہیں جو زیـادہ ہو۔اورامام غزالی نے فرمایـا: لایعنی کی تعریف یہ ہے کہ اگراسے ترک کردے تو اس سے کوئی ثواب فوت نہ ہو اور اس سے کوئی ضرر عائد نہ ہو۔(ت)

 (۱؎ التیسیرشرح الجامع الصغیر تحت الحدیث من حسن اسلام المرء الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریـاض ۲ /۳۸۱)

مرقاۃ مـیں ہے: حقیقۃ مالا یعنیہ مالا یحتاج الیہ فی ضرورۃ دینہ ودنیـاہ ولا ینفعہ فی مرضاۃ مولاہ بان یکون عیشہ بدونہ ممکنا وھو فی استقامۃ حالہ بغیرہ متمکنا قال الغزالی وحد مالا یعنیک ان تتکلم بکل مالو سکت عنہ لم تأثم ولم تتضرر فی حال ولا ماٰل ومثالہ ان تجلس مع قوم فتحکی معھم اسفارک ومارایت فیھا من جبال وانھار وما وقع لک من الوقائع وما استحسنتہ من الاطعمۃ والثیـاب وما تعجبت منہ من مشائخ البلاد ووقائعھم فھذہ امور لوسکت عنھا لم تأثم ولم تتضرر واذا بالغت فی الاجتھاد حتی لم یمتزج بحکایتک زیـادۃ ولا نقصان ولا تزکیۃ نفس من حیث التفاخر بمشا ھدۃ الاحوال العظیمۃ، ولا اغتیـاب لشخص ولا مذمۃ لشیئ مما خلقہ اللّٰہ تعالی فانت مع ذلک کلہ مضیع زمانک ومحاسب علی عمل لسانک اذ تستبدل الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر، لانک لو صرفت زمان الکلام فی الذکر والفکر ربما ینفتح، لکن من نفحات رحمۃ اللّٰہ تعالی ما یعظم جدواہ ولو سبحت اللّٰہ تعالی بنی لک بھا قصر فی الجنۃ ومن قدر علی ان یـاخذ کنزا من الکنوز فاخذ بدلہ عـــــــہ مدرۃ لاینتفع بھا کان خاسرا خسرانا مبینا وھذا علی فرض السلامۃ من الوقوع فی کلام المعصیۃ وانی تسلم من الافات التی ذکرناھا ۱؎۔

لا یعنی کی حقیقت یہ ہے کہ دین ودنیـاکی ضرورت مـیں اس سے کام نہ ہو اور رضائے مولا مـیں وہ نفع بخش نہ ہو اس طرح کہ وہ اس کے بغیر زندگی گزارسکتاہو اور وہ نہ ہو توبھی وہ اپنی حالت درست رکھ سکتا ہو۔امام غزالی نے فرمایـا: لایعنی کی حد یہ ہے کہ تم ایسی بات بولو جونہ بولتے تو نہ گنہگار ہوتے نہ حال ومآل مـیں اس سے تمہیں کوئی ضررہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بیٹھ کر لوگوں سے تم اپنے سفروں کا قصہ بیـان کرو اوریہ کہ مـیں نے اتنے پہاڑ اتنے دریـا دیکھے اوریہ یہ واقعات پیش آئے اتنے عمدہ کھانوں اور کپڑوں سے سابقہ پڑا،اورایسے ایسے مشائخِ بلادسے ملاقات ہوئی ان کے واقعات یہ ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو تم نہ بولتے تو نہ گنہگار ہوتے، نہ ان سے تمہیں کوئی ضررہوتا۔ اورجب تمہاری پوری کوشش یہ ہوکہ تمہاری حکایت مـیں نہی کمـی بیشی کی ہو،نہ ان عظیم احوال کے مشاہدہ پر تفاخر کے اعتبار سے خود ستائی کا شائبہ ہو، نہی انسان کی غیبت ہو، نہ خدائے تعالٰی کی مخلوقات مـیں سےی شئی کی مذمّت ہو توان ساری احتیـاطوں کے بعد بھی تم اپنا وقت برباد کرنے والے ہو اور تم سے اپنی زبان کے عمل پر حساب ہوگا اس لئے کہ تم خیر کے عوض اسے لے رہے ہو جو ادنٰی وکمترہے، کیونکہ گفتگو کا یہ وقت اگرتم ذکر وفکر مـیں صرف کرتے تورحمتِ الہٰی کے فیوض سے تم پر وہ درفیض کشادہ ہوتا جس کا نفع عظیم ہوتا،اگر تم خدائے بزرگ وبرتر کی تسبیح کرتے تواس کے بدلے تمہارے لئے جنت مـیں ایک محل تعمـیر ہوتا۔جو ایک خزانہ لے سکتا ہو مگر اسے چھوڑ کر ایک بے کار کا ڈھیلا اٹھالے تو وہ کھلے ہوئے خسارہ اور صریح نقصان کا شکار اور یہ اس مفروضہ پر ہے کہ معصیت کی بات مـیں پڑنے سے سلامت رہ جاؤ، او ر ان آفتوں سے سلامتی کہاں جو ہم نے ذکرکیں۔(ت)

 (عــہ)وقع فی نسخۃ المرقاۃ المطبوعۃ بمصر بدرۃ بالباء وھو تصحیف اھ منہ (م)
مرقاۃ مطبوعہ مصر کے نسخہ مـیں مدرہ کی جگہ باء سے بدرہ چھپا ہوا ہے یہ تصحیف ہے اھ منہ (ت)

 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح کتاب الادب باب حفظ اللسان تحت الحدیث ۴۸۴۰  المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۵۸۵و۵۸۶)

خلاصہ فـــ۱ ان سب نفیس کلاموں کا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی امت کو لایعنی باتیں چھوڑنے کی طرف ارشاد فرماتے ہیں جتنی بات آدمـی کے دین مـیں نافع اور ثواب الٰہی کی باعث ہویـا دنیـا مـیں ضرورت کے لائق ہو جیسے بھُوک پیـاس کا ازالہ بدن ڈھانکنا پارسائی حاصل کرنا اُسی قدر امر مہم ہے اور اس سے زائد جو کچھ ہو جیسے دنیـا کی لذتیں نعمتیں منصب ریـاستیں غرض جملہ افعال واقوال واحوال جن کے بغیر زندگانی ممکن ہو اور ان کے ترک مـیں نہ ثواب کا فوت نہ اب یـا آئندہی ضرر کا خوف وہ سب لایعنی وقابلِ ترک مثلاً لوگوں کے سامنے اپنے سفر کی حکایتیں کہ اتنے عــہ ۱ اتنے شہر اور پہاڑ اور دریـا دیکھے عــہ ۲؎ یہ یہ معاملے پیش آئے عــہ ۳ فلاں فلاں کھانے اور لباس عمدہ پائے عــہ۴ ایسے ایسے مشایخ سے ملنا ہوا۔ یہ سب باتیں اگر تو نہ بیـان کرتا تو نہ گناہ تھا نہ ضررعــہ ۱ ہوتا اور اگر تو کامل کوشش کرے کہ تیرے کلام مـیں واقعیت سے کچھ کمـی عــہ ۲ بیشی نہ ہونے پائے نہ اس تفاخر سے نفس کی تعریف نکلے کہ ہم نے ایسے ایسے عظیم حال دیکھے نہ اُس عــہ۳مـیںی شخص کی غیبت ہو۔نہ اللہ تعالٰی کی پیدا عــہ۴ کی ہوئیی چیز کی مذمت ہو تو اتنی احتیـاطوں کے بعد بھی اُس کلام کا حاصل یہ ہوگا کہ تُونے اتنی دیر اپنا وقت ضائع کیـا اور تیری زبان سے اُس کا حساب ہوگا تو خیر کے عوض ادنی بات اختیـار کررہا ہے اس لئے کہ جتنی دیر تُونے یہ باتیں کیں اگر اتنا وقت اللہ عزوجل کی یـاد اور اس کی نعمتوں صنعتوں کی فکر مـیں صرف کرتا تو غالباً رحمتِ الٰہی کے فیوض سے تجھ پر وہ کھُلتا جو بڑا نفع دیتا او ر تسبیح الٰہی کرتا تو تیرے لئے جنت مـیں عــہ۱ محل چُنا جاتا اور جو ایک خزانہ لے سکتا ہو وہ ایک نکمّا ڈھیلا لینے پر بس کرے تو صریح زیـاں کار ہو اور یہ سب بھی اُس تقدیر پر ہے کہ کلامِ معصیت سے بچ جائے اور وہ آفتیں جو ہم نے ذکر کیں اُن سے بچنا کہاں ہوتا ہے۔ ظاہر ہوا کہ لایعنی جملہ مباحات کو شامل ہے نہ کہ مطلقا مکروہ ہو۔

فـــ۱:حدیث وائمہ کی جلیل نصیحت :لا یعنی باتوں کاموں کے ترک کی ہدایت اور لا یعنی معنی کا بیـان ۔
(عــہ۱) اقول مگر جبکہ نیت بیـان عجائب وصنعت وحکمت وقدرت ربانی وذکر الٰہی ہو قال تعالٰی

فی الافاق ۲؎ وفی انفسکم افلا تبصرون۳؎ o ۱۲ منہ (م)اللہ تعالٰی نے فرمایـا:دنیـا بھر مـیں اور خود تم مـیں کتنی نشانیـاں ہیں تو کیـا تمہیں سوجھتا نہیں۔

 (۲؎القرآن الکریم ۴۱ /۵۳ )  ( ۳؎القرآن الکریم ۵۱ /۲۱)

 (عـــہ۲)اقول؎ مگر جبکہ اُن کے ذکر مـیں اپنی یـا سامعین کی منفعت دینی ہو اور خالص اُسی کا قصد کرے قال اللّٰہ تعالی

وذکرھم بایـام اللّٰہ ۴؎  (اللہ تعالٰی نے فرمایـا: اور انہیں اللہ کے دن یـاد دلاؤ۔ت )۱۲منہ

 (۴؎القرآن الکریم     ۱۴ /۵)

 (عــہ۳) اقول: مگر جبکہ اُس سے مقصود اپنے اوپر احساناتِ الٰہی کا بیـان ہو کہ ایسی جگہ ایسی بے سروسامانی مـیں مجھ سے ناچیز کو اپنے کرم سے ایسا ایسا عطا فرمایـا قال تعالٰی

واما بنعمۃ ربک فحدث۵؎  (اللہ تعالٰی نے فرمایـا:اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو۔ت )۱۲منہ

 (۵؎القرآن الکریم     ۹۳ /۱۱)

 (عــہ۴) اقول مگر جبکہ علمائے سنّت وصلحائے امت کے فضائل کا نشر اور سامعین کو ان سے استفادہ کی ترغیب مقصود ہو

عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ ۶؎  (صالحین کے ذکر پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ت)

 (۶؎کشف الخفاء    حدیث ۱۷۷۰    دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۲/ ۶۵)

 (عــہ۱) اقول ثواب نہ ملنا بھی ایک نوع ضرر ہے خود امام غزالی سے بحوالہ تیسیر اور کلام ابن عطیہ ومرقاۃ مـیں گزرا کہ جو کچھ آخرت مـیں نافع ہو لایعنی نہیں ورنہ اس کے یہ معنی لیں کہ جس کے ترک مـیں نہ گناہ اخروی نہ ضرر دنیوی تو تمام مستحبات بھی داخلِ لایعنی ہوجائیں گے اور وہ بداہۃً باطل ہے ۱۲ منہ (م)
(عــہ۲) اقول یعنی وہ کمـی جس سے معنی کلام بدل جائیں جیسےی ضروری استثناء کا ترک ورنہ جبکہ ترک کل مـیں گناہ نہیں ترک بعض مـیں کیوں ہونے لگا ۱۲ منہ (م)
(عــہ۳) اقول مگر جبکہ جس کی برائی بیـان کی وہ گمراہ بد مذہب ہوکہ ان کی شناعت سے مسلمانوں کو مطلع کرنا واجبات دینیہ سے ہے حدیث مـیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اترعون عن ذکر الفاجر متی یعرفہ الناس اذکروا الفاجر بما فیہ یحذرہ الناس ۱؎ کیـا فاجر کی برائی بیـان کرنے سے پرہیز رکھتے ہو، لوگ اُسے کب پہچانیں گے فاجر مـیں جو شناعتیں ہیں بیـان کرو کہ لوگ اس سے پرہیز کریں رواہ ابن ابی الدنیـا فی ذم الغیبۃ والامام الترمذی ا لحکیم فی النوادر والحاکم۔ فی الکنی والشیرازی فی الالقاب وابن عدی فی الکامل والطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی السنن والخطیب فی التاریخ عن معویۃ بن حیدۃ القشیری والخطیب فی رواۃ مالک عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم ۱۲ منہ (م)

 (۱؎نوادرالاصول     الاصل السادس والستون والمائۃ فی ذکرالفاجر    دارصادربیروت    ۱ /۴۵۶
السنن الکبری     کتا ب الشہادات باب الرجل من اہل الفقہ الخ     دارصادربیروت    ۱۰ /۲۱۰
المعجم الکبیر        حدیث ۱۰۱۰    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۹ /۴۱۸
اتحاف السادۃ المتقین بحوالہ الخطیب وغیر ہ     کتاب آفات اللسان     دارالفکربیروت    ۷ /۵۵۶)

 (عــہ۴)اقول مگر جبکہ اس مـیں مصلحت دینیہ ہو اورمعاذ اللہ اعتراض کے پہلو سے پاک ہو جیسے کچھ لوگی طرف عازمِ سفر ہیں ان کو بتانا کہ فلاں راستہ بہت خراب ہے اس سے نہ جانا یـا کوئیی عورت سے نکاح چاہتا ہے اسے اس کی صورت نسب وغیرہ وغیرہ مـیں عیوب معلوم ہیں ان کو خالص خیر خواہی کی نیت سے بیـان کرنا لحدیث ان فی اعین الانصار شیئا رواہ مسلم ۲؎عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ (م)

 (۲؎صحیح مسلم     کتاب النکاح باب ندب من اراد نکاح امرأۃالخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۴۵۶)

 (عــہ۱) اقول ہر بار تسبیح الٰہی کرنے پر جنت مـیں ایک پیڑ بویـا جاتا ہے احادیث ۲؎کثیرہ مـیں ہے:
من احادیث ابن مسعود وابن عمرو وجابر وابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم اما بناء القصر فاللّٰہ تعالی اعلم۔ (م)

 (سنن الترمذی     کتاب الدعوات     حدیث ۳۴۷۵و۳۴۷۶    دارالفکربیروت    ۵ /۱۸۶و۱۸۷)

ہاں مثلاً چار بار پانی ڈالنے کی عادت کرلے تو غالباً اس پر باعث نہ ہوگا مگر وسوسہ اور کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ دیکھنے والے اسے موسوس جانیں گے اور بلا ضرورت شرعیہ محل تہمت مـیں پڑنا ضرور مکروہ ہے۔ فیذکرعنہ عــہ۲صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یقفن مواقف التھم ۱؎ وفی الباب عن عــہ۱امـیر المؤمنین الفاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ کہ حضور اکر م سے مذکورہے کہ جو خدا اور روزِ آخر پر ایمان رکھتا ہووہ ہرگز تہمت کی جگہ نہ ٹھہرے اوراس باب مـیں امـیر المومنین فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے۔(ت)

 (عــہ۲)اوردہ فی الکشاف من اخرسورۃ الاحزاب والعلامۃ الشرنبلالی قبیل سجود السھو من مراقی الفلاح۔ (م)
کشاف مـیں سورہ احزاب کے آخر مـیں اور علامہ شرنبلالی نے سجدہ کے بیـان مـیں مراقی الفلاح مـیں لکھا ہے۔ (ت)

 (۱؎الکشاف     تحت الآیۃ ۳۳ /۵۶    دارالکتاب العربی     ۳ /۵۵۸
کشف الخفا    حدیث ۸۸    دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۱ /۳۷
مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی     باب ادراک الفریضہ     دارالکتب العلمـیہ بیروت    ص۴۸۸ )

 (عــہ۱) رواہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ قال من اقام نفسہ مقام التہمۃ فلا یلومن اساء الظن بہ ۱؎ ۱۲ منہ
خرائطی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مکارم الاخلاق مـیں امـیر المومنین عمر فاروق سے روایت کیـا ہے کہ جس نے تہمت کی جگہ اپنے آپ کو پہنچایـا تو بدگمانی کرنے والے کو ملامت نہ کرو۔ (ت)

 (کشف الخفاء    بحوالہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق تحت الحدیث ۸۸ دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۱ /۳۷)

یہ منشأ قول دوم ہے
بالجملہ حاصل حکم یہ نکلا بے حاجت زیـادت اگر باعتقاد سنیت ہو مطلقاً ناجائز وگناہ ہے اگرچہ دریـا مـیں اور اگر پانی ضائع جائے تو جب بھی مطلقاً مکروہ تحریمـی اگرچہ اعتقاد سنیت نہ ہو اور اگر نہ فساد عقیدت نہ اضاعت تو خلاف ادب ہے مگر عادت کرلے تو مکروہ تنزیہی یہ ہے بحمداللہ تعالٰی فقہ جامع وفکر نافع ودرک بالغ ونور بازغ وکمال توفیق وجمال تطبیق وحُسن تحقیق وعطر تدقیق وباللّٰہ التوفیق والحمدللّٰہ رب العٰلمـین۔

اقول اس تنقیح جلیل سے چند فائدے روشن ہوئے:
اولا اصل حکم وہی ہے جو امام محرر المذہب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کتاب اصل مـیں ارشاد فرمایـا کہ بقیہ احکام کے مناط عقیدت واضاعت وعادت ہیں اور وہ نفس فعل سے زائد، فی نفسہ اُس کا حکم اُسی قدر کہ قول سوم مـیں مذکور ہوا۔
ثانیـا دوم وسوم مـیں اُس زیـادت کو اسراف سے تعبیر فرمانا محض بنظر صورت ہے ورنہ جب نہ معصیت نہ اضاعت تو حقیقت اسراف زنہار نہیں۔
ثالثا دربارہ زیـادت منع واجازت مـیں عادت وندرت کو دخل نہیں کہ فساد عقیدت یـا پانی کی اضاعت ہو تو ایک بار بھی جائز نہیں اور اُن دونوں سے بری ہو تو بارہا بھی گناہ معصیت نہیں کراہت تنزیہی جدا بات ہے، ہاں دربارہ نقص یہ تفصیل ہے کہ بے ضرورت تین بار سے کم دھونے کی عادت مکروہ تحریمـی اور احیـاناً ہو تو بے فساد عقیدت صرف مکروہ تنزیہی ورنہ تحریمـی کہ تثلیث سنّتِ مؤکدہ ہے اور سنت مؤکدہ کے ترک کا یہی حکم بخلاف زیـادت کہ ترک تثلیث نہیں بلکہ تثلیث پُوری کرکے زیـادت ہے۔

وبہ ظھرفــ ضعف ما مر عن العلامۃ ش فی التنبیہ الخامس من التوفیق بین نفی البدائع الکراھۃ ای التحریمـیۃ عن الزیـادۃ علی الثلاث والنقص عنھا عند عدم الاعتقاد مع اشعار الفتح وغیرہ بثبوتھا اذا زاد اونقص لغیر حاجۃ بان محمل الاول اذا فعلہ مرۃ والثانی علی الاعتیـاد فھذا مسلم فی النقص ممنوع فی الزیـادۃ۔

اسی سے اس تطبیق کی کمزوری ظاہر ہوگئی جو علامہ شامـی سے ہم نے تنبیہ پنجم مـیں نقل کی۔ تفصیل یہ کہ صاحبِ بدائع نے تین بارسے کم وبیش دھونے سے متعلق بتایـا کہ اگر (کمـی بیشی کے مسنون ہونے) کا اعتقاد نہ رکھتا ہو تو مکروہ نہیں یعنی مکروہ تحریمـی نہیں۔ اورصاحبِ فتح القدیر وغیرہ نے پتا دیـا کہ اگرزیـادتی یـا بے حاجت کمـی کرے تو کراہت ثابت ہے اگرچہ وہ تین باردھونے کو ہی مسنون مانتا ہو۔ علامہ شامـی کی تطبیق یہ ہے کہ نفی بدائع کا مطلب یہ ہے کہ اگرکبھی ایک بار کمـی بیشی کا مرتکب ہوا توکراہت نہیں اور فتح وغیرہ کے اثبات کراہت کا معنٰی یہ ہے کہ اگر کمـی یـا زیـادتی کی عادت کرے توکراہت ہے۔ اس تطبیق پر کلام یہ ہے کہ کمـی کی صورت مـیں تو یہ تسلیم ہے مگر زیـادتی کی صورت مـیں تسلیم نہیں (جیسا کہ اوپر واضح ہوا۔م)

فــ:حدیث وائمہ کی جلیل نصیحت :لایعنی باتوں کاموں کے ترک کی ہدایت ،اورلایعنی کے معنی کابیـان ۔

اما الاستناد الی مفہوم تفریع الفتح وغیرہ المارثمہ وقد تمسک بہ ایضا العلامۃ ط علی ان کراھۃ الاسراف کراھۃ تحریم حیث قال اقول یـاثم بالاسراف ولو اعتقد سنیۃ الثلاث فقط فلذا قالوا فی المفھوم (ای بیـان مفہوم قولھم ان الحدیث محمول علی الاعتقاد) حتی لورأی سنیۃ العدد وزاد لقصد الوضوء علے الوضوء اولطمانینۃ القلب اونقص لحاجۃ فلا باس بہ (ای فافادوا ان لو زاد بلا غرض کان فیہ باس) ولو کان کما ذکر (ان لاباس الا فی الاعتقاد) لاتکرہ الزیـادۃ مطلقا ۱؎ اھ مزیدا منا بین الاھلۃ ۔

اب ایک بحث اور رہ گئی کہ فتح القدیر وغیرہ مـیں جیساکہ وہاں گزرا وعیدحدیث کو عدم اعتقاد پرمحمول کرکے یہ تفریع کی ہے کہ اگرکسی حاجت کے تحت کمـی بیشی کی تو اس مـیں حرج نہیں۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر بلا حاجت کمـی بیشی ہے تومکروہ ہے۔اس تفریع کے مفہوم سے علامہ شامـی نے اسراف کی کراہت پر استناد کیـاہے اوراس سے علامہ طحطاوی نے بھی اسراف کی کراہت تحریم پراستناد کیـاہے وہ کہتے ہیں: مـیں کہتاہوں اگرصرف تثلیث کے مسنون ہونے کااعتقاد رکھتا ہو تو بھی اسراف سے گنہگار ہوجائے گا۔اسی لئے مفہوم مـیں (''حدیث اعتقاد پرمحمول ہے''اس کلام کے مفہوم کے بیـان مـیں) علما نے کہاہے کہ ''اگر تین کے عدد کومسنون مانتاہواوروضوعلی الوضو کے ارادے سے یـااطمـینان قلب کے لئے زیـادتی کر دے یـای حاجت کی وجہ سے کمـی کردے توکوئی حرج نہیں''۔ یعنی اس سے مستفاد یہ ہواکہ اگر بلا غرض زیـادہ کردے تو اس مـیں حرج ہے) اور اگرایسا ہوتا جیسا ذکر کیـاگیـا(کہ حرج صرف اعتقاد خلاف مـیں ہے) تو''مطلقاً'' زیـادتی مکروہ نہ ہوتی اھ طحطاوی کی عبارت ہلالین کے درمـیان ہمارے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی۔

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمحتار    کتاب الطہارۃ     المکتبۃ العربیہ بیروت         ۱ /۷۲)

وھذا ھو منزع کلام ش بیدانہ حملہ علی التعود واطلق ط۔ اقول ولاطلاقہ مستندات کما علمت امافــ تفصیل ش ان الاسراف یکرہ تنزیھا ان وقع احیـانا وتحریما ان تعود فلا اعلم من صرح بہ وکانہ اخذہ من جعل النھر ترکہ سنۃ مؤکدۃ مع خلافہ لہ فی حمل الکراھۃ علی التحریم۔

کلام شامـی کا منشابھی یہی ہے فرق یہ ہے کہ انہوں نے اسے عادت پرمحمول کیـاہے اور طحطاوی نے مطلق رکھا ہے اقول اوران کے اطلاق کی تائیدمـیں کچھ قابلِ استناد عبارتیں ہیں جیساکہ معلوم ہوا۔ رہی علامہ شامـی کی یہ تفصیل کہ اسراف اگر احیـاناً واقع ہوتومکروہ تنزیہی ہے اورعادۃً ہوتومکروہ تحریمـی ہے،مـیرے علم مـیںی نے اس کی تصریح نہیں کی ہے۔علامہ شامـی نے شاید اس کو اس سے اخذ کیـاہے کہ صاحبِ نہر نے ترک  اسراف کو سنتِ مؤکدہ قراردیـاہے باوجودیکہ صاحبِ نہر نے اسراف کی کراہت کا تحریمـی ہونا ظاہر کیـاتو علامہ شامـی نے ان کی مخالفت کی ہے۔

فــ:معروضۃ اخری علیہ ۔

فاقول ھم فــ۱انفسھم فی ابانۃ المفھوم وشرح نوطھم الحکم بالاعتقاد فذکروا تصویرا لا یکون فیہ الزیـادۃ والنقص لاجل الاعتقاد بل لغرض اخرلان العاقل لابد لفعلہ من غرض فاذا لم یکن المشی علی مااعتقد فلیکن ماذکروا فلا یدل علی ادارۃ الامر علی ھذا التصویر والا لخالف الشرح المشروح فان المشروح ناطہ بالاعتقاد وصرح ان لو زاد او نقص واعتقدان الثلاث سنۃ لایلحقہ الوعید کما تقدم عن البدائع وھذا ینوطہ بشیئ اخر غیرہ وبالجملۃ لانسلم ان لشرح المفھوم مفھوما اخرو ان فــ۲سلم فمفہومہ معارض لمنطوق البدائع وغیرھا والمنطوق مقدم فافھم۔

اب تفریع مذکورکے مفہوم سے استناد پر مـیں کہتاہوں وہ حضرات توخود مفہوم کی توضیح کررہے ہیں اور اس بات کی تشریح فرمارہے ہیں کہ حکم حدیث کو انہوں نے اعتقاد سے وابستہ رکھا ہے اسی کے لئے انہوں نے ایسی صورت پیش کی ہے جس مـیں زیـادتی یـاکمـی اعتقاد کی وجہ سے نہ ہو بلکہی اور غرض کے تحت ہو۔اس لئے کہ کارعاقل کے لئے کوئی غرض ہونا ضروری ہے۔ تواگر اس کے اعتقادپر نہ چلیں تووہی ہونا چاہئے جو ان حضرات نے ذکر کیـا(اب اگر اعتقاد کو بنیـاد نہ مان کر مطلقاً اسراف کومکروہِ تحریمـی کہتے ہیں۱۲م)تو یہ اس کو نہیں بتاتا کہ مدارِ کا راُس صورت پرہے جو ان حضرات نے پیش کی ورنہ شرح اورمشروح مخالفت لازم آئےاس لئے کہ مشروح نے توحکم کامدار اعتقاد پر رکھا ہے اور یہ صراحت کردی ہے کہ اگرتین باردھونے کوسنت مانتے ہوئے زیـادتی یـا کمـی کی تووعید اسے لاحق نہ ہوگی جیساکہ بدائع سے نقل ہوا۔اورشرح حکم کو اس کے علاوہی اورچیز سے وابستہ کرتی ہے۔الحاصل ہم یہ نہیں مانتے کہ شرحِ مفہوم کا کوئی دوسرا مفہوم ہوسکتاہے۔اگراسے تسلیم بھی کرلیـا جائے تو اس کا مفہوم بدائع وغیرھا کے منطوق کے معارض ہے اورمنطوق مقدم ہوتاہے۔تو اسے سمجھو۔

فــ۱:معروضۃ ثالثۃ علیہ وعلی العلامۃط۔
فــ۲:معروضۃ رابعۃ علی ش واخری علی ط۔

رابعا جبکہ حدیث نے بے قید حال ومکان زیـادت ونقص پر حکم اسأت وظلم وتعدی ارشاد فرمایـا اور زیـادت مـیں تعدی خاص مکان اضاعت مـیں ہے اور نقص مـیں خاص بحال عادت لہٰذا ہمارے علماء کرام رحمہم اللہ تعالٰی نے حدیث کو ایک منشاء ونیت یعنی اعتقاد سنیت پر حمل فرمایـا جس سے بے قید حال ومکان مطلقاً حکم تعدی واسأت ہو۔

خامسا بدائع وغیرہ کی تصریح کہ اگر بے اعتقاد سنیت نقص وزیـادت ہو تو وعید نہیں صحیح ونجیح ہے کہ عادت نقص یـا اضاعت زیـادت مـیں طوق وعید اس ضم ضمـیمہ پر ہے تو فعل بجائے خود اپنے منشأ وغایت ومقصد نیت مـیں مواخذہ سے پاک ہے کما علمت ھکذا ینبغی التحقیق واللّٰہ تعالٰی ولی التوفیق  (جیسا کہ واضح ہوا ، اسی طرح تحقیق ہونی چاہئے ، اور خدا ہی مالکِ توفیق ہے۔ ت) الحمد للہ اس امر پنجم اعنی حکم اسراف آب کا بیـان ایسی وجہ جلیل وجمـیل پر واقع ہوا کہ خود ہی ایک مستقل نفیس رسالہ ہونے اور تاریخی نام

برکات السماء فی حکم اسراف الماء

رکھنے کے قابل والحمدللّٰہ علی نعمہ الجلائل وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سید الا واخر والاوائل واٰلہ وصحبہ الکرام الافاضل۔

فائدہ مہمّہ: فــ۱:وضو مـیں پانی زیـادہ نہ خرچ ہونے کیلئے چند امور کا لحاظ رکھیں:
(۱) وضو دیکھ فــ۲ دیکھ کر ہوشیـاری واحتیـاط کے ساتھ کریں، عوام مـیں جو یہ مشہور ہے کہ وضو بہت جلد کرناچاہئے اور اسی معنے پر کہتے ہیں کہ وضو نوجوان کا سا اور نماز بُوڑھوں کی سی،یہ غلط ہے بلکہ وضو مـیں بھی درنگ وترک عجلت مطلوب ہے۔ فتح وبحر وشامـی شمار آداب وضوء مـیں ہے والتانی۱؎ (ٹھہر ٹھہرکر دھونا۔ ت)عالمگیریہ مـیں معراج الدرایہ سے ہے لایستعجل فی الوضوء  ۲؎ (وضو مـیں جلدی نہ کرے۔ ت)

فــ۱:فائدہ :وہ باتیں جن کے لحاظ سے وضومـیں پانی کم خرچ ہو۔
فــ۲:مسئلہ وضومـیں جلدی نہ چاہئے بلکہ درنگ واحتیـاط کے ساتھ کریں ،عوام مـیں جویہ مشہورہے کہ وضوجوانوں کاسا،نمازبوڑھوں کی سی،یہ وضوکے بارے مـیں غلط ہے۔

 (۱؎ فتح القدیر        کتاب الطہارۃ     مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۲
البحرالرائق        کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱ /۲۸)
(۲؎ الفتاوٰی الہندیہ    کتاب الطہارات     الفصل الثالث فی المستحبات نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۹)

اقول ظاہر ہے کہ جس شے کیلئے شرع نے ایک حدباندھی ہے کہ اُس سے نہ کمـی چاہئے نہ بیشی، تو اس فعل کو باحتیـاط بجالانے ہی مـیں حد کا موازنہ ہوسکے گا نہ کہ لپ جھپ اناپ شناپ مـیں۔
(۲) بعض لوگ چُلّو لینے مـیں پانی ایسا ڈالتے ہیں کہ اُبل جاتاہے حالانکہ جو گرا بیکار گیـااس سے احتیـاط چاہئے۔
(۳) ہر چُلّو بھرا ہونا ضرور نہیں بلکہ جس کام کیلئے لیں اس کا اندازہ رکھیں مثلاً ناک مـیں نرم بانسے تک پانی چڑھانے کو پُورا چُلو کیـاضرور نصف بھی کافی ہے بلکہ بھرا چُلو کُلی کیلئے بھی درکار نہیں۔
(۴) لوٹے کی ٹونٹی متوسط معتدل چاہئے نہ ایسی تنگ کہ پانی بدیر دے نہ فراخ کہ حاجت سے زیـادہ گرائے اس کا فرق یوں معلوم ہوسکتا ہے کہ کٹوروں مـیں پانی لے کر وضو کیجئے تو بہت خرچ ہوگا یونہی فراخ ٹونٹی سے بہانا زیـادہ خرچ کا باعث ہے اگر لوٹاایسا ہوتو احتیـاط کرے پوری دھارنہ گرائے بلکہ باریک۔
(۵) بہت بھاری برتن سے وضو نہ کرے خصوصاً کمزورکہ پورا قابو نہ ہونے کے باعث پانی بے احتیـاط گرے گا۔
(۶) اعضاء فــ دھونے سے پہلے اُن پر بھیگا ہاتھ پھیرلے کہ پانی جلد دوڑتاہے اور تھوڑا،بہت کا کام دیتا ہے خصوصاً موسم سرمامـیں اس کی زیـادہ حاجت ہے کہ اعضأ مـیں خشکی ہوتی ہے بہتی دھار بیچ مـیں جگہ خالی چھوڑ جاتی ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے ۔

فــ:مسئلہ مستحب ہے کہ اعضاء دھونے سے پہلے بھیگاہاتھ پھیرلے خصوصاجاڑے مـیں ۔

بحرالرائق مـیں ہے: عن خلف بن ایوب انہ قال ینبغی للمتوضیئ فی الشتاء ان یبل اعضاء ہ بالماء شبہ الدھن ثم یسیل الماء علیھا لان الماء یتجافی عن الاعضاء فی الشتاء کذا فی البدائع ۱؎۔ خلف بن ایوب سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایـا:وضوکرنے والے کو چاہئے کہ جاڑے مـیں اپنے اعضاکو پانی سے تیل کی طرح ترکرے پھران پرپانی بہائے اس لئے کہ پانی جاڑے مـیں اعضا سے الگ رہ جاتاہے۔ ایسا ہی بدائع مـیں ہے۔(ت)

 (۱؎ البحرالرائق        کتاب الطہارت    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۱)

فتح القدیر مـیں ہے: الاداب امرار الید علی الاعضاء المغسولۃ والتأنی والدلک خصوصاً فی الشتاء ۲؎ اھ ۔ وضو کے آداب مـیں یہ ہے کہ دھوئے جانے والے اعضا پرہاتھ پھیرلے،اورٹھہر ٹھہرکردھوئے، اور مَل لیـا کرے خصوصاً جاڑے مـیں اھ۔(ت)

 (۲؎ فتح القدیر        کتاب الطہارۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۳۲)

واعترضہ فی البحر بانہ ذکر الدلک من المندوبات وفی الخلاصۃ انہ سنۃ عندنا ۳؎ اھ اس پر بحر کااعتراض ہے کہ انہوں نے ملنے کو مندوبات مـیں شمارکردیـاجب کہ خلاصہ مـیں یہ ہے کہ وہ ہمارے نزدیک سنت ہے،

 (۳؎ البحرالرائق         کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)

وقدمناہ فی التنبیہ الثالث وقال العلامۃ ش فی المنحۃ قولہ ذکر الدلک الخ یمکن ان یجاب عنہ بان مرادہ امرار الید المبلولۃ علی الاعضاء المغسولۃ لما قدمہ الشارح عندالکلام علی غسل الوجہ عن خلف بن ایوب (ای مانقلناہ اٰنفا قال) لکن کان ینبغی تقییدہ بالشتاء تامل ۴؎ اھ۔

اوریہ اعتراض ہم تنبیہ سوم مـیں ذکرکرچکے ہیں۔علامہ شامـی منحۃ الخالق حاشیۃ البحر الرائق مـیں بحر کے اعتراض مذکور کے تحت لکھتے ہیں: اس کا یہ جواب دیـاجاسکتاہے کہ صاحبِ فتح کی مراد یہ ہے کہ دھوئے جانے والے اعضاء پر بھیگا ہواہاتھ پھیرلیـاجائے اس کی وجہ وہ ہے جو شارح نے غسل وجہ پرکلام کے تحت حضرت خلف بن ایوب سے نقل کی(وہی جواوپر ہم نے ابھی نقل کیـا)لیکن انہیں اس کے ساتھ ''جاڑے'' کی قید لگادینا چاہئے تھا۔ تامل کرو۔ اھ۔

 (۴؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۹)

اقول اولا : ان فــ۱اراد انہ لایندب الیہ الا فی الشتاء فممنوع لان الماء وان کان یتجافی عن الاعضاء فی غیر الشتاء فلا شک ان البل قبل الغسل ینفع فی کل زمان فانہ یسہل مرور الماء ویقلل المصروف منہ کما ھو مجرب مشاھد فالنقل عن الامام خلف فی الشتاء لاینفیہ فی غیرہ انما یقتضی ان الحاجۃ الیہ فی الشتاء اشد وھذا قد صرح بہ المحقق حیث قال خصوصا فی الشتاء ۱؎۔

اقول اولا : اگر علامہ شامـی کی مراد یہ ہے کہ وہ صرف جاڑے ہی مـیں مندوب ہے تویہ قابل تسلیم نہیں اس لئے کہ غیر سرمامـیں پانی اگرچہ اعضا سے الگ نہیں ہوتا مگر اس مـیں شک نہیں کہ دھونے سے پہلے ترکرلینا ہر موسم مـیں مفید ہے کیوں کہ اس سے پانی بآسانی گزرتاہے اور کم صرف ہوتاہے۔جیسا کہ یہ تجربہ ومشاہدہ سے معلوم ہے ۔توامام خلف سے نقل اگرچہ خاص جاڑے کے لفظ کے ساتھ ہے مگراس سے غیرسرماکی نفی نہیں ہوتی اس کا تقاضا صرف یہ ہے کہ جاڑے مـیں ضرورت زیـادہ ہے اور اس کی تو حضرت محقق نے تصریح کردی ہے اس طرح کہ انہوں نے لکھا:''خصوصاً جاڑے مـیں''۔

فــ۱:معروضۃ علی العلامۃ ش۔

 (۱؎فتح القدیر        کتاب الطہارۃ     مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۲)

وثانیـا :  امرار الید علی الاعضاء المغسولۃ قد افرزہ المحقق عن الدلک کما سمعت فکیف یحمل علیہ لکن التحقیق مااقول ان الامرار المذکور لہ ثلثۃ محتملات الاول الامرار بعد الغسل اعنی بعدفــ۲ماانحدر الماء لنشف الباقی کیلا یترشش علی الثیـاب ۔

    ثانیـاً : دھوئے جانے والے اعـضا پرہاتھ پھیرنے کو حضرت محقق نے دلک(اعضاکوملنے)سے الگ ذکرکیـا ہے جیساکہ ان کی عبارت پیش ہوئی تواسے اس پرکیسے محمول کیـاجائے گا؟۔لیکن تحقیق وہ ہے جو مـیں کہتاہوں کہ مذکورہ ہاتھ پھیرنے مـیں تین معنی کا احتمال ہے:۔ اول: دھولینے کے بعد ہاتھ پھیرنایعنی پانی گرجانے کے بعد باقی کو خشک کرنے کے لئے ہاتھ پھیرنا تاکہ کپڑوں پر نہ ٹپکے۔

فــ۲:مسئلہ ہرعضودھوکراس پرہاتھ پھیردیناچاہئے کہ پانی کی بوندیں ٹپکناموقوف ہوجائے تاکہ بدن یـاکپڑے پرنہ ٹپکیں۔

    والثانی : مع الغسل ای حینالماء بعدُ مارا علی الاعضاء وھو عین الدلک المطلوب قال فی البحر خلف ماقدم عن خلفٍ الدلکُمن مفہومہ (ای الغسل بالفتح) وانما ھو مندوب وذکر فی الخلاصۃ انہ سنۃ وحدہ امرار الید علی الاعضاء المغسولۃ ۱؎ اھ۔

    دوم: دھونے کے ساتھ ساتھ ہاتھ پھیرنا۔یعنی جس وقت پانی اعضا پر گررہا ہے اسی وقت ہاتھ پھیرتے جانا۔یہ بعینہ وہی دلک(اعضا کو ملنا) ہے جو مطلوب ہے۔بحر مـیں حضرت خلف سے نقل شدہ کلام کے بعد لکھا: دلک، غسل بالفتح۔دھونے۔کے مفہوم مـیں داخل نہیں۔وہ صرف مندوب ہے۔اور خلاصہ مـیں ذکرکیـاکہ سنت ہے۔اور اس کی تعریف یہ ہے :دھوئے جانے والے اعضاء پر ہاتھ پھیرنا اھ۔

 (۱؎ البحرالرائق     کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۱)

    والثالث : قبل الغسل ویحتاج الی التقیید بالمبلولۃ والتجوز فی المغسولۃ بمعنی ماسیغسل اوما امر بہ ان یغسل فح قد یمکن ان یراد بالدلک الثالث کما زعم العلامۃ ش وبالا مرار الاول فلا ھو ینافی الافراز ولا یلزم عدم الثانی من المندوبات خلافا لما ھو المذھب المذکور فی الخلاصۃ ومن القرینۃ علیہ ان المحقق بحث فیـالدلک خارجا عن حقیقۃ الغسل ومال الی ان المقصود بشرعیۃ الغسل لایحصل الابہ وقد اجاب عنہ فی الغنیۃ بما کفی وشفی فیبعد ان یدخلہ ھھنا فی مجرد ادب نازل عن الاستنان ایضا خلفۃ عن الافتراض وقد یؤیدہ ایضا لفظۃ خصوصا فی الشتاء لان الثانی صرحوا باستنانہ مطلقا وانما قیدوا بالشتاء الثالث فھذا غایۃ توجیہ ما فی المنحۃ وبہ یندفع ایراد البحر وان کان المتبادر من الدلک ھو الثانی ولذا مشی علیہ فی البحر واقتفینا اثرہ فیما مربل مشی علیہ ش نفسہ فی ردالمحتار واعترض علی الفتح بما اعترض فی البحر قائلا لکن قدمنا ان الدلک سنۃ قال ولعل المراد بما قبلہ (ای امرار الید) امرارھا علیہ مبلولۃ قبل الغسل تأمل ۱؎ اھ۔

    سوم: دھونے سے پہلے ہاتھ پھیرنا(فتح کی عبارت ہے : امر ار الید علی الاعضاء المغسولۃ اعضائے مغسولہ پر ہاتھ پھیرنا۱۲م)عبارت فتح کے اندر یہ معنی لینے کے لئے دوباتوں کی ضرورت ہے۔ایک یہ کہ ہاتھ کے ساتھ''تر'' کی قیدلگائی جائے۔دوسری یہ کہ ''مغسولہ'' مـیں مجاز مانا جائے اورکہاجائے کہ مغسولہ کا معنی یہ کہ وہ جودھوئے جائیں گے یـا وہ جن کے دھونے کاحکم ہے۔ایسی صورت مـیں دلک(اعضا کو ملنا) سے تیسرا معنی مراد لیـاجاسکتاہے جیسا کہ علامہ شامـی کا خیـال ہے اور''ہاتھ پھیرنے''سے پہلا معنٰی مراد ہوسکتا ہے۔یہ معنی اسے الگ ذکر کرنے کے خلاف نہ پڑے گا۔اوریہ بھی لازم نہ آئے گا کہ انہوں نے دوسرے معنی کوخلاصہ مـیں ذکرشدہ مذہب کے برخلاف،مندوبات مـیں شمار کردیـا۔اوراس پر ایک قرینہ بھی ہے وہ یہ کہ حضرت محقق نے دلک (بمعنی دوم) کے حقیقتِ غسل سے خارج ہونے پر بحث کی ہے اوران کا مـیلان اس طرف ہے کہ دھونے کی مشروعیت کا جو مقصود ہے وہ اس کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔اس بحث کاصاحبِ غنیہ نے کافی وشافی جواب دے دیـاہے(مگرجب وہاں دلک کو عینِ غسل اور نفسِ فرض قراردینے کی طرف مائل ہیں۱۲م) توبعید ہے کہ یہاں فرضیت کے بدلے ، مسنونیت سے بھی فروترصرف ایک ادب کے تحت اسے داخل کردیں۔اور ان کے لفظ''خصوصاًجاڑے مـیں'' سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔اس لئے کہ معنی دوم کے تو مطلقاً مسنون ہونے کی علماء نے تصریح فرمائی ہے۔ اورجاڑے کی قید صرف معنی سوم مـیں لگائی ہے۔ یہ منحۃ الخالق کے جواب کی انتہائی توجیہ ہے اور اسی سے بحر کا اعتراض بھی دفع ہوجاتاہے۔ اگرچہ لفظ دلک سے متبادر وہی معنی دوم ہے اسی لئے صاحبِ بحر اسی پرگئے ہیں اور سابق مـیں ہم نے بھی ان ہی کے نشانِ قدم کی پیروی کی ہے۔بلکہ خود علامہ شامـی ردالمحتار مـیں اسی پر گام زن ہیں اور فتح پر وہی اعتراض کیـاہے جو بحر نے کیـا،وہ لکھتے ہیں: لیکن ہم پہلے ذکر کر چکے کہ دلک سنت ہے۔اورکہتے ہیں: شاید ماقبل (یعنی ہاتھ پھیرنے) سے مراد دھونے سے پہلے اعضا پر ترہاتھ پھیرنا ہے، تأمل کرو،اھ۔

 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ     داراحیـاء التراث العربی بیروت         ۱ /۸۵)

اقول قدفــ۱علمت ان ھذا اضعف احتمالا تہ واذا کان ھذا مرادہ فحمل الدلک علیہ یکون تکرار بلا شک فان قلت ذکر المحقق بعدہ من الاداب حفظ ثیـابہ من المتقاطر ۲؎ فبحمل الامرار علی الاول یتکرر مع ھذا قلت امرار الید وان کان معلولا بالحفظ تعلیل الفعل بغایتہ فلیس علۃ کافیۃ لحصولہ بحیث لایحتاج بعدہ فی الحفظ الی احتراسٍ سواہ فلا یکون ذکرہ مغنیـا عن ذکر الحفظ۔

    اقول واضح ہوچکا کہ اس لفظ مـیں یہ سب سے ضعیف احتمال ہے،اگر اس لفظ سے یہ ان کی مراد ہوتواس پر''دلک''کو محمول کرنے مـیں بلاشبہہ تکرار لازم آئے گی۔ اگر سوال ہوکہ حضرت محقق نے اس کے بعد آداب مـیں''ٹپکنے والے پانی سے کپڑوں کوبچانا''بھی شمارکیـاہے۔توہاتھ پھیرنے سے اگرمعنی اول مراد لیـاجائے تب بھی تویہاں آکر تکرار ہوجائے گی؟ تومـیں جواباًکہوں گا اگرچہ ہاتھ پھیرنے کی علت ''کپڑوں کی حفاظت بتائی گئی ہے جیسےی فعل کی علت اس کی غایت کو بتایـاجاتاہے مگر یہ ہاتھ پھیرنا بچاؤ حاصل ہونے کے لئے ایسی کافی علت نہیں ہے کہ اس کے بعد بچاؤ مـیں مزیدی احتیـاط اور ہوشیـاری برتنے کی ضرورت ہی نہ ہوتوہاتھ پھیرنے کاذکر ہوجانے کے بعد بھی اس کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ ٹپکنے والے پانی سے کپڑوں کے بچانے کو مستقلاً ذکر کیـاجائے۔

فــ۱:معروضۃ علی ش۔

 (۲؎ فتح القدیر    کتاب الطہارۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۳۲)

ثم اقول عجبافــ۲للبحر جزم ھھنا یندب الدلک ونسب الاستنان للخلاصۃ کغیر المرتضی لہ واعترض ثمہ علی المحقق بان فی الخلاصۃ انہ سنۃ عندنا۱؎۔

    ثم اقول صاحبِ بحر پر تعجب ہے کہ یہاں دلک کے مندوب ہونے پر جزم کیـااور مسنون ہونے کوخلاصہ کی طرف یوں منسوب کیـا جیسے یہ ان کا پسندیدہ نہیں، اور وہاں حضرت محقق پر یہی اعتراض کیـاہے کہ خلاصہ مـیں لکھا ہے کہ وہ ہمارے نزدیک سنت ہے۔

فــ۲:تطفل علی البحر۔

 (۱؎ البحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی         ۱ /۲۹)

 (۷) کلائیوں پر بال ہوں تو ترشوادیں کہ اُن کا ہونا پانی زیـادہ چاہتا ہے اور مونڈنے سے سخت ہوجاتے ہیں اور تراشنا مشین سے بہتر کہ خوب صاف کردیتی ہے اور سب سے احسن وافضل نورہ ہے کہ ان اعضأ مـیں یہی سنت سے ثابت ابن ماجہ فــ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: ان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان اذا طلی بدأ بعورتہ فطلاھا بالنورۃ وسائر جسدہ اھلہ ۲؎۔ رسول اللہ جب نورہ کا استعمال فرماتے تو ستر مقدس پراپنے دست مبارک سے لگاتے اور باقی بدن مبارک پر ازواج مطہرات لگادیتیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہن وبارک وسلم۔

فــ:مسئلہ ہاتھ ،پاؤں،سینہ ،پشت ،پربال ہوں تونورہ سے دورکرنابہترہے ۔اورموئے زیرناف پربھی استعمال نورہ آیـاہے ۔

 (۲؎ سنن ابن ماجۃ     ابواب الادب باب الاطلاء بالنورۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۲۷۴)

اور ایسا نہ کریں تو دھونے سے پہلے پانی سے خوب بھگولیں کہ سب بال بِچھ جائیں ورنہ کھڑے بال کی جڑ مـیں پانی گزر گیـااور نوک سے نہ بہا تو وضو نہ ہوگا۔
(۸) دست وپاپر اگر لوٹے سے دھار ڈالیں تو ناخنوں سے کہنیوں یـا گٹوں کے اُوپر تک علی الاتصال اُتاریں کہ ایک بار مـیں ہر جگہ پر ایک ہی بار گرے پانی جبکہ گر رہا ہے اور ہاتھ کی روانی مـیں دیر ہوگی تو ایک جگہ پر مکرر گرے گا۔
(۹) بعض لوگ یوں کرتے ہیں کہ ناخن سے کُہنی تک یـا گٹے تک بہاتے لائے پھر دوبارہ سہ بارہ کیلئے جو ناخن کی طرف لے گئے تو ہاتھ نہ روکا بلکہ دھار جاری رکھی ایسا نہ کریں کہ تثلیث کے عوض پانچ بار ہوجائے گا بلکہ ہر بار کہنی یـا گٹے تک لاکر دھار روک لیں اور رُکا ہوا ہاتھ ناخنوں تک لے جاکر وہاں سے پھر اجرا کریں کہ سنت یہی فــ۱ہے کہ ناخن سے کُہنیوں یـا گٹوں تک پانی بہے نہ اس کا عکس، کما نص علیہ فی الخلاصۃ وغیرھا  (جیساکہ خلاصہ وغیرہ مـیں اس کی تنصیص کی ہے۔ ت)

فــ۱:مسئلہ سنت یہ ہے کہ پانی ہاتھ پاؤں کے ناخن کی طرف سے کہنیوں اورگٹوں کے اوپرتک ڈالیں اُدھرسے اِدھرکونہ لائیں ۔

 (۱۰) قول جامع یہ ہے کہ سلیقہ سے کام لیں سیدنا امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیـا خوب فرمایـا ہے: قد یرفق بالقلیل فیکفی ویخرق بالکثیر فلا یکفی ذکرہ الامام النووی فی شرح مسلم ۱؎ واوردہ الامام العینی فی شرح البخاری بلفظ قد یرفق الفقیہ بالقلیل فیکفی ویخرق الاخرق ولا یکفی ۲؎ ۔ یعنی سلیقہ سے اٹھاؤ تو تھوڑا بھی کافی ہوجاتاہے اوربدسلیقگی برتوتوبہت بھی کفایت نہیں کرتا(اسے امام نووی نے شرح مسلم مـیں ذکرکیـااورامام عینی نے شرح بخاری مـیں ان الفاظ کے ساتھ بیـان کیـا:

 (۱؎ شرح صحیح مسلم للامام النووی    کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء    دارالفکربیروت    ۲ /۱۳۷۳
۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری     کتاب الوضوء باب الوضو بالمد    تحت الحدیث ۶۴۔۲۰۱     دارالکتب العلمـیہ بیروت۳ /۱۴۱)

    فائدہ :اوپر حدیث فــ۲ گزری کہ وَلَہان نام شیطان وضو مـیں وسوسہ ڈالتا ہے اُس کے وسوسہ سے بچو۔دفع وسوسہ کے لئے بہترین تدبیران باتوں کا التزام ہے:

 (فــ۲ :فائدہ جلیلہ :دفع وسواس کی دعائیں اورعلاج )۔

 (۱) رجوع الی اللہ واعوذ(۱) ولا حول(۲) وسورہ(۳) ناس کی قرأت اور(۴) اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ط کہنا (۵) اور ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ ط وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمo۳؎ ان سے فوراً وسوسہ دفع ہوجاتا ہے۔اور (۶) سُبْحٰنِ الْمَلِک الْخَلَّاقِ ط اِنْ یشاْ یذھِبْکُمْ وَیـاتِ بِخَلْقٍ جَدِید ط وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیزo۱؎ کی کثرت اُسے جڑ سے قطع کردیتی ہے۔

(۳؎ القرآن الکریم     ۵۷ /۳)      (۱؎ القرآن الکریم     ۱۴ /۱۹)

حدیث(۷) مـیں ہے ایک صاحب نے خدمتِ اقدس مـیں حاضر ہو کر وسوسہ کی شکایت کی کہ نماز مـیں پتا نہیں چلتا دو پڑھیں یـا تین۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایـا: اذا وجدت ذلک فارفع اصبعک السبابۃ الیمنی فاطعنہ فی فخذک الیسری وقل بسم اللّٰہ فانھا سکین الشیطان رواہ البزار۲؎ والطبرانی عن والد ابی الملیح ورواہ ایضا الحکیم الترمذی۔ جب تُو ایسا پائے تواپنی دا ہنی انگشتِ شہادت اٹھا کر اپنی بائیں ران مـیں مار اوربسم اللہ کہہ کہ وہ شیطان کے حق مـیں چھُری ہے (اس کو بزار اور طبرانی نے ابو ملیح کے والدسے روایت کیـاہے اورحکیم ترمذی نے بھی اسے روایت کیـاہے۔ت)

 (۲؎ کنزالعمال بحوالہ طب والحکیم عن ابی الملیح     حدیث ۱۲۷۳    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱ /۲۵۲
    المعجم الکبیر        حدیث ۵۱۲    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱ /۱۹۲
مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی والبزاز        کتاب الصلوۃ باب السہو فی الصلوٰۃ    دارالکتاب بیروت ۲ /۱۵۱)

 (۲) وسوسہ کی نہ سُننا اُس پر عمل نہ کرنا اس کے خلاف کرنا، اس بلائے عظیم کی عادت ہے کہ جس قدر اس پر عمل ہو اُسی قدر بڑھے اور جب قصداً اُس کا خلاف کیـا جائے تو باذنہٖ تعالٰی تھوڑی مدّت مـیں بالکل دفع ہوجائے۔عمرو بن مُرّہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ماوسوسۃ باولع ممن یراھا تعمل فیہ ۔رواہ ابن ابی شیبۃ۳؎۔ شیطان جسے دیکھتاہے کہ مـیرا وسوسہ اس مـیں کارگرہوتاہے سب سے زیـادہ اسی کے پیچھے پڑتاہے۔(اسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیـا۔ت)

 (۳؎ المصنف لابن ابی شیبۃ     کتاب الطہارات حدیث ۲۰۵۴    دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۱ /۱۷۹)

امام ابن حجر مکّی اپنے فتاوٰی مـیں فرماتے ہیں مجھ سے بعض ثقہ لوگوں نے بیـان کیـا کہ دو وسوسہ والوں کو نہانے کی ضرورت ہوئی دریـائے نیل پرگئے طلوعِ صبح کے بعد پہنچے ایک نے دوسرے سے کہا تُو اتر کر غوطے لگا مـیں گنتا جاؤں گا اور تجھے بتاؤں گا کہ پانی تیرے سر کو پہنچا یـا نہیں، وہ اُترا اور غوطے لگانا شروع کئے اور یہ کہہ رہا ہے کہ ابھی تھوڑی سی جگہ تیرے سر مـیں باقی ہے وہاں پانی نہ پہنچا ایک صبح سے دوپہر ہوگیـا آخر تھک کر باہر آیـا اور دل مـیں شک رہا کہ غسل اُترا نہیں۔ پھر اس نے دوسرے سے کہا اب تُو اُتر مـیں گنوں گا، اس نے ڈبکیـاں لگائیں اور یہ کہتا جاتا ہے کہ ابھی سارے سر کو پانی نہ پہنچا یہاں تک کہ دوپہر سے شام ہوگئی مجبور وہ بھی دریـا سے نکل آیـا اور دل مـیں شُبہ کا شبہ ہی رہا، دن بھر کی نمازیں کھوئیں اور غسل اُترنے پر یقین نہ ہونا تھا نہ ہوا والعیـاذ باللہ تعالٰی ذکرہ فی الحدیقۃ الندیۃ،۱؎  (اسے حدیقہ ندیہ مـیں بیـان کیـاگیـا۔ت)یہ وسوسہ ماننے کا نتیجہ تھا۔

 (۱؎ الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقہ المحمدیۃ        الباب الثانی النوع الثانی     مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۶۹۱)

اور صالحین مـیں سے ایک صاحب فرماتے ہیں مجھے دربارہ طہارت وسوسہ تھا راستہ کی کیچڑ اگر کپڑے مـیں لگ جاتی اُسے دھوتا (حالانکہ شرعاً جب تک خاص اُس جگہ نجاست کا ہونا ثابت ومتحقق نہ ہو حکم طہارت ہے) ایک دن نمازِ صبح کیلئے جاتا تھا راہ کی کیچڑ لگ گئی مـیں نے دھونا چاہا اور خیـال آیـا کہ دھوتا ہوں تو جماعت جاتی ہے ناگاہ اللہ عزوجل نے مجھے ہدایت فرمائی مـیرے دل مـیں ڈالا کہ اس کیچڑ مـیں لوٹ اور سب کپڑے سان لے اور یونہی نماز مـیں شریک ہوجا، مـیں نے ایسا ہی کیـا پھر وسوسہ نہ ہوا ۔ ذکرہ فی الطریقۃ المحمدیۃ ۲؎  (اسے طریقہ محمدیہ مـیں نقل کیـاگیـا۔ت)یہ اس کی مخالفت کی برکت تھی۔

 (۲؎ الطریقہ المحمدیۃ    النوع الثالث فی علاج الوسوسۃالخ    مکتبہ حنفیہ کوئٹہ     ۲ /۲۳۰)

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث مـیں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا احدکم اذا کان فی المسجد جاء الشیطان فابسّ بہ کما یبسّ الرجل بدابتہ فان اسکن لہ وثقہ اوالجمہ۔ جب تم مـیں کوئی مسجدمـیں ہوتا ہے شیطان آکر اس کے بدن پر ہاتھ پھیرتا ہے جیسے تم مـیں کوئی اپنے گھوڑے کو رام کرنے کے لئے اس پرہاتھ پھیرتا ہے بعد اگروہ شخص ٹھہر ارہا یعنی اس کے وسوسہ سے فوراً الگ نہ ہوگیـا تو اسے باندھ لیتا یـا لگام دے دیتاہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس حدیث کو روایت کرکے فرمایـا: وانتم ترون ذلک اما الموثوق فتراہ مائلا کذا لایذکراللّٰہ واما الملجم ففاتح فاہ لایذکر اللّٰہ عزّوجل رواہ الامام احمد۱؎ ۔ یعنی حدیث کی تصدیق تم آنکھوں دیکھ رہے ہو وہ جو بندھا ہوا ہے اُسے تودیکھے گا یوُں جھکاہوا کہ ذکرِ الہٰی نہیں کرتا اور وہ جولگام دیـاہوا ہے وہ منہ کھولے ہے اللہ تعالٰی کا ذکر نہیں کرتا(اسے امام احمد نے روایت کیـا۔ت)

 (۱؎ مسند احمد بن حبنل     عن ابی ھریرۃرضی اللہ عنہ     المکتب الاسلامـی بیروت    ۲ /۳۳۰)

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: واذا وجد احدکم فی بطنہ شیـا فاشکل علیہ اخرج منہ شیئ ام لافلا یخرج من المسجد حتی یسمع صوتا اویجد ریحا رواہ مسلم والترمذی۲؎ عن ابی ھریرۃ۔ جب تم مـیں کوئی اپنے شکم مـیں کچھ محسوس کرے جس سے اس پر اشتباہ ہوجائے کہ اس سے کچھ خارج ہوا یـا نہیں تووہ مسجد سے نہ نکلے یہاں تک کہ آواز سنے یـا بو پائے۔اسے مسلم وترمذی نے حضرت ابوھریرہ سے روایت کیـا۔

 (۲؎ صحیح مسلم    کتاب الحیض باب الدلیل علی ان من تیقن الطہارۃ    قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۸
سنن الترمذی    ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضوء من الریح    حدیث ۷۵ دارالفکربیر وت    ۱ /۱۵۸)

والا حمد والترمذی وابن ماجۃ والخطیب عنہ مختصرا بلفظ لاوضوء الامن صوت اوریح۳؎ اوران سے امام احمد ،ترمذی، ابن ماجہ اورخطیب نے مختصراً ان الفاظ مـیں روایت کیـاہے:وضو نہیں مگر آواز یـا بُو سے۔

 (۳ ؎ سنن الترمذی    ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی الوضوءمن الریح    حدیث ۷۵        دارالفکربیر وت    ۱ /۱۳۴
سنن ابن ماجۃ     ابواب الطہارۃ باب لاوضو الامن حدث         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۳۹
مسند احمدبن حنبل     عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ     المکتب الاسلامـی بیروت    ۲ /۲۱۰و۴۳۵)

ولا حمد والشیخین وابی داؤد والنسائی وابناء ماجۃ وخزیمۃ وحبان عن عباد بن تمـیم عن عمہ عــہ عبداللّٰہ بن زید بن عاصم قال شکی الی النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم الرجل یخیل الیہ انہ یجد الشیئ فی الصلٰوۃ قال لاتنصرف حتی تسمع صوتا اوتجد ریحا ۱؎ ۔

اورامام احمد،بخاری،مسلم،ابوداؤد، نسائی،ابن ماجہ،ابن خزیمہ اورابن حبان کی روایت عباد بن تمـیم سے ہے، وہ اپنے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم سے راوی ہیں وہ کہتے ہیں ایک شخص نے نبی کے پاس یہ شکایت عرض کی کہ اسے خیـال ہوتاہے کہ نماز مـیں وہ کچھ محسوس کررہا ہے ۔سرکار نے فرمایـا: نمازسے نہ پھرویہاں تک کہ آواز سنویـا بُو پاؤ۔

 (عــہ)وقع ھھنا فی نسخۃ کنزالعمال المطبوعۃ بحیدراباد عن عمر مکان عن عمہ وھو تصحیف شدید فاجتنبہ اھ منہ۔
یہاں کنزالعمال کے نسخہ مطبوعہ حیدرآباد مـیں عن عمہ کی جگہ عن عمر چھپ گیـا ہے اور یہ شدید قسم کی تصحیف ہے۔ اس سے ہوشیـار رہنا چاہئے اھ منہ۔(ت)

 (۱؎صحیح البخاری     کتاب الوضو با ب لایتوضأمن الشک    قدیمـی کتب خانہ کراچی     ۱ /۲۵
صحیح مسلم        کتاب الحیض الدلیل علی ان من تیقن الطہارۃ     قدیمـی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۵۸
سنن النسائی     کتاب الطہارۃ     باب الوضومن الریح     نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی     ۱ /۳۷
سنن ابی داؤد     کتاب الطہارۃ     باب اذاشک فی الحدث     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۲۳
سنن ابن ماجۃ     ابواب الطہارۃ     باب لاوضوالامن حدث     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۳۹)

ولا حمد وابی یعلی عن ابی سعید عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ان الشیطان لیـاتی احدکم وھو فی صلاتہ فیـاخذ بشعرۃ من دیرہ فیمدھا فیری انہ قداحدث فلا ینصرف حتی یسمع صوتا اویجد ریحا ۲؎ ۔

اور امام احمد وابو یعلٰی حضرت ابو سعید سے وہ نبی  سے راوی ہیں کہ تم مـیںکوئی نماز مـیںہوتاہے اورشیطان اس کے پاس آکر اس کے پیچھے سے کوئی بال کھینچتاہے جس سے وہ یہ خیـال کرنے لگتاہے کہ اس کا وضو جاتارہا، ایساہوتو وہ نمازسے نہ پھرے یہاں تک کہ آواز سنے یـا بو پائے۔

 (۲؎ الجامع الصغیر بحوالہ حم ع    حدیث ۲۰۲۷    دارالکتب العلمـیہ بیروت    ۱ /۱۲۴)

ورواہ عنہ سعید بن منصور مختصرا نحو المرفوع من حدیث عباد وللبراز عن ابن عباس عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یـاتی احدکم الشیطان فی الصلاۃ فینفح فی تہ فیخیل انہ احدث ولم یحدث فاذا وجد ذلک فلا ینصرف حتی یسمع صوتا اویجد ریحا ۱؎

اوراسے ان سے سعید بن منصور نے مختصراً حضرت عباد کی حدیث کے مرفوع الفاظ کے ہم معنی ذکر کیـاہے۔ اوربزار حضرت ابن عباس سے وہ نبی ؐ سے راوی ہیں کہ تم مـیںکسی کے پاس نماز مـیں شیطان آکر اس کے پیچھے پھونک دیتا ہے جس سے اس کو خیـال ہوتاہے کہ مجھے حدث ہوگیـا حالانکہ اسے حدث نہ ہوا توکوئی ایسامحسوس کرے تونماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ آواز سنے یـا بوُپائے۔

 (۱؎ کشف الاستار عن زوائد البزار    باب مالاینقض الوضوء   موسسۃ الرسالۃ    بیروت    ۱ /۱۴۷)

ورواہ عنہ الطبرانی فی الکبیر مختصرا بلفظ من خیل لہ فی صلاتہ انہ قد احدث فلا ینصرفن حتی یسمع صوتا اویجد ریحا ۲؎ اور اسے طبرانی نے ان سے مختصراً ان الفاظ مـیں روایت کیـاہے جسے نماز کے اندر ایسا خیـال ہوکہ اسے حدث ہواتوہرگز وہ نماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ آواز سنے یـا بو پائے۔

 (۲ ؎المعجم الکبیر حدیث ۱۱۹۴۸ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۱۱ / ۳۴۱ )

ولعبد الرزاق وابن ابی الدنیـا عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال ان الشیطان یطیف باحدکم فی الصلاۃ لیقطع علیہ صلاتہ فاذا اعیـاہ ان ینصرف نفخ فی دبرہ یریہ انہ قداحدث فلا ینصر فن احدکم حتی یجد ریحا اویسمع صوتا ۳؎

اورعبدالرزاق وابن ابی الدنیـا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ہیں، انہوں نے فرمایـا: شیطان تم مـیںی کے گرد اس کی نماز توڑنے کے لئے گھیرا ڈال دیتا ہے،جب اس سے عاجز ہوجاتاہے کہ وہ اپنی نمازسے پھرے تواس کے پیچھے پھُونک دیتا ہے تاکہ اسے یہ خیـال ہوکہ اسے حدث ہوگیـا۔ایسا ہوتو ہرگز کوئی نماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ بو پائے یـا آواز سنے۔

 (۳؎ المصنف لعبدالرزاق    حدیث ۵۳۶ المکتبۃ الاسلامـی بیروت ۱ /۱۴۱)

وفی روایۃ اخری عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حتی انہ یـاتی احدکم وھو فی الصلاۃ فینفخ فی دبرہ ویبل احلیلہ ثم یقول قد احدثت فلا ینصر فن احدکم حتی یجد ریحا ویسمع صوتا ویجد بللا ۴؎

اورحضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہی ایک اورروایت مـیں یہ ہے کہ وہ نماز مـیںی کے پاس آکر اس کے پیچھے پھونک دیتاہے اوراس کے احلیل(ذکر کی نالی)کو ترکردیتاہے پھرکہتا ہے تو بے وضو ہوگیـا۔ توہرگز کوئی نماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ بو پائے اورآواز سنے اورتری پائے۔

 (۴؎ آکام المرجان بحوالہ عبداللہ بن مسعود باب ۱۲۰ مکتبہ خیر کثیر کراچی ص ۹۲)

ولعبد الرزاق وابن ابی شیبۃ فی مصنفیھما وابن ابی داؤد فی کتاب الوسوسۃ عن ابرھیم النخعی قال کان یقال ان الشیطان یجری فی الاحلیل وفی الدبرعـــہ فیری الرجل انہ قداحدث فلا ینصر فن احدکم حتی یسمع صوتا اویجد ریحا اویری بللا ۲؎

اور عبدالرزاق وابن ابی شیبہ اپنی اپنی مصنّف مـیں،اورابن ابی داؤد کتاب الوسوسۃ مـیں حضرت ابراہیم نخعی سے راوی ہیں انہوں نے فرمایـا: کہا جاتاتھاکہ شیطان احلیل مـیں اور دُبر مـیں دوڑجاتا ہے ۔آدمـی کو یہ خیـال دلاتاہے کہ اسے حدث ہوگیـا تو ہرگز کوئی نماز سے نہ پھرے یہاں تک کہ آواز سنے یـا بو پائے یـا تری دیکھے۔

عـہ فی نسختی لقط المرجان بین الواو وفی لفظۃ لم یقمہا الکاتب وھو ینفخ فی الدبر اونحوہ اھ منہ (م)
لقط المرجان کا جو نسخہ مـیرے پاس ہے اس مـیں واؤ او رفی کے درمـیان ایک لفظ ہے جس کو کاتب نے نہیں لکھا اور وہ ینفخ فی الدبر یـا اس کے ہم معنی کچھ ہو گا اھ منہ ۔ (ت)

 (۱؎ المصنف لعبدالرزاق باب الرجل یشتبہ علیہ فی الصلوۃ احدث الخ حدیث ۵۳۸ المکتب الاسلامـی حدیث ۱/ ۱۴۲)

قلت ذکر ھذین الاثرین الامام الجلیل الجلال السیوطی فی لقط المرجان مقتصرا علیھما ھو وصاحبہ البدر فی اصلہ اٰکام المرجان مع ثبوتہ فی المرفوع کما علمت وقال عامر الشعبی من اجلاء علماء التابعین ان الشیطان بزقۃ یعنی بلۃ طرف الاحلیل۲؎ ذکرہ العارف فی الحدیقۃ الندیۃ۔

قلت یہ دونوں اثر ( اثر ابن مسعود واثرامام نخعی)امام جلال الدین سیوطی نے ''لقط المرجان'' مـیں ذکر کئے اورانہوں نے انہی دونوں پر اکتفا کی اسی طرح اس کی اصل آکام المرجان مـیں قاضی بدرالدین شبلی نے بھی ان ہی دونوں پر اکتفا کی ہے حالانکہ یہ مضمون مرفوع مـیں موجود ہے جیساکہ معلوم ہوا۔ اور اجلّہ علمائے تابعین مـیں سے امام عامر شعبی فرماتے ہیں: شیطان کبھی تھوک دیتا ہے ۔مراد یہ ہے کہ سرِ احلیل ترکردیتاہے۔ اسے عارف باللہ عبدالغنی نابلسی نے حدیقہ ندیہ مـیں ذکر کیـا۔(ت)

 (۲؎ حدیقۃ الندیۃ الباب الثالث النوع الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد     ۲ /۶۸۸)

اِن حدیثوں ف کا حاصل یہ ہے کہ شیطان نماز مـیں دھوکا دینے کیلئے کبھی انسان کی شرمگاہ پر آگے سے تھوک دیتا ہے کہ اُسے قطرہ آنے کا گمان ہوتا ہے کبھی پیچھے پھُونکتا یـا بال کھینچتا ہے کہ ریح خارج ہونے کا خیـال گزرتا ہے اس پر حکم ہوا کہ نماز سے نہ پھرو جب تک تری یـا آواز یـا بُو نہ پاؤ جب تک وقوعِ حدث پر یقین نہ ہولے۔

ہمارے امام اعظم کے شاگرد جلیل سیدنا عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں: اذا شک فی الحدث فانہ لایجب علیہ الوضوءحتی یستیقن استیقانا یقدران یحلف علیہ ۱؎ ا۔ علقہ الترمذی فی باب الوضوء من الریح ـ

یعنی یقین ایسا درکار ہے جس پر قسم کھا سکے کو ضرور حدث ہوا اور جب قسم کھاتے ہچکچائے تو معلوم ہواکہ معلوم نہیں مشکوک ہے اورشک کا اعتبار نہیں کہ طہارت پر یقین تھا اور یقین شک سے نہیں جاتا۔(ترمذی نے باب الوضو من الریح مـیں اسے ابن مبارک سے تعلیقاً روایت کیـاہے۔ت)

فـــــ : مسئلہ شیطان کے تھوک اور پھونک سے نماز مـیں قطرے اور ریح کاشبہ جاتا ہے حکم ہے کہ جب تک ایسا یقین نہ ہو جس پر قسم کھاسکے اس پر لحاظ نہ کرے ، شیطان کہے کہ تیرا وضو جاتا رہا تو دل مـیں جواب دے لے کہ خبیث تو جھوٹا ہے اور اپنی نماز مـیں مشغول رہے۔

 (۱؎ سنن الترمذی باب الطہارت حدیث ۷۶ دارالفکر بیروت         ۱ /۳۵)

اسی لئے ف ۲ سنت ہوا کہ وضو کے بعد ایک چھینٹا رومالی یـا تہ بند ہو تو اس کے ا ندرونی حصّے پر جو بدن کے قریب ہے دے لیـا کریں ثم لیقل ھو من الماء پھر اگر قطرہ کا شبہ ہوتو خیـال کرلیں کہ پانی جو چھِڑکا تھا اُس کا اثر ہے۔

فــــ ۲: مسئلہ سنت ہے کہ وضو کے بعد رومالی پر چھنیٹادے لے ۔

 (۲؎ سنن ابن ماجہ ابواب الطہارہ باب ماجاء فی النضح بعد الوضوء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۶ )

حدیث مـیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا توضأت فانتضح۔ رواہ ابن ماجہ ۲؎ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ جب تو وضو کرے تو چھینٹا دے لے (اسے ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی سے روایت کیـا ۔ ) (ت)
بلکہ ارشاد فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:

عشرعــــہ۱من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ والسواک واستنشاق الماء وقص الاظفار وغسل البراجم ونتف الابط وحلق العانۃ وانتقاض الماء ۔ دس باتیں قدیم سے انبیـائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہیں: لبیں کترنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، وضو وغسل مـیں پانی سونگھ کر اوپر چڑھانا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑ (یعنی جہاں جہاں مـیل جمع ہونے کا محل ہے اسے) دھونا،بغل اور زیر ناف بالوں سے صاف کرنا شرمگاہ پرپانی ڈالنا۔

عــہ ۱: قال المناوی من للتبعیض ولذا لم یذکر اان ھنا اھ ۱ ؎ اقول کونھا فـــ للتبعیض لاشک فیہ فان اان والمضمضۃ کلا من الفطرۃ کما یـاتی فالزیـادۃ علی العشر معلومۃ ولکن ماعلل بہ من عدم ذکر اان ھنا لامحل لہ وکانہ نسی ان الراوی نسی العاشرۃ فما یدریک لعلہا اان استظھرہ جمع کما سیـاتی اھ منہ (م)
علامہ مناوی نے کہا من الفطرۃ مـیں من تبعیض کاہے۔ اسی لئے یہاں ختنہ کا ذکر نہ کیـا اھ اقول من برائے تبعیض ہونے مـیں کوئی شک نہیں اس لئے کہ ختنہ اورکلی ہرایک کا شمار فطرت کے تحت ہے جیساکہ آرہا ہے تودس سے زیـادہ ہونا معلوم ہے۔ لیکن من برائے تبعیض ہونے کی جو علت بیـان کی ہے کہ''اسی لئے یہاں ختنہ کا ذکر نہیں'' اس کا کوئی موقع نہیں، شاید وہ یہ بھول گئے کہ راوی دسویں چیز بھول گئے ہیں۔ہوسکتاہے وہ ختنہ ہی ہوجیساکہ ایک جماعت نے اسے ظاہر کہاہے جیساکہ اگلے حاشیہ مـیں آرہا ہے ۱۲منہ۔(ت)
ف : دس باتیں قدیم سے سنت انبیـاء علیھم الصلوۃ والسلام ہیں ۔

 (۱؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث عشر من الفطرۃ مکتبۃ الامام الشافعی ریـاض ۲ / ۱۳۲)

قـال الراوی ونسیت العاشرۃ الا ان تکون المضمضۃ رواہ احمد ۱؎ ومسلم والاربعۃ عن ام المومنین الصدیقۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہا ۔

راوی نے کہادسویں مـیں بھول گیـا شایدعــہ کُلّی ہو۔ امام احمد، مسلم اور اصحابِ سُنن اربعہ نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت کیـا۔(ت)

عــــہ : امام قاضی عیـاض  پھر امام نووی نے استظہار فرمایـا کہ غالبادسویں ختنہ ہوکہ دوسری حدیث مـیں ختنہ بھی خصال فطرت سے شمار فرمایـا ہے ۲؎ انتہی ، یعنی حدیث احمد و شیخین ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے
خمس من الفطرت اان والاستحداد وقص الشارب و تقلیم الاظافر و نتف الابط ۳؎
پانچ چیزیں انبیـاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنتِ قدیمہ سے ہیں: ختنہ اور اُسترا لینا اور لبیں اور ناخن تراشوانا اور بغل کے بال دورکرنا۔
اقول ایک حدیث مـیں کلی کو بھی خصال فطرت سے گناہے ۔ امام احمد و ابوبکر بن ابی شیبہ و ابوداؤد وابن ماجہ وعمار بن یـاسر رضی اللہ تعالی عنھم سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان من الفطرۃ المضمضۃ والاستشاق ( الی قولہ ) والانتضاح بالماء و الاختنان واللہ تعالی اعلم ۱۲ منہ ۔
فطرت سے ہے کُلّی اورناک مـیں پانی ڈالنا(الی قولہ) شرم گاہ پر چھینٹا اور ختنہ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ     قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۲۹
سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب السواک من الفطرۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۸
سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب الفطرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۵
مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا المکتب الاسلامـی بیروت ۶ /۱۳۷
سنن الترمذی کتاب الادب حدیث ۲۷۶۶ دارالفکر بیروت ۴ /۳۴۸
سنن النسائی کتاب الزینۃ باب من سنن الفطرۃ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۲۷۳و ۲۷۴
۲؎ شرح صحیح مسلم للنووی مع صحیح مسلم باب خصال الفطرۃ قدیمـی کتب خانہ کراچی ۲ / ۱۲۹
۳؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب قص الشارب الخ قدیمـی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۷۵
صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ قدیمـی کتب خانہ ۱ / ۱۲۸ و ۱۲۹
مسند احمد بن حنبل عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامـی بیروت ۲ / ۲۲۹، ۲۳۹، ۲۸۳
۴؎ مسند احمد بن حنبل عن عمار بن یـاسر المکتب الاسلامـی بیروت ۲ / ۲۶۴
سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب الفطرۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۶)

شرمگاہ پر پانی ڈالنے کی علماء نے دو تفسیریں کیں: ایک استنجأ رواہ مسلم عن وکیع ۱؎۔ دوسرے وہی چھینٹا اور اس کے مؤید ہے کہ ایک روایت عـــہ۱؎ مـیں بجائے انتفاض الماء لفظ والانتضاح آیـا ہے جمہور علماء نے فرمایـا انتضاح وہی چھینٹا ہے ذکرہ الامام النووی ۲؎۔ 

اور یہیں سے ظاہر ہوا کہ یہ چھینٹا خاص اہلِ وسوسہ ہی کیلئے نہیں بلکہ سب کیلئے سنت ہے کہ انبیـائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے وسوسہ کو کیـا علاقہ ان عبادیلک علیھم سلطٰن ۴؎  (بے شک مـیرے بندوں پر تیرا غلبہ اور تسلّط نہیں ہوسکتا۔(ت)ابو داؤد نسائی ابن ماجہ حٰکم بن سفین یـا سفٰین بن حکم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی قال کان النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذا بال توضأ ونضح فرجہ ۴؎ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب پیشاب فرماتے وضو فرماتے اور شرمگاہِ اقدس پر چھینٹا دیتے۔ ابن ماجہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی قال توضأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فنضح فرجہ ۶؎ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وضو فرما کر ستر مبارک پر چھینٹا دیـا۔ احمد وابن ماجہ و دار قطنی وحاکم وحارث بن ابی اسامہ حضرت محبوب ابن المحبوب سیدنا وابن سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہما وہ اپنے والد ماجد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اتانی جبریل فی اول ما اوحی الی فعلمنی الوضوءوالصلاۃ فلما فرغ الوضوءاخذ غرفۃ من الماء فنضح بھا فرجہ ۱؎۔ یعنی اول اول جو مجھ پر وحی اتری ہے جبریل امـین علیہ الصلاۃ والسلام نے حاضر ہو کر مجھے وضو ونماز کی تعلیم دی، جبریل نے وضو خود کرکے دکھایـا جب وضو کر چکے ایک چُلّو پانی لے کر اپنی اُس صورت مثالیہ کے موضع شرمگاہ پر چھڑک دیـا۔

ولفظ ق:
علمنی جبرئیل الوضوءوامرنی ان انضح تحت ثوبی لما یخرج من البول بعد الوضوء۲؎۔ جبریل علیہ السلام نے مجھے وضو کی تعلیم دی اور مجھے بلایـا کہ زیر جامہ پانی چھڑکوں اس خدشہ کو ختم کرنے کیلئے کہ وضو کے بعد کوئی قطرہ نکلا ہو۔ (ت)

ترمذی عـــہ ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: جاء نی جبریل فقال یـا محمد اذا توضأت فانتضح ۱؎۔ جبریل نے حاضر ہو کر مجھ سے عرض کی یـا رسول اللہ جب حضور وضو فرمائیں چھینٹا دے لیـا کریں۔

 عـــہ  وعزاہ الامام الجلیل فی جامعیہ الی ابن ماجۃ ایضا اقولعندہ ف جاء نی جبریل فقال یـا محمد انما عندہ ماقدمت ای عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذا توضأت فانتضح اھ منہ۔ (م)
امام جلال الدین سیوطی نے جامع صغیر وجامع کبیر مـیں اس حدیث کو ابن ماجہ کی طرف منسوب کیـا ہے، مـیں کہتا ہوں ابن ماجہ کے نزدیک ان الفاظ کے ساتھ نہیں بلکہ وہ ہے جس کا ذکر مـیں نے ابی ھریرہ سے کیـا ہے اذا توضات فانتضح اھ منہ (ت)
ف تطفل علی الامام الجلیل الجلال الدین السیوطی ۔

جبریل کا اپنی صورتِ مثالیہ کے ستر پر چھڑکنا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور طریقہ وضو عرض کرنے کیلئے تھا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فعل تعلیم اُمت کیلئے۔ مرقاۃ مـیں ہے:نضح فرجہ ای ورش ازارہ بقلیل من الماء اوسرا ولہ بہ لدفع الوسوسۃ تعلیما للامۃ ۲؎ ستر مبارگ پر چھینٹا دیـا یعنی تہبند یـا پاجامے  پر بھی امت کو دفع وسوسہ کی تعلیم دینے لئے تھوڑا پانی چھڑک دیـا ۔

 (۱؎ سنن دارقطنی     ماجاء فی النضح علی الفرج    نشر السنۃ ملتان    ۱ /۱۱
۲؎ سنن ابن ماجۃ    ماجاء فی النضح علی الفرج   مجتبائی دہلی        ص۳۶
۳؎ ترمذی         ماجاء فی النضح بعد الوضوء   امـین کمپنی دہی        ۱ /۹)

معہذا اس مـیں اقویـا کیلئے جن کو برودت مثانہ کا عارضہ نہ ہو ایک نفع اور بھی ہے کہ شرمگاہ پر سرد پانی پڑنے سے اس مـیں تکاثف واستمساک پیدا ہو کر قطرہ موقوف ہوجاتا ہے کما ارشد الیہ حدیث زید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عند ق عـــہ

عــــہ سیدنا امام محمد کتاب الآثار مـیں فرماتے ہیں:
اخبرنا ابو حنیفۃ عن حماد عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالی عنہما قال اذا وجدت شیـا من البلۃ فانضحہ مایلیہ من ثوبک بالماء ثم قل ھو من الماء قال حماد قال لی سعید بن جبیر انضحہ بالماء ثم اذا وجدتہ فقل ھو من الماء قال محمد وبھذا ناخذ اذا کان کثر ذلک من الانسان وھو قول ابی حنیفۃ۔ ۳
یعنی سیدنا امام اعظم حما د بن سلیمان سے وہ سعید بن جبیر سے وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایـا تری پاؤ تو شرمگاہ اور وہاں کے کپڑے پر چھینٹا دے لیـا کرو پھر شبہ گزرے تو خیـال کرو کہ پانی کا اثر ہے۔ امام حماد نے فرمایـا کہ ایسا ہی سعید بن جبیر نے مجھ سے فرمایـا امام محمد فرماتے ہیں ہم اسی کو اختیـار کرتے ہیں جب آدمـی کو شبہ زیـادہ ہوا کرے تو یہی طریقہ برتے اور یہی قول امام اعظم کا ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

اقول مگر یہاں فـــ ۱ اولا یہ ملحوظ رہے کہ مقصودِ نفی وسوسہ ہے نہ ابطال حقیقت تو جسے قطرہ اترنے کا یقین ہوجائے وہ پانی پر حوالہ نہیں کرسکتا یونہی جسے معاذ اللہ سلس البول کا عارضہ ہو اسے یہ چھینٹا مفید نہیں بلکہ بسا اوقات مضر ہے کہ پانی کی تری سے نجاست بڑھ جائے گی۔
ف : مسئلہ: اس چھینٹے مـیں چند عمل ملحوظ ہیں ۔
ثانیـا: سفید کپڑا پانی پڑنے سے بدن سے چمٹ کر بے حجابی لاتا ہے اس کا خیـال فرض ہے۔
ثالثا : یہ حیلہ اُسی وقت تک نافع ہے کہ چھڑکا ہوا پانی خشک نہ ہوگیـا ہو ورنہ اُس پر حوالہ نہ کرسکیں گے۔

وجیز امام کردری مـیں ہے: رأی البلۃ بعد الوضوءسائلا من ذکرہ یعید الوضوء وان کان یعرض کثیرا ولا یعلم انہ بول اوماء لایلتفت الیہ وینضح فرجہ او ازارہ بالماء قطعا للوسوسۃ واذا بعد عھدہ عن الوضوءاوعلم انہ بول لاتنفعہ الحیلۃ ۱؎۔

وضو کے بعد ذکر سے تری بہتی دیکھی تو وضو کا اعادہ کرے اور اگر ایسا بہت پیش آتا ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یـا پانی، تو اس کی طرف التفات نہ کرے اور اپنی شرمگاہ یـا تہمد پر قطع وسوسہ کے لئے پانی چھڑک دیـاکرے۔ اور جب وضو کئے دیر گزرچکی ہواوراسے معلوم ہوکہ پیشاب ہے تویہ حیلہ اس کے لئے کارآمد نہ ہوگا۔(ت)

 (۱؎ الفتاوی البزازیہ علی ہامش الفتاوی الہندیہ کتاب الطہارہ الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۱۳)

اسی طرح خلاصہ وخزانۃ المفتین مـیں ہے: ولفظھما وینبغی ان ینضح فرجہ و ازارہ عــہ الخ ۱؎ ان کے الفاظ یہ ہیں: اپنی شرمگاہ اور تہبند پر پانی چھڑک لینا چاہئے۔(ت)

عــہ ای بالواؤ دون او اھ منہ ( یعنی دونوں پر ، یہ واوکے ساتھ ہے اَو (یـا) کے ساتھ نہیں ۱۲منہ ۔ ت)

 (۱؎ خلاصہ الفتاوی     کتاب الطہارۃ الفصل الثالث نوع آخر مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۱ /۱۸)

فائدہ: ہم نے فــــ ۲ زیر امر سوم آٹھ پانی گنائے تھے جو آب وضو کے شمار سے جدا ہیں یہ ان کانواں ہوا۔ اُن دیـار مـیں رواج ایسے لوٹوں کا ہے جن مـیں جانب پشت بغرض گرفت دستے لگے ہوتے ہیں یہاں بھی ایسے لوٹے دیکھے مگر کم۔

ف ۲ : علاوہ ان آٹھ پانیوں کے دو پانی اور جو حساب آب وضو سے جدا ہے۔

علما فرماتے فــــ ۳ ہیں ادب یہ ہے کہ پانی ڈالتے مـیں لوٹے کے منہ پر ہاتھ نہ رکھے بلکہ دستہ پر۔اور جب بھیگے ہاتھ سے دستہ چھُوا جائے گا تو مستحب فــــ ۱ ہوا کہ وضو سے پہلے اُسے تین بار دھولے یہ دسواں پانی ہوا تلک عشرۃ کاملۃ۔

ف ۳: مسئلہ دستہ دار لوٹا ہو تو مستحب یہ ہے کہ پانی ڈالتے وقت اس کا دستہ تھامے اس کے منہ پر ہاتھ نہ رکھے
ف ۱: مسئلہ مستحب ہے کہ وضو سے پہلے لوٹے کا دستہ تین بار دھولے ۔

فتح القدیر وبحرالرائق وردالمحتار آدابِ وضو مـیں ہے:فـــ ۲ اٰنیتہ من خزف وان یغسل عروۃ الابریق ثلثا ووضع یدہ حالۃ الغسل علی عروتہ لاراسہ ۱؎۔ مستحب یہ ہے کہ وضو کا برتن مٹی کا ہو،اورلوٹے کا دستہ تین بار دھولے، اور دھوتے وقت ہاتھ دستے پر رکھے لوٹے کے منہ پرنہیں۔(ت)

ف۲: مسئلہ مستحب ہے کہ وضو مٹی کے برتن سے کرے ۔

 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ مطلب فی تیمم المندوبات داراحیـاء التراث العربی بیروت     ۱ /۸۴
فتح القدیر کتاب الطہارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۳۲
البحر الرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ / ۲۸)

 (۳) اگر شیطان فــــ ۳ حیلہ سے بھی نہ مانے اور وسوسہ ڈالے ہی جائے کہ تیرے وضو مـیں غلطی رہی یـا تری نماز ٹھیک نہ ہوئی تو سیدھا جواب یہ ہے کہ خبیث تُو جھوٹا ہے۔

ف ۳ : ردّ وسوسہ کا تیسرا علاج

ابن حبان وحاکم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا جاء احدکم الشیطان فقال انک احدثت فلیقل انک کذبت ولابن حبان فلیقل فی نفسہ ۲؎۔

جب تم مـیںی کے پاس شیطان آکر وسوسہ ڈالے کہ تیرا وضو جاتارہا توفوراً اسے جواب دے کہ توجھوٹا ہے(اوراگر مثلاً نماز مـیں ہے تو) دل مـیں یہی کہہ لے، مطلب وہی ہے کہ وسوسہ کی طرف التفات نہ کرے۔

 (۲؎ المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ دار الفکر بیروت ۱ / ۱۳۴
۳؎ موارد الظمان     کتاب الطہارۃ حدیث ۱۸۷ المطبعۃ السلفیہ     ص۷۳)

اقول حالتیں تین ہوتی ہیں:
ایک تو یہ کہ عدو کا وسوسہ مان لیـا اُس پر عمل کیـا یہ تو اس ملعون کی عین مراد ہے، اور جب یہ ماننے لگا تو وہ کیـا ایک ہی بار وسوسہ ڈال کر تھک رہے گا حاشا وہ ملعون آٹھ پہر اس کی تاک مـیں ہے جتنا جتنا یہ مانتا جائے گا وہ اس کا سلسلہ بڑھاتا رہے گا یہاں تک کہ نتیجہ وہی ہوگا دو دوپہر کامل دریـا مـیں غوطے لگائے اور سر نہ دھلا۔
دوسرے یہ کہ مانے تو نہیں مگر اُس کے ساتھ نزاع وبحث مـیں مصروف ہوجائے یہ بھی اُس کے مقصد ناپاک کا حصول ہے کہ اُس کی غرض تو یہی تھی کہ یہ اپنی عبادت سے غافل ہو کری دوسرے جھگڑے مـیں پڑ جائے اور پھر اس حیص بیص مـیں ممکن ہے کہ وہی خبیث غالب آئے اور صورت ثانیہ صورت اولی کی طرف عود کرجائے ۔ والعیـاذ باللہ تعالٰی۔

لہٰذا نجات اس تیسری صورت مـیں ہے جو ہمارے نبی کریم حکیم علیم رؤف رحیم علیہ وعلی آلہٖ افضل الصلاۃ والتسلیم نے تعلیم فرمائی کہ فوراً اتنا کہہ کر الگ ہوجائے کہ تو جھوٹا ہے۔
اقول یعنی یہ نہیں کہ صرف اس معنے کا تصور کرلیـا کہ یہ کافی نہ ہوگا بلکہ دل مـیں جمالے کہ ملعون جھوٹا ہے پھر اُس کی طرف التفات اور اُس سے بحث وبردومات کی کیـا حاجت شاید اسی لئے فی نفسہ زیـادہ فرمایـا۔

تنبیہ فــــ ضروری سخت ضروری اشد ضروری : اقول ہمارے حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جوامع الکلم عطا فرمائے گئے مختصر لفظ فرمائیں اور معانی کثیرہ پر مشتمل ہوں۔

شیطان دو قسم ہیں شیـاطین الجن کہ ابلیس لعین اور اس کی اولاد ملاعین ہیں اعاذ نااللّٰہ والمسلمـین من شرھم وشر الشٰیطین اجمعین  (اے اللہ! ہم کو اور تمام مسلمانوں کو ان کے شر اور تمام شیـاطین کے شر سے پناہ دے۔ ت)

فــــــ :یہ ضروری ضروری سخت ضروری :آریوں ، پادریوں ، وغیرہم کے لکچر ندائیں سننے کو جانے سے قرآن عظیم سخت مما نعت فرماتا ہے

دوسرے شیـاطین الانس کہ کفار و مبتدعین کے داعی ومنادی ہے ۔ لعنہ اللہ وخذلھم ابدا ونصرنا علیہم نصرا ابدا آمـین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ تعالی علیہ وعلیھم اجمعین امـین  (خدا ان پر لعنت فرمائے اوران کوہمـیشہ بے سہارا رکھے اوران پر ہمـیں دائمـی نصرت عطا فرمائے الہٰی بطفیل سید المرسلین قبول فرما۔حضور پر اورتمام رسولوں پر خدائے برتر کا درود سلام ہو۔ آمـین۔(ت)

ہمارا رب عزوجل فرماتا ہے: وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیٰطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا ۱؎۔ یوں ہی ہم نے ہر نبی کا دشمن کیـا شیطان آدمـیوں اور شیطان جنوں کو کہ آپس مـیں ایک دوسرے کے دل مـیں بناوٹ کی بات ڈالتے ہیں دھوکا دینے کیلئے۔

 (۱؎ القرآن    ۶ /۱۱۲)

حدیث مـیں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایـا: اللہ کی پناہ مانگ شیطان آدمـیوں اور شیطان جنوں کے شر سے۔ عرض کی: کیـا آدمـیوں مـیں بھی شیطان ہیں؟ فرمایـا: ہاں۔ رواہ احمد ۲؎ وابن حاتم والطبرانی عن ابی امامۃ واحمد وابن مردویہ والبیھقی فی الشعب عن ابی ذر رضی اللّٰہ تعالی عنہما۔  (اس کی روایت احمد نے ابن حاتم اور طبرانی نے ابی امامہ سے اور احمد نے ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب مـیں ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کی۔ ت)

ائمہ دین فرمایـا کرتے کہ شیطان آدمـی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔ رواہ ابن جریر عن عبدالرحمٰن بن زید۔  (اس کی روایت ابنِ جریر نے عبدالرحمن بن زید سے کی۔ ت)

 (۲؎ مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر رضی اللہ تعالی عنہ     المکتب الاسلامـی بیروت    ۵ /۱۷۸ و ۲۶۵
الدرالمنثور بحوالہ احمد و ابن ابی حاتم وغیرھا تحت الایہ ۶ / ۱۱۲ داراحیـاء التراث العربی بیروت ۳ / ۳۰۷ و ۳۰۸ )

اقول آیہ کریمہ مـیں شیـاطین الانس کی تقدیم بھی اس طرف مشیر، اس حدیث کریم نے کہ ''جب شیطان وسوسہ ڈالے اتنا کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ تُو جھوٹا ہے''۔ دونوں قسم کے شیطانوں کا علاج فرما د یـا شیطان آدمـی ہو خواہ جن اُس کا قابو اُسی وقت چلتا ہے جب اُس کے سُنئے اور تنکا توڑ کر ہاتھ پر دھر دیجئے کہ تُو جھوٹا ہے تو خبیث اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا ہے۔ آج کل ہمارے عوام بھائیوں کی سخت جہالت یہ ہے کہی آریہ نے اشتہار دیـا کہ اسلام کے فلاں مضمون کے رَد مـیں فلاں وقت لیکچر دیـا جائے گا یہ سُننے کیلئے دوڑ ے جاتے ہیں۔ی پادری نے اعلان کیـا کہ نصرانیت کے فلاں مضمون کے ثبوت مـیں فلاں وقت ندا ہوگی، یہ سننے کیلئے دوڑے جاتے ہیں۔

بھائیو! تم اپنے نفع نقصان کو زیـادہ جانتے ہو یـا تمہارا رب عزّوجل تمہارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُن کا حکم تو یہ ہے کہ شیطان تمہارے پاس وسوسہ ڈالنے آئے تو سیدھا جواب یہ دے دو کہ تو جھوٹا ہے نہ یہ کہ تم آپ دوڑ دوڑ کے اُن کے پاس جاؤ اور اپنے رب جل وعلا ، اپنے قرآن اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان مـیں کلمات ملعونہ سُنو۔

اقول:  یہ آیت جو ابھی تلاوت ہوئی اسی کا تتمہ اور ا س کے متصل کی آیـات کریمہ تلاوت کرتے جاؤ دیکھو قرآن عظیم تمہاری اس حرکت کی کیسی کیسی شناعتیں بتا که تا اور اُن ناپاک لکچروں نداؤں کی نسبت تمہیں کیـا کیـا ہدایت فرماتا ہے، آیہ کریمہ مذکورہ کے تتمہ مـیں ارشاد ہوتا ہے:

ولو شاء ربّک مافعلوہ فذرھم وما یفترون ۱؎o اور تیرا رب چاہتا تو وہ یہ دھوکے بناوٹ کی باتیں نہ بناتے پھرتے تو تو انہیں اور اُن کے بہتانوں کو یک چھوڑ دے۔

 (۱؎ القرآن    ۶ /۱۱۲)

دیکھو اُنہیں اور اُن کی باتوں کو چھوڑنے کا حکم فرمایـا یـا اُن کے پاس سُننے کے لئے دوڑنے کا۔ اور سُنئے اس کے بعد کی آیت مـیں فرماتا ہے: ولتصغٰی الیہ افئِدۃ الذین لایؤمنون بالاٰخرۃ ولیرضوہ ولیقترفوا ماھم مقترفون ۲؎o اور اس لئے کہ اُن کے دل اس کی طرف کان لگائیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں اور اُسے پسند کریں اور جو کچھ ناپاکیـاں وہ کر رہے ہیں یہ بھی کرنے لگیں۔

 (۲؎ القرآن    ۶ /۱۱۳)

دیکھو اُن کی باتوں کی طرف کان لگانا اُن کا کام بتایـا جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کا نتیجہ یہ فرمایـا کہ وہ ملعون باتیں ان پر اثر کر جائیں اور یہ بھی اُن جیسے ہوجائیں والعیـاذ باللہ تعالٰی۔ لوگ اپنی جہالت سے گمان کرتے ہیں کہ ہم اپنے دل سے مسلمان ہیں ہم پر اُن کا کیـا اثر ہوگا
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من سمع بالدجال فلینأمنہ فواللّٰہ ان الرجل لیأتیہ وھو یحسب انہ مؤمن فیتبعہ مما یبعث بہ من الشبھات ۱؎۔ رواہ ابوداؤد عن عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ و عن الصحابۃ جمـیعا۔

جو دجال کی خبر سُنے اُس پر واجب ہے کہ اُس سے دُور بھاگے کہ خدا کی قسم آدمـی اس کے پاس جائے گا اور یہ خیـال کرے گا کہ مـیں تومسلمان ہوں یعنی مجھے اس سے کیـانقصان پہنچے گا وہاں اس کے دھوکوں مـیں پڑکر اس کا پیروہو جائے گا(اسے ابوداؤد نے عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ اورتمام صحابہ سے روایت کیـا۔ت)

 (۱؎ سنن ابی داؤد    کتاب الملاہم باب خروج الدجال آفتاب عالم پریس لاہور     ۲ /۲۳۷)

کیـا دجال ایک اُسی دجال اخبث کو سمجھتے ہو جو آنے والا ہے حاشا تمام گمراہوں کے داعی منادی سب دجال ہیں اور سب سے دُور بھاگنے ہی کا حکم فرمایـا اور اُس مـیں یہی اندیشہ بتایـا ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: یکون فی اٰخر الزمان دجّالون کذّابون یـاتونکم من الاحادیث بمالم تسمعوا انتم ولا اٰباؤکم فایـاکم وایـاھم لایضلّونکم ولا یفتنونکم ۲؎۔

آخر زمانے مـیں دجّال کذّاب لوگ ہوں گے کہ وہ باتیں تمہارے پاس لائیں گے جو نہ تم نے سنیں نہ تمہارے باپ دادا نے، توان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھوکہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں تمہیں فتنہ مـیں نہ ڈال دیں(اسے مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیـا۔ت)

 (۲؎ صحیح مسلم باب النہی عن الروایۃ عن الضعفا ء الخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۰)

اور سُنئے اس کے بعد کی آیـات مـیں فرماتا ہے: افغیر اللّٰہ ابتغی حکما وھو الذی انزل الیکم الکتٰب مفصلا والذین اتینٰھم الکتٰب یعلمون انہ منزل من ربک بالحق فلا تکونن من الممترین o وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا لامبدل لکلمٰتہ وھو السمـیع العلیم o وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللّٰہ ان یتبعون الاالظن وان ھم الایخرصون o ان ربک ھو اعلم من یضل عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین o ۱؎ تو کیـا اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا ڈھونڈوں حالانکہ اُس نے مفصل کتاب تمہاری طرف اُتاری اور اہلِ کتاب خوب جانتے ہیں کہ وہ تیرے رب کے پاس سے حق کے ساتھ اُتری تو خبردار تو شک نہ کرنا اور تیرے رب کی بات سچ اور انصاف مـیں کامل ہے کوئی اُس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور وہ شنوا و دانا ہے اور زمـین والوں مـیں زیـادہ وہ ہیں کہ تو ان کی پیروی کرے تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں وہ تو گمان کے پیرو ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہاس کی راہ سے بہکے گا اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔

 (۱؎ القرآن        ۶ /۱۱۴ تا۱۱۷)

یہ تمام آیـات کریمہ انہیں مطالب کے سلسلہ بیـان مـیں ہیں گویـا ارشاد ہوتا ہے تم جو اُن شیطان آدمـیوں کی باتیں سُننے جاؤ کیـا تمہیں یہ تلاش ہے کہ دیکھیں اس مذہبی اختلاف مـیں یہ لکچرار یـا یہ منادی کیـا فیصلہ کرتا ہے ارے خدا سے بہتر فیصلہ کا! اُس نے مفصل کتاب قرآن عظیم تمہیں عطا فرمادی اُس کے بعد تم کوی لکچر ندا کی کیـا حاجت ہے لکچر والے جوی کتاب دینی کا نام نہیں لیتے گنتی شمار مـیں ہیں! یہ کتاب والے دل مـیں خوب جانتے ہیں کہ قرآن حق ہے تعصب کی پٹی آنکھوں پر بندھی ہے کہ ہٹ دھرمـی سے مکرے جاتے ہیں تو تجھے کیوں شک پیدا ہو کہ اُن کی سُننا چاہے تیرے رب کا کلام صدق وعدل مـیں بھرپور ہے کل تک جو اُس پر تجھے کامل یقین تھا آج کیـا اُس مـیں فرق آیـا کہ اُس پر اعتراض سننا چاہتا ہے کیـا خدا کی باتیں کوئی بدل سکتا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ مـیرا کوئی مقال کوئی خیـال خدا سے چھُپ رہے گا وہ سنتا جانتا ہے، دیکھ اگر تُونے اُن کی سنی تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں گے کیـا یہ خیـال کرتا ہے کہ ان کا علم دیکھوں کہاں تک ہے یہ کیـا کہتے ہیں ارے اُن کے پاس علم کہاں وہ تو اپنے اوہام کے پیچھے لگے ہوئے اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں جن کا تھل نہ بیڑا جب اللہ واحد قہار کی گواہی ہے کہ اُن کے پاس نری مہمل اٹکلوں کے سوا کچھ نہیں تو اُن کو سُننے کے کیـا معنے سننے سے پہلے وہی کہہ دے جو تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایـا کہ کذبت شیطان تو جھوٹا ہے، اور اس گھمنڈ مـیں نہ رہنا کہ مجھ کو کیـا گمراہ کریں گے مـیں تو راہ پر ہوں تیرا رب خوب جانتا ہے کہاُس کی راہ سے بہکے گا اورراہ پر ہے تو پورا راہ پرہوتا ہے بے راہوں کی سُننے ہی کیوں جاتا حالانکہ تیرا رب فرما چکا ذرھم وما یفترون ۲؎o چھوڑ دے اُنہیں اور اُن کے بہتانوں کو۔

 (۲؎ القرآن    ۶ /۱۱۲ )

تیرے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرما چکے ایـاکم وایـاھم۱؎ اُن سے دُور رہو اور ان کو اپنے سے دور کرو کہیں وہ تم کو بہکانہ دیں کہیں وہ تم کو فتنے مـیں نہ ڈال دیں۔

 (۱؎ صحیح مسلم      باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ     قدیمـی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۰)

بھائیو! ایک سہل بات ہے اسے غور فرمالو۔ تم اپنے رب عــہ۱جل وعلا اپنے قرآن اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سچّا ایمان رکھتے ہو یـا معاذ اللہ کچھ شک ہے! جسے شک ہوا سے اسلام سے کیـا علاقہ وہ ناحق اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کو کیوں بدنام کرے۔ اور اگر سچا ایمان ہے تو اب یہ فرمائے کہ ان کے لکچروں نداؤں مـیں آپ کے رب عــہ۲ وقرآن ونبی وایمان کی تعریف ہوگی یـا مذمت۔ ظاہر ہے کہ دوسری ہی صورت ہوگی اور اسی لئے تم کو بلاتے ہیں کہ تمہارے منہ پر تمہارے خدا عــہ۳ونبی وقرآن ودین کی توہین وتکذیب کریں۔

اب ذرا غور کرلیجئے ایک شریر نے زید کے نام اشتہار دیـا کہ فلاں وقت فلاں مقام پر مـیں بیـان کروں گا کہ تیرا باپ ولد الحرام اور تیری ماں زانیہ تھی، للہ انصاف، کیـا کوئی غیرت والا حمـیت والا انسانیت والا جبکہ اُسے اس بیـان سے روک دینے باز رکھنے پر قادر نہ ہو اُسے سُننے جائے گا حاشا للہی بھنگی چمار سے بھی یہ نہ ہوسکے گا پھر ایمان کے دل پر ہاتھ رکھ دیکھو کہ اللہ ورسول عــہ۴ وقرآن عظیم کی توہین تکذیب مذمّت سخت تر ہے یـا ماں باپ کی گالی۔ ایمان رکھتے ہو تو اُسے اس سے کچھ نسبت نہ جانو گے۔ پھرسے کلیجے سے اُن جگر شگاف ناپاک ملعون بہتانوں افتراؤں شیطانی اٹکلوں ڈھکوسلوں کو سُننے جاتے ہو بلکہ حقیقۃًفـــ انصافاً وہ جو کچھ بکتے اور اللہ ورسول عــہ۵ وقرآن عظیم کی تحقیر کرتے ہیں ان سب کے باعث یہ سننے والے ہیں اگر مسلمان اپنا ایمان سنبھالیں اپنے رب عــہ۶وقرآن ورسول کی عزت عظمت پیش نظر رکھیں اور ایکا کرلیں کہ وہ خبیث لکچر گندی ندائیں سننے کوئی نہ جائے گا جو وہاں موجود ہو وہ بھی فوراً وہی مبارک ارشاد کا کلمہ کہہ کر تو جھوٹا ہے چلا جائے گا تو کیـا وہ دیواروں پتھّروں سے اپنا سر پھوڑیں گے تو تم سُن سُن کر کہلواتے ہو نہ تُم سنو نہ وہ کہیں، پھر انصاف کیجئے کہ اُس کہنے کا وبال پر ہوا۔

عــہ۱ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     عــہ۲ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم    
عــہ۳ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     عــہ۴ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم    
عــہ۵ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     عــہ۶ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم    
فــــ : اللہ ورسول و قرآن عظیم کی جتنی توہین آریہ و پادری اپنے لیکچروں مـیں کرتے ہیں ان سب کا وبال شرعا ان پر ہے جو سننے جاتے ایسے جلسوں مـیں شریک ہوتے ہیں .

علماء فرماتے ہیں ہٹّے کٹّے جوان تندرست جو بھیک مانگنے کے عادی ہوتے اور اسی کو اپنا پیشہ کرلیتے ہیں اُنہیں دینا ناجائز ہے کہ اس مـیں گناہ پر شَہ دینی ہے لوگ نہ دیں تو جھَک ماریں اور محنت مزدوری کریں۔ بھائیو! جب اس مـیں گناہ کی امداد ہے تو اس مـیں تو کفر کی مدد ہے والعیـاذ باللہ تعالٰی قرآن عظیم فـــ کی نص قطعی نے ایسی جگہ سے فوراً ہٹ جانا فرض کردیـا اور وہاں ٹھہرنا فقط حرام ہی نہ فرمایـا بلکہ سُنو تو کیـا ارشاد کیـا۔رب عزوجل فرماتا ہے: وقد نزل علیکم فی الکتٰب ان اذا سمعتم اٰیت اللّٰہ یکفربہا ویستھزأبھا فلا تقعدوا معھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ انکم اذا مثلھم ان اللّٰہ جامع المنٰفقین والکٰفرین فی جہنم جمـیعا ۱؎o یعنی بے شک اللہ تم پر قرآن مـیں حکم اتار چُکا کہ جب تم سُنو کہ خدا کی آیتو ں سے انکار ہوتا اور اُن کی ہنسی کی جاتی ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو جب تک وہ اور باتوں مـیں مشغول نہ ہوں اور تم نے نہ مانا اور جس وقت وہ آیـات اللہ پر اعتراض کر رہے ہیں وہاں بیٹھے تو جب تم بھی انہیں جیسے ہو بیشک اللہ تعالٰی منافقوں اور کافروں سب کو جہنم مـیں اکٹھا کرے گا۔

فــــ : دیکھو قرآن فرماتا ہے ہاں تمہارا رب رحمان فرماتا ہے جو ایسے جلسوں مـیں جائے ایسی جگہ کھڑا ہو وہ بھی انہیں کافروں آریوں پادریوں کی مثل ہے

 (۱ القرآن الکریم         ۴ /۱۴۰)

آہ آہ حرام تو ہر گناہ ہے یہاں تو اللہ واحد قہاریہ فرما رہا ہے کہ وہاں ٹھہرے تو تم بھی انہیں جیسے ہو۔
مسلمانو! کیـا قرآن عظیم کی یہ آیـات تم نے منسوخ کردیں یـا اللہ عزوجل کی اس سخت وعید کو سچّا نہ سمجھے یـا کافروں جیسا ہونا قبول کرلیـا۔ اور جب کچھ نہیں تو اُن جمگھٹوں کے کیـا معنی ہیں جو آریوں پادریوں کے لکچروں نداؤں پر ہوتے ہیں اُن جلسوں مـیں شرکت کیوں ہے جو خدا عــہ ورسول وقرآن پر اعتراضوں کیلئے جاتے ہیں۔بھائیو! مـیں نہیں کہتا قرآن فرماتا ہے کہ : انکم اذا مثلھم ۲؎ تم بھی ان ہی جیسے ہو۔ ت)

عــہ جل و علا و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۱۲ منہ

 (۲؎ القرآن     الکریم     ۴ /۱۴۰ )

اُن لکچروں پر جمگھٹ والے اُن جلسوں مـیں شرکت والے سب اُنہیں کافروں کے مثل ہیں وہ علانیہ بک کر کافر ہوئے یہ زبان سے کلمہ پڑھیں اور دل مـیں خدا عــہ ۱ورسول وقرآن کی اتنی عزّت نہیں کہ جہاں اُن کی توہین ہوتی ہو وہاں سے بچیں تو یہ منافق ہوئے جب تو فرمایـا کہ اللہ انہیں اور انہیں سب کو جہنم مـیں اکٹھا کرے گا کہ یہاں تم لکچر دو اور تم سنو ذق انک انت العزیز الکریم ۱؎o ( کھولتے پانی کا عذاب چکھ ، ہاں ہاں توہی بڑا عزت والا کرم والا ہے ۔ ت)

عــــہ ۱ : جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

(۱ القرآن        ۴۴ /۴۹)

الٰہی اسلامـی کلمہ پڑھنے والوں کی آنکھیں کھول ولا حول ولا قوۃ الّا باللہ العلی العظیم، مسلمان اگر قرآن عظیم کی اس نصیحت پر عمل کریں تو ابھی ابھی دیکھیں کہ اعداء اللہ کے سب بازار ٹھنڈے ہوئے جاتے ہیں ملک مـیں ان کے شور وشر کا نشان نہ رہے گا جہنم کے کُندے شیطان کے بندے آپس ہی مـیں ٹکرا ٹکرا کر سر پھوڑیں گے، اللہ۲؎ ورسول وقرآن عظیم کی توہینوں سے مسلمانوں کا کلیجا پکانا چھوڑیں گے،

عــہ۲ : جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

اور اپنے گھر بیٹھ کر بکے بھی تو مسلمانوں کے کان تو ٹھنڈے رہیں گے اے رب مـیرے توفیق دے وحسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا محمد واٰلہٖ وصحبہ اجمعین۔

خیر ، بات دور پہنچی اور بحمداللہ تعالٰی بہت نافع وضرور تھی، کہنا یہ تھا کہ وسوسہ شیطان کا تیسرا علاج یہ ہے کہ خبیث تو جھُوٹا ہے امام ابو حازم کہ اجلّہ ائمہ تابعین سے ہیں، اُن کے پاس ایک شخص آکر شاکی ہوا کہ شیطان مجھے وسوسے مـیں ڈالتا ہے اور سب سے زیـادہ سخت مجھ پر یہ گزرتا ہے کہ آکر کہتا ہے تو نے اپنی عورت کو طلاق دے دی امام نے فوراً فرمایـا کیـا تونے مـیرے پاس آکر مـیرے سامنے اپنی عورت کو طلاق نہ دی وہ گھبرا کر بولا خدا کی قسم مـیں نے کبھی آپ کے پاس اُسے طلاق نہ دی فرمایـا جس طرح مـیرے آگے قسم کھائی شیطان سے کیوں نہیں قسم کھا کر کہتا کہ وہ تیرا پیچھا چھوڑے اخرجہ ابو بکر ابی داؤد فی کتاب الوسوسۃ ۲؎ ۔ ( ابوبکر بن ابو داؤد نے اسے کتاب الوسوسہ مـیں بیـان کیـا۔ ت )

 (۲؎ آکام المرجان بحوالہ ابن ابی داؤد الباب السابع والثمانون مکتبہ خیریہ کثیر کراچی ص ۱۶۵ )

 (۴) وسوسہ فـــــ کا اتباع اپنے حول وقوت پر نظر سے ہوتا ہے ابلیس خیـال ڈالتا ہے کہ تونے یہ عمل کامل نہ کیـا اس مـیں فلاں نقص رہ گیـا یہ اُس تکمـیل کے خیـال مـیں پڑتا ہے حالانکہ جتنا رخصت شرعیہ کے مطابق ہوگیـا وہ بھی کامل وکافی ہے اکملیت کے درجات اکملوں کے لائق ہیں دشمن سے کہہ کہ اپنی دلسوزی اٹھا رکھے مجھ سے تو اتنا ہی ہوسکتا ہے ناقص ہے تو مـیں خود ناقص ہوں اپنے لائق مـیں بجالایـا مـیرا مولی کریم ہے مـیرے عجزو ضعف پر رحم فرما کر اتنا ہی قبول فرمالے گا اُس کی عظمت کے لائقبجا لاسکتا ہے ؎

بندہ ہمان بہ کہ زتقصیر خویش        عذر بدرگاہِ خدا آورد
ورنہ سزا وار خدا وندیش            نتواند کہ بجا آورد

 (بندہ وہی بہتر ہے کہ اپنے قصور کا عذر اللہ تعالٰی کی درگاہ مـیں کرے ورنہ خدا کی شان کے لائق کوئی شخص پورا نہیں کرسکتا۔ ت)

ف : دفع وسواس کے دو آخری علاج ۔

علامہ محمد زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح مواہب لدنیہ شریف مـیں فرماتے ہیں: قال فی النصائح الوسوسۃ من افات الطھارۃ واصلہا جھل بالسنۃ اوخبال فی العقل ومتبعھا متکبر مدل بنفسہ سیئ الظن بعبادۃ اللّٰہ معتمد علی عملہ معجب بہ وبقوتہ وعلاجہا بالتلھی عنھا ۱؎ الخ

نصائح مـیں فرمایـا: وسوسہ طہارت کی ایک آفت ہے اور اس کی بنیـادسنت سے بے خبری یـا عقل کی خرابی ہے۔ اس کی پیروی کرنے والا تکبر، خود رائی، اللہ کی عبادت کے ساتھ سوء ظن، اپنے عمل پر اعتماد،اپنی ذات اوراپنی فریفتگی کا شکار ہے اور وسوسہ کا علاج یہ ہے کہ اس سے بے پروا ہوجائے۔(ت)

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب ا للدنیۃ    المقصد التاسع النوع الاول     دار المعرفہ بیروت     ۷ /۲۵۲)

مولانا شیخ محقق عبدالحق محدّث دہلوی رحمہ اللہ تعالٰی شرح سفر السعادۃ مـیں فرماتے ہیں: درد دفع آں خاطر تکلف ننما یندو درپے آن نروند وہم برخصت عمل کنند واگر شیطان بسیـار مزاحمت دہد و گوید کہ ایں عمل کہ توکردی ناقص ونادرست ست  وپذیرائے درگاہِ حق نے برغم اوبگوید کہ تو برواز دست من زیـادہ بریں نمـی آید ومولائے من کریم ست تعالٰی ازمن ہمـیں قدر پذیر دوفضل ورحمت وی واسع ست ۱؎۔

اس خیـال کو دفع کرنے مـیں تکلیف نہ کرے اوراس کے پیچھے نہ پڑے اوررخصت پرعمل کرے۔اگر شیطان بہت مزاحمت کرے اور کہے کہ یہ عمل جو تونے کیـا وہ ناقص ونادرست ہے اور بارگاہِ حق مـیں مقبول نہیں، اس کے برخلاف کہے: توجا، مجھ سے اس سے زیـادہ نہیں ہوسکتااورمـیرا مولا کریم ہے،مجھ سے اسی قدر قبول فرمالے گا، اس کا فضل اوراس کی رحمت بہت وسیع ہے۔(ت)

 (۱؎ شرح سفر السعادۃ باب درون طہارت حضرت پیغمبر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۳۰)

 (۵) اٰخر الدواء الکی واٰخر الحیل السیف (آخری دوا داغنا ہے اور آخری حیلہ تلوار۔ ت) یوں بھی گزرے تو کہے فرض کردم کہ مـیرا وضو نہ ہوا مـیری نماز نہ سہی مگر مجھے تیرے زعم کے مطابق بے وضو یـا ظہر کی تین رکعت پڑھنی گوارا ہے، اور اے ملعون تیری اطاعت قبول نہیں۔ جب یوں دل مـیں ٹھان لی وسوسہ کی جڑ کٹ جائےاور بعونہٖ تعالی دشمن ذلیل وخوار پسپا ہوگا۔ یہی معنے ہیں اُس ارشاد امام اجل مجاہد تلمـیذ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے کہ فرماتے: لان اصلی وقد خرج منی شیئ احب الی من ان اطیع الشیطان ۲؎۔ ذکرہ فی الحدیقۃ الندیۃ۔ مجھے بے وضو پڑھ لینی اس سے زیـادہ پسند ہے کہ شیطان کی اطاعت کروں۔( اسے حدیقۃ الندیۃ مـیں بیـان کیـا گیـا ہے)

 (۲؎ الحدیقۃ الندیہ الباب الثالث الفصل الاول النوع الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ / ۶۸۸)

امام اجل قاسم محمد بن بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک شخص نے شکایت کی کہ نماز مـیں مجھے بہت سہو ہوتا ہے سخت پریشان ہوتا ہوں، فرمایـا: امض فی صلاتک فانہ لن یذھب ذلک عنک حتی تنصرف وانت تقول مااتممت صلاتی ۳؎۔ رواہ امام دار الھجرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی مؤطاہ۔ اپنی نماز پڑھے جاکہ یہ شبہے دفع نہ ہوں گے جب تک تو یہ نہ کہے کہ ہاں مـیں نے نماز پوری نہ کی یعنی یونہی سہی مگرمـیں تیری نہیں سنتا۔(اسے امام دارالہجرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی مؤطا مـیں روایت کیـا۔ت)

 (۳؎ موطأ الامام مالک کتاب السہو العمل فی السہو مـیرمحمد کتب خانہ کراچی ص ۸۴)

مرقاۃ مـیں ہے: المعنی لاتذھب عنک تلک الخطرات الشیطانیۃ حتی تفرغ من الصّلٰوۃ وانت تقول للشیطان صدقت مااتممت صلاتی لکن ما اقبل قولک ولا اتمہا ارغا مالک ونقضا لما اردتہ منی وھذا اصل عظیم لدفع الوساوس وقمع ھواجس الشیطٰن فی سائر الطاعات والحاصل ان الخلاص من الشیطان انما ھو بعون الرحمن والاعتصام بظواھر الشریعۃ وعدم الالتفات الی الخطرات والوساوس الذمـیمۃ ولاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم ۱؎۔

معنی یہ ہے کہ وہ شیطانی خیـالات تم سے دور نہ ہوں گے جب تک ایسا نہ ہو کہ تم نماز سے فارغ ہوجاؤ اور شیطان سے کہو تو ٹھیک کہتا ہے مـیں نے اپنی نماز پوری نہ کی لیکن مـیں تیری بات نہیں مانتا اور تیری تحقیر کے لئے اور تیرے ارادہ کو شکست دینے کے لئے مـیں اسے پوری نہ کروں گا۔ یہ وسوسوں کے دفعیہ اور شیطانی خیـالات کی بیخ کنی کے لئے تمام طاعات مـیں بہت عظیم بنیـاد ہے۔ حاصل یہ کہ شیطان سے چھٹکارا اسی طرح ملے گا کہ خدا کی مدد ہو اور ظاہر شریعت کہ مضبوطی سے تھامے رہے، بُر ے خیـالات اوروسوسوں کی طرف التفات نہ کرے۔ اور طاقت وقوت نہیں مگر برتری وعظمت والے خدا ہی سے۔(ت)

 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب الوسوسۃ حدیث ۷۸ المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۵۶ )

الحمدللہ یہ فتوٰی لاحول شریف پر تمام ہوا اس سوال کے متعلقی کتاب مـیں چند سطروں سے زائد نہ تھا خیـال تھا کہ دو تین ورق لکھ دئے جائیں گے ولہٰذا ابتدا مـیں خطبہ بھی نہ لکھا مگر جب فیض بارگاہ عالم پناہ سید العالمـین محمّد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جوش پر آیـا فتوی ایک مبسوط رسالہ ہوگیـا عظیم وجلیل فوائد جزیل پر مشتمل جو اس کے غیر مـیں نہ ملیں گے والحمدللّٰہ رب العالمـین بلکہ متعدد جگہ قلم روک لیـا کہ طول زائد ہوتا اور اسی کے مضامـین سے ایک مستقل رسالہ بسط الیدین جس کا ذکر اوپر گزرا جُدا کر لیـا لہٰذا مناسب کہ اس کا تاریخی نام بارق النور فی مقادیر ماء الطھور نور کی تابش آب طہارت کی مقدار مـیں ۔ ت) ہو، اور خطبہ کہ  سابقاً نہ ہوا لاحقا مسطور ہو ۱۳۲۷ھ ہو کہ النھایۃ ھی الرجوع الی البدایۃ  (انتہا ابتدا کی طرف لوٹتی ہے۔ ت) اول بآخر نسبتے دارد (اول آخر سے نسبت رکھتا ہے۔ت)

فالحمدللّٰہ الذی انزل من السماء ماء طھورا لیذھب عنا الرجس ویطھرنا بہ تطھیرا ووضع المـیزان وقدر کل شیئ تقدیرا کی نختار العدل ویجتنب طرفیہ اسرافا وتقتیرا واطھر الصلاۃ واطیب السلام علی من ارسل بشیرا ونذیرا وداعیـا الی اللّٰہ باذنہ سراجا منیرا فطھرنا بمـیاہ فیضہ الھامر لاماطر کثیرا غزیرا واذھب عنا ارجاس الکفر وانجاس الضلال بسحاب فضلہ المنھل ابدا کل حین واٰن ھلّا کبیرا فصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا امـین ۔

توساری تعریف خدا کے لئے جس نے آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی اتارا تاکہ اس سے ہماری پلیدی دور کرکے ہمـیں خوب خوب پاک کردے۔ اورجس نے ترازو رکھی اور ہر چیز کی ایک مقدار متعین فرمائی تاکہ ہم عدل اختیـار کریں اوراس کے دونوں کنارے، زیـادتی اورکمـی سے بچیں۔اورپاک تر درود، پاکیزہ ترسلام اُن پر جو مژدہ دینے والے ،ڈرسنانے والے بناکر بھیجے گئے، اور خدا کی طرف سے اس کے اذن سے دعوت دینے والے اور روشن چراغ بناکر مبعوث ہوئے۔ توانہوں نے ہمـیں اپنے فیض کی فراواں،بھرپور،موسلادھار بارش سے پاک فرمایـا اورہم اپنے فضل کے ہر لمحہ وہر آن خوب خوب برستے بادل کے ذریعہ ہم سے کفر کی پلیدی ،ضلالت کی ناپاکی دُور کردی۔ تو ان پر، ان کی آل پر اوران کے اصحاب پر خدا کی رحمت وبرکت اوراس کا زیـادہ سے زیـادہ سلام نازل ہو۔ الہٰی قبول فرما۔

ھذا ولاجل العجل اذکان تنمـیقہ وطبع الفتاوی جارٍ والطبع مشغول بشیون اھّم عظیمۃ الاخطار مع ھجوم الھموم وجمود الذھن وخمود الافکار بقی خبایـا المرام فی زوایـا الکلام لاسیما اثنان

یہ رسالہ توپورا ہوا۔ اورچوں کہ عجلت درپیش تھی اس لئے کہ ایک طرف رسالہ لکھا جارہاتھا دوسری طرف ْطباعت ہوتی جارہی تھی اور طبیعت کچھ عظیم اہم معاملات مـیں مشغول تھی، ساتھ ہی پریشانیوں کا ہجوم ، ذہن کی بستگی، فکر کی فروماندگی بھی دامنگیر رہی اس طرح کلام کے گوشوں مـیں کچھ باتیں چھپی رہ گئیں۔ خصوصاً دو باتیں:

الاول فــــ حدیث الغرفۃ وقد علمت مافیہ من الاشکال فلو ارسلت الغرفۃ علی الجبہۃ کما ھو السنۃ فی فتاوی الامام قاضی خان وخزانۃ المفتین ان اراد غسل وجہہ یضع الماء علی جبینہ حتی ینحدر الماء الی اسفل الذقن ولا یضع علی خدہ ولا علی انفہ ولا یضرب علی جبینہ ضربا عنیفا ۱؎ اھ

اول چُلّو سے متعلق حدیث۔ اس مـیں جو اشکال ہے معلوم ہوچکا۔ سنت یہ ہے کہ چلّو پیشانی پر ڈالا جائے۔ فتاوٰی امام قاضیخاں اور خزانۃ المفتین مـیں ہے: جب چہرہ دھونا چاہے توپانی جبین پرڈالے تاکہ وہ اُترکر ٹھوڑی کے نیچے تک آئے اوررخسار پر یـاناک پر نہ ڈالے اورنہ پیشانی پرزور سے دے مارے اھ

ف : مسئلہ منہ دھونے مـیں نہ گالوں پر ڈالے نہ ناک پر نہ زور سے پیشانی پر ۔ یہ سب افعال جہال کے ہیں بلکہ بآہستگی بالائے پیشانی سے ڈالے کہ ٹھوڑی سے نیچے تک بہتا آئے ۔

 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الطہارۃ،باب الوضوء والغسل    نولکشور لکھنؤ    ۱ /۱۶
خزانۃ المفتین    کتاب الطہارۃ،فصل فی الوضوء    قلمـی    ۱/ ۲)

فمعلوم قطعا ان الماء لایستوعب جمـیع اجزاء الوجہ وان استقبل الماء فی مسیلہ فاخذہ بالید وامرھا علی اطراف الوجہ لم یکن غسلا کما قدمت من قبل نفسی لوضوحہ بشھادۃ العقل والتجربۃ ثم رأیتہ منصوصا علیہ فی فـــ الخلاصۃ والخزانۃ اذ یقولان الغسل مرۃ فریضۃ عندنا وان توضأ مرۃ سابغۃ جاز وتفسیر السبوغ ان یصل الماء الی العضو ویسیل ویتقاطر منہ قطرات اما اذا افاض الماء علی راس العضو فقبل ان یصل الی المرفق اوالکعب یمسک الماء ویمد بکفہ الی اخرالعضو لایکون سبوغا ۱؎ اھ ھذا لفظ الخلاصۃ ولفظ خزانۃ المفتین الغسل مرۃ سابغۃ فریضۃ ۲؎ ثم ذکر مثلہ وزیـادۃ ۔

اب اگر اس طرح پیشانی پرچُلّو ڈالے توقطعاً معلوم ہے کہ پانی چہرے کے تمام حصوں کا احاطہ نہ کرسکے گا۔اور بہتے ہوئے پانی پر بیچ مـیں ہاتھ لگاکر چہرے کے اور حصوں تک ہاتھ پھیردیـا تو یہ دھونا نہ ہوا جیسا کہ پہلے اسے مـیں نے اپنی طرف سے لکھا تھا کیوں کہ یہ عقل وتجربہ کی شہادت کے مطابق بالکل واضح بات تھی پھر مـیں نے دیکھا کہ خلاصہ اورخزانہ مـیں اس کی تصریح موجود ہے۔ ان کی عبارتیں یہ ہیں: ایک بار دھونا ہمارے نزدیک فرض ہے اور اگرایک بارکامل وسابغ طور پر دھولیـاتووضو ہوگیـا۔اور سابع کا معنٰی یہ ہے کہ پانی عضو تک پہنچے اوراس سے اس طرح بہہ جائے کہ کچھ قطرے ٹپکتے جائیں، لیکن اگر عضو کے سرے پرپانی بہایـا اورکہنی یـاٹخنے تک پہنچنے سے پہلے پانی روک کرہتھیلی کے ذریعہ عضو کے آخر تک پھیلادیـا تو سبوغ نہ ہوا، اھ یہ خلاصہ کے الفاظ ہیں۔اور کے الفاظ یہ ہیں:ایک بارسابغ (احاطہ کے) طور پر دھونا فرض ہے (آگے عبارت خلاصہ کے مثل ہے اورکچھ زیـادہ ہے)۔

فـــ:مسئلہ ضروریہ خود پانی کا تمام عضو پر بہنا ضرور ہے اگر ہاتھ یـا پاؤں کے پنجے پر پانی ڈالا کہنیوں گٹوں تک نہ پہنچاتھا کہ بیچ مـیں ہاتھ لگا کر آخر عضو تک پھیر دیـا تو وضو نہ ہوگا کہ یہ بہانا نہ ہوا بلکہ چپڑنا ہوا۔

 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الطہارات،الفصل الثالث        مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۲۲
۲؎ خزانۃ المفتین    کتاب الطہارۃ،فصل فی الوضوء        قلمـی        ۱ /۳)

والثانی روایۃ الحسن فی توزیغ الماء علی الاعضاء وما استظھرت فی توجیھہ قبیل الامر الرابع فیعکرہ بُعدان یحاسبوا سنۃ الاستنجاء ویترکوا ھذہ السنن التی کانھا للوضوء من الاجزاء لاسیما ولفظ الخلاصۃ فی اٰخر فصل الغسل والحاصل ان الرطل للاستنجاء والرطل للقدمـین والرطل لسائر الاعضاء۳؎اھ ولفظ وجیز الکردری فی صدر فصل الوضوءرطل للاستنجاء واخر لغسل الرجل واخر لبقیۃ الاعضاء ۴؎ اھ فھذا ظاھر فی شمول الفم والانف فکذا الیدان الی الرسغین علی انک علمت بُعد التسویۃ بین مجموع نفس الوجہ والیدین وبین القدمـین فلیتأمل لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا وصلی اللّٰہ تعالٰی علی اعظم الانبیـاء قدر اوفخرا وعلی اٰلہ وصحبہ واولیـائہ وحزبہ اولی واخری وبارک وسلم واللّٰہ سبحانہ  وتعالٰی اعلم وعلمہ جل شانہ اتم واحکم۔

دوم اعضاء پر پانی کی تقسیم سے متعلق حسن بن زیـاد کی روایت اورامر چہارم سے کچھ پہلے اس کی توجیہ مـیں، مـیں نے جو استظہارکیـا اس پر یہ اعتراض ہوتاہے کہ ایسا بُعد ہے کہ سنت استنجا کوتوشمار کریں اور ان سنتوں کوجوگویـاوضوکے جز کی حیثیت رکھتی ہیں،چھوڑجائیں۔ فصلِ غسل کے آخرمـیں خلاصہ کے الفاظ یہ ہیں: حاصل یہ کہ ایک رطل استنجا کے لئے ،ایک رطل دونوں قدم کے لئے ، ایک رطل باقی اعضا کے لئے اھ۔ اورفصل وضو کے شروع مـیں وجیز کَردَرِی کے الفاظ یہ ہیں: ایک رطل استنجا کے لئے، ایک پیر دھونے کے لئے ،ایک اور بقیہ اعضاء کے لئے اھ۔ تو یہ منہ اورناک کو شامل ہونے مـیں ظاہر ہے ایسے ہی گٹوں تک دونوں ہاتھ بھی ہیں۔علاوہ اس کے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کے مجموعے ،اور دونوں پیروں کے درمـیان پانی کی مقدار برابر ہونا بعید ہے۔ توان باتوں پر تامل کی ضرورت ہے شاید خدا اس کے بعدکچھ اور ظاہر فرمائے۔اور خدا کا درودوسلام اوربرکت ہوا ن پر جو قدرو فخر مـیں تمام انبیـا سے عظیم ہیں اور حضور کی آل واصحاب،ان کے اولیـا وجماعت پربھی دنیـا وآخرت مـیں۔اور خدائے پاک وبرترہی کو خوب علم ہے اور اس ذات بزرگ کا علم زیـادہ تام اور محکم ہے۔(ت)

 (۳؎خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الطہارات،الفصل الثانی        مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۱۴
۴؎الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاوی الہندیۃ    کتاب الطہارۃ،الفصل الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۱۱)

فتاوی رضویہ ،سوال نمبر ۱۷

مفتی امام احمد رضا خان بریلوی




[سوال : وضو وغسل مـیں پانی کی کیـا مقدار شرعامعین ہے ؟؟جواب ... بازی یتبا]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Sun, 16 Sep 2018 11:47:00 +0000